ورلڈکپ اور ایکسپو2020
ورلڈکپ کی کوریج کے لیے پاکستان سے کئی صحافی آئے ہوئے ہیں لیکن پی سی بی نے انھیں دور دور ہی رکھا ہوا ہے۔
''ابھی چند منٹ انتظار کریں ٹیمیں جانے والی ہیں'' شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم میں جب سیکیورٹی گارڈ نے یہ کہا تو میں وہیں رک گیا،ایسے میں اچانک ایک زوردار آواز آئی ''ارے سلیم کیا حال ہے'' میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہاں اویس منگل والا کو موجود پایا،شفع یوسف زئی بھی ان کے ساتھ تھیں، یہ دونوں ایک نجی ٹی وی چینل کے معروف میزبان ہیں۔
اویس ماضی میں ایکسپریس گروپ کا حصہ رہ چکے، حس مزاح سے مالا مال ہیں،انھیں وہاں دیکھ کر خوشی ہوئی، وہ بھی قومی ٹیم سے ورلڈکپ جیتنے کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں، جب میں اسٹیڈیم سے باہر گیا تو وہاں شائقین کا جم غفیر موجود تھا، سب پاکستان ٹیم کے حق میں نعرے لگا رہے ہیں، یہ سڑک دبئی جیسی چوڑی نہیں اس لیے ٹریفک جام ہو چکا تھا، کراچی میں اتنا پیدل نہیں چلنا پڑتا مگر ملک سے باہر ساری کسر پوری ہوجاتی ہے، پارکنگ تک پہنچنے میں ہی 15 منٹ لگ گئے، پھر ٹریفک جام سے نکل کر ہوٹل آتے آتے مزید وقت لگا۔
پاکستان ٹیم کی نیوزی لینڈ کیخلاف کامیابی کی خوشی نے کسی تھکن کا احساس نہ ہونے دیا،آپ کو ایک بات بتاؤں اس ٹیم کی کامیابیوں کا راز اتحاد میں چھپا ہے، بابر اعظم چونکہ خود ٹاپ پرفارمر ہیں اس لیے سب ان کی عزت کرتے ہیں، ثقلین مشتاق کو قائم مقام ہیڈ کوچ کی ذمہ داری ملی لیکن انھوں نے اپنے پروفیشنل رویے اور مہارت سے سب کا دل جیت لیا ہے۔
مجھے ٹیم ممبرز نے بتایا کہ ثقلین کو چونکہ پہلے سے غیرملکی ٹیموں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہے اور وہ کوالیفائیڈ کوچ بھی ہیں اس لیے معاملات کو بہتر طور پرسمجھتے ہیں، مصباح الحق ہر بات میں ''ہمارے زمانے میں ایسا ہوتا تھا'' لے آتے تھے، وقار یونس صرف شاہین شاہ آفریدی اور حسن علی جیسے کھلاڑیوں پر ہی توجہ دیتے مگر ثقلین کے ساتھ ایسا نہیں ہے، وہ سب کو یکساں اہمیت دیتے ہیں،شاید کھلاڑیوں کا اچھا فیڈبیک انھیں مستقل ذمہ داری بھی دلا دے۔
میچ کے بعد ٹیم ہوٹل میں محمد حفیظ نے اپنی اہلیہ کی سالگرہ کا کیک کاٹا جو ثانیہ مرزا نے منگوایا تھا، کھلاڑیوں کے لیے ببل میں بھی کافی آسانیاں ہیں اور وہ باہر سے کھانا آرڈر کرسکتے ہیں، بیشتر ایسا ہی کرتے ہیں، جو بھی کبھی حج یا عمرہ کرنے سعودی عرب گیا ہو اس نے وہاں البیک ضرور کھایا ہوگا، اب دبئی میں بھی اس کی برانچزکھل چکی ہے اور بعض کھلاڑیوں نے بھی اسے منگوا کر کھایا، جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ فیملیز ساتھ ہیں مگر انھیں بھی ہوٹل اور اسٹیڈیم تک محدود رہنا پڑتا ہے، ایسے میں پول کے ساتھ بیٹھنا اور کھانا آرڈر کرنا ہی ان کیلیے انٹرٹینمنٹ ہے، اسٹیڈیم میں بھی کرکٹرز کے اہل خانہ کو الگ انکلوژر میں بٹھایا جاتا ہے جس کو پلاسٹک کی شفاف شیٹ سے ڈھکا ہوا تھا، ان کو کھانا باکسز میں ملا۔
