ڈینگی بخار بیماری علاج اوراحتیاط
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیابھرمیں ہرسال پانچ کروڑسے زائدافراد ڈینگی بخارکا شکار اور20ہزارسے زائد افرادہلاک ہوتے ہیں۔
گزشتہ دو ماہ سے ڈینگی نے پورے ملک میں پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ لاہور کے علاوہ اسلام آباد اور پشاور میں بھی ڈینگی کے ہزاروں مریض ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال پانچ کروڑ سے زائد افراد ڈینگی بخار کا شکار اور بیس ہزار سے زائد افراد اس مرض کے سبب ہلاک ہوتے ہیں ۔ دنیا کے 100 کے قریب ممالک میں ڈینگی وائرس پھیلانے والے38 اقسام کے مچھر ہیں۔ان میں سے ایک قسم کا مچھر پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ ڈینگی بخار سے بچاؤ کی کوئی دوا ہے نہ ہی کوئی ٹیکہ ، اسے صرف حفاظتی تدابیر سے روکا جا سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابقایشیا میں ڈینگی کے بڑھتے ہوئے کیسوں کی وجہ درجہ حرارت میں اضافہ ، کئی علاقوں میں شدید بارشیں ، سیلاب اور بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ عالمی ادارہ نے متنبہ کیا ہے کہ حکومتوں نے ضروری اقدامات نہ کیے تو ڈینگی بخار سے دنیا کی تقریباً ڈھائی ارب آبادی کو خطرہ لاحق ہے۔ ان سب اعداد و شمار کے باوجود ڈینگی بخار خطرناک اور جان لیوا امراض کے زمرے میں نہیں آتا۔
ڈینگی وائرس سے بننے والا مچھر
ڈینگی بخار کا باعث بننے والا مچھر بہت نفیس اور صفائی پسند ہے۔ یہ گندے جوہڑوں میں نہیں بلکہ بارش کے صاف پانی ، گھریلو واٹر ٹینک کے آس پاس صاف پانی کے بھرے ہوئے برتنوں، گھڑوں اور گل دانوں ، گملوں وغیرہ میں رہنا پسند کرتا ہے۔ یہ مچھر انسان پر طلوع آفتاب یا غروب آفتاب کے وقت حملہ آور ہوتا ہے۔ بخار کا علم تین سے سات دن کے اندر ہوتا ہے۔ عام نزلہ بخار کے ساتھ شروع ہونے والا بخار شدید سر درد ، پٹھوں میں درد اور جسم کے جوڑ جوڑ کو جکڑ کر انسان کو بالکل بے بس کر دیتا ہے ۔ اسی وجہ سے اس بخار کو ' ہڈی توڑ بخار' بھی کہا جاتا ہے ۔ جسم کے اوپری حصوں پر سرخ نشان ظاہر ہوتے ہیں۔ نوعیت شدید ہو جائے تو ناک اور منہ سے خون بھی جاری ہو تا ہے۔
ابتدائی علامات
-1تیز بخار
-2سر میں شدید درد
-3آنکھوں کے ڈھیلے میں شدید درد
-4پورے جسم کی ہڈیوں، پٹھوں اور جوڑوں میں شدید درد۔
-5متلی، قے اور بھوک میں کمی۔
بیماری کے حملے کے دوران میں مریض شاک میں جا سکتا ہے جس سے بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے، پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں، جسم کے اندرونی اور بیرونی حصوں پر باریک سرخ دانے ابھر جاتے ہیں ۔ ڈینگی وائرس کا شکار ہونے والے افراد پر اگر یہ وائرس دوبارہ حملہ آور ہو تو جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔
شدید حملہ
