ذرا نم ہو تو…
قدرت نے پاکستان کو انتہائی زیادہ باصلاحیت افرادی قوت سے مالا مال کیا ہے۔۔۔
ایک ایسی قوم جو چاروں طرف سے خوف، بدامنی، بے سکونی اور وحشت میں گھری ہو، بے شمار مصائب، آلام اور مسائل کا شکار ہو، ہر روز قتل غارتگری، دھماکوں اور دہشت گردی کی خبریں سن سن کر جس کے کان پک گئے ہوں، جاگیردار، وڈیرے اور سیاستدان ہمیشہ اپنی سرداری، حکمرانی اور کرسی کو سلامت رکھنے کی خاطر اس قوم کو بیروزگاری، غربت اور پسماندگی میں الجھا کر مایوسی اور ناامیدی میں مبتلا رکھنا چاہتے ہوں۔ ان حالات سے نکلنے کی کوئی راہ بھی سجھائی نہ دے اور دشمن انھیں مختلف قسم کے طعنوں اور القابات سے نوازتے ہوں، دشمن کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے خود اس قوم کے بہت سے افراد یوں سمجھنے لگیں کہ شاید یہ قوم اس قابل نہیں کہ دوسری قوموں کے مدمقابل آ سکے اور کوئی ایسا کارنامہ سرانجام دے سکے کہ جس سے قوم کا سر فخر سے بلند ہو جائے۔
ایسے میں اس قسم کی ہر بات کو جھٹلانے اور اپنی قوم کو ملنے والے ہر طعنے کا جواب دینے کے لیے اس قوم کے بڑے نہیں، بلکہ صرف نوجوان اور بچے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر پوری دنیا پر اپنی فوقیت کو ثابت کر کے قوم کا سر فخر سے بلند کر دیں اور پوری دنیا کو یہ باور کرا دیں کہ ہماری قوم کو طعنے دینے والے بالکل جھوٹ بولتے ہیں، پاکستانی قو م ترقی یافتہ اقوام کا صرف مقابلہ ہی نہیں، بلکہ ان سے بھی بڑھ کر کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہ قوم دنیا کی بہتر ہی نہیں، بلکہ بہترین قوم ہے، جو تمام رکاوٹوں کے باوجود وہ کچھ کر سکتی ہے جسے دیکھ کر پوری دنیا کی عقل دنگ رہے بغیر نہیں رہ سکتی اور جب اس طرح ایک بار نہیں، بلکہ وقفے وقفے سے جاری رہے تو پوری دنیا ورطۂ حیرت میں ڈوب کر پاکستانی قوم کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے خود اپنے ہاتھوں سے انھیں انعامات سے نوازے اور انھیں طعنے دینے والوں کی زبانیں گنگ ہو جائیں تو واقعی یہ ملک و قوم کے لیے باعث افتخار اور بڑی خوش قسمتی کی بات ہے۔
گزشتہ دنوں میرے ملک پاکستان کے ایک طالب علم عمر انور جہانگیر نے عالمی اقتصادی فورم کے سب سے کم عمر مندوب ہونے کا اعزاز حاصل کر کے پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کے دروازے سب کے لیے آسانی سے نہیں کھلتے، عمر انور جہانگیر نے نہ صرف اس دروازے کو وا کیا، بلکہ اس فورم کے مخصوص فورم ''گلوبل شیپر'' یعنی دنیا کو نئی شکل و سمت عطاء کرنے والے لوگوں میں بھی شامل ہو گئے ہیں، جس میں دنیا کے بہترین 50 نوجوان تیز ذہنوں کو شامل کیا جاتا ہے۔ عالمی اقتصادی فورم میں شامل ہونے والوں میں ایک طرف تقریباً 40 ممالک کے سربراہوں سمیت سو سے زاید ممالک کے ڈھائی ہزار سے زیادہ سیاسی اور تجارتی لیڈرہیں جب کہ دوسری طرف صرف21 سالہ پاکستانی طالبعلم عمر انور ہیں، جنہوں نے دوست طالب علموں کے ساتھ مل کر کراچی میں ''بحریہ میڈکس'' نام کی ایک تنظیم بنائی ہے، جو طبی میدان میں فلاحی کام کرتی ہے۔
