قومی زبان اردو
اردو صرف پاک و ہند تک ہی محدود نہیں بلکہ پوری دنیا میں بولی، سمجھی اور لکھی جانے والی زبانوں میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔
بات برسوں پرانی ہے۔ لڑکپن کا زمانہ تھا۔ وہی لڑکپن جس کے بارے میں غالب نے فرمایا ہے:
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
اُس زمانے میں گراموفون انٹرٹینمنٹ کا بڑا مقبول ذریعہ ہوا کرتا تھا اور 78 آر پی ایم کے ریکارڈ جو کسی مخصوص مرکب سے تیارکیے جاتے تھے۔ گراموفون کی پلیٹ پر اُبھری ہوئی گھُنڈی پر رکھ کر ساؤنڈ بکس میں لگائی گئی مخصوص سُوئی کو رکھ کر مشین کے ذریعے گھما کر فنِل کے ذریعے بجایا جاتا تھا۔
اُن میں سے ایک ریکارڈ ہمیں بہت پسند تھا جس کا عنوان تھا ''ہمسائے کی بِلی'' قصہ مختصر یہ دو لڑاکا پڑوسنوں کے درمیان محض ایک بِلی کی ناپسندیدہ حرکت کا شاخسانہ تھا۔ دونوں پڑوسنوں کی تُو تُو میَں مَیں کا نتیجہ دونوں کے شوہروں ہاتھا پائی کی صورت میں برآمد ہوا۔
کہاوت مشہور ہے کہ ایک پڑوسن نے کہا کہ آ پڑوسن لڑیں تو دوسری نے تُرکی بہ تُرکی جواب دیا ''لڑے میری بلا۔'' اِس پر پہلی پڑوسن بولی ''کمینی! منہ سنبھال کر بول۔'' زبانوں کو بنیاد بنا کر فتنہ اور فساد پیدا کرنا بعض لوگوں کی سرشت میں شامل ہے۔ یہی بات عقائد کی بِناء پر آپس میں جھگڑنے والوں پر بھی صادق آتی ہے ورنہ تو صُلہ جوئی کا تقاضہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کا احترام کیا جائے۔ بقولِ شاعر:
فیصلہ ہے وَصل خواہی صُلہ کُن با خاص و عام بامسلماں اللہ اللہ ، با برہمن ، رام رام
اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی ہوئی اِس دنیا کے چمن میں ہزاروں جانور ہیں جن کی اپنی اپنی بولیاں ہیں جن پر یہ شعر صادق آتا ہے: یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں جانور اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اُڑ جائیں گے تو پیارو! زبانوں کا آپس میں تنازعہ نہیں ہے۔ یہ چند مفاد پرستوں اور مصلحت کوشوں کا کیا دھرا ہے جو ملک و قوم کو متحد نہیں دیکھنا چاہتے۔
پاکستان میں متعدد زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں پنجابی، سندھی، پشتو، ہِندکو، سرائیکی، بلوچی، براہوی، بلتی ،شینا، گوجری اور میمنی و گجراتی زبانیں شامل ہیں۔ جس طرح گلستاں میں رنگارنگ پھول کھِلے ہوئے ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک کی خوشبو جدا جدا ہوتی ہے اِسی طرح ہر زبان کا مزاج اور لطف الگ الگ ہے۔ لیکن گلاب کے پھول کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے سو یہی بات زبانوں کے چمنستان میں قومی زبان اردو پر صادق آتی ہے۔ تخلیقِ پاکستان کی تحریک سے اگر اردو کو خارج کردیا جائے تو پاکستان کا وجود میں آنا ممکن نظر نہیں آتا گویا اردو اور پاکستان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
افسوس صد افسوس کہ ہم بابائے قوم قائدِ اعظم کے نام لیوا تو ہیں لیکن ہمارے اعمال کا اُن کی ہدایتوں اور نصیحتوں سے دور پرے کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔ انھوں نے جو کچھ فرمایا ہم نے اُسے سُنی اَن سُنی کر کے ٹال دیا۔ قائد نے فرمایا تھا کہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہوگی۔ ہم نے قائد کی اِس نصیحت کو فراموش کردیا جس کے نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا اور ہمارا مشرقی بازو ٹوٹ کر الگ ہوگیا۔
