عناصر کیسے اور کہاں تشکیل پاتے ہیں

ساری انسانی تاریخ میں صرف اتنا سونا زمین سے نکالا گیا ہے کہ جس سے اولمپک سائز تین سوئمننگ پول بھر جائیں۔


عبد الحمید October 29, 2021
[email protected]

ہماری زمین اورنظامِ شمسی کیمیکل عناصرسے بنے ہیں۔اسی طرح ساری کا ئنات کے اجزائے ترکیبی بھی یہی کیمیائی عناصر ہیں۔یہ عجیب بات ہے کہ یہ عناصر زمین پر پائے تو جاتے ہیں لیکن زمین پر بنتے نہیں۔یہ اس وقت وجود میں آتے ہیں جب کوئی بہت بڑی جسامت والا ستارہ اپنی طبعی زندگی پوری کر کے فنا سے دوچار ہوتا ہے۔

کائنات کے ابتدائی لمحات میں جب ایک دفعہ ایٹم کے اجزائے ترکیبی یعنی پروٹان،نیوٹران اور الیکٹران نے وجود حاصل کر لیا تو اس کے بعد صرف پروٹان کو اسمبل ہو کر،آپس میں جڑ کر عناصر کو جنم دینا تھا۔ کائنات میں سادہ ترین ایٹم ہائیڈروجن کا ہے اس کے مرکز، نیوکلیس میں صرف ایک پروٹان ہے۔

ہائیڈروجن کے ایک پروٹان کے ساتھ جتنے مزید پروٹان جڑتے جائیں گے اتنا ہی پیجیدہ اور بھاری عنصر بنتا چلا جائے گا۔بظاہر تو پروٹان کا جڑناآسان اور سادہ سی بات نظر آتی ہے لیکن یہ کائنات کا مشکل ترین ایک عمل ہے۔

ایٹم کے نیوکلس میں پروٹان کو جمع کرنے کے لیے بہت زیادہ درجہ حرارت درکار ہوتا ہے،اتنا زیادہ درجہ حرارت جو ہمارے پورے نظامِ شمسی میں کہیں بھی ممکن نہیں۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے وجود کا ایک ایک ذرہ،ایک ایک ایٹم کائنات کی وسعتوں میں کہیں اور تیار ہوا ہے۔اس طرح ایک مشکل ترین کیمیائی عمل کے ذریعے وہ خلاقِ عظیم جس کے ارادہ اور حکم پر یہ سب کچھ ممکن ہوتا ہے ، کیا ہم اس کی عظمت،قدرت اور جلالت کی معرفت حاصل کرنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔کیمیکل عناصر کے سادہ ترین وجود سے بہت ہی پیچیدہ وجود کی طرف سفر کو نیوکلر فیوزن کہتے ہیں۔

کائنات میں اس عمل کے لیے جس درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے وہ صرف اورصرف بہت بڑی جسامت والے اجرامِ فلکی ،سورج سے کم از کم 9 گنا بڑے ستارے کے قلب،مرکز Core میں ہی ممکن ہے۔سورج کی سطح پر عام طور پر 6000ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت ہوتا ہے۔یہ ٹمپریچرنیوکلر فیوزن کے لیے انتہائی ناکافی ہے۔

سورج کے قلب میں جہاں ٹمپریچرڈیڑھ کروڑ ڈگری تک پہنچ جاتا ہے وہاں سادہ ترین عنصر ہائیڈروجن جلتے ہوئے صرف ایک اور پروٹان کو جوڑ کر ہیلیم میں تبدیل کر پاتا ہے۔سورج ہر ایک سیکنڈ میں 680 ملین ٹن ہائیڈروجن پھونک دیتا ہے۔

اس جلنے کے عمل کی وجہ سے وہ انرجی اور روشنی پیدا ہوتی ہے جس سے ہماری زندگی کو جاری رکھنا ممکن ہوتا ہے لیکن آپ دیکھیے کہ سورج جیسی حرارت والا ستارہ اتنا ٹمپریچر پیدا کر پاتا ہے جس سے صرف ہائیڈروجن ہیلیم بن پاتی ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ زمین اور کائنات میںپائے جانے والے باقی عناصر کہاں سے آتے ہیں۔

زیادہ بھاری عناصر بننے کے لیے زیادہ بڑے حجم والا ستارہ اور بہت زیادہ درجہ حرارت درکار ہوتاہے لیکن کوئی ستارہ چاہے کتنا ہی بڑا ہو اپنی عمومی زندگی میں صرف ہائیڈروجن کو ہیلیم میں ہی تبدیل کر پاتا ہے البتہ ان بہت بڑے ستاروں میں سے جب ایندھن ختم ہونے پر کسی کی موت آتی ہے تو تب اپنے وجود کے بقا کی جنگ میں وہ تیزی سے جلتا ہے۔اس کا درجہ حرارت اتنا بڑھ جاتا ہے کہ نیوکلر فیوزن ممکن ہو کر زیادہ ہیوی عناصر تشکیل پاتے ہیں۔جب تک کسی ستارے کے پاس پوری قوت سے جلنے کے لیے اور اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے ہائیڈروجن ہے،تو وہ زندہ ہے۔