عمر انور جہانگیر اس تنظیم کے اہم پالیسی ساز اور منتظم ہیں۔ خوشگوار حیرت کی بات یہ ہے کہ جس دن عمر انوار جہانگیر نے سب سے کم عمر مندوب کا منفرد اعزاز حاصل کیا، اسی روز ایک اور پاکستانی طالب علم رائے حارث منظور نے بھی اپنی کم عمری کے باوجود دنیا بھر کے سامنے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ چنیوٹ کے رہائشی رائے حارث منظور نے صرف 9 سال کی عمر میں او لیول کے امتحان میں 90 ممالک کے 20 لاکھ بچوں میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ حارث منظور نے چوتھی کلاس تک اسکول میں تعلیم حاصل کی، پھر کیمرج یونیورسٹی سے 15 ماہ میں او لیول کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے وہ کام کر دکھایا جو عموماً 18 سال کی عمر کے طالب علم کرتے ہیں۔
اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر پوری دنیا سے داد وصول کرنا اور اعزازات سمیٹنا صرف عمر انور جہانگیر اور رائے حارث منظور تک ہی محدود نہیں ہے اور نہ ہی یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے، بلکہ پاکستانی طلباء وقتاً فوقتاً اپنے ملک کے لیے باعث افتخار بنتے رہتے ہیں۔ حارث منظور سے پہلے بھی کم ترین عمر میں او لیول کے امتحان میں ٹاپ کرنے کا اعزاز چنیوٹ کی ہی 11 سالہ طالبہ ستارہ بروج کے پاس تھا۔ کم سن ستارہ نے 9 سال کی عمر میں کیمسٹری کے مضمون میں او لیول، جب کہ دس سال کی عمر میں بائیولوجی میں او لیول کر کے بھی ریکارڈ قائم کیاتھا۔ اسی طرح پاکستانی طالبعلم ہارون طارق کیمبرج یونیورسٹی کے تحت منعقد ہونے والے او/اے لیول امتحانات میں سب سے زیادہ A گریڈ لینے کا عالمی ریکارڈ قائم کر چکے ہیں،جب کہ ان سے پہلے بھی عالمی ریکارڈ پاکستانی طالب علم زوہیب اسد کے پاس تھا۔ پاکستانی طالب علم ابراہیم شاہد نے او لیول میں اے گریڈز حاصل کر کے ورلڈ ریکارڈ بنا یا ہوا ہے۔ پاکستانی طالب علم علی معین نوازش نے اے لیول کے امتحان میں اے گریڈز حاصل کر کے ورلڈ ریکارڈ قائم کیا، جب کہ ان سے پہلے اے لیول میں سب سے زیادہ اے گریڈز حاصل کرنے کا اعزاز پاکستانی شہیر جواد گل کے پاس تھا۔
اوکاڑہ کے 15 سالہ طالب علم محمد عمار افضل نے کمپیوٹر کے امتحان اوریکل نائن میں سب سے زیادہ نمبر لے کر ورلڈ ریکارڈ قائم کیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے بابر اقبال نے مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل (MCP) کا امتحان پاس کر کے اپنی ہم وطن ارفع کریم رندھاوا کا ریکارڈ توڑکر عالمی اعزاز حاصل کیا۔ مانانوالہ شیخوپورہ کے دور دراز گاؤں کوٹ جگجیت سنگھ کے رہائشی دو بھائیوں رانا حامد سلام اور رانا ماجد سلام نے مکینکل انجینئرنگ کی دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
