یوم یکجہتی کشمیر
کشمیر تقسیم ہند کا ایسا حل طلب مسئلہ ہے جو بھارتی حکومت کی ہٹ دھرمی و ظلم و ناانصافی کے باعث تاحال حل نہیں کیا جا سکا
5 فروری کو ہر سال پاکستان میں ''یوم یکجہتی کشمیر'' منایا جاتا ہے اس دن جلسے، جلوس، ریلیوں، سیمینارز و قومی اخبارات میں مضامین کے ذریعے اپنے کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کیا جاتا ہے اور مسئلہ کشمیر کو اجاگر کر کے عالمی ضمیر و انصاف کو بیدار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے بین الاقوامی مسئلے کو زندہ کیا جاتا ہے۔ کشمیر دراصل تقسیم ہند کا ایسا حل طلب مسئلہ ہے جو بھارتی حکومت کی ہٹ دھرمی و ظلم و ناانصافی کے باعث تاحال حل نہیں کیا جا سکا اس دوران کشمیری مسلمانوں نے آزادی کشمیر اور اپنے حق خود ارادیت کے حصول کے لیے لاتعداد قربانیوں کی تاریخ رقم کی ہے جو مسئلے کے حل ہونے و کشمیر کے آزاد ہونے تک جاری رہے گی۔ کشمیر ایسا مسئلہ ہے جو نہ صرف کشمیریوں کے لیے زندگی موت کا مسئلہ ہے بلکہ پاکستان کے لیے بھی یہ شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور وہ کہتے تھے کہ ''کشمیر ہماری جھولی میں پکے ہوئے پھل کی طرح آ گرے گا'' لیکن جب گاندھی، نہرو اور ماؤنٹ بیٹن کے خفیہ گٹھ جوڑ و سازشوں کا چہرہ سامنے آیا تو قائد اعظم کو بھی مایوسی کے ساتھ کہنا پڑا کہ ''ہمیں غلط گاڑی پر سوار کرا دیا گیا ہے۔''
کانگریس کا رویہ پوری تحریک پاکستان کے دوران ان کی پس پردہ سازشوں کی عکاسی کرتا ہے جس کے تحت کانگریس نے تقسیم ہند کے فارمولے کو محض اس تصور کے ساتھ بادل نخواستہ قبول کیا تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکتا۔ اس تصور و خام خیالی میں وہ تمام خفیہ سازشیں کارفرما تھیں جو انگریز و کانگریس کے مابین خفیہ گٹھ جوڑ پر مبنی تھیں اس کی ایک بڑی اور واضح مثال باؤنڈری کمیشن کی جانب سے انگریز لارڈ ریڈکلف کی پنجاب میں مسلم اکثریت والی تحصیلیں گورداس پور اور بٹالہ و پٹھان کوٹ کو بھارت میں شامل کرنا تھا یہ وہ امتیازی و تعصب و ناانصافی پر مبنی خفیہ سازش تھی جس کا مقصد بھارت و کشمیر پر ناجائز قبضہ کرانا تھا۔ ساتھ ہی بھارتی و انگریز لیڈروں گاندھی، نہرو، ماؤنٹ بیٹن نے کشمیر کے مہاراجہ کے ساتھ الحاق کے لیے راہ ہموار کرنی شروع کی جس کے تحت نہرو نے بھارتی فوج کو کشمیر میں داخل کیا اس کھلی جارحیت پر جب قائد اعظم نے پاکستان کے کمانڈر انچیف جو انگریز جنرل گریس تھا اس کو حکم دیا کہ وہ کشمیر میں فوج بھیجے تو اس نے حکم عدولی کی بلکہ دہلی میں موجود سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل آنسلک کو بھی اطلاع کر دی جب کہ ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ہندوستانی حکومت کی کابینہ کے احکام پر فوری عمل درآمد کرتے ہوئے کشمیر میں فوجیں اتار دیں ۔اس رویے سے ثابت ہوتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ انگریز و کانگریس کے خفیہ گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے جس کو معصوم کشمیری آج تک بھگت رہے ہیں حالانکہ قائد اعظم نے کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے جو موقف پیش کیا تھا وہ حق و انصاف پر مبنی تھا انھوں نے کہا تھا کہ ''ریاستوں کو ہندوستان اور پاکستان میں شامل ہونے یا آزاد رہنے کا پورا حق ہے مجھے یقین ہے کہ مہاراجہ کشمیر اور حکومت کشمیر اس مسئلے پر پوری توجہ و غور و فکر سے کام لیں گے اور نہ صرف حکمراں کے مفاد کا بلکہ اس کی رعایا کے مفاد کا صحیح اندازہ کریں گے'' (مسلم کانفرنس کے وفد سے جولائی 1947میں گفتگو بحوالہ ''ظہور پاکستان'' از چوہدری محمد علی)