ڈینگی کی بیماری کی ابتدائی علامات میں بخار، کمزوری پسینہ آنا اور بلڈ پریشر کم ہو جانا شامل ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ جسم کے سارے نظاموں پر اثر کرتا ہے۔ خون کی باریک نالیاں جنہیں ہم Capillaries کہتے ہیں وہ پھٹنا شروع ہو جاتی ہیں۔ جسم کے جس حصہ پر یہ دھبے نمایاں ہوں ، وہ حصہ نمایاں ہوتا ہے ۔جب یہ بیماری دماغ اور حرام مغز پر حملہ کرتی ہے تو مریض کی موت بھی ہو سکتی ہے لیکن زیادہ تر مریض ایک یا ڈیڑھ دن میں بہتر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ بہتری نہ ہونے کی صورت میں بخار، سر درد، پٹھوں، جوڑوں میں درد، بھوک کم لگنا، الٹی آنا، پسینہ زیادہ آنا، جسم ٹھنڈا ہو جانا جیسی علامات ہوتی ہیں۔ مریض کا بلڈ پریشر کم ہوتا ہے تو نبض آہستہ آہستہ مزیدکمزور ہو جاتی ہے، جسم پر دھبے پڑ جاتے ہیں اور جگر بڑھ جاتا ہے۔ جب بیماری دماغ اور حرام مغز پر حملہ کرتی ہے تو فالج بے ہوشی، لقوہ جیسی علامات ہوتی ہیں۔ یا تو مریض کے جسم کا کوئی حصہ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے یا وہ بے ہوش ہو جاتا ہے۔ اس بیماری کی تشخیص کے لیے خون کے ٹیسٹ اور ایکسرے کیے جاتے ہیں۔ دماغ اور حرام مغز میں پہنچنے والی بیماری کی تشخیص سی ٹی CT اور ایم آر آئی MRI سکین سے کی جاتی ہے۔
پہلی سٹیج میں جب وائرس حملہ آور ہوتا ہے تو مندرجہ ذیل علامات ہوتی ہیں۔
-1بخار تیزی سے چڑھتا ہے۔
-2شدید سردرد، جسم اور جوڑوں میں دردیں ہوتی ہیں کمر میں بھی درد ہوتی ہے۔
-3چہرہ سرخ ہو جاتا ہے اور یہ سرخی جسم کے باقی حصہ میں بھی پھیل جاتی ہے۔
-4آنکھیں بھی سرخ ہو جاتی ہیں روشنی اچھی نہیں لگتی اور پانی بہتا ہے آنکھوں کی حرکت سے بھی ان میں درد پیدا ہوتی ہے۔
-5گردن میں گلٹیاں بھی نمودار ہوسکتی ہیں۔
-6گردن میں اکڑاؤ آ جاتا ہے۔
-7نیند نہیں آتی۔
یہ مرحلہ بہت سخت ہوتا ہے اور مریض کی حالت قابل رحم ہو جاتی ہے جس کی وجہ شدت کا بخار اور درد ہے۔ تین سے چار دنوں میں بخار میں کمی آ جاتی ہے اور مریض کی حالت سنبھلنے لگتی ہے۔ اس مرض کا بچاؤ صرف اور صرف ڈینگی مچھر سے بچاؤ ہے جہاں جہاں یہ مچھر پیدا ہو ، وہاں اس کے لیے مچھر مار دواؤں کا استعمال کثرت سے کرنا چاہیے ۔ مارکیٹ میں ایسے تیل بھی ہیں جو جسم اور ہاتھوں کے کھلے حصوں پر لگائے جائیں تو مچھر نہیں کاٹتا۔
اس بیماری کی وجہ سے خون کے جو Platelets ذرات ہیں۔ بہت کم ہو جاتے ہیں اور اس کی وجہ سے جسم کے کئی حصوں میں خون بہہ سکتا ہے اور جلد کے نیچے خون جم جاتا ہے جس سے سرخ دھبے اور نشانات پڑ جاتے ہیں عام طور پر یہ بیماری چھ یا سات دن تک رہتی ہے۔ کئی دفعہ ایک جان لیوا بیماری کی شکل یعنی Dengue Shock Syndrom اختیار کر لیتی ہے۔
علاج
اس بیماری کا علاج مندرجہ ذیل طریقوں سے کیا جا سکتا ہے۔
1۔Supportive Therapy دی جاتی ہے۔
-2بیماری کے دوران مکمل آرام کیا جائے پینے والی اشیاء صاف پانی، مشروبات فریش فروٹ جوس سوپ کااستعمال زیادہ سے زیادہ کیا جائے۔ تازہ پھلوں اور سبزیوں کے سوپ کا استعمال بھی مریض کی توانائی بحال کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