2012 میں آسٹریلیا میں ہونے والے ریاضی کے مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والا 13 سالہ بچہ موسیٰ فیروز بھی پاکستانی ہی تھا۔ اس مقابلے میں دنیا بھر کے 231 ممالک سے کل 52 ہزار 82 اسکولوں کے60 لاکھ بچے اس ایونٹ کا حصہ بنے تھے، لیکن تحصیل پھالیہ کے 13 سالہ موسیٰ فیروز نے ایک منٹ میں اوسطاً 16 اور 50 منٹ میں4405 صحیح جوابات دے کر ریاضی کی دنیا کا مشکل ترین مقابلہ اپنے اور اپنے ملک کے نام کیا۔اس فتح کے بعد موسیٰ فیروز کو آسٹریلیا نے اپنا ریاضی کا سفیر مقرر کر کے پاکستان کو اعزاز بخشا۔
پاکستانی طلبا ہر میدان میں کچھ انوکھا کر کے ملک کا نام روشن کرتے رہتے ہیں۔کم سن پاکستانی طالبہ آسیہ عارف کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے متعدد عرب ممالک کے سفیر آسیہ سے ملاقات کر چکے ہیں۔آسیہ عارف نے سات سال کی عمر پہلی پاکستانی عربی شاعرہ ہونے کے ساتھ سات سال کی عمر میں پاکستان کی کم ترین یونیورسٹی طالبہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا اور اس کے ساتھ آسیہ عارف نے آٹھ سال کی عمر میںعربی زبان میں ایک کتاب بھی لکھی جو کہ از خود کسی پاکستانی کے لیے اس کم عمری میں کسی غیر ملکی زبان میں کتاب لکھنا ایک ریکارڈ ہے۔ پاکستانی طالب علم محمد نفیل عرفان نے امریکی ادارے ''اسپیس فاؤنڈیشن'' کے تحت ہونے والے عالمی مقابلہ برائے آرٹ میں پہلا انعام حاصل کر کے عالمی سطح پر پاکستان کانام روشن کیا۔
یہ تو وہ پاکستانی طلباء ہیں جو منظر عام پر آ گئے، ورنہ ''دو چار سے د نیا واقف ہے گمنام نجانے کتنے ہوں گے'' اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں کہ قدرت نے پاکستان کو انتہائی زیادہ باصلاحیت افرادی قوت سے مالا مال کیا ہے، اسی لیے آئے دن مختلف شعبوں میں پاکستانی طلباء نہ صرف عالم گیر شہرت حاصل کرتے ہیں، بلکہ ملک و قوم کا وقار بھی بلند کرتے ہیں۔ اس نعمت سے فائدہ اٹھا کر پاکستان زبردست ترقی حاصل کر سکتا ہے۔شرط یہ ہے کہ صاحب اقتدار طبقہ ان کی صلاحیتوں کی قدر کرے اور انھیں کچھ کرنے کے آسان مواقعے فراہم کرے، پھر دیکھے یہ نوجوان ملکی ترقی کو کیسے چار چاند لگاتے ہیں۔ شاعر مشرق نے انھی کے لیے تو فرمایا تھا ؎
نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
ایسے میں اس قسم کی ہر بات کو جھٹلانے اور اپنی قوم کو ملنے والے ہر طعنے کا جواب دینے کے لیے اس قوم کے بڑے نہیں، بلکہ صرف نوجوان اور بچے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر پوری دنیا پر اپنی فوقیت کو ثابت کر کے قوم کا سر فخر سے بلند کر دیں اور پوری دنیا کو یہ باور کرا دیں کہ ہماری قوم کو طعنے دینے والے بالکل جھوٹ بولتے ہیں، پاکستانی قو م ترقی یافتہ اقوام کا صرف مقابلہ ہی نہیں، بلکہ ان سے بھی بڑھ کر کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہ قوم دنیا کی بہتر ہی نہیں، بلکہ بہترین قوم ہے، جو تمام رکاوٹوں کے باوجود وہ کچھ کر سکتی ہے جسے دیکھ کر پوری دنیا کی عقل دنگ رہے بغیر نہیں رہ سکتی اور جب اس طرح ایک بار نہیں، بلکہ وقفے وقفے سے جاری رہے تو پوری دنیا ورطۂ حیرت میں ڈوب کر پاکستانی قوم کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے خود اپنے ہاتھوں سے انھیں انعامات سے نوازے اور انھیں طعنے دینے والوں کی زبانیں گنگ ہو جائیں تو واقعی یہ ملک و قوم کے لیے باعث افتخار اور بڑی خوش قسمتی کی بات ہے۔