قائد اعظم کے اس اصولی موقف کے باوجود بھارت نے مسئلہ کشمیر کے حل کی تمام تجاویز مسترد کردیں اور اپنے غاصبانہ قبضہ و جارحیت کو اخلاقی جواز فراہم کرنے اور عالمی دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے نہرو نے 2 نومبر کو اپنی تقریر میں یہ اعلان کیا کہ ''حکومت ہندوستان اس بات کے لیے تیار ہے کہ جب کشمیر میں امن و امان قائم ہوجائے تو بین الاقوامی سرپرستی مثلاً اقوام متحدہ کے تحت استصواب رائے کرایا جائے'' اور یکم جنوری 1948کو حکومت ہندوستان نے سلامتی کونسل سے اپیل کی کہ حالات معمول پر آنے کے بعد اہل کشمیر بین الاقوامی سرپرستی میں استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں گے لیکن خود ہندوستان کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل میں لے جانے اور استصواب رائے کی بار بار یقین دہانی کے بعد بھی اقوام متحدہ کے کمیشن برائے ہندوستان و پاکستان کی قراردادوں میں یہ مسئلہ بھارت کی ہٹ دھرمی پر مبنی چالوں سلامتی کونسل کی قراردادوں کی من مانی تشریح و تعبیر کے باعث آج تک زیر التوا ہے اور جب کبھی سلامتی کونسل نے ماضی میں یہ مسئلہ اٹھایا اور کچھ پیش رفت کے آثار نظر آئے تو بھارت نے ہمیشہ اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالی ۔
چنانچہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم و تحریک پاکستان کے رہنما چوہدری محمد علی اپنی کتاب ''ظہور پاکستان'' میں بھارت کے اس رویے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''جب سرکردہ سیاستدانوں اور مصالحت کنندگان نے تنازعہ کشمیر کے تصفیہ کے لیے تجاویز پیش کیں جو پاکستان نے منظور کر لیں لیکن ہندوستان نے مسترد کر دیں۔ آسٹریلیا کے ممتاز جج سر اؤون ڈکسن کو 1950 میں اقوام متحدہ کا نمایندہ مقرر کیا گیا، اس نے سلامتی کونسل کو اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ''آخر میں مجھے پختہ یقین ہو گیا ہے کہ ہندوستان نہ تو فوجوں کے انخلا کی کوئی ایسی صورت قبول کرے گا اور نہ ہی استصواب رائے کے دوران ایسی شرائط منظور کرے گا جس سے میرے نزدیک استصواب رائے ایسے حالات میں ہو سکے کہ نہ تخویف ہو نہ دباؤ نہ دیگر ایسی ہی خرابیاں جن سے استصواب رائے کے آزاد اور بے لاگ ہونے کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہو۔''
آسٹریلوی جج کے ہندوستان کے کشمیر سے متعلق رویے کے یہ ریمارکس آج بھی ایک حقیقت ہیں بھارت نے آج تک تمام معاہدوں کو مسترد کیا ہے اور اپنے استصواب رائے و دیگر وعدوں سے مکر گیا ہے کشمیر کو انتہائی ڈھٹائی سے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے جب کہ کشمیری آج بھی بین الاقوامی انصاف و امن کے پیغامبروں و عالمی حقوق انسان کے اداروں سے انصاف کے حصول کی آس لگائے اپنے حق خود ارادیت کے حصول کے لیے کوشاں ہیں ۔اس کے لیے ہزاروں کشمیری مسلمان اپنی جانوں کی قربانی دے چکے اور یہ سلسلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے لیکن یقین ہے کہ حق و صداقت و آزادی کے لیے قربانی دینے والے کشمیری مسلمانوں کا لہو رنگ لائے گا اور انھیں اپنے حق خود ارادیت کے حصول سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔
کانگریس کا رویہ پوری تحریک پاکستان کے دوران ان کی پس پردہ سازشوں کی عکاسی کرتا ہے جس کے تحت کانگریس نے تقسیم ہند کے فارمولے کو محض اس تصور کے ساتھ بادل نخواستہ قبول کیا تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکتا۔ اس تصور و خام خیالی میں وہ تمام خفیہ سازشیں کارفرما تھیں جو انگریز و کانگریس کے مابین خفیہ گٹھ جوڑ پر مبنی تھیں اس کی ایک بڑی اور واضح مثال باؤنڈری کمیشن کی جانب سے انگریز لارڈ ریڈکلف کی پنجاب میں مسلم اکثریت والی تحصیلیں گورداس پور اور بٹالہ و پٹھان کوٹ کو بھارت میں شامل کرنا تھا یہ وہ امتیازی و تعصب و ناانصافی پر مبنی خفیہ سازش تھی جس کا مقصد بھارت و کشمیر پر ناجائز قبضہ کرانا تھا۔ ساتھ ہی بھارتی و انگریز لیڈروں گاندھی، نہرو، ماؤنٹ بیٹن نے کشمیر کے مہاراجہ کے ساتھ الحاق کے لیے راہ ہموار کرنی شروع کی جس کے تحت نہرو نے بھارتی فوج کو کشمیر میں داخل کیا اس کھلی جارحیت پر جب قائد اعظم نے پاکستان کے کمانڈر انچیف جو انگریز جنرل گریس تھا اس کو حکم دیا کہ وہ کشمیر میں فوج بھیجے تو اس نے حکم عدولی کی بلکہ دہلی میں موجود سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل آنسلک کو بھی اطلاع کر دی جب کہ ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ہندوستانی حکومت کی کابینہ کے احکام پر فوری عمل درآمد کرتے ہوئے کشمیر میں فوجیں اتار دیں ۔اس رویے سے ثابت ہوتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ انگریز و کانگریس کے خفیہ گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے جس کو معصوم کشمیری آج تک بھگت رہے ہیں حالانکہ قائد اعظم نے کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے جو موقف پیش کیا تھا وہ حق و انصاف پر مبنی تھا انھوں نے کہا تھا کہ ''ریاستوں کو ہندوستان اور پاکستان میں شامل ہونے یا آزاد رہنے کا پورا حق ہے مجھے یقین ہے کہ مہاراجہ کشمیر اور حکومت کشمیر اس مسئلے پر پوری توجہ و غور و فکر سے کام لیں گے اور نہ صرف حکمراں کے مفاد کا بلکہ اس کی رعایا کے مفاد کا صحیح اندازہ کریں گے'' (مسلم کانفرنس کے وفد سے جولائی 1947میں گفتگو بحوالہ ''ظہور پاکستان'' از چوہدری محمد علی)
قائد اعظم کے اس اصولی موقف کے باوجود بھارت نے مسئلہ کشمیر کے حل کی تمام تجاویز مسترد کردیں اور اپنے غاصبانہ قبضہ و جارحیت کو اخلاقی جواز فراہم کرنے اور عالمی دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے نہرو نے 2 نومبر کو اپنی تقریر میں یہ اعلان کیا کہ ''حکومت ہندوستان اس بات کے لیے تیار ہے کہ جب کشمیر میں امن و امان قائم ہوجائے تو بین الاقوامی سرپرستی مثلاً اقوام متحدہ کے تحت استصواب رائے کرایا جائے'' اور یکم جنوری 1948کو حکومت ہندوستان نے سلامتی کونسل سے اپیل کی کہ حالات معمول پر آنے کے بعد اہل کشمیر بین الاقوامی سرپرستی میں استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں گے لیکن خود ہندوستان کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل میں لے جانے اور استصواب رائے کی بار بار یقین دہانی کے بعد بھی اقوام متحدہ کے کمیشن برائے ہندوستان و پاکستان کی قراردادوں میں یہ مسئلہ بھارت کی ہٹ دھرمی پر مبنی چالوں سلامتی کونسل کی قراردادوں کی من مانی تشریح و تعبیر کے باعث آج تک زیر التوا ہے اور جب کبھی سلامتی کونسل نے ماضی میں یہ مسئلہ اٹھایا اور کچھ پیش رفت کے آثار نظر آئے تو بھارت نے ہمیشہ اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالی ۔
چنانچہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم و تحریک پاکستان کے رہنما چوہدری محمد علی اپنی کتاب ''ظہور پاکستان'' میں بھارت کے اس رویے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''جب سرکردہ سیاستدانوں اور مصالحت کنندگان نے تنازعہ کشمیر کے تصفیہ کے لیے تجاویز پیش کیں جو پاکستان نے منظور کر لیں لیکن ہندوستان نے مسترد کر دیں۔ آسٹریلیا کے ممتاز جج سر اؤون ڈکسن کو 1950 میں اقوام متحدہ کا نمایندہ مقرر کیا گیا، اس نے سلامتی کونسل کو اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ''آخر میں مجھے پختہ یقین ہو گیا ہے کہ ہندوستان نہ تو فوجوں کے انخلا کی کوئی ایسی صورت قبول کرے گا اور نہ ہی استصواب رائے کے دوران ایسی شرائط منظور کرے گا جس سے میرے نزدیک استصواب رائے ایسے حالات میں ہو سکے کہ نہ تخویف ہو نہ دباؤ نہ دیگر ایسی ہی خرابیاں جن سے استصواب رائے کے آزاد اور بے لاگ ہونے کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہو۔''
آسٹریلوی جج کے ہندوستان کے کشمیر سے متعلق رویے کے یہ ریمارکس آج بھی ایک حقیقت ہیں بھارت نے آج تک تمام معاہدوں کو مسترد کیا ہے اور اپنے استصواب رائے و دیگر وعدوں سے مکر گیا ہے کشمیر کو انتہائی ڈھٹائی سے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے جب کہ کشمیری آج بھی بین الاقوامی انصاف و امن کے پیغامبروں و عالمی حقوق انسان کے اداروں سے انصاف کے حصول کی آس لگائے اپنے حق خود ارادیت کے حصول کے لیے کوشاں ہیں ۔اس کے لیے ہزاروں کشمیری مسلمان اپنی جانوں کی قربانی دے چکے اور یہ سلسلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے لیکن یقین ہے کہ حق و صداقت و آزادی کے لیے قربانی دینے والے کشمیری مسلمانوں کا لہو رنگ لائے گا اور انھیں اپنے حق خود ارادیت کے حصول سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