پلک جھپکنے کی طاقت
کارل سینڈ برگ کہتاہے سب کچھ ایک خواب سے شروع ہو تا ہے۔ آپ کو بھی میری طرح الف لیلہ کے قصے بہت پسند ہوںگے
جینز ڈومی نیک بوبی فرانسیسی صحافی تھا یہ 23 اپریل 1952 میں پیدا ہوا تعلیم حاصل کی صحافی بنا اور محنت شروع کر دی یہ صحافت کے مختلف مندرجات طے کرتا ہوا پیرس کے مشہور فیشن جریدے ایلی کا چیف ایڈیٹر بن گیا۔ یہ اس کے کیرئیر کی معراج تھی۔ وہ سمجھتا تھا کہ وہ زندگی میں جو کچھ بننا چاہتا تھا بن گیا اور اب کا میابی اور اس کی محنت کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہے وہ اپنی بیوی سیلنی اور دو بچوں کے ساتھ مطمئن زندگی گذار ر ہا تھا وہ ہفتے میں پانچ دن کا م کرتا اور دو دن بچوں اور بیو ی کے ساتھ چھٹیاں گذارتا تھا۔ یہ لوگ کنٹری سائیڈ پر نکل جاتے کیمپنگ کرتے کھیتو ں اور جنگلوں میں وائلن بجاتے تھے اور جھیلوں اور نہروں کے کنارے لیٹ کر آدھی رات کے چاند سے باتیں کرتے تھے ۔ بوبی کو پانی میں گھلتے ہوئے چاند بہت اچھے لگتے تھے ۔
وہ تھیٹر اور فلموں کا بھی شوقین تھا اسے فیشن میں آنے والی تبدیلیوں میں بھی دلچسپی تھی پھر ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ 8 دسمبر1995 کو اس نے کرسی سے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اس کے جسم نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا وہ کومے میں چلا گیا اس کا جسم اس کا دماغ اس کی روح سب گہر ی نیند سو گئے۔ بوبی کو اسپتال لے جایا گیا اس کے پھیپھڑے آکسیجن جمع کر رہے تھے دل خون پمپ کر رہا تھا اور یہ خون جسم میں گر دش بھی کر رہا تھا لیکن اس کی حسیات جواب دے چکی تھی وہ نیند کے گہر ے کنویں میں ڈوب چکا تھا۔ بوبی وینٹی لیٹر پر تھا اور اسے ٹیوب کے ذریعے خوراک دی جا رہی تھی ڈاکٹر اسے جگانے کی کو شش کر رہے تھے۔ 20 د ن بعد اس کی آنکھ کھل گئی یہ جاگ گیا لیکن یہ '' لاک ان سینڈ روم '' کا شکا ر ہو چکا تھا۔ یہ فا لج کی ایک قسم ہے جس میں مریض کے دماغ کے علا وہ تمام جسم مفلوج ہو جاتاہے۔ بوبی کا پورا جسم مفلو ج ہو چکا تھا۔ یہ جسم کے کسی حصے کو نہ حرکت دے سکتا تھا نہ بو ل سکتا تھا نہ کھا سکتا تھا اور نہ ہی چھو سکتا تھا یہ معذوری کی انتہائی خو فنا ک شکل تھی لیکن پھر اللہ کی کیا کرنی ہوئی بوبی کی سننے کی حس لو ٹ آئی اب یہ سن سکتا تھا اور چند دن بعد اس کی بائیں آنکھ کی بینائی اور پلکوں کی حرکت بھی واپس آ گئی۔
اب بوبی کی جسمانی صورتحال کچھ یوں تھی کہ وہ گرد و پیش کی آوازیں سن سکتا تھا بائیں آنکھ سے دیکھ سکتا تھا اور پلک جھپک کر اپنی پسند یا ناپسند کا اظہار بھی کر سکتا تھا۔ بوبی کی زندگی اب ایک پلک پر کھڑی تھی اس نے باقی زندگی ایک پلک کے ذریعے گذارنی تھی اور آپ سو چ سکتے ہیں کہ یہ دنیا کا کس قدر مشکل کام ہے۔ بوبی ایک ایسی کتاب لکھنا چاہتا تھا کہ رہتی دنیا تک اس کا نام قائم رہے لیکن معذوری کے بعد اس کی خواہش کی تکمیل ممکن نہیں تھی۔ تاہم بوبی کی ہمت قائم تھی لہذا اس نے پلک کے ذریعے کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا اس کی بیوی نے اس دوران اس کے ساتھ کمیونیکیشن کا طریقہ ایجاد کر لیا تھا وہ بوبی سے سوال پوچھتی تھی اور بوبی جس بات پر پلک جھپکا دیتا تھا اس کا مطلب ہاں ہوتا تھا اور جس بات پر وہ پلک نہیں جھپکتا تھا اس کا مطلب انکار ہوتا۔ اس کی بیوی نے کتاب لکھنے کے سلسلے میں اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا اس نے ایک اسسٹنٹ ہائرکیا یہ اسسٹنٹ ٹائپ رائٹر لے کر بوبی کے سامنے بیٹھ جاتا۔ اسسٹنٹ A سے لے کرZ تک حروف تہجی بولتا بوبی کی بیوی اس کی پلک کی طرف دیکھتی رہتی اور جس حرف پر وہ پلک جھپک دیتا یہ لوگ وہ حرف ٹائپ کر دیتے۔
اس کے بعد دوبارہ حروف تہجی بولے جاتے اور بوبی جس حرف پر پلک جھپک دیتا وہ بھی ٹائپ کر دیا جاتا یہ حروف آہستہ آہستہ لفظ بن جاتے اور لفظ تھوڑی دیر بعد فقرے بن جاتے یہ لوگ روزانہ چارگھنٹے کتاب لکھتے تھے یہ مشق ایک سال تک مسلسل جاری رہی۔ بوبی دو منٹ میں ایک لفظ مکمل کرواتا تھا اس نے ایک سال میں 2 لاکھ مرتبہ پلک جھپکائی یہ کتاب 1997 میں مکمل ہوئی اور 6 مارچ 1997 کو اس کا پہلا ایڈیشن مارکیٹ میں آ گیا۔ پہلے دن اس کی 25 ہزار کاپیاں فروخت ہوئیں ہفتے میں اس کی فروخت ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ گئی اور ایک ماہ بعد یہ کتاب یورپ کی بیسٹ سیلر بن گئی ۔آج تک یہ کتاب لاکھوں کی تعداد میں بک چکی ہے لوگ اس کی ہمت اور اپروچ پر حیران ہوتے ہیں یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جو پلک سے لکھی گئی اور لکھنے والوں نے یہ کتاب ایک ایک حروف جوڑ کر مکمل کی اور بوبی نے ثابت کر دیا کہ اگر آپ کی ایک پلک بھی سلامت ہے تو آپ اس سے بھی کمال کر سکتے ہیں۔ یہ کتاب 6 مارچ کو مارکیٹ میں آئی بوبی کی بیوی نے بازار سے ایک کاپی خریدی اور بھاگتی ہوئی اس کے کمرے میں گئی یہ کتاب بوبی کی زندہ آنکھ کے سامنے رکھی اور چلا کر بولی بوبی تم کامیاب ہو گئے دنیا میں اب تمہارا نام ہمیشہ قائم رہے گا بوبی کی زندہ پلک رقص کرنے لگی وہ تیزی سے پلک جھپک رہا تھا۔ بوبی کی بیوی کو محسو س ہوا کہ وہ پلک کے ذریعے اپنی کا میابی پر تالیاں بجا رہاہے اس کی بیوی نے بھی تالیاں بجانا شروع کر دیں تالیوں کی اس گو نج میں بوبی کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ اس کتاب کی تکمیل کے لیے زندہ تھا۔
بوبی کی کتاب کانام "The Diving Bell and the Butterfly" ہے۔ کا میابی اتفاق نہیں بلکہ انتخاب ہوتی ہے۔ ایڈگرالے گیٹ کہتا ہے ''آپ صرف اتنا ہی کام کر سکتے ہیں جتنا آپ سو چتے ہیں اس سے زیادہ آپ کبھی بھی حاصل نہیں کر سکتے اور اے نوجوان اگر تم خود سے ڈرتے رہے تو تمہارے لیے کامیابی کا امکان بہت کم ہے کیونکہ ناکامی ہمیشہ انسا ن کے اندر ہوتی ہے اور اگر تم یہ سو چ لو کہ اس کام کو تم کر سکتے ہو توچاہے حالات کتنے ہی بدتر کیوں نہ ہو جائیں تم کامیابی حاصل کر سکتے ہو۔''