گزشتہ دنوں میرے ملک پاکستان کے ایک طالب علم عمر انور جہانگیر نے عالمی اقتصادی فورم کے سب سے کم عمر مندوب ہونے کا اعزاز حاصل کر کے پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کے دروازے سب کے لیے آسانی سے نہیں کھلتے، عمر انور جہانگیر نے نہ صرف اس دروازے کو وا کیا، بلکہ اس فورم کے مخصوص فورم ''گلوبل شیپر'' یعنی دنیا کو نئی شکل و سمت عطاء کرنے والے لوگوں میں بھی شامل ہو گئے ہیں، جس میں دنیا کے بہترین 50 نوجوان تیز ذہنوں کو شامل کیا جاتا ہے۔ عالمی اقتصادی فورم میں شامل ہونے والوں میں ایک طرف تقریباً 40 ممالک کے سربراہوں سمیت سو سے زاید ممالک کے ڈھائی ہزار سے زیادہ سیاسی اور تجارتی لیڈرہیں جب کہ دوسری طرف صرف21 سالہ پاکستانی طالبعلم عمر انور ہیں، جنہوں نے دوست طالب علموں کے ساتھ مل کر کراچی میں ''بحریہ میڈکس'' نام کی ایک تنظیم بنائی ہے، جو طبی میدان میں فلاحی کام کرتی ہے۔
عمر انور جہانگیر اس تنظیم کے اہم پالیسی ساز اور منتظم ہیں۔ خوشگوار حیرت کی بات یہ ہے کہ جس دن عمر انوار جہانگیر نے سب سے کم عمر مندوب کا منفرد اعزاز حاصل کیا، اسی روز ایک اور پاکستانی طالب علم رائے حارث منظور نے بھی اپنی کم عمری کے باوجود دنیا بھر کے سامنے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ چنیوٹ کے رہائشی رائے حارث منظور نے صرف 9 سال کی عمر میں او لیول کے امتحان میں 90 ممالک کے 20 لاکھ بچوں میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ حارث منظور نے چوتھی کلاس تک اسکول میں تعلیم حاصل کی، پھر کیمرج یونیورسٹی سے 15 ماہ میں او لیول کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے وہ کام کر دکھایا جو عموماً 18 سال کی عمر کے طالب علم کرتے ہیں۔
اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر پوری دنیا سے داد وصول کرنا اور اعزازات سمیٹنا صرف عمر انور جہانگیر اور رائے حارث منظور تک ہی محدود نہیں ہے اور نہ ہی یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے، بلکہ پاکستانی طلباء وقتاً فوقتاً اپنے ملک کے لیے باعث افتخار بنتے رہتے ہیں۔ حارث منظور سے پہلے بھی کم ترین عمر میں او لیول کے امتحان میں ٹاپ کرنے کا اعزاز چنیوٹ کی ہی 11 سالہ طالبہ ستارہ بروج کے پاس تھا۔ کم سن ستارہ نے 9 سال کی عمر میں کیمسٹری کے مضمون میں او لیول، جب کہ دس سال کی عمر میں بائیولوجی میں او لیول کر کے بھی ریکارڈ قائم کیاتھا۔ اسی طرح پاکستانی طالبعلم ہارون طارق کیمبرج یونیورسٹی کے تحت منعقد ہونے والے او/اے لیول امتحانات میں سب سے زیادہ A گریڈ لینے کا عالمی ریکارڈ قائم کر چکے ہیں،جب کہ ان سے پہلے بھی عالمی ریکارڈ پاکستانی طالب علم زوہیب اسد کے پاس تھا۔ پاکستانی طالب علم ابراہیم شاہد نے او لیول میں اے گریڈز حاصل کر کے ورلڈ ریکارڈ بنا یا ہوا ہے۔ پاکستانی طالب علم علی معین نوازش نے اے لیول کے امتحان میں اے گریڈز حاصل کر کے ورلڈ ریکارڈ قائم کیا، جب کہ ان سے پہلے اے لیول میں سب سے زیادہ اے گریڈز حاصل کرنے کا اعزاز پاکستانی شہیر جواد گل کے پاس تھا۔
