چین کے مبینہ ہائپرسونک میزائل تجربے پر امریکا کو تشویش

انتہائی تیزرفتار ہائپرسونک میزائل کا توڑ فی الحال دنیا میں کسی کے پاس بھی موجود نہیں

انتہائی تیزرفتار ہائپرسونک میزائل کا توڑ فی الحال دنیا میں کسی کے پاس بھی موجود نہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے سربراہ، جنرل مارک ملی نے چین کی جانب سے مبینہ ہائپرسونک میزائل تجربے کی تصدیق کرتے ہوئے اسے امریکا کےلیے قابلِ تشویش قرار دیا ہے۔

واضح رہے کہ چینی ہائپرسونک میزائل کے تجربے کی رپورٹ 16 اکتوبر کو امریکی اخبار فائنانشل ٹائمز نے دی تھی۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ چین نے اگست کے مہینے میں ہائپرسونک (آواز سے پانچ گنا یا اس سے بھی زیادہ تیز رفتار) میزائل کا تجربہ کیا ہے جسے نیوکلیائی ہتھیاروں سے لیس کیا جاسکتا ہے۔

رپورٹ میں دعوی کیا گیا کہ اس مبینہ ہائپرسونک میزائل نے نچلے مدار میں رہتے ہوئے زمین کے گرد دو چکر لگائے اور پھر یہ اپنے ہدف کی طرف بڑھا، تاہم یہ مطلوبہ ہدف سے 30 کلومیٹر دور گرا۔

اگلے روز چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اس رپورٹ کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ تجربہ جولائی میں کیا گیا تھا اور اس میں ہائپرسونک میزائل نہیں بلکہ بار بار استعمال کے قابل خلائی جہاز (ری یوزیبل اسپیس کرافٹ) کی آزمائشیں کی گئی تھیں۔


پنٹاگون نے فائنانشل ٹائمز میں شائع ہونے والی رپورٹ کی تصدیق کرنے سے انکار کردیا لیکن بعد ازاں 21 اکتوبر کو اعلان کیا کہ امریکی افواج نے بھی ہائپرسونک میزائل کا کامیاب تجربہ کرلیا ہے۔

گزشتہ روز جنرل ملی بینڈ نے ہائپرسونک میزائل کے چینی تجربے کی تصدیق کرتے ہوئے اسے 'بہت ہی تشویشناک' قرار دیا۔

ہائپرسونک میزائلوں کو خطرناک ترین عسکری ٹیکنالوجی میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ یہ صرف ایک سیکنڈ میں کم از کم دو کلومیٹر فاصلہ طے کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔

اس تیز رفتار میزائل کا توڑ فی الحال دنیا میں کسی کے پاس بھی موجود نہیں۔ اس وقت ہائپرسونک میزائل کی ٹیکنالوجی صرف امریکا، روس، شمالی کوریا اور چین کے پاس ہے جبکہ بھارت بہت تیزی سے اس پر کام کررہا ہے۔

امریکا اور اس کے اتحادی حلقوں میں چین کے دفاعی و خلائی منصوبوں کو تشویش کی نظر سے دیکھا جارہا ہے کیونکہ اس میدان میں چین کی تیز رفتار ترقی امریکی اور یورپی بالادستی کا خاتمہ کرسکتی ہے۔
Load Next Story