پاکستان کے عوام کی بد حالی، غربت، افلاس، بدامنی، دہشت گردی، بیروزگاری، بے اختیاری، حقوق سے محرومی کی ذمے داری کسی اور پر نہیں بلکہ خو د عوام پر عائد ہوتی ہے۔ جو ہر ظلم و زیادتی پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ کیا پاکستان کے عوام بوبی سے زیادہ مفلو ج ہیں۔ کیا وہ بوبی سے زیادہ بے بس ہیں کیا انھیں اپنے آپ پر ترس نہیں آتا۔ کیا انھیں اپنے آپ پر شرم نہیں آتی کہ پاکستان کے اصل ما لک وہ ہیں جب کہ کوئی اور مالک بنے بیٹھے ہیں۔ پاکستان کے عوام یہ بات اچھی طرح سے ذہن نشین کر لو۔ یہ بدعنوان، جنہوں نے تمہارے حقوق اور خو شحالی غصب کر رکھی ہے اول درجے کے بزدل اور ڈرپو ک ہیں بس انھیں للکارنے کی ضرورت ہے پھر دیکھنا یہ کس طرح تمہارے سامنے گڑ گڑائیں گے کس طرح تم سے اپنے کیے کی معا فی مانگیں گے ایک اور بات سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ جو کچھ تم بننا چاہتے ہو یا جو کچھ تم حاصل کرنا چاہتے ہو یا جس کام کے لیے تم جدو جہد کر رہے ہو۔ ان سب کے لیے تمہارے اندر ہی ایک طاقت موجود ہے صرف اس کو جاننے اور اس کو کام میں لانے کی ضرورت ہے۔
ضروری کام یہ ہے کہ آپ محسوس کریں کہ آپ اس طاقت کے مالک ہیں آپ کا پہلا مقصد اس سے واقفیت حاصل کرنا ہے۔ کارل سینڈ برگ کہتاہے سب کچھ ایک خواب سے شروع ہو تا ہے۔ آپ کو بھی میری طرح الف لیلہ کے قصے بہت پسند ہوںگے مجھے اب بھی الہ دین کا چراغ پڑھنے میں بہت مزا آتا ہے تین دفعہ چراغ کو رگڑنے سے ایک طاقتور جن حاضر ہو تا ہے یہ الہ دین سے اس کی تین خواہشات پو چھتا ہے اور انھیں فوراً پورا کر دیتا ہے جی ہاں صرف تین خواہشیں ایک وقت میں جب کہ آپ کے اندر ایسا جن چھپا بیٹھا ہے جو آپ کی ہر خواہش پوری کر سکتا ہے اور ہر وقت کر سکتاہے بس اسے بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ کے پاس خدا داد صلاحتیں موجود ہیں صرف ضرورت ہے ان سے کام لینے کی ایک بار آپ نے اپنے اندر موجود اس جن کو بیدار کر لیا تو ایسے معجزے آپ کی ذات کے ذریعے سے رونما ہونگے جو کبھی آپ کے خواب وخیال میں بھی نہ ہوں گے۔ کوئی چیز دنیا میں ناممکن نہیں بس بوبی جیسے ارادے کی ضرورت ہوتی ہے۔
وہ تھیٹر اور فلموں کا بھی شوقین تھا اسے فیشن میں آنے والی تبدیلیوں میں بھی دلچسپی تھی پھر ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ 8 دسمبر1995 کو اس نے کرسی سے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اس کے جسم نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا وہ کومے میں چلا گیا اس کا جسم اس کا دماغ اس کی روح سب گہر ی نیند سو گئے۔ بوبی کو اسپتال لے جایا گیا اس کے پھیپھڑے آکسیجن جمع کر رہے تھے دل خون پمپ کر رہا تھا اور یہ خون جسم میں گر دش بھی کر رہا تھا لیکن اس کی حسیات جواب دے چکی تھی وہ نیند کے گہر ے کنویں میں ڈوب چکا تھا۔ بوبی وینٹی لیٹر پر تھا اور اسے ٹیوب کے ذریعے خوراک دی جا رہی تھی ڈاکٹر اسے جگانے کی کو شش کر رہے تھے۔ 20 د ن بعد اس کی آنکھ کھل گئی یہ جاگ گیا لیکن یہ '' لاک ان سینڈ روم '' کا شکا ر ہو چکا تھا۔ یہ فا لج کی ایک قسم ہے جس میں مریض کے دماغ کے علا وہ تمام جسم مفلوج ہو جاتاہے۔ بوبی کا پورا جسم مفلو ج ہو چکا تھا۔ یہ جسم کے کسی حصے کو نہ حرکت دے سکتا تھا نہ بو ل سکتا تھا نہ کھا سکتا تھا اور نہ ہی چھو سکتا تھا یہ معذوری کی انتہائی خو فنا ک شکل تھی لیکن پھر اللہ کی کیا کرنی ہوئی بوبی کی سننے کی حس لو ٹ آئی اب یہ سن سکتا تھا اور چند دن بعد اس کی بائیں آنکھ کی بینائی اور پلکوں کی حرکت بھی واپس آ گئی۔