-3اگر مریض زیادہ کھا پی نہ سکے تو پھر Platelets کی Drip لگانا بہت ضروری ہے۔ Platelets کی Drip بلڈ بنک سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
-4پرہیز علاج سے بہتر ہے اس مچھر سے Aedes Aegypti کو پھلنے پھولنے سے مکمل طور پر روکا جائے۔ سب سے اہم بات ایسی جگہوں پر اسپرے ہے جہاں مچھر پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح سے جہاں بھی پانی کھڑا ہو جائے وہاں پانی کھڑا نہ ہونے دیا جائے جہاں ایسا ممکن نہ ہو وہاں فوراً اسپرے کیا جائے ۔ گھروں میں مچھر کے بچاؤ کی تدابیر کرانی چاہئیں جن میں مچھر دانی یعنی Mosquite net کا استعمال بہت ضروری ہے۔
ڈینگی بخار کا غذائی علاج
-1 شہد
ڈینگی بخارکا بہترین علاج یہ ہے کہ ایک چمچ شہد ایک کپ نیم گرم پانی میں ملا کر صبح نہار منہ جبکہ دوپہر اور رات کھانے سے ایک گھنٹہ قبل استعمال کرنا چاہیے۔ پروپولس (رائل جیلی) جو شہد کی مکھی کے چھتے سے نکلتا ہے۔ ایک طاقتور اینٹی وائرل ہے۔ یورپ میں یہ عام دستیاب ہے لیکن وطن عزیز میں ہم اسے شہد نکالے چھتے سے حاصل کر سکتے ہیں۔ اس چھتے کے تین تین گرام کے پیس کاٹ لیں اور ایک ٹکڑا صبح دوسرا شام اور رات دن میں چار مرتبہ چبا کر رس چوس لیں، پروپولس کی مطلوبہ مقدار حاصل ہو جائے گی۔ اس سے قوت مدافعت میں زبردست اضافہ ہو تا ہے جس سے ڈینگی وائرس زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
-2 پپیتے کے پتے
پپیتے کے پتے بھی اس مرض کا شافی علاج ہیں۔ پپیتے کے دو تازہ پتے یا ان کا رس صبح شام پینے سے Platelets حیران کن طور پر چند گھنٹوں میں بڑھ جاتے ہیں۔
-3 کالی مرچ ،کلونجی، چرائتہ ، افسنیتن
کالی مرچ ،کلونجی ،چرائتہ ،افسنتین میں سے ہر ایک دس گرام لے کر باریک پیس لیں۔ تینوں کو اچھی طرح ملا لیں اور ایک گرام دن میں تین مرتبہ صبح دوپہر شام اجوائن اور پودینے کے قہوے کے ساتھ مریض استعمال کرے۔
-4 وٹامن
ڈینگی بخار سے متاثرہ افراد وٹامن کے وٹامن بی اور وٹامن سی سے بھرپور خوراک کا استعمال کریں۔
-5 سبزیاں اور چاول
چاول مونگ کی دال کھچڑی ، شلجم چقندر گاجر گوبھی کریلا، انار سنگترہ، مسمی میٹھا اور امرود اس میں مفید غذا ہے۔
ڈینگی بخار کا موثر علاج ۔۔۔۔۔۔ شربت پپیتہ
ڈینگی وائرس کی روک تھام کے لیے ابھی کوئی ویکسین دریافت نہیں ہوئی ، اس لیے سائنس دان سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی پیش رفت نارتھ کیرولیناسٹیٹ یونیورسٹی نے کی ہے جس میں خاص بیکٹیریا Wolbateria Bacterium کو مادہ مچھر کے جسم میں داخل کیا جائے گا جس سے وہ وائرس آگے منتقل کرنے کے قابل نہیں رہے گی۔
مقامی طور پر ڈینگی کے علاج کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ اس سلسلے میں ' کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی ' کے تحت چلنے والے فلاحی ہسپتالوں میں ''پپیتہ'' کے پتوں کا جوس نکال کر اس میں چند دوسری مفید جڑی بوٹیاں شامل کر کے ''شربت پپیتہ'' تیار کیا گیا ہے۔ پپیتہ کے پتے ڈینگی کا بخار ختم کرنے، جسم میں مدافعت پیدا کرنے اور بیماری کی حالت میں خون کی ''پلیٹلٹس کی مقدار'' نارمل رکھنے میں بے حد کارآمد ہیں۔
