پاکستان کی فتح اور بھارتی انتہا پسندی
انھیں پاکستان کی فتح اور اپنی ٹیم کی عبرت ناک شکست ہضم نہیں ہو رہی ہے۔
میدان کھیل کا ہو یا جنگ کا ، مقابلہ اگر بھارت سے ہے تو پوری قوم یک جان ہو جاتی ہے، ہر دو مواقعوں پر بچے ، نوجوان ، بوڑھے ، مرد اور خواتین ایک صفحے پر جمع ہو کر ایک آواز بن جاتے ہیں۔ کراچی سے خیبر تک ہر ایک زبان پر ایک ہی کلمہ ہوتا ہے اور وہ کلمہ ہے '' نصر من اللہ و فتح قریب۔''
دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے بھارتی کرکٹ ٹیم کے خلاف شاندار اور تاریخی فتح حاصل کرکے ورلڈ کپ مقابلوں میں بھارت کے خلاف مسلسل شکستوں کا داغ دھو دیا۔ بھارت کی تواتر کے ساتھ فتح کا غرور خاک میں ملا دیا۔ عالمی شہرت یافتہ بلے باز بابر اعظم کی قیادت میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے بھارت کو دھول چاٹنے پر مجبورکردیا۔
بولنگ ، بیٹنگ اور فیلڈنگ تمام شعبوں میں بھارت کو آؤٹ کلاس کرکے عبرت ناک شکست سے دوچار کردیا۔ T-20 مقابلوں میں 150 رنز معقول ہدف سمجھا جاتا ہے۔ فاسٹ بولر شاہین آفریدی نے ابتدائی اوور میں دو اہم بھارتی کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے انڈین کیمپ میں کھلبلی مچا دی۔ باقی کسر حارث رؤف اور حسن علی نے پوری کردی اور بھارت کو 150 رنز تک محدود رکھا۔ ویرات کوہلی جیسا منجھا ہوا بلے باز بھی جس پر بھارتی بجا طور پر فخرکرتے ہیں، پاکستان کے نوجوان بولروں کے سامنے کھل کر نہ کھیل سکا۔
جب کہ پاکستان کے مایہ ناز بلے باز کپتان بابر اعظم اور رضوان نے بھارتی بولروں کی بولنگ کے پرخچے اڑا دیے۔ بھارتی بولرز اور فیلڈر رضوان اور بابر اعظم کی بیٹنگ رفتار کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے رہے۔ بھارتی بولرز اور کپتان کوہلی آخر تک پاکستان کی ایک وکٹ لینے کو ترستے رہے لیکن بابر اور رضوان نے ان کی خواہش پوری نہ ہونے دی اور دس وکٹوں کی تاریخی فتح حاصل کرکے بھارت کا غرور خاک میں ملا دیا۔
پاکستان کی تاریخی فتح پر صدر، وزیر اعظم اور آرمی چیف، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، بلاول بھٹو اور دیگر سیاسی و سماجی شخصیات اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے قومی کرکٹ ٹیم کو بھارت کے خلاف تاریخی فتح پر دلی مبارک باد پیش کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستانی ٹیم T-20 ورلڈ کپ جیت کر وطن لوٹے گی۔
پاکستان کی تاریخی فتح پر اندرون وطن خوشیوں کی لہر دوڑ گئی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے ہیں، بھنگڑے ڈال رہے ہیں، مٹھائیاں تقسیم کر رہے اور کراچی تا خیبر جشن منا رہے ہیں، تو دوسری جانب بھارت میں قومی ٹیم کی شکست پر شام غریباں برپا ہے، گھر گھر ماتم کا سماں ہے۔ بھارت کا میڈیا اور سابق کرکٹرز بھارتی کپتان ویرات کوہلی اور پوری ٹیم کا پوسٹ مارٹم کر رہے ہیں۔
انھیں پاکستان کی فتح اور اپنی ٹیم کی عبرت ناک شکست ہضم نہیں ہو رہی ہے، میچ کے آغاز سے قبل بعض سابق بھارتی کرکٹرز اور میڈیا نے پاکستان کے مقابلے میں اپنی ٹیم کی برتری و کامیابی کے بلند و بانگ دعوے کیے تھے۔ پاکستان کی جیت پر انھیں سانپ سونگھ گیا ہے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اپنی ٹیم کی ناکامی کا دفاع کیسے کریں۔فتح اور شکست ہر کھیل کا حصہ ہے اور کھیل کو کھیل ہی کی طرح لینا چاہیے۔ ہار جیت کو کھیل کی اسپرٹ کی طرح قبول کرنا چاہیے۔ کھلے دل سے ایک دوسرے کی کامیابی کو قبول کرنا چاہیے۔