آج چونکہ کوئی خاص مصروفیت نہیں تھی اس لیے میں نے ''ایکسپو 2020'' جانے کا ارادہ کر لیا، ویسے تو اس کا ٹکٹ 95 درھم (ساڑھے 4 ہزار پاکستانی روپے ) ہے البتہ ایمرٹس ایئرلائنز اپنے مسافروں کو یہ مفت دیتی ہے،بھلا ہو بھائی عبدالرحمان رضا کا جنھوں نے مجھے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ پاکستانی پویلین جانے کیلیے ''اوپرچونیٹی گیٹ'' کا رخ کرنا ، دبئی میں ایکسپو کیلیے پورا شہر بسایا گیا ہے، وہاں 196 ممالک کے پویلینز بنائے گئے ہیں،آپ اگر پیدل چلنے سے نہیں گھبراتے تو دن میں 7،8پویلین تو جا ہی سکتے ہیں۔
میری دلچسپی پاکستان پویلین میں تھی جس کی بڑی تعریفیں سن چکا تھا،جب وہاں پہنچا تو خوشگوار سا احساس ہوا، بڑا ہی زبردست پویلین بنایا گیا ہے جہاں غیرملکیوں کو بھی پاکستانی ثقافت سے آگاہی کا موقع ملا،میں نے ایک انگریز جوڑے سے بات چیت کی تو انھوں نے بتایا کہ یہاں آ کر ان کے دل میں پاکستان جانے کی خواہش پیدا ہو گئی ہے،وہاں کا اسٹاف بھی بہت اچھے رویے کا حامل ہے، وہاں سے میں انڈونیشیا، یوکرین، برطانیہ وغیرہ کے پویلین بھی گیا لیکن پھر ہمت جواب دے گئی اور واپس ہوٹل روانہ ہو گیا،کھلاڑی اور ان کی فیملیز بھی ایکسپو جانا چاہتی ہیں مگر انھیں اس کا موقع ورلڈکپ کے بعد ہی مل سکے گا۔
پاکستانی پلیئنگ الیون میں شامل کرکٹرز نے آج آرام کیا، اب افغانستان کیخلاف میچ سے قبل جمعرات کو بھرپور پریکٹس ہو گی، ورلڈکپ 2019میں دونوں ٹیموں کا جب مقابلہ ہوا تو انگلینڈ میں اسٹیڈیم کے باہر افغان شائقین کا رویہ اچھا نہ تھا، کبھی کبھی وہ پاکستان کو روایتی حریف سمجھنے لگتے ہیں، البتہ یو اے ای میں قانون کی بالادستی کی وجہ سے کراؤڈ اپنی حد میں ہی رہتا ہے، پاکستان ٹیم مضبوط حریفوں کو شکست دے کر سیمی فائنل میں تقریبا رسائی حاصل کر ہی چکی ہے، اب کمزور حریفوں سے مقابلے ہوں گے ان میں سہل پسندی سے بچنا چاہیے۔
ورلڈکپ کے دوران پاکستان میں ٹی وی پر شعیب اختر کے ساتھ جو ناخوشگوار واقعہ پیش آیا، ٹویٹر پر محمد عامر کی ہربھجن سنگھ کے ساتھ تلخ کلامی اور وقاریونس کے بیان اور پھر معذرت پر یہاں یو اے ای میں بھی لوگ بڑی باتیں کر رہے ہیں، بھارتی پاکستان سے ہار کر اب تک جلے بھنے بیٹھے ہیں، اس لیے چھوٹی چھوٹی باتیں بھی پکڑنے لگے ہیں، کرکٹ ایونٹ کے دوران کھیل پر ہی بات ہو تو زیادہ اچھا رہتا ہے۔
شعیب اختر اور نعمان نیاز کے واقعے کا مجھے مکمل علم نہیں اس لیے زیادہ بات کرنا مناسب نہ ہوگا، البتہ عامر کے ساتھ ہربھجن نے جو بدتمیزی کی وہ قابل مذمت ہے،جب کچھ نہ بچا تو انھیں ماضی کے طعنے دیے جانے لگے، آپ لوگ جانتے ہیں کہ عامر کا مجھ سے بڑا کوئی مخالف نہیں ہے لیکن اس واقعے میں ہربھجن کا رویہ ٹھیک نہیں تھا۔