قدرت نے ''پپیتہ'' کے پتوں میں بے پناہ صلاحیت رکھی ہے، ڈینگی سے بچاؤ اور علاج کے لیے اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں مچھر دانیوں کو پپیتہ کے پتوں میں بھگو کر تیار کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے پتے بیماری سے بچاؤ اور علاج کے ساتھ مچھروں کو دور بھگاتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق جن گھروں کے لانوں میں پپیتہ کے درخت لگے ہوئے ہیں، ڈینگی پھیلانے والے مچھر وہاں سے دور بھاگتے ہیں۔
مزید برآں مچھروں سے بچاؤ کے لیے پپیتہ کے پتوں سے تیار کردہ Repellents بھی بنائے گئے ہیں۔ پپیتہ کے پتوں میں ایک انزائم ''پاپین'' پایا جاتا ہے۔ جس میں 212 امائنو ایسڈ ہوتے ہیں۔ یہ انزائم جسم میں داخل ہو کر ڈینگی وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز پیدا کرتا ہے جس سے وائرس کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ وائرس کے ختم ہونے سے خون میں پلیٹلٹس کی مقدار بھی نارمل ہو جاتی ہے۔ امائنو ایسڈ کے علاوہ پپیتہ کے پتوں میں وٹامن اے، سی، ای، کے، بی کمپلیکس اور بی 17 بھی پایا جاتا ہے۔
ان پتوں میں موجود فائٹو کیمیکل جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط کرتا ہے۔ جسم میں مدافعتی نظام مضبوط ہونے کے باعث جسم میں داخل ہونے والا وائرس زیادہ پیچیدگیاں نہیں پیدا کر سکتا۔ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ ''پپیتہ'' کے پتوں میں موجود ''پاپین'' میں اینٹی وائرل خصوصیات موجود ہیں۔ علاوہ ازیں ''پاپین'' کا استعمال دوسری بیماریوں جوڑوں کے درد، السر، جسم میں سوجن اور کینسر کی بیماریوں میں بھی مفید ہوتا ہے۔ پپیتہ کے پتوں میں شامل امائنو ایسڈ، معدنیات اور دوسرے قدرتی اجزاء جسم میں قوت پیدا کرتے ہیں اور مدافعتی نظام کو مضبوط کرتے ہیں۔ اس میں شامل وٹامن چہرے کی جھریوں کو بھی کم کرتے ہیں۔ پپیتہ کے پتوں میں موجود فائٹو کیمیکل خون میں شامل ہو کر نہ صرف جسم کے مدافعاتی نظام کو مضبوط کرتے ہیں بلکہ خون میں اِن کے شامل ہونے سے ایسے کیمیائی اجزاء اینٹی باڈیز پیدا ہوتی ہے جو ڈینگی وائرس پر حملہ کر کے اُس کو غیر موثر بنا دیتی ہے۔
شربت پپیتہ استعمال کرنے سے جسم میں قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے اور تقویت ملتی ہے۔ بخار کا خاتمہ ہوتا ہے اور ڈینگی کا وائرس غیر موثر ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پپیتہ کے پتوں میں تمام قدرتی غذائی اجزاء، معدنیات، لحمیات، وٹامن رکھے ہیں۔ جن کی وجہ سے اس کے عرق کا استعمال ڈینگی وائرس کی بیماری کے علاوہ دوسری بیماریوں مثلاً السر، کمزوری، جسم میں درد، جوڑوں میں درد کے لیے بھی مفید ہے۔
(عوامی فلاحی پروگرام کے تحت ڈینگی سے بچاؤ اور علاج کیلئے شربت پپیتہ لاہور اور اسلام آباد میں مفت فراہم کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ لاہور میں کسٹمر ہیلتھ کیئر سوسائٹی کے فلاحی ہسپتال 449 ۔ جہاں زیب بلاک علامہ ا قبال ٹاؤن 0300-9417290 اور اسلام آباد میں 0310-5444701 پر رابطہ کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے )
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال پانچ کروڑ سے زائد افراد ڈینگی بخار کا شکار اور بیس ہزار سے زائد افراد اس مرض کے سبب ہلاک ہوتے ہیں ۔ دنیا کے 100 کے قریب ممالک میں ڈینگی وائرس پھیلانے والے38 اقسام کے مچھر ہیں۔ان میں سے ایک قسم کا مچھر پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ ڈینگی بخار سے بچاؤ کی کوئی دوا ہے نہ ہی کوئی ٹیکہ ، اسے صرف حفاظتی تدابیر سے روکا جا سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابقایشیا میں ڈینگی کے بڑھتے ہوئے کیسوں کی وجہ درجہ حرارت میں اضافہ ، کئی علاقوں میں شدید بارشیں ، سیلاب اور بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ عالمی ادارہ نے متنبہ کیا ہے کہ حکومتوں نے ضروری اقدامات نہ کیے تو ڈینگی بخار سے دنیا کی تقریباً ڈھائی ارب آبادی کو خطرہ لاحق ہے۔ ان سب اعداد و شمار کے باوجود ڈینگی بخار خطرناک اور جان لیوا امراض کے زمرے میں نہیں آتا۔
ڈینگی وائرس سے بننے والا مچھر
ڈینگی بخار کا باعث بننے والا مچھر بہت نفیس اور صفائی پسند ہے۔ یہ گندے جوہڑوں میں نہیں بلکہ بارش کے صاف پانی ، گھریلو واٹر ٹینک کے آس پاس صاف پانی کے بھرے ہوئے برتنوں، گھڑوں اور گل دانوں ، گملوں وغیرہ میں رہنا پسند کرتا ہے۔ یہ مچھر انسان پر طلوع آفتاب یا غروب آفتاب کے وقت حملہ آور ہوتا ہے۔ بخار کا علم تین سے سات دن کے اندر ہوتا ہے۔ عام نزلہ بخار کے ساتھ شروع ہونے والا بخار شدید سر درد ، پٹھوں میں درد اور جسم کے جوڑ جوڑ کو جکڑ کر انسان کو بالکل بے بس کر دیتا ہے ۔ اسی وجہ سے اس بخار کو ' ہڈی توڑ بخار' بھی کہا جاتا ہے ۔ جسم کے اوپری حصوں پر سرخ نشان ظاہر ہوتے ہیں۔ نوعیت شدید ہو جائے تو ناک اور منہ سے خون بھی جاری ہو تا ہے۔
ابتدائی علامات
-1تیز بخار
-2سر میں شدید درد
-3آنکھوں کے ڈھیلے میں شدید درد
-4پورے جسم کی ہڈیوں، پٹھوں اور جوڑوں میں شدید درد۔
-5متلی، قے اور بھوک میں کمی۔
بیماری کے حملے کے دوران میں مریض شاک میں جا سکتا ہے جس سے بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے، پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں، جسم کے اندرونی اور بیرونی حصوں پر باریک سرخ دانے ابھر جاتے ہیں ۔ ڈینگی وائرس کا شکار ہونے والے افراد پر اگر یہ وائرس دوبارہ حملہ آور ہو تو جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔
شدید حملہ
