سلگتا کشمیر لہو لہان پاکستان
پاکستان کی سالمیت اور بقا کے لیے ضروری ہے کہ ہر پاکستانی کشمیر کے لیے موثر آواز اٹھائے۔۔۔
''ماہ فروری'' جب جاڑا اپنی آخری قلانچیں بھر رہا ہوتا ہے، جب بہار کی آمد آمد ہوتی ہے شاید اس لیے اہل مغرب نے اسے ''ویلنٹائن ڈے'' کے حوالے سے چنا ہے لیکن اہل مغرب تو کیا اب تو اہل مشرق کی نئی نسل بھی فروری کو اسی مناسبت سے یاد رکھنے لگی ہے اور خیر سے اب تو ماہ فروری کی تیاریاں نئے سال کی آمد کے ساتھ شروع ہو جاتی ہیں۔ سرخ گلاب، سرخ لباس کے خیالوں میں سارے ہی کھو جاتے ہیں لیکن ''سرخ بہتے لہو'' کی سر زمین ''کشمیر'' کسی کو یاد آیا؟
وہی ''سلگتا کشمیر'' جس پر نصف صدی سے بھارت نے اپنا غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے۔ ان ہی گھائل کشمیریوں کے جسم سے ''بہتا سرخ لہو'' کشمیر کی وادیوں کو رنگ دار کر رہا ہے۔ اسی سلگتے کشمیر اور لہو لہان کشمیریوں کو ہم بھی سرکاری سطح پر ایک دن یاد کرتے ہیں اور وہ دن ہے ''5 فروری۔''
گو کہ سرکاری طور پر کشمیر کی چھٹی کا مزہ تو ہم سب ہی لیتے ہیں مگر یہ الگ بات ہے کہ ہماری نوجوان نسل کی ایک بڑی تعداد اس دن کی اہمیت سے لاعلم اور لاتعلق نظر آتی ہے۔ کہیں شادیوں کی تاریخ رکھ دی جاتی ہے اور کہیں آؤٹنگ کے لیے پروگرام بن جاتے ہیں۔ آخر کو چھٹی کا دن ہے۔
یوں تو کشمیر کوئی بھولی ہوئی داستان نہیں جسے سردیوں کی سرد راتوں میں لحاف میں بیٹھ کر سنایا جائے اور نہ کشمیر عہد ماضی ہے جسے کالج کی تاریخ کی کلاس میں فقط پڑھا جائے بلکہ یہ ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے۔ یہ نسلوں پر پھیلی ہوئی ظلم کی وہ داستان ہے جو ہمارے ضمیر کو بھنبھوڑتی ہے۔ یہی تو وہ تحریک ہے جس نے شروع ہوکر ہمارے لیے ایک علیحدہ اور خود مختار مملکت کی بنیاد رکھی اور اس لیے ہمیشہ ہم اور ہمارے حکمران یہ مانتے ہیں کہ ارض پاکستان کی شہ رگ کشمیر ہے۔ اور شہ رگ کے بغیر کوئی وجود کیسے زندہ رہ سکتا ہے؟ مگر دل کو تڑپا دینے والی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہماری شہ رگ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے اور یہ قبضہ بھی کوئی دو چار سال کی بات نہیں بلکہ یہ تو نصف صدی پرانا ہے جب 1846 میں انگریزوں نے اسے راجا گلاب سنگھ کے ہاتھوں فقط 75 لاکھ روپے کے عوض کشمیر کو کشمیریوں سمیت فروخت کر دیا تھا۔ اور راجا گلاب سنگھ نے برسر اقتدار آ کر مسلمانوں پر ظلم و ستم کے وہ پہاڑ گرائے کہ یہاں کے مسلمان اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اسی لیے 1938 میں محمد عبداللہ نے ''مسلم کانفرنس'' کے نام سے ایک سیاسی تنظیم قائم کی اور کچھ عرصہ اس سے الگ ہو کر ایک نئی سیاسی تنظیم نیشنل کانفرنس تشکیل دی جس نے 1944 میں ''کشمیر چھوڑ دو'' تحریک چلائی جون 1947 میں اسی مسلم کانفرنس نے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا۔
اگست 1947 کو پاکستان اور بھارت کے وجود میں آنے کے بعد بھی ''سلگتا ہوا مسئلہ کشمیر'' جوں کا توں ہی رہا۔ حالانکہ قانون ہند کی دفعہ 7 میں کہا گیا تھا کہ ''14 اگست 1947 کو برصغیر دو حصوں (پاکستان اور بھارت) میں تقسیم کر دیا جائے گا اور ہندوستانی ریاستیں ان دو ملکوں میں جس کے ساتھ چاہیں گی الحاق کر لیں گی'' لیکن ہوا اس کے برعکس 1947 کے سال ہی بھارت اپنی سات لاکھ فوجیں اس علاقے میں لے آیا اور بھارت کی ایسی غنڈہ گردی کے خلاف کشمیر کے مجاہدین اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
اب مسئلہ کشمیر صرف دو ملکوں کا متنازعہ مسئلہ نہیں رہا ہے بلکہ عالمی مسئلہ ہو گیا ہے جہاں کئی لاکھ لوگ بستے ہیں۔ امریکی وزارت خارجہ کی 2010 کی رپورٹ کے مطابق بھارت کا سب سے بڑا انسانی حقوق کا مسئلہ ''کشمیر میں ماورائے عدالت قتل ہے'' جہاں بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے لاکھوں کشمیری شہید ہو گئے ہیں اپنے وطن میں رہ کر غاصبوں کے ہاتھوں بے گھر ہونے والے 4 لاکھ کشمیری ہیں۔ بلند و بالا کوہساروں کے درمیان میں بھارتی ظلم و ستم سے تنگ آ کر تقریباً 17000 خواتین و مردوں نے خودکشیاں کر لی ہیں۔
انسانی حقوق کے دعوے داروں کو اگر مزید ثبوت چاہئیں ہوں تو کشمیر کے دماغی اسپتال میں تقریباً 1 لاکھ افراد سے بھرے ہوئے ہیں جنھیں بھارتی افواج کی چیرہ دستیوں نے ذہنی معذور بنا دیا ہے۔ جہاں ایک طرف انڈین آرمی اپنے مددگاروں یعنی بارڈر سیکیورٹی فورسز اور سینٹرل ریزرو پولیس فورسز کے ساتھ جدید اسلحے سے لیس ہے وہیں کشمیر کے نہتے عوام سینہ تان کر بھارتی افواج کے سامنے کھڑے ہیں اور ان کی نگاہیں دنیا کے ''کرتا دھرتا منصفوں'' پر لگی ہیں کہ
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
مگر کیا کیا جائے کہ منصفوں کے لبوں پر تو قفل لگا ہے اور چابی جس ''شتر بے مہار'' کے پاس ہے وہ ''دشمن اسلام'' کی آنکھوں کا تارا ہے اور کیوں نہ ہو اسے ''اسلام کے قلعے'' کو مفتوح کرنے کی ذمے داری جو ملی ہے۔ جو انشاء اللہ اسے کبھی نہیں ملے گی نہ وہ فاتح بنے گا نہ کشمیر ملے گا۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو!
آج جب کہ کشمیر بھڑکتی ہوئی آگ بن گیا ہے تو پاکستان بھی زخموں سے چور چور ہے۔ ہر شہر لہولہان ہے۔ ہر قصبہ، ہر گلی میں دہشت کا بازار گرم ہے۔1846سے کشمیر میں لگنے والی آگ نے پورے ملک کو اپنے حصار میں لے لیا ہے۔ کراچی تا کشمیر صرف موت کا رقص جاری ہے۔ ہر روز لاشیں گرتی ہیں، ہر روز تماشا ہوتا ہے۔ آج کشمیر و پاکستان تڑپ رہے ہیں۔ لہولہان ہیں اور اس کے رہنے والے بھی گھائل ہیں۔ اس لیے دشمن خوش ہے اور سمجھتا ہے کہ کشمیر کی کسے پروا ہے؟ لیکن یہ اس کی خام خیالی ہے بھلے حکومت کوئی بھی ہو بھلے کسی کی بھی ہو بھلے خاموش رہے مگر یہ ہمارا یقین ہے کہ جب تک ایک بھی سرفروش اسلام زندہ ہے کشمیر ہمارا تھا ، ہمارا ہے اور ہمارا رہے گا کیونکہ:
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں' نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا' تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
اور اسی طرز پر ''تحریک کشمیر'' جو 1938 میں مسلم کانفرنس کے نام سے شروع ہوئی تھی بھارت کی ہر طرح کی کچل دینے کی سازشوں کے باوجود کشمیر کی دیگر تحریکوں تک پھیل گئی ہے۔ آج حریت کانفرنس، ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی، نیشنل فرنٹ، محاذ آزادی، دختران ملت اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ جیسی تنظیموں کے ذریعے کشمیر کی موثر آواز بن گئی ہیں اور اس بھولے ہوئے کشمیر کو میر واعظ عمر فاروق، سید شبیر شاہ، نعیم خان اور آسیہ اندرابی جیسے انقلابی دنیا کو یاد دلا رہے ہیں ایک ''مقبوضہ کشمیر'' بھی ہے۔
5 فروری کی مناسبت سے لکھنے پر نہ میرا فرض ادا ہو رہا ہے نہ ٹی وی پر فقط ایک دن منا لینے سے بلکہ پاکستان کی سالمیت اور بقا کے لیے ضروری ہے کہ ہر پاکستانی کشمیر کے لیے موثر آواز اٹھائے۔ ہمارے نوجوان کشمیر کو صرف ''مقبوضہ کشمیر'' نہ سمجھیں بلکہ ہمارا فرض ہے کہ ہم انھیں اس کی اہمیت سے آگاہ کریں۔ وہ وادی کشمیر جسے کوہ ہمالیہ اور کوہ قراقرم کی شہزادی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ جس کے کوہساروں سے سورج کی کرنیں اٹھکھیلیاں کرتی ہیں جس کی وادیوں سے میرا سندھو ندی آتا ہے، میرا دریائے جہلم آتا ہے، جہاں کی گلابی کشمیری چائے کی خوشبو میرے دل کو اسیر کر لیتی ہے جہاں کی ''ڈل جھیل'' دنیا بھر کے لوگوں کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہے یہ تو میرے ارض پاک کا حسن ہے جس کا بچہ بچہ میرے ارض پاک کا ہر اول دستے کا سپاہی ہے جس کا نعرہ پاکستان زندہ باد ہے۔ ہاں یہی وہ ''سلگتا ہوا کشمیر'' ہے جس کے لیے غاصبوں نے ''لہو لہان پاکستان'' کر دیا ہے۔