ایک بھولا ہوا وعدہ

قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا کہ ہمارے سارے دریاؤں کا پانی اس راستے سے ہم تک پہنچتا ہے۔۔۔

Amjadislam@gmail.com

5 فروری ہر سال ہم یوم یکجہتی کشمیر کا دن مناتے ہیں، کچھ جلسے جلوس کرتے ہیں، ٹی وی اور اخبارات میں اس حوالے سے خصوصی ایڈیشن اور پروگرام بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ گزشتہ کچھ برسوں سے اسے سرکاری تعطیل کا درجہ بھی دے دیا گیا ہے۔ لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ ہم اس وعدے کو فراموش کرتے چلے جا رہے ہیں جو ہم نے آزادی کے وقت اپنے آپ سے اور اپنے کشمیری بھائیوں سے کیا تھا۔ جنگوں (48ء 65ء اور کارگل) اقوام متحدہ کی قرار دادوں' تاشقند اور شملہ معاہدوں اور سرحدوں پر گاہے گاہے ہونے والی کشیدگی کے باوجود اگر اس مسئلے پر حکومت پاکستان کے عمومی موقف کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بات کچھ کچھ غالبؔ کے اس شعر سے جا ملے گی کہ:

اک طرزِ تفافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرضِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے

اس وقت مجھے ایک فلسطینی شاعرہ کا وہ وعدہ یاد آ رہا ہے جو اس نے اپنی مادر وطن یعنی ارض فلسطین سے زبردستی نکالے جانے کے بعد ان لفظوں میں کیا تھا کہ:

ایک دن ان لہو میں نہائے ہوئے
بازوؤں میں نئے بال و پر آئیں گے

ان فضاؤں میں پھر اس پرندے کے نغمے بکھر جائیں گے
جو گرفت خزاں سے پرے رہ گیا
اور جاتے ہوئے
سرخ پھولوں کے کانوں میں یہ کہہ گیا
ایک لمحہ ہو یا اک صدی دوستو
مجھ کو ٹوٹے ہوئے ان پروں کی قسم
اس چمن کی بہاریں میں لوٹاؤں گا
فاصلوں کی فصیلیں گراتا ہوا میں ضرور آؤں گا
میں ضرور آؤں گا

قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا کہ ہمارے سارے دریاؤں کا پانی اس راستے سے ہم تک پہنچتا ہے ایوب خان کے زمانے میں ہم نے سندھ طاس معاہدے کے ذریعے ان میں سے تین دریا بھارت کے حوالے کر دیے (جب کہ ساری دنیا میں مشترکہ علاقے سے گزرنے والے دریاؤں کی نہیں بلکہ ان کے پانی کی تقسیم کی جاتی ہے) اور یوں بھارت کے غاصبانہ قبضے کو بھی ایک حوالے سے تسلیم کر لیا گیا اور اقوام متحدہ میں پڑی قرار داد ہمارا منہ دیکھتی رہ گئی۔ تاشقند معاہدے میں ایک بار پھر اس قرار داد کی اہمیت اور موجودگی کو نظر انداز کرتے ہوئے بالواسطہ طور پر مقبوضہ کشمیر پر جاری بھارتی قبضے سے چشم پوشی کی گئی اور پھر شملہ معاہدے میں تو اس کو تقریباً منسوخ کرتے ہوئے اس بین الاقوامی مسئلے سے عالمی برادری کو خارج کرتے ہوئے اسے دونوں ملکوں کی باہمی رضا مندی سے مشروط کر دیا گیا۔ تسلیم کہ اس وقت سقوط ڈھاکہ اور 93 ہزار جنگی قیدیوں کی وجہ سے ہماری پوزیشن بہت کمزور تھی مگر اس شق کی وجہ سے ہم اس نام نہاد عالمی مدد سے بھی محروم ہو گئے جس کے تحت یہ مسئلہ ایک عالمی تنازعہ سمجھا جاتا تھا۔

دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا تسلی بخش حل بوجوہ بے حد مشکل تھا۔ لیکن مزید ستم یہ ہوا کہ اس کے بعد سے پاکستان پے در پے مختلف اندرونی اور بیرونی مسائل میں الجھتا چلا گیا اور یوں اپنے کشمیری بھائیوں سے یک جہتی کا سلسلہ جوش و جذبے اور عمل سے محروم ہوتا چلا گیا اور بھارت کی جارحیت بڑھنے کے ساتھ ساتھ کشمیری بھائیوں میں پاکستان کے بارے میں پہلے مایوسی اور پھر بدظنی نے راہ پالی۔ اور اب یہ عالم ہے کہ بیشتر ماہرین کے مطابق اگر کشمیریوں کو حق رائے دہی کے آزادانہ استعمال کی اجازت مل گئی تو وہ بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان سے بھی الحاق کی مخالفت کرتے ہوئے ایک خود مختار کشمیر کے حق میں ووٹ دیں گے جس کا عملی نتیجہ آگے چل کر یہی نکلے گا کہ بھارتی معیشت کے دباؤ کی وجہ سے ایک بار پھر وہ بھارت کی بالواسطہ غلامی کا شکار ہو جائیں گے اور یوں پاکستان کی شہ رگ پر وہ بھارتی قبضہ برقرار رہے گا۔ جس کی وجہ سے ہم گوناگوں اور بالخصوص پانی کے مسئلے میں الجھتے چلے جا رہے ہیں۔ برسوں قبل اس حوالے سے ایک نظم لکھی تھی جو شاید آج بھی اسی طرح سے لکھی جاتی سو 5 فروری 2014 کی نزدیک جہتی کا یہ پیغام ایک بار پھر۔


اے میرے کشمیر
اے میرے کشمیر۔ اے ارض دلگیر
اپنے لہو سے تو نے لکھی جو روشن تحریر
بدلے گی اک روز اس سے دنیا کی تقدیر
اے میرے کشمیر۔ اے ارض دلگیر
شمع وفا کے پروانوں کے تجھ پر لاکھ سلام
ظلم کی گہری کالی شب میں تو ہے صبح امام
تو نے جہد حق کو دیا ہے ایسا اک پیغام
جس کی نہیں نظیر
آزادی وہ خواب کہ جس کی آزادی' تعبیر
اے میرے کشمیر۔ اے ارض دل گیر
لہو اگلتی وادی سے گر تیل نکل آتا
پل بھر میں ان اہل چشم کا روپ بدل جاتا
تیرا دکھ اک تیر کی صورت ان پر چل جاتا
اٹھتے جاگ ضمیر
کس نے کیا ہے کون کرے گا' خوشبو کو زنجیر
اے میرے کشمیر اے ارض دل گیر
تیرے لہو سے روشن ہے اب شمع وفا کی لو
تو نے نئے عنوان دیے ہیں صبر اور ہمت لو
اللہ اور نبیؐ کی تجھ پر خاص عنایت ہو
ٹوٹے ہر زنجیر
بدلے گی اک روز تجھی سے دنیا کی تقدیر
اے میرے کشمیر۔ اے ارض دل گیر
Load Next Story