پاکستان بھارت کے علاوہ دیگر ٹیموں سے بھی ہار جاتا ہے۔ اسی طرح بھارت پاکستان کے علاوہ بھی دوسرے ممالک کی ٹیموں سے شکست کھا جاتا ہے لیکن کہیں کوئی صف ماتم نہیں بچھتی اور نہ ہی دونوں ممالک یعنی پاکستان اور بھارت میں گلی، محلے، گاؤں اور شہروں میں جشن کا سماں ہوتا ہے، اپنی اپنی ٹیم کی شکست کو خاموشی سے عوامی سطح پر قبول کرلیا جاتا ہے۔ لیکن جب بھارت اور پاکستان کی کرکٹ ٹیمیں مدمقابل ہوں تو لگتا ہے کہ کرکٹ نہیں بلکہ جنگ کے میدان میں پاک بھارت مقابلہ ہو رہا ہے۔
عوام اور خواص ہر دو سطح پر عزت و وقار اور انا کا معاملہ بن جاتا ہے۔ باہمی دشمنی کا ماحول پروان چڑھنے لگتا ہے، ایک دوسرے کے خلاف نفرت بھرے جذبات غالب آجاتے ہیں، جوکہ ایک غیر سنجیدہ طرز عمل ہے۔ پاکستان کے لوگ تو بھارت سے شکست پر آپس میں کہہ سن کر دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں لیکن بھارت میں ایسا نہیں ہے۔
بھارتی عوام، میڈیا اور انتہا پسند حلقے اپنی ٹیم کی شکست کھلے دل سے قبول نہیں کرتے اور نہ صرف یہ کہ پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا شروع کردیتے ہیں بلکہ بھارت کی انتہا پسند ہندو تنظیمیں وہاں رہائش پذیر مسلمانوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ شروع کردیتی ہیں۔ مسلمانوں کی املاک اور کاروبار کو تباہ کردیا جاتا ہے، ہندو غنڈا عناصر مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگا دیتے ہیں اور قتل و غارت گری کرکے اپنے جذبات کی تسکین کرتے ہیں۔
بعض اخباری اطلاعات کیمطابق دبئی میں بھارتی ٹیم کی عبرت ناک شکست کے بعد بھارت میں ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ بھارت کے مختلف شہروں سے ایسی خبریں رپورٹ ہو رہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی پاکستان کی فتح کا جشن منانیوالے مسلمانوں کے خلاف بھارت کی فورسز کارروائیاں کر رہی ہے۔
بھارت سیکولر اسٹیٹ کا دعویٰ کرتا ہے کہ یہاں تمام اقلیتوں کو آئین کے تحت حقوق حاصل ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بھارت کے انتہا پسند حلقے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف جو پرتشدد کارروائیاں کر رہے ہیں
ان سے بھارت کے سیکولر اسٹیٹ کا پردہ چاک ہو گیا ہے۔ بالخصوص مسلمانوں کے خلاف گجرات، آسام اور مقبوضہ وادی میں بھارتی حکمران ریاستی دہشتگردی کے ذریعے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل کر اپنے ہی دعوؤں کی نفی کر رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے لوگ 70 سال سے استصواب رائے کے اپنے حق کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں لیکن بھارت کے کسی حکمران نے ان کی آواز پر کان نہیں دھرے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں اس ضمن میں بھارت کے لیے کاغذ کا بے مقصد ٹکڑا بن کر رہ گئی ہیں۔
اس پہ مستزاد عالمی برادری کا منافقانہ اور سفاکانہ رویہ ہے جسے بھارت میں بہتا ہوا مسلمانوں کا خون نظر نہیں آتا۔سوال یہ ہے کہ بھارت کے خلاف پاکستان کی شکست پر کیا یہاں رہنے والی ہندو اقلیت کو مسلمانوں کی طرف سے پرتشدد کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ افسوس کہ ایسا نہیں ہے، شکست پر یہاں کسی ہندو کا گھر نہیں جلایا جاتا ، کسی ہندو کو قتل نہیں کیا جاتا بلکہ ان کے آئینی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جاتا ہے، مہذب قوم کی یہی پہچان ہے، انتہا پسند بھارتیوں کو اپنی ٹیم کی شکست کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے، یہی کھیل کی روح ہے اور باوقار قوم کی پہچان بھی۔
دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے بھارتی کرکٹ ٹیم کے خلاف شاندار اور تاریخی فتح حاصل کرکے ورلڈ کپ مقابلوں میں بھارت کے خلاف مسلسل شکستوں کا داغ دھو دیا۔ بھارت کی تواتر کے ساتھ فتح کا غرور خاک میں ملا دیا۔ عالمی شہرت یافتہ بلے باز بابر اعظم کی قیادت میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے بھارت کو دھول چاٹنے پر مجبورکردیا۔
بولنگ ، بیٹنگ اور فیلڈنگ تمام شعبوں میں بھارت کو آؤٹ کلاس کرکے عبرت ناک شکست سے دوچار کردیا۔ T-20 مقابلوں میں 150 رنز معقول ہدف سمجھا جاتا ہے۔ فاسٹ بولر شاہین آفریدی نے ابتدائی اوور میں دو اہم بھارتی کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے انڈین کیمپ میں کھلبلی مچا دی۔ باقی کسر حارث رؤف اور حسن علی نے پوری کردی اور بھارت کو 150 رنز تک محدود رکھا۔ ویرات کوہلی جیسا منجھا ہوا بلے باز بھی جس پر بھارتی بجا طور پر فخرکرتے ہیں، پاکستان کے نوجوان بولروں کے سامنے کھل کر نہ کھیل سکا۔
جب کہ پاکستان کے مایہ ناز بلے باز کپتان بابر اعظم اور رضوان نے بھارتی بولروں کی بولنگ کے پرخچے اڑا دیے۔ بھارتی بولرز اور فیلڈر رضوان اور بابر اعظم کی بیٹنگ رفتار کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے رہے۔ بھارتی بولرز اور کپتان کوہلی آخر تک پاکستان کی ایک وکٹ لینے کو ترستے رہے لیکن بابر اور رضوان نے ان کی خواہش پوری نہ ہونے دی اور دس وکٹوں کی تاریخی فتح حاصل کرکے بھارت کا غرور خاک میں ملا دیا۔
پاکستان کی تاریخی فتح پر صدر، وزیر اعظم اور آرمی چیف، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، بلاول بھٹو اور دیگر سیاسی و سماجی شخصیات اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے قومی کرکٹ ٹیم کو بھارت کے خلاف تاریخی فتح پر دلی مبارک باد پیش کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستانی ٹیم T-20 ورلڈ کپ جیت کر وطن لوٹے گی۔
پاکستان کی تاریخی فتح پر اندرون وطن خوشیوں کی لہر دوڑ گئی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے ہیں، بھنگڑے ڈال رہے ہیں، مٹھائیاں تقسیم کر رہے اور کراچی تا خیبر جشن منا رہے ہیں، تو دوسری جانب بھارت میں قومی ٹیم کی شکست پر شام غریباں برپا ہے، گھر گھر ماتم کا سماں ہے۔ بھارت کا میڈیا اور سابق کرکٹرز بھارتی کپتان ویرات کوہلی اور پوری ٹیم کا پوسٹ مارٹم کر رہے ہیں۔
انھیں پاکستان کی فتح اور اپنی ٹیم کی عبرت ناک شکست ہضم نہیں ہو رہی ہے، میچ کے آغاز سے قبل بعض سابق بھارتی کرکٹرز اور میڈیا نے پاکستان کے مقابلے میں اپنی ٹیم کی برتری و کامیابی کے بلند و بانگ دعوے کیے تھے۔ پاکستان کی جیت پر انھیں سانپ سونگھ گیا ہے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اپنی ٹیم کی ناکامی کا دفاع کیسے کریں۔فتح اور شکست ہر کھیل کا حصہ ہے اور کھیل کو کھیل ہی کی طرح لینا چاہیے۔ ہار جیت کو کھیل کی اسپرٹ کی طرح قبول کرنا چاہیے۔ کھلے دل سے ایک دوسرے کی کامیابی کو قبول کرنا چاہیے۔