ڈینگی کی بیماری کی ابتدائی علامات میں بخار، کمزوری پسینہ آنا اور بلڈ پریشر کم ہو جانا شامل ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ جسم کے سارے نظاموں پر اثر کرتا ہے۔ خون کی باریک نالیاں جنہیں ہم Capillaries کہتے ہیں وہ پھٹنا شروع ہو جاتی ہیں۔ جسم کے جس حصہ پر یہ دھبے نمایاں ہوں ، وہ حصہ نمایاں ہوتا ہے ۔جب یہ بیماری دماغ اور حرام مغز پر حملہ کرتی ہے تو مریض کی موت بھی ہو سکتی ہے لیکن زیادہ تر مریض ایک یا ڈیڑھ دن میں بہتر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ بہتری نہ ہونے کی صورت میں بخار، سر درد، پٹھوں، جوڑوں میں درد، بھوک کم لگنا، الٹی آنا، پسینہ زیادہ آنا، جسم ٹھنڈا ہو جانا جیسی علامات ہوتی ہیں۔ مریض کا بلڈ پریشر کم ہوتا ہے تو نبض آہستہ آہستہ مزیدکمزور ہو جاتی ہے، جسم پر دھبے پڑ جاتے ہیں اور جگر بڑھ جاتا ہے۔ جب بیماری دماغ اور حرام مغز پر حملہ کرتی ہے تو فالج بے ہوشی، لقوہ جیسی علامات ہوتی ہیں۔ یا تو مریض کے جسم کا کوئی حصہ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے یا وہ بے ہوش ہو جاتا ہے۔ اس بیماری کی تشخیص کے لیے خون کے ٹیسٹ اور ایکسرے کیے جاتے ہیں۔ دماغ اور حرام مغز میں پہنچنے والی بیماری کی تشخیص سی ٹی CT اور ایم آر آئی MRI سکین سے کی جاتی ہے۔
پہلی سٹیج میں جب وائرس حملہ آور ہوتا ہے تو مندرجہ ذیل علامات ہوتی ہیں۔
-1بخار تیزی سے چڑھتا ہے۔
-2شدید سردرد، جسم اور جوڑوں میں دردیں ہوتی ہیں کمر میں بھی درد ہوتی ہے۔
-3چہرہ سرخ ہو جاتا ہے اور یہ سرخی جسم کے باقی حصہ میں بھی پھیل جاتی ہے۔
-4آنکھیں بھی سرخ ہو جاتی ہیں روشنی اچھی نہیں لگتی اور پانی بہتا ہے آنکھوں کی حرکت سے بھی ان میں درد پیدا ہوتی ہے۔
-5گردن میں گلٹیاں بھی نمودار ہوسکتی ہیں۔
-6گردن میں اکڑاؤ آ جاتا ہے۔
-7نیند نہیں آتی۔
یہ مرحلہ بہت سخت ہوتا ہے اور مریض کی حالت قابل رحم ہو جاتی ہے جس کی وجہ شدت کا بخار اور درد ہے۔ تین سے چار دنوں میں بخار میں کمی آ جاتی ہے اور مریض کی حالت سنبھلنے لگتی ہے۔ اس مرض کا بچاؤ صرف اور صرف ڈینگی مچھر سے بچاؤ ہے جہاں جہاں یہ مچھر پیدا ہو ، وہاں اس کے لیے مچھر مار دواؤں کا استعمال کثرت سے کرنا چاہیے ۔ مارکیٹ میں ایسے تیل بھی ہیں جو جسم اور ہاتھوں کے کھلے حصوں پر لگائے جائیں تو مچھر نہیں کاٹتا۔
اس بیماری کی وجہ سے خون کے جو Platelets ذرات ہیں۔ بہت کم ہو جاتے ہیں اور اس کی وجہ سے جسم کے کئی حصوں میں خون بہہ سکتا ہے اور جلد کے نیچے خون جم جاتا ہے جس سے سرخ دھبے اور نشانات پڑ جاتے ہیں عام طور پر یہ بیماری چھ یا سات دن تک رہتی ہے۔ کئی دفعہ ایک جان لیوا بیماری کی شکل یعنی Dengue Shock Syndrom اختیار کر لیتی ہے۔
علاج
اس بیماری کا علاج مندرجہ ذیل طریقوں سے کیا جا سکتا ہے۔
1۔Supportive Therapy دی جاتی ہے۔
-2بیماری کے دوران مکمل آرام کیا جائے پینے والی اشیاء صاف پانی، مشروبات فریش فروٹ جوس سوپ کااستعمال زیادہ سے زیادہ کیا جائے۔ تازہ پھلوں اور سبزیوں کے سوپ کا استعمال بھی مریض کی توانائی بحال کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
-3اگر مریض زیادہ کھا پی نہ سکے تو پھر Platelets کی Drip لگانا بہت ضروری ہے۔ Platelets کی Drip بلڈ بنک سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
