مسئلہ کشمیر کا پائیدار حل

بھارت فائدے اٹھانے کی ترکیبیں سوچ رہا ہے تا کہ پاکستان کو تنازعہ کشمیر پر سخت موقف کے حوالے سے دباؤ میں لایا جا سکے

پاکستان اور بھارت جنوبی ایشیا کے دو ایسے ہمسایہ ملک ہیں جن کے درمیان دوستانہ مراسم، دیرپا و خوشگوار تعلقات، مربوط سیاسی، سماجی و معاشی روابط اور باہمی اتحاد کے مضبوط بندھن قائم ہوئے بغیر خطے میں پائیدار امن کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے اور نہ ہی ڈیڑھ ارب سے زائد انسانوں کے روشن و خوشحال مستقبل کی ضمانت دی جا سکتی ہے ۔ یہ سب کچھ صرف اسی وقت ممکن ہے جب دونوں پڑوسی ملکوں کی سیاسی و عسکری قیادت تمام متنازعہ معاملات بالخصوص مسئلہ کشمیر کا افہام و تفہیم سے کشمیریوں کی خواہش کے مطابق قابل قبول حل تلاش کرنے کی جانب مثبت انداز سے پیش رفت کرنے میں پوری طرح مخلص اور سنجیدہ اقدامات اٹھانے پر آمادہ ہو جائے۔

اس حوالے سے پاکستان کی سول و عسکری قیادت نے ہمیشہ مثبت طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے اور اخلاص نیت کے ساتھ بھارت کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنے اور تمام متنازعہ معاملات بالخصوص مسئلہ کشمیر کے قابل قبول حل کے حوالے سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے کی حتی المقدور کوششیں کیں عالمی برادری اس بات کی گواہ ہے کہ پاکستان ایک طویل عرصے سے اقوام متحدہ جیسے معتبر ادارے کی پانچ دہائیوں قبل منظور کردہ قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتا چلا آ رہا ہے۔ عالمی برادری سے بھی یہی اپیل کی جاتی رہی ہے کہ وہ خطے کے اہم ترین ایشو مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرانے میں اپنا کردار ادا کرے اور بھارت پر دباؤ ڈالے کہ وہ عالمی ادارے کی قراردادوں کا احترام کرے اور کشمیر میں ''استصواب رائے'' حاصل کرنے کے لیے سنجیدہ طرز عمل اپنائے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بھارت اپنے روایتی متعصبانہ رویے کے باعث نہ صرف عالمی ادارے کی قراردادوں کو اہمیت نہیں دے رہا بلکہ عالمی برادری کی اپیلوں کو بھی نظر انداز کرتا چلا آ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ نصف صدی گزر جانے کے باوجود تنازعہ کشمیر حل نہ ہو سکا۔

اس پس منظر میں وطن عزیز میں ہر سال 5 فروری کو کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ''کشمیر ڈے'' منایا جاتا ہے تا کہ عالمی برادری کی توجہ اس مسئلے کی سنگینی و حساسیت، کشمیری عوام کی طویل جدوجہد و قربانیوں اور بھارتی سیکیورٹی فورسز کے خوفناک مظالم کی جانب مبذول کرائی جا سکے اور مقبوضہ وادی پر جبری بھارتی تسلط کے ناپاک عزائم کو بے نقاب کیا جا سکے اور عالمی برادری کو مسئلہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کے حوالے سے بھارت پر دباؤ ڈالنے کی جانب راغب کیا جائے۔ نواز شریف حکومت نے اس سال یوم یکجہتی کشمیر کو بھرپور انداز سے منانے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ پیپلز پارٹی کی سابق حکومت نے بھی اپنے 5 سالہ دور حکومت میں پاک بھارت تعلقات میں بہتری لانے انھیں مستحکم کرنے اور تنازعہ کشمیر و دیگر مسائل پر پیش رفت کے حوالے سے ٹھوس اور حوصلہ افزا کوششیں کیں۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی اور بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے درمیان ایک سے زائد ملاقاتیں ہوئیں اور دو طرفہ بات چیت کے دوران تنازعہ کشمیر سمیت تمام مسائل زیر بحث آئے۔ شرم الشیخ ملاقات سے لے کر پاک بھارت کرکٹ میچ دیکھنے موہالی، بھارت جانے تک گیلانی منموہن اور سیکریٹریوں کے لیول تک مذاکرات ہوتے رہے لیکن بھارتی قیادت کی روایتی غیر سنجیدگی، متعصبانہ رویے اور منفی طرز عمل کے باعث کسی بھی سطح کے مذاکرات کا، ماضی کی طرح کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور پرنالہ وہیں کا وہیں رہا۔


آپ تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں نظر آتی ہے کہ چھ دہائی قبل بھارت کے پہلے وزیر اعظم آنجہانی پنڈت جواہر لعل نہرو از خود مسئلہ کشمیر لے کر اقوام متحدہ گئے تھے شاید انھیں یہ خوش فہمی تھی کہ عالمی ادارے میں کشمیر پر ان کے موقف کو پذیرائی ملے گی اور کشمیری عوام اور پاکستان کو ندامت و شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا اور عالمی برادری مقبوضہ کشمیر بھارتی قبضے کے حق میں فیصلہ دے دے گی لیکن بھارت اور پنڈت نہرو کے ارمانوں پر اس وقت اوس پڑ گئی جب اقوام متحدہ میں کشمیر میں ''استصواب رائے'' کی قراردادیں منظور کر لیں اور بھارت کو پابند کر دیا کہ وہ جلد ان قراردادوں کے مطابق مقبوضہ وادی میں کشمیریوں سے ''استصواب رائے'' حاصل کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے حالات کی نزاکت کے پیش نظر پنڈت جواہر لعل نہرو نے عالمی برادری کے سامنے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کا وعدہ کیا تھا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو سے لے کر موجودہ وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ تک تمام وزراء عالمی ادارے کی قراردادوں کو نظر انداز کرتے چلے آ رہے ہیں کیونکہ بھارت کو اس حقیقت کا اچھی طرح علم ہے کہ مقبوضہ وادی میں ''حق رائے دہی'' کی صورت میں کشمیری عوام بھارت سے الحاق ختم کرنے کا فیصلہ دے دیں گے اور کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ جس سے بھارت کا کشمیر کو اپنا ''اٹوٹ انگ'' قرار دینے کا موقف کمزور پڑ جائے گا اور پاکستان کے موقف کو تقویت حاصل ہو جائے گی اور یہ صورت حال بلاشبہ بھارت کے لیے بڑی سبکی کا باعث ہو گی۔ اسی خوف کے باعث بھارت کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد سے کنی کترا رہا ہے اور یہ مسئلہ کشمیر دونوں ملکوں کے درمیان ''کور ایشو'' بن چکا ہے۔

بھارتی رویوں کے پہلو بہ پہلو بدنصیبی اور افسوس اس بات کا بھی ہے کہ اقوام متحدہ جیسا عالمی ادارہ جس کے قیام کا مقصد ہی یہ تھا کہ وہ رکن ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے باہمی تنازعات و مسائل کو حل کرانے میں منصفانہ کردار ادا کرے گا، آج نصف صدی گزر جانے کے باوجود تنازعہ کشمیر پر اپنی ہی قراردادوں پر بھارت سے عملدرآمد کروانے میں ناکام رہا ہے اس حوالے سے عالمی ادارے کا عملی اقدامات نہ اٹھانا اور تنازعہ کشمیر سے چشم پوشی اختیار کیے رکھنا بھی اس معتبر سمجھ جانے والے ادارے کی بے توقیری اور کمزوری کی پہچان ہے۔ افغانستان اور عراق میں بھی جنگ مسلط کرنے سے امریکا اور اس کے حواریوں کو روکنے میں بھی اقوام متحدہ کامیاب نہ ہو سکی۔ نتیجتاً مذکورہ اسلامی ملکوں میں عالمی امن کے ٹھیکیدار امریکا اور اتحادی فوجوں نے آتش و آہن کی بارش کر کے ہزاروں لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا اور ایک ایسی جنگ خطے میں بھڑکا دی ہے۔

جس کی تپش سے پاکستان کا وجود بھی جھلس رہا ہے جب کہ بھارت اس جنگ سے بھی فائدے اٹھانے کی ترکیبیں سوچ رہا ہے تا کہ پاکستان تنازعہ کشمیر پر سخت موقف کے حوالے سے دباؤ میں لایا جا سکے اور خطے میں اپنی حکمرانی کا سکہ چلانے کی راہ ہموار ہو سکے۔ لیکن بھارت اپنے ناپاک عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا اس لیے کہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت مسئلہ کشمیر پر پوری طرح یکسو اور ہم آواز ہے۔ بھارت نہ پاکستان کو دباؤ میں لا سکتا ہے اور نہ عالمی برادری کو دھوکا دے سکتا ہے۔ مقبوضہ وادی میں وہ اپنی فورسز اور ایجنٹوں کے ذریعے معصوم و بے گناہ کشمیریوں کا بہت خون بہا چکا ہے۔ کشمیریوں کے لہو سے فروزاں آزادی کی تحریک ضرور کامیابی سے سرفراز ہو گی۔ مسئلہ کشمیر کا پائیدار اور قابل قبول حل ہی جنوبی ایشیا کے پرامن اور روشن مستقبل کا ضامن ہے۔ امریکا و دیگر عالمی قوتوں کو خواب غفلت سے بیدار ہو جانا چاہیے۔
Load Next Story