پاکستان میں پسماندگی
قانون کی پاسداری سے جمہوری ادارے مستحکم ہونگے اور عام آدمی کو تحفظ حاصل ہوگا۔
قانون کی بالادستی کے معاملہ میں پاکستان دنیا کے بدترین ممالک میں شامل ہے۔ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ رول آف لاء انڈکس 2021 کی رپورٹ میں پاکستان کا اسکور 0.39 ظاہرکیا ہے، یوں پاکستان قانون کی بالادستی کے تناظر میں 139ممالک کی فہرست میں 130ویں نمبر پر تعینات کیا گیا ہے۔
نیپال ، سری لنکا، بھارت اور بنگلہ دیش نے قانون کی بالادستی میں پاکستان سے بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔ پاکستانیوں کے لیے خوشی کی خبر یہ ہے کہ ان کا ملک افغانستان سے بہتر ہے۔ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ نے قانون کی بالادستی کے تصور کو یوں عملی شکل دی ہے کہ کرپشن ، بنیادی حقوق ، امن عامہ اور میڈیا کی آزادی کی کیا صورتحال ہے۔ اس رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے کہ فوجداری نظام ، انصاف ، شہری انصاف ، شفاف حکومت اور حکومتی اختیارات اور ضابطوں کے معاملہ میں پاکستان خطہ کے 6ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے۔
امن و امان اور سیکیورٹی کے تناظر میں پاکستان بدترین ممالک میں شامل ہے۔ یہی صورتحال عدالتی نظام کی ہے۔ حکومت کس حد تک عوام کو معلومات کے حصول کے مواقع فراہم کررہی ہے۔ عام آدمی کو اپنی شکایات کے ازالہ کے لیے عدالتی کارروائی غیر ضروری التواء کا شکار نہیں ہورہی ہے اور پورا نظام انصاف کی فراہمی کے معاملہ میں کسی قدر غیر جانب داری اور شفافیت کا مظاہرہ ہورہا ہے۔
بین الاقوامی ادارہ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی یہ رپورٹ ایسے وقت آئی ہے جب تحریک انصاف کی حکومت کا اقتدار چوتھے سال میں داخل ہوا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان نے ان چار برسوں میں ان گنت تقاریر کی ہیں۔ ان تقاریر کا پرائمری نکتہ کرپشن کے نقصانات اور امراء کی کرپشن اور بیرون ممالک امراء کی دولت کا ذکر رہا ہے۔
وفاقی حکومت نے بار بار اعلان کیا کہ کرپشن پر ہرکرپٹ فرد کو سزا دی جانے والی ہے مگر اس حکومت کی چار سالہ تاریخ کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کرپشن کے خاتمہ کے لیے نیب کو متحرک کیا گیا۔ وزراء مسلم لیگ ن کے جس رہنما کے بارے میں گرفتاری کی پیشگوئی کرتے ان وزراء کی پیشگوئی کے بعد یہ رہنما گرفتار ہوجاتے اور چند ماہ کی زندگی جیل میں گزارنے کے بعد ان کے خلاف ثبوت نہ ہونے کی بناء پر رہا ہوئے۔
عدالت نے گزشتہ ہفتہ پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کی ضمانت کی درخواست پر ریمارکس دیتے ہوئے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ نیب نے دو سال تک خورشید شاہ کے خلاف عدالت میں چالان ہی پیش نہیں کیا۔ اسی بناء پر ملک میں یہ تاثر ہوا کہ نیب حکومت کی بی ٹیم ہے۔
اسی طرح نیب نے جن رہنماؤں کے خلاف ریفرنس بھیجے ہیں یہ سب اعلیٰ عدالتوں سے رہا ہوئے ، جب رانا ثناء اﷲ کو ہیروئن اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تو مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے کہا کہ ہیروئن فروخت کرنے کے الزامات بے بنیاد ہیں۔
اب نیب کے آرڈیننس میں ترمیم کرکے وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ نے مختلف وزارتوں اور اداروں کو مستثنی قرار دے کر ثابت کیا کہ اب حکومت کے ایجنڈا میں کرپشن کا خاتمہ نہیں ہے۔ اس رپورٹ میں اچھی طرز حکومت اور عدلیہ کی آزادی کا ذکر ہے۔ یہ بات بار بار ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام مسلسل دباؤ کا شکار ہے۔
سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس مقبول باقر نے گزشتہ ہفتہ کراچی میں سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ایک سیمینار میں اپنے مقالہ میں کہا کہ عدلیہ دباؤ سے آزاد رہ سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ججوں کو کسی دوسرے جج کے دباؤ سے آزاد رہنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کا ایک وسیع تصور ہے۔ عدلیہ کو طاقت کے مراکز سے بے خوف ہو کر فیصلہ کرنے چاہئیں۔ بنچ میں اختلاف رائے کو کچلنے سے نظام عدل کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔
جسٹس مقبول باقر نے مزید فرمایا کہ ججوں کی ملازمت کے فیصلے پسند ناپسند پر کیے جائیں تو عدلیہ تباہ ہوجائے گی۔ مخصوص طبقات کو فیصلے پسند نہ آنے کی بناء پر ترقی اور تعیناتی عدلیہ کے لیے نقصان دہ ہے۔ عدلیہ میں مقدمات کی تقسیم بھی عدلیہ کی آزادی پر اثرانداز ہوتی ہے۔ مقدمات کی تقسیم بھی عدلیہ کے اندرون ماحول کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس حوالہ سے اقوام متحدہ کی گائیڈ لائنز واضح راستہ دکھاتی ہیں۔
جسٹس مقبول باقر نے اس خطاب میں پاکستان کی عدلیہ کی صورتحال کے بارے میں بہت سی باتیں کہہ دی ہیں جو قانون کی بالادستی کے لیے ضروری ہے۔ پاکستان میں نچلی عدالتوں سے سپریم کورٹ تک مقدمات کی بھرمار ہے۔ قانون کی بالادستی کے تصور کو عملی شکل نہ دینے کی بناء پر انصاف کی فوری فراہمی کے لیے مسلسل اقدامات نہیں ہوئے۔ اسی طرح اس حکومت کے دور میں اچھی طرزِ حکومت کا نظریہ عملی شکل اختیار نہیں کرسکا ہے۔
اس دور میں میڈیا کو بار بار کنٹرول کرنے کی کوشش ہورہی ہے ۔ قانون کی بالادستی کا سوال صرف وفاق کی سطح پر ہی نہیں ہے بلکہ صوبوں میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ ابلاغِ عامہ کے پروفیسر سعید عثمانی اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حالیہ سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں سینیٹروں نے ووٹ ڈالتے ہوئے جس طرح اپنا مؤقف بدلا اور وفاقی حکومت نے اس پر جشن منایا اس سے عام آدمی کو یقین ہوگیا کہ وفاق کی سطح سے لے کر یونین کونسل تک کی سطح تک قانون کی بالادستی کا تصور انتہائی کمزور ہے۔
اس صورتحال میں عام آدمی پر کیا گزرے گی۔ یہ سب واضح ہے کہ قانون کی پاسداری سے جمہوری ادارے مستحکم ہونگے اور عام آدمی کو تحفظ حاصل ہوگا۔