ورلڈکپ کی کوریج کے لیے پاکستان سے کئی صحافی آئے ہوئے ہیں لیکن پی سی بی نے انھیں دور دور ہی رکھا ہوا ہے،میں تو خیر انھیں پسند نہیں دیگر کو تو کام کرنے کے مواقع دیں،زوم کال سے کون سا وہ کسی کو کورونا کاشکار کر دیں گے،ویڈیوز جاری کرنے کے بجائے کرکٹرز کے ورچوئل سیشنزکرائیں،امید ہے بورڈ اس تجویز پر غور کرے گا۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
اویس ماضی میں ایکسپریس گروپ کا حصہ رہ چکے، حس مزاح سے مالا مال ہیں،انھیں وہاں دیکھ کر خوشی ہوئی، وہ بھی قومی ٹیم سے ورلڈکپ جیتنے کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں، جب میں اسٹیڈیم سے باہر گیا تو وہاں شائقین کا جم غفیر موجود تھا، سب پاکستان ٹیم کے حق میں نعرے لگا رہے ہیں، یہ سڑک دبئی جیسی چوڑی نہیں اس لیے ٹریفک جام ہو چکا تھا، کراچی میں اتنا پیدل نہیں چلنا پڑتا مگر ملک سے باہر ساری کسر پوری ہوجاتی ہے، پارکنگ تک پہنچنے میں ہی 15 منٹ لگ گئے، پھر ٹریفک جام سے نکل کر ہوٹل آتے آتے مزید وقت لگا۔
پاکستان ٹیم کی نیوزی لینڈ کیخلاف کامیابی کی خوشی نے کسی تھکن کا احساس نہ ہونے دیا،آپ کو ایک بات بتاؤں اس ٹیم کی کامیابیوں کا راز اتحاد میں چھپا ہے، بابر اعظم چونکہ خود ٹاپ پرفارمر ہیں اس لیے سب ان کی عزت کرتے ہیں، ثقلین مشتاق کو قائم مقام ہیڈ کوچ کی ذمہ داری ملی لیکن انھوں نے اپنے پروفیشنل رویے اور مہارت سے سب کا دل جیت لیا ہے۔
مجھے ٹیم ممبرز نے بتایا کہ ثقلین کو چونکہ پہلے سے غیرملکی ٹیموں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہے اور وہ کوالیفائیڈ کوچ بھی ہیں اس لیے معاملات کو بہتر طور پرسمجھتے ہیں، مصباح الحق ہر بات میں ''ہمارے زمانے میں ایسا ہوتا تھا'' لے آتے تھے، وقار یونس صرف شاہین شاہ آفریدی اور حسن علی جیسے کھلاڑیوں پر ہی توجہ دیتے مگر ثقلین کے ساتھ ایسا نہیں ہے، وہ سب کو یکساں اہمیت دیتے ہیں،شاید کھلاڑیوں کا اچھا فیڈبیک انھیں مستقل ذمہ داری بھی دلا دے۔
میچ کے بعد ٹیم ہوٹل میں محمد حفیظ نے اپنی اہلیہ کی سالگرہ کا کیک کاٹا جو ثانیہ مرزا نے منگوایا تھا، کھلاڑیوں کے لیے ببل میں بھی کافی آسانیاں ہیں اور وہ باہر سے کھانا آرڈر کرسکتے ہیں، بیشتر ایسا ہی کرتے ہیں، جو بھی کبھی حج یا عمرہ کرنے سعودی عرب گیا ہو اس نے وہاں البیک ضرور کھایا ہوگا، اب دبئی میں بھی اس کی برانچزکھل چکی ہے اور بعض کھلاڑیوں نے بھی اسے منگوا کر کھایا، جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ فیملیز ساتھ ہیں مگر انھیں بھی ہوٹل اور اسٹیڈیم تک محدود رہنا پڑتا ہے، ایسے میں پول کے ساتھ بیٹھنا اور کھانا آرڈر کرنا ہی ان کیلیے انٹرٹینمنٹ ہے، اسٹیڈیم میں بھی کرکٹرز کے اہل خانہ کو الگ انکلوژر میں بٹھایا جاتا ہے جس کو پلاسٹک کی شفاف شیٹ سے ڈھکا ہوا تھا، ان کو کھانا باکسز میں ملا۔