اوکاڑہ کے 15 سالہ طالب علم محمد عمار افضل نے کمپیوٹر کے امتحان اوریکل نائن میں سب سے زیادہ نمبر لے کر ورلڈ ریکارڈ قائم کیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے بابر اقبال نے مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل (MCP) کا امتحان پاس کر کے اپنی ہم وطن ارفع کریم رندھاوا کا ریکارڈ توڑکر عالمی اعزاز حاصل کیا۔ مانانوالہ شیخوپورہ کے دور دراز گاؤں کوٹ جگجیت سنگھ کے رہائشی دو بھائیوں رانا حامد سلام اور رانا ماجد سلام نے مکینکل انجینئرنگ کی دنیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
2012 میں آسٹریلیا میں ہونے والے ریاضی کے مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والا 13 سالہ بچہ موسیٰ فیروز بھی پاکستانی ہی تھا۔ اس مقابلے میں دنیا بھر کے 231 ممالک سے کل 52 ہزار 82 اسکولوں کے60 لاکھ بچے اس ایونٹ کا حصہ بنے تھے، لیکن تحصیل پھالیہ کے 13 سالہ موسیٰ فیروز نے ایک منٹ میں اوسطاً 16 اور 50 منٹ میں4405 صحیح جوابات دے کر ریاضی کی دنیا کا مشکل ترین مقابلہ اپنے اور اپنے ملک کے نام کیا۔اس فتح کے بعد موسیٰ فیروز کو آسٹریلیا نے اپنا ریاضی کا سفیر مقرر کر کے پاکستان کو اعزاز بخشا۔
پاکستانی طلبا ہر میدان میں کچھ انوکھا کر کے ملک کا نام روشن کرتے رہتے ہیں۔کم سن پاکستانی طالبہ آسیہ عارف کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے متعدد عرب ممالک کے سفیر آسیہ سے ملاقات کر چکے ہیں۔آسیہ عارف نے سات سال کی عمر پہلی پاکستانی عربی شاعرہ ہونے کے ساتھ سات سال کی عمر میں پاکستان کی کم ترین یونیورسٹی طالبہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا اور اس کے ساتھ آسیہ عارف نے آٹھ سال کی عمر میںعربی زبان میں ایک کتاب بھی لکھی جو کہ از خود کسی پاکستانی کے لیے اس کم عمری میں کسی غیر ملکی زبان میں کتاب لکھنا ایک ریکارڈ ہے۔ پاکستانی طالب علم محمد نفیل عرفان نے امریکی ادارے ''اسپیس فاؤنڈیشن'' کے تحت ہونے والے عالمی مقابلہ برائے آرٹ میں پہلا انعام حاصل کر کے عالمی سطح پر پاکستان کانام روشن کیا۔
یہ تو وہ پاکستانی طلباء ہیں جو منظر عام پر آ گئے، ورنہ ''دو چار سے د نیا واقف ہے گمنام نجانے کتنے ہوں گے'' اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں کہ قدرت نے پاکستان کو انتہائی زیادہ باصلاحیت افرادی قوت سے مالا مال کیا ہے، اسی لیے آئے دن مختلف شعبوں میں پاکستانی طلباء نہ صرف عالم گیر شہرت حاصل کرتے ہیں، بلکہ ملک و قوم کا وقار بھی بلند کرتے ہیں۔ اس نعمت سے فائدہ اٹھا کر پاکستان زبردست ترقی حاصل کر سکتا ہے۔شرط یہ ہے کہ صاحب اقتدار طبقہ ان کی صلاحیتوں کی قدر کرے اور انھیں کچھ کرنے کے آسان مواقعے فراہم کرے، پھر دیکھے یہ نوجوان ملکی ترقی کو کیسے چار چاند لگاتے ہیں۔ شاعر مشرق نے انھی کے لیے تو فرمایا تھا ؎
نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی