بہت دیر کردی مہرباں
پی ڈی ایم ہو یا پی پی پی اور ٹریڈ یونین سب مل کر ملک گیر سطح پرمہنگائی کے خلاف احتجاج کریں۔
عالمی جریدے اکنامسٹ میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے 43 ملکوں میں سب سے زیادہ مہنگائی ارجنیٹینا میں 51.4 فیصد ہے، دوسرے نمبر پر ترکی میں 19.6 فیصد، تیسرے نمبر پر برازیل میں 10.2 فیصد جب کہ چوتھے نمبر پر پاکستان میں 9 فیصد ہے۔ بھارت کا 16 واں نمبر ہے جہاں 4.3 فیصد ہے۔
ارجنیٹنا اور برازیل میں مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ جمہوری مسلم ممالک میں ترکی کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے جہاں مہنگائی دوسرے نمبر پر ہے۔ ہندوستان کی اتنی بڑی آبادی کے باوجود مہنگائی کی شرح صرف 4.3 فیصد ہے۔ پاکستان میں مہنگائی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ وزیر اعظم خود کہہ رہے ہیں کہ مہنگائی کیوں بڑھ رہی ہے؟
پاکستان نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد اسے کامیاب قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب بجلی کے نرخوں میں اضافہ نہیں ہوگا بلکہ ہم ان کے تمام مطالبات کو تسلیم کر آئے ہیں۔ ادھر حکومت نے مہنگائی کے خلاف سبسڈی پروگرام لانے کا فیصلہ کیا ہے ، جس میں کم آمدنی والوں کو بنیادی اشیا کی خریداری پر رعایت ملے گی، موٹرسائیکل، رکشہ اور عوامی سواری کو سبسڈی ریٹ پر پٹرول دینے پر غور کیا جارہا۔ جب کہ سندھ کابینہ نے یہ فیصلہ سنایا ہے کہ 25 ہزار روپے کم ازکم اجرت کے قانون پر سختی سے عمل کیا جائے۔
حکومت نے یہ نہیں بتایا کہ کم آمدنی والوں کو بنیادی اشیا کی خریداری میں کیسے رعایت دی جائے گی، جو باقاعدہ کسی فیکٹری یا اداروں میں کام نہیں کرتے ہیں، دکانوں، ورک شاپس، موٹر مکینک کے پاس کام کرتے ہیں، ٹھیلے لگاتے ہیں، گلیوں میں پھیری لگاتے ہیں، ٹھیکیداری نظام کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ انھیں کس طریقے سے رعایت ملے گی اور سندھ حکومت ان محنت کشوں کو کیا 25,000 تنخواہ دلوائے گی ، پھر بے زمین کسانوں اور کھیت مزدوروں کا کیا ہوگا۔ پاور لومز کے مزدوروں، بھٹہ مزدوروں، سیکیورٹی گارڈز، پٹرول پمپ پر کام کرنے والے مزدوروں، آن لائن کے ذریعے گھر گھر سامان پہنچانے والے مزدوروں کا کیا بنے گا۔
پی ڈی ایم اور پی پی پی نے راولپنڈی، سیالکوٹ، فیصل آباد، کوئٹہ میں مہنگائی کے خلاف مظاہرے کیے اور مزید انھوں نے کراچی، پشاور، لاہور، گوجر خان، گجرانوالہ اور سندھ کے مختلف اضلاع میں مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دو سال قبل ہی یہ کام کرنا تھا۔ ملک بھر میں ٹریڈ یونین، کسانوں اور مزدوروں نے مظاہرے شروع کیے تو حزب اختلاف کی پارٹیوں نے بھی شروع کردیے۔ اب عوام مہنگائی سے اس حد تک تنگ آچکے ہیں کہ وہ مہنگائی کے خلاف اگر کوئی بڑی جماعت ہڑتال کی کال دے تو وہ اس کی حمایت کریں گے۔
اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ پی ڈی ایم ہو یا پی پی پی اور ٹریڈ یونین سب مل کر ملک گیر سطح پرمہنگائی کے خلاف احتجاج کریں۔ ریلیاں نکالیں، دھرنے دیں، مظاہرے کریں ۔ مہنگائی کے خلاف اس احتجاج کو رنگ و نسل، مذہب، زبان، برادری اور فرقوں سے بالا تر رکھا جائے۔ اس لیے بھی کہ مہنگائی کی آگ ہر مذہب، رنگ و نسل کے لوگ جل رہے ہیں۔ مہنگائی سے تنگ آ کر لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں، فاقہ کشی اور نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
یہ ساری مصیبتیں ہم نے خود مسلط کی ہیں۔ 1948 میں 3 روپے کا ایک ڈالر تھا۔ اب ڈالر174 روپے سے بھی اوپر اڑ رہا ہے۔ آخر کیوں؟ ہم پہلے عالمیمالیاتی اداروں کے مقروض نہیں تھے مگر اب حد سے زیادہ مقروض ہیں۔ پہلے ہم قرض لیتے تھے، تربیلا، وارسک ڈیم بنانے کے لیے۔ اب قرض لیتے ہیں قرض اتارنے کے لیے۔ پہلے ہم پورٹ کے سامان ریلوے کے ذریعے ترسیل کرتے تھے، اب روڈ ٹرانسپورٹ کے ذریعے ترسیلات کرتے ہیں۔ اس سے ہمارے اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن تھے اس وقت تعلیم اور صحت کا بجٹ 43 فیصد تھا۔
اب بجٹ کا بیشتر حصہ آئی ایم ایف کے قرضے اور غیر ترقیاتی اخراجات پر خرچ ہوتا ہے۔ پہلے کسانوں میں تھوڑی بہت زمینیں بانٹی جاتی تھیں اور صنعتوں کی تعمیر کر کے لوگوں کو روزگار دیا جاتا تھا اور اب بے روزگاری عام ہے۔ پہلے چاول، دال، گندم کو سستے داموں میں عوام کو فراہم کیا جاتا تھا اور برآمد پر کم انحصار کیا جاتا تھا اور اب چاول، گندم، چینی، مچھلی، پہلے برآمد کی جاتی ہیں بعد میں عوام کی ضروریات پر غورکیا جاتا ہے۔
اصولاً اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد بچنے والی اشیا برآمد کی جاتی ہیں اور درآمد ان چیزوں کی ہوتی ہیں جو ہمارے لیے ضروری ہیں۔ عیش و عشرت یا غیر ضروری سامان درآمد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم بنیادی ضروریات کی اشیا گندم، دھان، دال، لہسن، ادرک، مرچ، خوردنی تیل کے لیے بھٹہ، سورج مکھی، پام، زیتون، سرسوں، سویا بین، کنولا، پولٹری، گائے اور بکریاں زیادہ پالیں اور پیداوار کریں تاکہ عوام کی ضروریات پوری ہوں۔
ہم ضروریات کی اشیا پیداوار کرنے پر ترجیح دینے کے بجائے غیرپیداواری اخراجات یعنی قرضوں اور اس کے سود، غیر ترقیاتی بجٹ میں مسلسل اضافہ کررہے، بیوروکریسی ، ارکان اسمبلی ،وزرا اور مشیران و معاونیں خصوصی وغیرہ کی تنخواہیں بڑھانے، سامان تعیش کی درآمد کو ترجیح دیتے ہیں، اگر عوام کی ضروریات زندگی پر توجہ دیں تو حکمران طبقات کے اخراجات میں خاصی کمی کرنی ہوگی۔
غیر حاضر زمینداری کا خاتمہ کرنا ہوگا۔بالا دست طبقے کو سرکاری زمینیں تقسیم کرنا بند کرنا ہوگا۔ چھوٹیکسانوںکی حالت بہتر کرنی ہوگی ۔ کارخانے، فیکٹریاں اور ملوں کے قیام میں اضافہ کرنا ہوگا جس سے مقابلتاً عوام کی زندگی میں خاصی حد تک سہولت آسکتی ہے۔ رشوت خوری، کک بیک، کمیشن کا کلچر ختم کرنا ہوگا، پاکستان کے 700 افراد کی آف شور کمپنیاں ہیں۔
جن لوگوں نے اربوں کھربوں روپے پاکستان سے لوٹ کر آف شور کمپنیوں میں منتقل کیا ہے، ان سب کا بلاامتیاز احتساب کرنا ہوگا۔ یہ لوٹ محنت کش عوام، پیداواری قوتوں اور شہریوں سے ہوئی ہے۔ اس لیے کروڑوں عوام فاقہ کش بنتے جا رہے ہیں تو چند لوگ ارب پتی۔ اس کا وقتی حل تو ہم نے مندرجہ بالا بیان کردیا ہے ، مگر مسئلے کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی سماج میں ہی ممکن ہے۔
ارجنیٹنا اور برازیل میں مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ جمہوری مسلم ممالک میں ترکی کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے جہاں مہنگائی دوسرے نمبر پر ہے۔ ہندوستان کی اتنی بڑی آبادی کے باوجود مہنگائی کی شرح صرف 4.3 فیصد ہے۔ پاکستان میں مہنگائی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ وزیر اعظم خود کہہ رہے ہیں کہ مہنگائی کیوں بڑھ رہی ہے؟
پاکستان نے آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد اسے کامیاب قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب بجلی کے نرخوں میں اضافہ نہیں ہوگا بلکہ ہم ان کے تمام مطالبات کو تسلیم کر آئے ہیں۔ ادھر حکومت نے مہنگائی کے خلاف سبسڈی پروگرام لانے کا فیصلہ کیا ہے ، جس میں کم آمدنی والوں کو بنیادی اشیا کی خریداری پر رعایت ملے گی، موٹرسائیکل، رکشہ اور عوامی سواری کو سبسڈی ریٹ پر پٹرول دینے پر غور کیا جارہا۔ جب کہ سندھ کابینہ نے یہ فیصلہ سنایا ہے کہ 25 ہزار روپے کم ازکم اجرت کے قانون پر سختی سے عمل کیا جائے۔
حکومت نے یہ نہیں بتایا کہ کم آمدنی والوں کو بنیادی اشیا کی خریداری میں کیسے رعایت دی جائے گی، جو باقاعدہ کسی فیکٹری یا اداروں میں کام نہیں کرتے ہیں، دکانوں، ورک شاپس، موٹر مکینک کے پاس کام کرتے ہیں، ٹھیلے لگاتے ہیں، گلیوں میں پھیری لگاتے ہیں، ٹھیکیداری نظام کے ماتحت کام کرتے ہیں۔ انھیں کس طریقے سے رعایت ملے گی اور سندھ حکومت ان محنت کشوں کو کیا 25,000 تنخواہ دلوائے گی ، پھر بے زمین کسانوں اور کھیت مزدوروں کا کیا ہوگا۔ پاور لومز کے مزدوروں، بھٹہ مزدوروں، سیکیورٹی گارڈز، پٹرول پمپ پر کام کرنے والے مزدوروں، آن لائن کے ذریعے گھر گھر سامان پہنچانے والے مزدوروں کا کیا بنے گا۔
پی ڈی ایم اور پی پی پی نے راولپنڈی، سیالکوٹ، فیصل آباد، کوئٹہ میں مہنگائی کے خلاف مظاہرے کیے اور مزید انھوں نے کراچی، پشاور، لاہور، گوجر خان، گجرانوالہ اور سندھ کے مختلف اضلاع میں مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دو سال قبل ہی یہ کام کرنا تھا۔ ملک بھر میں ٹریڈ یونین، کسانوں اور مزدوروں نے مظاہرے شروع کیے تو حزب اختلاف کی پارٹیوں نے بھی شروع کردیے۔ اب عوام مہنگائی سے اس حد تک تنگ آچکے ہیں کہ وہ مہنگائی کے خلاف اگر کوئی بڑی جماعت ہڑتال کی کال دے تو وہ اس کی حمایت کریں گے۔
اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ پی ڈی ایم ہو یا پی پی پی اور ٹریڈ یونین سب مل کر ملک گیر سطح پرمہنگائی کے خلاف احتجاج کریں۔ ریلیاں نکالیں، دھرنے دیں، مظاہرے کریں ۔ مہنگائی کے خلاف اس احتجاج کو رنگ و نسل، مذہب، زبان، برادری اور فرقوں سے بالا تر رکھا جائے۔ اس لیے بھی کہ مہنگائی کی آگ ہر مذہب، رنگ و نسل کے لوگ جل رہے ہیں۔ مہنگائی سے تنگ آ کر لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں، فاقہ کشی اور نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