ایندھن ختم ہونے پر وہ فنا ہو جائے گا لیکن فنا کا یہ عمل خاموشی سے نہیں ہوتا۔اس مرحلے پر ایسا ستارہ اپنے اصلی حجم سے کئی گنا زیادہ پھول جاتا ہے۔اس Bloatedحجم کوبیرونی سطح پر پہلے سے بڑا درجہ حرارت درکار ہوتا ہے لیکن وہ درکار درجہ حرارت برقرار نہیں رکھ پاتا۔سطح پر ٹمپریچر کی کمی کی وجہ سے فنا سے دوچار ستارے کی رنگت انتہائی سرخ اور سیاہ ہو جاتی ہے۔ سطح پر کیا ہو رہا ہے اس کی نسبت ستارے کی Coreمیں جو کچھ ہو رہا ہے ،کائنات کی زندگی اس سے جڑی ہوتی ہے۔

پہلی اسٹیج پر ستارہ اپنی کششِ ثقل کے خلاف ایک مشکل جنگ لڑرہا ہوتا ہے۔Gravity کے حاوی ہونے پر ستارے کا پورا ڈھانچہ اس کی Coreپر دھڑام سے گر سکتا ہے۔انرجی کے زیادہ اخراج سے باہر کی جانب ایک دباؤ پیدا ہوتا ہے جو ستارے کے قلب اور کششِ ثقل کے مابین ایک بیلنس کا کام کرتا ہے۔ یوں ستارہ وقتی طور پر Stableہو جاتا ہے لیکن آخرکار ہائیڈروجن نے ختم تو ہوناہے۔

انرجی کا اخراج رکنے سے ستارے کی Core Collapse کرنے لگتی ہے اور ایک خول سا باقی رہ جاتا ہے۔جب خول کے نیچے Core Collapse کرے گی تو ایک مرتبہ پھر بچی کھچی ہائیڈروجن بہت تیزی سے بھڑکے گی اور ستارے کا درجہ حرارت کئی سو ملین ڈگری پر پہنچ جائے گا تو عناصر تشکیل کی دوسری اسٹیج شروع ہو جائے گی۔اس اسٹیج پر ہیلیم فیوزن ہوتی ہے جس کی وجہ سے دو عمل پیدا ہوتے ہیں۔ایک تو بہت زیادہ انرجی خارج ہو تی ہے ۔ دوسرا دو نئے عناصر کاربن اور آکسیجن پیدا ہوتے ہیں۔ یہ دونوں عناصر ہر زندگی کے لیے انتہائی اہم ہیں۔

ہیلیم فیوزن کے دوران جب ہیلیم کی سپلائی کم پڑنے لگتی ہے تو ستارے کی کشش ثقل ایک بار پھر حاوی ہونے لگتی ہے ۔ ایک دفعہ پھر ستارے کا درجہ حرارت بڑھتا ہے تو عناصر کے تشکیل کی تیسری اسٹیج شروع ہو کر میگنیشیم،سوڈیم،نیوآن اور ایلومینیم جیسے عناصر بنتے ہیں۔فنا سے دوچار ستارہ اب آخری مراحل میں ہوتاہے۔ستارے کا قلب بے انتہا ٹمپریچر اور انرجی کے اخراج کی وجہ سے ٹھوس لوہے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔کیا ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ فنا سے دوچار ستارہ لوہے کو بنانے کے لیے جانکنی کے کن مراحل سے گزرتا ہے۔

قرآنِ کریم کی سورۃ حدید میں ارشادِ باری تعالیٰ کہ ''ہم نے آسمان سے لوہے کو اتارا جس میں بہت زور ہے''کو اس مشکل ترین پراسس کو جان لینے کے بعد آیت سے پھوٹنے والے نور کی روشنی میں سمجھ سکتے ہیں۔لوہے سے بھی بھاری عناصر تب بنتے ہیں جب ستارے کا قلب بالکل بیٹھنے لگتا ہے اور گریوٹی آخری حد پر حاوی ہونے لگتی ہے۔ستارے کے قلب کا ٹمپریچر اربوں ڈگری پر پہنچ جاتا ہے۔ایسی حالت میں کوئی 15سیکنڈ ایسے ہوتے ہیں جب چاندی، سونا، یورینیم اور دوسری نایاب دھاتیں بنتی ہیں۔نایاب عناصر اپنی کم یابی کی وجہ سے بہت قیمتی ٹھہرتے ہیں۔

ساری انسانی تاریخ میں صرف اتنا سونا زمین سے نکالا گیا ہے کہ جس سے اولمپک سائز تین سوئمننگ پول بھر جائیں۔ سونے جیسے بھاری عناصر بنانے کی یہ صورت کوئی ایک سو سال میں صرف ایک مرتبہ کسی فنا سے دوچار عظیم ستارے میں پیدا ہوتی ہے ورنہ بہت بڑے ستارے بھی لوہا بنا کر مٹ جاتے ہیں۔ قارئینِ کرام! کوئی عقلِ سلیم رکھنے والا ہی اﷲ جو بدیع،فاطر اور خلاقِ عظیم ہے، کی اس محیرالعقول صناعی کو قرآنِ کریم کی آیات کے نور سے سمجھ سکتا ہے۔ اﷲ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے نور کی طرف ہدایت دے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