حسینہ واجد پیار کی پینگیں اور سولی پر لٹکتی لاشیں

حسینہ واجد نے پاکستان سے نفرت کا جو بیانیہ تشکیل دیا ہے، اس بیانیے کو ختم کرتے ہوئے تعلقات استوار کریں

نفرتوں اور ماضی کو بھلا کر خطے اور عوام کی بہتری کےلیے آگے بڑھا جائے۔ (فوٹو: فائل)

حسینہ واجد کی پاکستانی سفیر سے یکے بعد دیگرے دو ملاقاتیں، وزیراعظم عمران خان کے خط کے جواب میں دورہ پاکستان کےلیے آمادگی اور محبت کے سفر کو آگے بڑھانے کےلیے کوششیں...

گزشتہ چند ماہ سے بنگلہ دیشی میڈیا پر حسینہ واجد کی پاکستان سے قربت کے چرچے ہیں۔ پاکستان سے اچھے تعلقات کی خواہش کے باوجود بنگلہ دیشی وزیراعظم کا بیان کہ ہم ماضی کو نہیں بھلا سکتے، باعث تشویش ہے۔

اگر حسینہ واجد ماضی کو نہیں بھلا سکتیں تو کیا پاکستان نے مطیع الرحمان نظامی کی تختہ دار پر پڑی لاش بھلا دی ہے؟ کیا علی احسن مجاہد، میر قاسم، عبدالقادر ملا، دلاور حسین اور قمر الزمان کی لٹکتی لاشوں کو فراموش کردیا گیا ہے؟ کیا پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے والے البدر کے رضا کار حکومت پاکستان کےلیے قصہ ماضی بن چکے ہیں؟ گزشتہ چھ برس کے دوران حسینہ واجد نے چن چن کر جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنماؤں کو تختہ دار پر لٹکایا۔ بی این پی کے رہنماؤں کا بھی ریاستی قتل کیا گیا۔ ہر روز انصاف کا قتل ہوا۔ اس قتل عام کے باوجود پاکستان تعلقات کو بہتر بنانے کےلیے آگے بڑھنا چاہتا ہے مگر حسینہ واجد ہیں کہ ماضی کو یاد رکھ کر بہتر تعلقات کی خواہاں ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات واقعی بہتر ہورہے ہیں؟ پاکستان اور بنگلہ دیش میں قربتیں بڑھنے کی وجوہات کیا ہیں؟ کیا ڈھاکا چین کے باعث اسلام آباد کے قریب ہورہا ہے؟ پاک بنگلہ دیش تعلقات سے نئی دہلی کتنا متاثر ہوگا؟ کیا جنوبی ایشیا میں بھارت کی چوہدراہٹ ختم ہورہی ہے؟ کیا بنگلہ دیش اور پاکستان دو بھائیوں کی طرح رہ سکیں گے؟ بنگلہ دیش کی پاکستان سے قربت کے بھارت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ سب سے اہم بات بنگلہ دیش بھارت سے دور کیوں ہورہا ہے؟

بنگلہ دیشی اور پاکستانی عوام کے قلب و اذہان ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کرکٹ میچ میں پاکستان کی بھارت کو شکست کی خوشی ڈھاکا میں بھی اتنی ہی زیادہ تھی جتنی کراچی اور لاہور کے عوام میں تھی۔ جیوے جیوے پاکستان کے نعرے اسی جوش و خروش سے لگائے گئے جیسے اسلام آباد اور پشاور میں لگائے گئے۔ اس محبت کو گزشتہ پچاس برس سے سیاست کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ کبھی بنگلہ دیش کی عوامی لیگ نے اور کبھی وہاں کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور ڈکٹیٹرز نے محبت کے گلاب کو تھور میں بدل ڈالا۔ یہ بات درست ہے کہ اس وقت افغانستان کے بعد بنگلہ دیشں میں بھی بھارت کی اربوں روپے کی سرمایہ کاری ڈوب رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ خطے میں چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ہے۔

پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین تعلقات اس وقت کشیدہ ہوگئے تھے جب 2009 میں حسینہ واجد نے 1971 کے جنگی جرائم کے نام نہاد مقدمات کو دوبارہ بحال کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس دوران جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے متعدد رہنماؤں کو پھانسی دے دی گئی۔ لیکن بنگلہ دیش کے قیام کی 50 ویں سالگرہ پر وزیراعظم عمران خان کی جانب سے مبارکباد کے خط نے دونوں ممالک کے درمیان قربتیں بڑھا دیں۔ وزیراعظم عمران خان نے حسینہ واجد کو دورۂ پاکستان کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کرلی ہے، تاہم حتمی تاریخ کا اعلان تاحال نہیں کیا گیا۔ اسی دوران وزیراعظم حسینہ واجد نے بنگلہ دیش میں پاکستانی ہائی کمشنر عمران احمد صدیقی سے دو ملاقاتیں کیں۔ لیکن دوسری جانب حسینہ واجد نے بھارتی ہائی کمشنر کی متعدد درخواستوں کے باوجود گزشتہ 7 ماہ سے ان سے ملاقات نہیں کی جو نئی دہلی کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہونے اور پاکستان کے ساتھ قربتیں بڑھنے کا اشارہ ہے۔ جولائی میں وزیراعظم عمران خان کے حسینہ واجد سے ٹیلی فونک رابطے کے بعد بنگلہ دیش میں بھارتی منصوبے خاک میں ملتے دکھائی دے رہے ہیں۔


بھارت کے ڈھاکا میں ترقیاتی منصوبے بھی سست روی کا شکار ہیں جبکہ چین کی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگیا ہے۔ بنگلہ دیش اپنے قیام سے لے کر اب تک یعنی گزشتہ پچاس برس سے بھارت کے زیر اثر رہا ہے۔ لیکن اب ڈھاکا نے نئی دہلی کے عزائم کو بھانپ لیا ہے جو خطے میں بالادستی پر مبنی ہیں۔ نیپال اور سری لنکا بھارتی بالادستی کو قبول نہیں کررہے تو بنگلہ دیش یہ کیسے کرسکتا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے لوگوں کے درمیان قلبی تعلق ہے، جسے بھارت کے اثر و رسوخ نے نفرتوں میں بدلنے کی کوشش کی، لیکن اب بنگلہ دیش بدلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔

پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں بہتری کو نئی دہلی اور ڈھاکا کے درمیان مراسم میں تناؤ کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے جو بھارت کی جانب سے متنازع شہریت قانون کی منظوری کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔ بھارت بنگلہ آسام اور دیگر سرحدی علاقوں میں موجود بنگالی باشندوں کے ساتھ نفرت انگیز رویہ اپنائے ہوا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے جب بھارت نے کشمیر کی خودمختار حیثیت ختم کی تو بنگلہ دیش بھر میں بھارتی مظالم کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔ اب حالات نے دونوں بھائیوں کو ایک بار پھر گلے ملنے کا موقع دیا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ نفرتوں اور ماضی کو بھلا کر خطے اور عوام کی بہتری کےلیے آگے بڑھا جائے۔ لیکن سوال پھر وہی ہے کہ کیا حسینہ واجد بغل میں چھری اور منہ پر رام رام کی پالیسی اختیار کریں گی یا ماضی کو دفن کرکے آگے بڑھیں گی؟ کیا چین دونوں بھائیوں کو قریب لاتے ہوئے ماضی کی تلخیوں کو بھی بھلانے میں کردار ادا کرے گا؟

ضرورت اس امر کی ہے کہ حسینہ واجد نے نام نہاد جنگی ٹربیونلز کے ذریعے جو پاکستان سے نفرت کا بیانیہ تشکیل دیا، اس بیانیے کو ختم کرتے ہوئے تعلقات استوار کریں۔ کیونکہ نفرتوں کے ساتھ عبادتیں فائدہ نہیں دیتیں۔

پاکستان جو خطے میں امن کا خواہاں ہے، تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا چاہتا ہے۔ اس کے دوستی کے ہاتھ کو دوستی ہی کے ساتھ تھاما جائے۔ بہرحال آئندہ آنے والے دن خطے میں بدلتے منظرنامے کےلیے اہم ہیں، اس اہم تبدیلی میں بنگلہ دیش کا کردار بھی حسینہ واجد کے رویے اور فیصلوں پر منحصر ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

 
Load Next Story