اب بوبی کی جسمانی صورتحال کچھ یوں تھی کہ وہ گرد و پیش کی آوازیں سن سکتا تھا بائیں آنکھ سے دیکھ سکتا تھا اور پلک جھپک کر اپنی پسند یا ناپسند کا اظہار بھی کر سکتا تھا۔ بوبی کی زندگی اب ایک پلک پر کھڑی تھی اس نے باقی زندگی ایک پلک کے ذریعے گذارنی تھی اور آپ سو چ سکتے ہیں کہ یہ دنیا کا کس قدر مشکل کام ہے۔ بوبی ایک ایسی کتاب لکھنا چاہتا تھا کہ رہتی دنیا تک اس کا نام قائم رہے لیکن معذوری کے بعد اس کی خواہش کی تکمیل ممکن نہیں تھی۔ تاہم بوبی کی ہمت قائم تھی لہذا اس نے پلک کے ذریعے کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا اس کی بیوی نے اس دوران اس کے ساتھ کمیونیکیشن کا طریقہ ایجاد کر لیا تھا وہ بوبی سے سوال پوچھتی تھی اور بوبی جس بات پر پلک جھپکا دیتا تھا اس کا مطلب ہاں ہوتا تھا اور جس بات پر وہ پلک نہیں جھپکتا تھا اس کا مطلب انکار ہوتا۔ اس کی بیوی نے کتاب لکھنے کے سلسلے میں اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا اس نے ایک اسسٹنٹ ہائرکیا یہ اسسٹنٹ ٹائپ رائٹر لے کر بوبی کے سامنے بیٹھ جاتا۔ اسسٹنٹ A سے لے کرZ تک حروف تہجی بولتا بوبی کی بیوی اس کی پلک کی طرف دیکھتی رہتی اور جس حرف پر وہ پلک جھپک دیتا یہ لوگ وہ حرف ٹائپ کر دیتے۔
اس کے بعد دوبارہ حروف تہجی بولے جاتے اور بوبی جس حرف پر پلک جھپک دیتا وہ بھی ٹائپ کر دیا جاتا یہ حروف آہستہ آہستہ لفظ بن جاتے اور لفظ تھوڑی دیر بعد فقرے بن جاتے یہ لوگ روزانہ چارگھنٹے کتاب لکھتے تھے یہ مشق ایک سال تک مسلسل جاری رہی۔ بوبی دو منٹ میں ایک لفظ مکمل کرواتا تھا اس نے ایک سال میں 2 لاکھ مرتبہ پلک جھپکائی یہ کتاب 1997 میں مکمل ہوئی اور 6 مارچ 1997 کو اس کا پہلا ایڈیشن مارکیٹ میں آ گیا۔ پہلے دن اس کی 25 ہزار کاپیاں فروخت ہوئیں ہفتے میں اس کی فروخت ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ گئی اور ایک ماہ بعد یہ کتاب یورپ کی بیسٹ سیلر بن گئی ۔آج تک یہ کتاب لاکھوں کی تعداد میں بک چکی ہے لوگ اس کی ہمت اور اپروچ پر حیران ہوتے ہیں یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جو پلک سے لکھی گئی اور لکھنے والوں نے یہ کتاب ایک ایک حروف جوڑ کر مکمل کی اور بوبی نے ثابت کر دیا کہ اگر آپ کی ایک پلک بھی سلامت ہے تو آپ اس سے بھی کمال کر سکتے ہیں۔ یہ کتاب 6 مارچ کو مارکیٹ میں آئی بوبی کی بیوی نے بازار سے ایک کاپی خریدی اور بھاگتی ہوئی اس کے کمرے میں گئی یہ کتاب بوبی کی زندہ آنکھ کے سامنے رکھی اور چلا کر بولی بوبی تم کامیاب ہو گئے دنیا میں اب تمہارا نام ہمیشہ قائم رہے گا بوبی کی زندہ پلک رقص کرنے لگی وہ تیزی سے پلک جھپک رہا تھا۔ بوبی کی بیوی کو محسو س ہوا کہ وہ پلک کے ذریعے اپنی کا میابی پر تالیاں بجا رہاہے اس کی بیوی نے بھی تالیاں بجانا شروع کر دیں تالیوں کی اس گو نج میں بوبی کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ اس کتاب کی تکمیل کے لیے زندہ تھا۔