ستم بالائے ستم ہم نے اِس عظیم سانحہ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور اب بھی بھیڑ کی صورت میں بھیڑیوں کے مذموم عزائم کو بھانپ نہیں سکے جو اتحادِ پاکستان کو داؤ پر لگانے کے درپے ہونے کی وجہ سے قومی زبان کے نفاذ میں روڑے اٹکانے سے باز نہیں آرہے۔اردو ہی وہ واحد زبان ہے جو وطنِ عزیز کے تمام گوشوں میں رابطے کی زبان کا کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ ہر جگہ بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ یہ ملک گیر زبان ہی نہیں بلکہ عالمگیر زبان بن چکی ہے۔
دنیا جہان میں آپ کہیں بھی چلے جائیں اردو آپ کے کام آئے گی۔ جو لوگ بیرونِ ملک با لخصوص خلیجی ریاستوں میں آتے جاتے رہتے ہیں وہ اِس حقیقت کی ضرور گواہی دیں گے۔ اِس کے علاوہ ایک اور بڑی حقیقت یہ ہے کہ دنیاوی اہمیت کے علاوہ دینی اعتبار سے بھی اردو زبان عربی کے بعد دوسری زبان ہے جسے کلیدی حیثیت حاصل ہے کیونکہ دینی لٹریچر اور معلومات کا اتنا بڑا ذخیرہ کسی اور زبان میں موجود نہیں۔ عربی نہ جاننے والوں کے لیے اردو زبان ہی واحد ذریعہ ابلاغ ہے۔
ایک ناقابلِ تردید حقیقت یہ بھی ہے کہ اردو کی جو خدمت بلکہ آبیاری اہلِ پنجاب نے کی ہے وہ شاید داغ دہلوی کے ہم عصروں نے بھی نہیں کی۔ اِس کی سب سے بڑی مثال علاّمہ اقبال ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں جو اپنے استاد کے اِس شعر جا جیتا جاگتا جواب ہیں:
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
اردو شعر وادب ہی نہیں بلکہ صحافت میں بھی تمام قدآور شخصیات میں شامل بڑے بڑے نام بلا امتیاز مذہب و ملت مولانا ظفر علی خان، حفیظ جالندھری، فیض احمد فیض، راجندر سنگھ بیدی، بلونت سنگھ، ممتاز مفتی، اشفاق احمد ، قدرت اللہ شہاب اور منیر نیازی کے علاوہ تلوک چند محروم اور اُن کے فرزندِ ارجمند جَگر ناتھ آزاد شامل ہیں۔ یہ فہرست اتنی طویل ہے کہ پورا کالم اِن کے ناموں ہر ہی ختم ہو جائے گا۔
علاوہ ازیں اردو میں جتنی کتابیں شایع ہوئی اور ہورہی ہیں اُن میں بھی پنجاب ہی پیش پیش ہے خواہ وہ شاعری ہو یا نثر یا دینیات کی کُتب۔ اِس سے زیادہ بھلا اور کیا ہوگا کہ اہلِ پنجاب اپنی مادری زبان پنجابی پر اردو زبان کو ترجیح دینے اور اِسے بولنے اور لکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
اردو صرف پاک و ہند تک ہی محدود نہیں بلکہ پوری دنیا میں بولی، سمجھی اور لکھی جانے والی زبانوں میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔اِسے یونیسکو کی فہرست میں شامل زبانوں میں بھی نمایاں مقام حاصل ہے۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ وطنِ عزیز کو متحد اور صحیح و سالم رکھنے میں اردو زبان کا کردار کلیدی ہے۔ چنانچہ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کے فاضل جج عمر عطا بندیال کا یہ فرمانا بالکل بجا ہے کہ قومی زبان اردو کے نفاذ میں مزید تاخیر کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔
قوم کی ترجمان ہے اردو
اپنی قومی زبان ہے اردو