-4پرہیز علاج سے بہتر ہے اس مچھر سے Aedes Aegypti کو پھلنے پھولنے سے مکمل طور پر روکا جائے۔ سب سے اہم بات ایسی جگہوں پر اسپرے ہے جہاں مچھر پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح سے جہاں بھی پانی کھڑا ہو جائے وہاں پانی کھڑا نہ ہونے دیا جائے جہاں ایسا ممکن نہ ہو وہاں فوراً اسپرے کیا جائے ۔ گھروں میں مچھر کے بچاؤ کی تدابیر کرانی چاہئیں جن میں مچھر دانی یعنی Mosquite net کا استعمال بہت ضروری ہے۔
ڈینگی بخار کا غذائی علاج
-1 شہد
ڈینگی بخارکا بہترین علاج یہ ہے کہ ایک چمچ شہد ایک کپ نیم گرم پانی میں ملا کر صبح نہار منہ جبکہ دوپہر اور رات کھانے سے ایک گھنٹہ قبل استعمال کرنا چاہیے۔ پروپولس (رائل جیلی) جو شہد کی مکھی کے چھتے سے نکلتا ہے۔ ایک طاقتور اینٹی وائرل ہے۔ یورپ میں یہ عام دستیاب ہے لیکن وطن عزیز میں ہم اسے شہد نکالے چھتے سے حاصل کر سکتے ہیں۔ اس چھتے کے تین تین گرام کے پیس کاٹ لیں اور ایک ٹکڑا صبح دوسرا شام اور رات دن میں چار مرتبہ چبا کر رس چوس لیں، پروپولس کی مطلوبہ مقدار حاصل ہو جائے گی۔ اس سے قوت مدافعت میں زبردست اضافہ ہو تا ہے جس سے ڈینگی وائرس زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
-2 پپیتے کے پتے
پپیتے کے پتے بھی اس مرض کا شافی علاج ہیں۔ پپیتے کے دو تازہ پتے یا ان کا رس صبح شام پینے سے Platelets حیران کن طور پر چند گھنٹوں میں بڑھ جاتے ہیں۔
-3 کالی مرچ ،کلونجی، چرائتہ ، افسنیتن
کالی مرچ ،کلونجی ،چرائتہ ،افسنتین میں سے ہر ایک دس گرام لے کر باریک پیس لیں۔ تینوں کو اچھی طرح ملا لیں اور ایک گرام دن میں تین مرتبہ صبح دوپہر شام اجوائن اور پودینے کے قہوے کے ساتھ مریض استعمال کرے۔
-4 وٹامن
ڈینگی بخار سے متاثرہ افراد وٹامن کے وٹامن بی اور وٹامن سی سے بھرپور خوراک کا استعمال کریں۔
-5 سبزیاں اور چاول
چاول مونگ کی دال کھچڑی ، شلجم چقندر گاجر گوبھی کریلا، انار سنگترہ، مسمی میٹھا اور امرود اس میں مفید غذا ہے۔
ڈینگی بخار کا موثر علاج ۔۔۔۔۔۔ شربت پپیتہ
ڈینگی وائرس کی روک تھام کے لیے ابھی کوئی ویکسین دریافت نہیں ہوئی ، اس لیے سائنس دان سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی پیش رفت نارتھ کیرولیناسٹیٹ یونیورسٹی نے کی ہے جس میں خاص بیکٹیریا Wolbateria Bacterium کو مادہ مچھر کے جسم میں داخل کیا جائے گا جس سے وہ وائرس آگے منتقل کرنے کے قابل نہیں رہے گی۔
مقامی طور پر ڈینگی کے علاج کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ اس سلسلے میں ' کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی ' کے تحت چلنے والے فلاحی ہسپتالوں میں ''پپیتہ'' کے پتوں کا جوس نکال کر اس میں چند دوسری مفید جڑی بوٹیاں شامل کر کے ''شربت پپیتہ'' تیار کیا گیا ہے۔ پپیتہ کے پتے ڈینگی کا بخار ختم کرنے، جسم میں مدافعت پیدا کرنے اور بیماری کی حالت میں خون کی ''پلیٹلٹس کی مقدار'' نارمل رکھنے میں بے حد کارآمد ہیں۔