بوبی کی کتاب کانام "The Diving Bell and the Butterfly" ہے۔ کا میابی اتفاق نہیں بلکہ انتخاب ہوتی ہے۔ ایڈگرالے گیٹ کہتا ہے ''آپ صرف اتنا ہی کام کر سکتے ہیں جتنا آپ سو چتے ہیں اس سے زیادہ آپ کبھی بھی حاصل نہیں کر سکتے اور اے نوجوان اگر تم خود سے ڈرتے رہے تو تمہارے لیے کامیابی کا امکان بہت کم ہے کیونکہ ناکامی ہمیشہ انسا ن کے اندر ہوتی ہے اور اگر تم یہ سو چ لو کہ اس کام کو تم کر سکتے ہو توچاہے حالات کتنے ہی بدتر کیوں نہ ہو جائیں تم کامیابی حاصل کر سکتے ہو۔''
پاکستان کے عوام کی بد حالی، غربت، افلاس، بدامنی، دہشت گردی، بیروزگاری، بے اختیاری، حقوق سے محرومی کی ذمے داری کسی اور پر نہیں بلکہ خو د عوام پر عائد ہوتی ہے۔ جو ہر ظلم و زیادتی پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ کیا پاکستان کے عوام بوبی سے زیادہ مفلو ج ہیں۔ کیا وہ بوبی سے زیادہ بے بس ہیں کیا انھیں اپنے آپ پر ترس نہیں آتا۔ کیا انھیں اپنے آپ پر شرم نہیں آتی کہ پاکستان کے اصل ما لک وہ ہیں جب کہ کوئی اور مالک بنے بیٹھے ہیں۔ پاکستان کے عوام یہ بات اچھی طرح سے ذہن نشین کر لو۔ یہ بدعنوان، جنہوں نے تمہارے حقوق اور خو شحالی غصب کر رکھی ہے اول درجے کے بزدل اور ڈرپو ک ہیں بس انھیں للکارنے کی ضرورت ہے پھر دیکھنا یہ کس طرح تمہارے سامنے گڑ گڑائیں گے کس طرح تم سے اپنے کیے کی معا فی مانگیں گے ایک اور بات سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ جو کچھ تم بننا چاہتے ہو یا جو کچھ تم حاصل کرنا چاہتے ہو یا جس کام کے لیے تم جدو جہد کر رہے ہو۔ ان سب کے لیے تمہارے اندر ہی ایک طاقت موجود ہے صرف اس کو جاننے اور اس کو کام میں لانے کی ضرورت ہے۔
ضروری کام یہ ہے کہ آپ محسوس کریں کہ آپ اس طاقت کے مالک ہیں آپ کا پہلا مقصد اس سے واقفیت حاصل کرنا ہے۔ کارل سینڈ برگ کہتاہے سب کچھ ایک خواب سے شروع ہو تا ہے۔ آپ کو بھی میری طرح الف لیلہ کے قصے بہت پسند ہوںگے مجھے اب بھی الہ دین کا چراغ پڑھنے میں بہت مزا آتا ہے تین دفعہ چراغ کو رگڑنے سے ایک طاقتور جن حاضر ہو تا ہے یہ الہ دین سے اس کی تین خواہشات پو چھتا ہے اور انھیں فوراً پورا کر دیتا ہے جی ہاں صرف تین خواہشیں ایک وقت میں جب کہ آپ کے اندر ایسا جن چھپا بیٹھا ہے جو آپ کی ہر خواہش پوری کر سکتا ہے اور ہر وقت کر سکتاہے بس اسے بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ کے پاس خدا داد صلاحتیں موجود ہیں صرف ضرورت ہے ان سے کام لینے کی ایک بار آپ نے اپنے اندر موجود اس جن کو بیدار کر لیا تو ایسے معجزے آپ کی ذات کے ذریعے سے رونما ہونگے جو کبھی آپ کے خواب وخیال میں بھی نہ ہوں گے۔ کوئی چیز دنیا میں ناممکن نہیں بس بوبی جیسے ارادے کی ضرورت ہوتی ہے۔