پاکستان بھارت کے علاوہ دیگر ٹیموں سے بھی ہار جاتا ہے۔ اسی طرح بھارت پاکستان کے علاوہ بھی دوسرے ممالک کی ٹیموں سے شکست کھا جاتا ہے لیکن کہیں کوئی صف ماتم نہیں بچھتی اور نہ ہی دونوں ممالک یعنی پاکستان اور بھارت میں گلی، محلے، گاؤں اور شہروں میں جشن کا سماں ہوتا ہے، اپنی اپنی ٹیم کی شکست کو خاموشی سے عوامی سطح پر قبول کرلیا جاتا ہے۔ لیکن جب بھارت اور پاکستان کی کرکٹ ٹیمیں مدمقابل ہوں تو لگتا ہے کہ کرکٹ نہیں بلکہ جنگ کے میدان میں پاک بھارت مقابلہ ہو رہا ہے۔
عوام اور خواص ہر دو سطح پر عزت و وقار اور انا کا معاملہ بن جاتا ہے۔ باہمی دشمنی کا ماحول پروان چڑھنے لگتا ہے، ایک دوسرے کے خلاف نفرت بھرے جذبات غالب آجاتے ہیں، جوکہ ایک غیر سنجیدہ طرز عمل ہے۔ پاکستان کے لوگ تو بھارت سے شکست پر آپس میں کہہ سن کر دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں لیکن بھارت میں ایسا نہیں ہے۔
بھارتی عوام، میڈیا اور انتہا پسند حلقے اپنی ٹیم کی شکست کھلے دل سے قبول نہیں کرتے اور نہ صرف یہ کہ پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا شروع کردیتے ہیں بلکہ بھارت کی انتہا پسند ہندو تنظیمیں وہاں رہائش پذیر مسلمانوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ شروع کردیتی ہیں۔ مسلمانوں کی املاک اور کاروبار کو تباہ کردیا جاتا ہے، ہندو غنڈا عناصر مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگا دیتے ہیں اور قتل و غارت گری کرکے اپنے جذبات کی تسکین کرتے ہیں۔
بعض اخباری اطلاعات کیمطابق دبئی میں بھارتی ٹیم کی عبرت ناک شکست کے بعد بھارت میں ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ بھارت کے مختلف شہروں سے ایسی خبریں رپورٹ ہو رہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی پاکستان کی فتح کا جشن منانیوالے مسلمانوں کے خلاف بھارت کی فورسز کارروائیاں کر رہی ہے۔
بھارت سیکولر اسٹیٹ کا دعویٰ کرتا ہے کہ یہاں تمام اقلیتوں کو آئین کے تحت حقوق حاصل ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بھارت کے انتہا پسند حلقے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف جو پرتشدد کارروائیاں کر رہے ہیں
ان سے بھارت کے سیکولر اسٹیٹ کا پردہ چاک ہو گیا ہے۔ بالخصوص مسلمانوں کے خلاف گجرات، آسام اور مقبوضہ وادی میں بھارتی حکمران ریاستی دہشتگردی کے ذریعے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل کر اپنے ہی دعوؤں کی نفی کر رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے لوگ 70 سال سے استصواب رائے کے اپنے حق کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں لیکن بھارت کے کسی حکمران نے ان کی آواز پر کان نہیں دھرے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں اس ضمن میں بھارت کے لیے کاغذ کا بے مقصد ٹکڑا بن کر رہ گئی ہیں۔
اس پہ مستزاد عالمی برادری کا منافقانہ اور سفاکانہ رویہ ہے جسے بھارت میں بہتا ہوا مسلمانوں کا خون نظر نہیں آتا۔سوال یہ ہے کہ بھارت کے خلاف پاکستان کی شکست پر کیا یہاں رہنے والی ہندو اقلیت کو مسلمانوں کی طرف سے پرتشدد کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ افسوس کہ ایسا نہیں ہے، شکست پر یہاں کسی ہندو کا گھر نہیں جلایا جاتا ، کسی ہندو کو قتل نہیں کیا جاتا بلکہ ان کے آئینی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جاتا ہے، مہذب قوم کی یہی پہچان ہے، انتہا پسند بھارتیوں کو اپنی ٹیم کی شکست کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے، یہی کھیل کی روح ہے اور باوقار قوم کی پہچان بھی۔