آج چونکہ کوئی خاص مصروفیت نہیں تھی اس لیے میں نے ''ایکسپو 2020'' جانے کا ارادہ کر لیا، ویسے تو اس کا ٹکٹ 95 درھم (ساڑھے 4 ہزار پاکستانی روپے ) ہے البتہ ایمرٹس ایئرلائنز اپنے مسافروں کو یہ مفت دیتی ہے،بھلا ہو بھائی عبدالرحمان رضا کا جنھوں نے مجھے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ پاکستانی پویلین جانے کیلیے ''اوپرچونیٹی گیٹ'' کا رخ کرنا ، دبئی میں ایکسپو کیلیے پورا شہر بسایا گیا ہے، وہاں 196 ممالک کے پویلینز بنائے گئے ہیں،آپ اگر پیدل چلنے سے نہیں گھبراتے تو دن میں 7،8پویلین تو جا ہی سکتے ہیں۔
میری دلچسپی پاکستان پویلین میں تھی جس کی بڑی تعریفیں سن چکا تھا،جب وہاں پہنچا تو خوشگوار سا احساس ہوا، بڑا ہی زبردست پویلین بنایا گیا ہے جہاں غیرملکیوں کو بھی پاکستانی ثقافت سے آگاہی کا موقع ملا،میں نے ایک انگریز جوڑے سے بات چیت کی تو انھوں نے بتایا کہ یہاں آ کر ان کے دل میں پاکستان جانے کی خواہش پیدا ہو گئی ہے،وہاں کا اسٹاف بھی بہت اچھے رویے کا حامل ہے، وہاں سے میں انڈونیشیا، یوکرین، برطانیہ وغیرہ کے پویلین بھی گیا لیکن پھر ہمت جواب دے گئی اور واپس ہوٹل روانہ ہو گیا،کھلاڑی اور ان کی فیملیز بھی ایکسپو جانا چاہتی ہیں مگر انھیں اس کا موقع ورلڈکپ کے بعد ہی مل سکے گا۔
پاکستانی پلیئنگ الیون میں شامل کرکٹرز نے آج آرام کیا، اب افغانستان کیخلاف میچ سے قبل جمعرات کو بھرپور پریکٹس ہو گی، ورلڈکپ 2019میں دونوں ٹیموں کا جب مقابلہ ہوا تو انگلینڈ میں اسٹیڈیم کے باہر افغان شائقین کا رویہ اچھا نہ تھا، کبھی کبھی وہ پاکستان کو روایتی حریف سمجھنے لگتے ہیں، البتہ یو اے ای میں قانون کی بالادستی کی وجہ سے کراؤڈ اپنی حد میں ہی رہتا ہے، پاکستان ٹیم مضبوط حریفوں کو شکست دے کر سیمی فائنل میں تقریبا رسائی حاصل کر ہی چکی ہے، اب کمزور حریفوں سے مقابلے ہوں گے ان میں سہل پسندی سے بچنا چاہیے۔
ورلڈکپ کے دوران پاکستان میں ٹی وی پر شعیب اختر کے ساتھ جو ناخوشگوار واقعہ پیش آیا، ٹویٹر پر محمد عامر کی ہربھجن سنگھ کے ساتھ تلخ کلامی اور وقاریونس کے بیان اور پھر معذرت پر یہاں یو اے ای میں بھی لوگ بڑی باتیں کر رہے ہیں، بھارتی پاکستان سے ہار کر اب تک جلے بھنے بیٹھے ہیں، اس لیے چھوٹی چھوٹی باتیں بھی پکڑنے لگے ہیں، کرکٹ ایونٹ کے دوران کھیل پر ہی بات ہو تو زیادہ اچھا رہتا ہے۔
شعیب اختر اور نعمان نیاز کے واقعے کا مجھے مکمل علم نہیں اس لیے زیادہ بات کرنا مناسب نہ ہوگا، البتہ عامر کے ساتھ ہربھجن نے جو بدتمیزی کی وہ قابل مذمت ہے،جب کچھ نہ بچا تو انھیں ماضی کے طعنے دیے جانے لگے، آپ لوگ جانتے ہیں کہ عامر کا مجھ سے بڑا کوئی مخالف نہیں ہے لیکن اس واقعے میں ہربھجن کا رویہ ٹھیک نہیں تھا۔
ورلڈکپ کی کوریج کے لیے پاکستان سے کئی صحافی آئے ہوئے ہیں لیکن پی سی بی نے انھیں دور دور ہی رکھا ہوا ہے،میں تو خیر انھیں پسند نہیں دیگر کو تو کام کرنے کے مواقع دیں،زوم کال سے کون سا وہ کسی کو کورونا کاشکار کر دیں گے،ویڈیوز جاری کرنے کے بجائے کرکٹرز کے ورچوئل سیشنزکرائیں،امید ہے بورڈ اس تجویز پر غور کرے گا۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)