یہ ساری مصیبتیں ہم نے خود مسلط کی ہیں۔ 1948 میں 3 روپے کا ایک ڈالر تھا۔ اب ڈالر174 روپے سے بھی اوپر اڑ رہا ہے۔ آخر کیوں؟ ہم پہلے عالمیمالیاتی اداروں کے مقروض نہیں تھے مگر اب حد سے زیادہ مقروض ہیں۔ پہلے ہم قرض لیتے تھے، تربیلا، وارسک ڈیم بنانے کے لیے۔ اب قرض لیتے ہیں قرض اتارنے کے لیے۔ پہلے ہم پورٹ کے سامان ریلوے کے ذریعے ترسیل کرتے تھے، اب روڈ ٹرانسپورٹ کے ذریعے ترسیلات کرتے ہیں۔ اس سے ہمارے اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن تھے اس وقت تعلیم اور صحت کا بجٹ 43 فیصد تھا۔
اب بجٹ کا بیشتر حصہ آئی ایم ایف کے قرضے اور غیر ترقیاتی اخراجات پر خرچ ہوتا ہے۔ پہلے کسانوں میں تھوڑی بہت زمینیں بانٹی جاتی تھیں اور صنعتوں کی تعمیر کر کے لوگوں کو روزگار دیا جاتا تھا اور اب بے روزگاری عام ہے۔ پہلے چاول، دال، گندم کو سستے داموں میں عوام کو فراہم کیا جاتا تھا اور برآمد پر کم انحصار کیا جاتا تھا اور اب چاول، گندم، چینی، مچھلی، پہلے برآمد کی جاتی ہیں بعد میں عوام کی ضروریات پر غورکیا جاتا ہے۔
اصولاً اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد بچنے والی اشیا برآمد کی جاتی ہیں اور درآمد ان چیزوں کی ہوتی ہیں جو ہمارے لیے ضروری ہیں۔ عیش و عشرت یا غیر ضروری سامان درآمد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم بنیادی ضروریات کی اشیا گندم، دھان، دال، لہسن، ادرک، مرچ، خوردنی تیل کے لیے بھٹہ، سورج مکھی، پام، زیتون، سرسوں، سویا بین، کنولا، پولٹری، گائے اور بکریاں زیادہ پالیں اور پیداوار کریں تاکہ عوام کی ضروریات پوری ہوں۔
ہم ضروریات کی اشیا پیداوار کرنے پر ترجیح دینے کے بجائے غیرپیداواری اخراجات یعنی قرضوں اور اس کے سود، غیر ترقیاتی بجٹ میں مسلسل اضافہ کررہے، بیوروکریسی ، ارکان اسمبلی ،وزرا اور مشیران و معاونیں خصوصی وغیرہ کی تنخواہیں بڑھانے، سامان تعیش کی درآمد کو ترجیح دیتے ہیں، اگر عوام کی ضروریات زندگی پر توجہ دیں تو حکمران طبقات کے اخراجات میں خاصی کمی کرنی ہوگی۔
غیر حاضر زمینداری کا خاتمہ کرنا ہوگا۔بالا دست طبقے کو سرکاری زمینیں تقسیم کرنا بند کرنا ہوگا۔ چھوٹیکسانوںکی حالت بہتر کرنی ہوگی ۔ کارخانے، فیکٹریاں اور ملوں کے قیام میں اضافہ کرنا ہوگا جس سے مقابلتاً عوام کی زندگی میں خاصی حد تک سہولت آسکتی ہے۔ رشوت خوری، کک بیک، کمیشن کا کلچر ختم کرنا ہوگا، پاکستان کے 700 افراد کی آف شور کمپنیاں ہیں۔
جن لوگوں نے اربوں کھربوں روپے پاکستان سے لوٹ کر آف شور کمپنیوں میں منتقل کیا ہے، ان سب کا بلاامتیاز احتساب کرنا ہوگا۔ یہ لوٹ محنت کش عوام، پیداواری قوتوں اور شہریوں سے ہوئی ہے۔ اس لیے کروڑوں عوام فاقہ کش بنتے جا رہے ہیں تو چند لوگ ارب پتی۔ اس کا وقتی حل تو ہم نے مندرجہ بالا بیان کردیا ہے ، مگر مسئلے کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی سماج میں ہی ممکن ہے۔