قدرت نے ''پپیتہ'' کے پتوں میں بے پناہ صلاحیت رکھی ہے، ڈینگی سے بچاؤ اور علاج کے لیے اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں مچھر دانیوں کو پپیتہ کے پتوں میں بھگو کر تیار کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے پتے بیماری سے بچاؤ اور علاج کے ساتھ مچھروں کو دور بھگاتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق جن گھروں کے لانوں میں پپیتہ کے درخت لگے ہوئے ہیں، ڈینگی پھیلانے والے مچھر وہاں سے دور بھاگتے ہیں۔
مزید برآں مچھروں سے بچاؤ کے لیے پپیتہ کے پتوں سے تیار کردہ Repellents بھی بنائے گئے ہیں۔ پپیتہ کے پتوں میں ایک انزائم ''پاپین'' پایا جاتا ہے۔ جس میں 212 امائنو ایسڈ ہوتے ہیں۔ یہ انزائم جسم میں داخل ہو کر ڈینگی وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز پیدا کرتا ہے جس سے وائرس کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ وائرس کے ختم ہونے سے خون میں پلیٹلٹس کی مقدار بھی نارمل ہو جاتی ہے۔ امائنو ایسڈ کے علاوہ پپیتہ کے پتوں میں وٹامن اے، سی، ای، کے، بی کمپلیکس اور بی 17 بھی پایا جاتا ہے۔
ان پتوں میں موجود فائٹو کیمیکل جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط کرتا ہے۔ جسم میں مدافعتی نظام مضبوط ہونے کے باعث جسم میں داخل ہونے والا وائرس زیادہ پیچیدگیاں نہیں پیدا کر سکتا۔ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ ''پپیتہ'' کے پتوں میں موجود ''پاپین'' میں اینٹی وائرل خصوصیات موجود ہیں۔ علاوہ ازیں ''پاپین'' کا استعمال دوسری بیماریوں جوڑوں کے درد، السر، جسم میں سوجن اور کینسر کی بیماریوں میں بھی مفید ہوتا ہے۔ پپیتہ کے پتوں میں شامل امائنو ایسڈ، معدنیات اور دوسرے قدرتی اجزاء جسم میں قوت پیدا کرتے ہیں اور مدافعتی نظام کو مضبوط کرتے ہیں۔ اس میں شامل وٹامن چہرے کی جھریوں کو بھی کم کرتے ہیں۔ پپیتہ کے پتوں میں موجود فائٹو کیمیکل خون میں شامل ہو کر نہ صرف جسم کے مدافعاتی نظام کو مضبوط کرتے ہیں بلکہ خون میں اِن کے شامل ہونے سے ایسے کیمیائی اجزاء اینٹی باڈیز پیدا ہوتی ہے جو ڈینگی وائرس پر حملہ کر کے اُس کو غیر موثر بنا دیتی ہے۔
شربت پپیتہ استعمال کرنے سے جسم میں قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے اور تقویت ملتی ہے۔ بخار کا خاتمہ ہوتا ہے اور ڈینگی کا وائرس غیر موثر ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پپیتہ کے پتوں میں تمام قدرتی غذائی اجزاء، معدنیات، لحمیات، وٹامن رکھے ہیں۔ جن کی وجہ سے اس کے عرق کا استعمال ڈینگی وائرس کی بیماری کے علاوہ دوسری بیماریوں مثلاً السر، کمزوری، جسم میں درد، جوڑوں میں درد کے لیے بھی مفید ہے۔
(عوامی فلاحی پروگرام کے تحت ڈینگی سے بچاؤ اور علاج کیلئے شربت پپیتہ لاہور اور اسلام آباد میں مفت فراہم کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ لاہور میں کسٹمر ہیلتھ کیئر سوسائٹی کے فلاحی ہسپتال 449 ۔ جہاں زیب بلاک علامہ ا قبال ٹاؤن 0300-9417290 اور اسلام آباد میں 0310-5444701 پر رابطہ کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے )