کراچی منگھوپیر کے تعلیمی اداروں کی بدحالی
محکمہ تعلیم کے افسران کی توجہ ان اسکولوں کی جانب ہے ہی نہیں۔
معروف صوفی بزرگ خواجہ حسن سخی سلطان عرف منگھو پیر کی درگاہ شریف ،کراچی کے شمال مغرب میں سندھ و بلوچستان کی صوبائی سرحد پر واقع ہے ، اسی نسبت سے اس پورے علاقے کا نام منگھو پیر ہے۔
13ویں صدی میں جب منگول عراق پر حملہ کر رہے تھے تو اس وقت منگھو عراق سے یہاں تشریف لے آئے۔ منگھو نے جنوبی پنجاب اور صوبہ سندھ سے سفر کرتے ہوئے کراچی میں سکونت اختیار کی تھی۔
اس وقت کراچی میں ماہی گیروں کے چھوٹے چھوٹے گاؤں آباد تھے اور منگھو جس جگہ پر عبادت کرنے کے لیے ٹھہرے وہ الگ تلگ ایک پہاڑی کے اوپر اورکجھور کے درختوں سے گھری ہوئی تھی۔ جلد ہی ماہی گیروں کے دیہاتوں کے لوگوں نے ان کی پیروی شروع کردی جب ان کی وفات ہوئی تو مقامی لوگوں نے اسی جگہ پر چھوٹا سا مزار تعمیر کردیا۔
ایک روایت ہے کہ پہلے منگھو ایک ڈاکو تھے بابا فرید کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور جرائم سے تائب ہوگئے۔ منگھو نے پھر بابا فرید کی رہنمائی میں تصوف کی مشق شروع کردی اور انھیں بعد میں پیرکا خطاب دیا گیا ، جس سے وہ منگھو پیر کہلانے لگے ۔
آپ کے مسکن کے نزدیک ایک گندھک والے گرم پانی کا ایک چشمہ جاری ہوگیا ، جہاں آج بھی زائرین جلد کے امراض کے علاج کی امید میں غسل کرنے جاتے ہیں اور شفاء پاتے ہیں۔ ہر سال 8 ذوالحجہ کو ہزاروں عقیدت مند سلطان سخی منگھو پیر کا عرس مناتے ہیں۔ اس کے علاوہ ساون کے مہینے سے پہلے شیدی میلہ بھی منعقد کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ منگھو پیر کا مزار مگرمچھوں کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔
یوں تو منگھو پیر کے علاقے میں انسانی بنیادی سہولیات کا فقدان برسوں سے چلا آرہا ہے جس کی تفصیل طویل ہے، زیر نظر کالم میں ہم صرف منگھوپیر کے علاقے میں قائم سرکاری اسکولوں کی بدحالی کا ذکر کررہے ہیں ، جو کھنڈر بن گئے ہیں یہاں کے بیشتر سرکاری اسکول فرنیچرز اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہونے کے علاوہ اس اسکولوں کی عمارتیں کچرا کنڈی میں تبدیل ہوگئی ہیں جو منشیات کے عادی افراد اور جرائم پیشہ عناصر کی آماجگاہ بن گئی ہیں۔
گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول (سندھی میڈیم) گرم چشمہ اور گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکول (اردو میڈیم )گرم چشمہ ، کراچی کے تاریخی اسکولوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان اسکولوں میں کسی زمانے میں پاکستان ٹیلی ویژن کے سندھی اور اردو ڈراموں کے معروف اداکار نور محمد لاشاری (مرحوم ) ہیڈ ماسٹر رہے تھے۔
ہزاروں بچے اور بچیوں نے اس اسکول سے تعلیم حاصل کی اور آج اس اسکول کی شکستہ حال عمارت تعلیمی افسران کی نااہلی اور غفلت کی داستان سنا رہی ہے۔ ایک ہی چار دیواری میں قائم 2 اسکولوں میں بچے کم اور اساتذہ زیادہ ہیں۔ بیشتر اساتذہ اسکول کا رخ نہیں کرتے ، اسکولوں کی عمارتیں پانی ، بجلی اور دیگر بنیادی سہولتوں سے یکسر محروم ہیں فرنیچرز کاٹھ کباڑ کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اسکولوں میں کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔
گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول مکرانی پاڑہ جس پر ملا جان محمد گوٹھ کی تختی لگی ہوئی ہے ، اس اسکول کی حالت گزشتہ کئی سالوں سے تباہی کی داستان سنا رہی ہے۔ دو کمروں پر مشتمل یہ اسکول لاوارث نظر آتا ہے۔ شکستہ حال اسکول کی چھت جگہ جگہ سے ادھڑ چکی ہے اور بوسیدہ ہوکر گرنے کے قریب ہے دروازے کھڑکیاں الماری فرنیچرز غائب ہیں، چار دیواری گر چکی ہے اسکول میں بچے خوف کے باعث نہیں آرہے ہیں۔ ایسی صورت میں والدین نے اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ اسی طرح گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول یعقوب شاہ بستی بھی کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے۔
اس اسکول کے2کمروں میں 140کے قریب بچے زیر تعلیم ہیں جنھیں ایک استاد پڑھا رہا ہے اور بیک وقت 5جماعتوں کو ایک ساتھ پڑھایا جاتا ہے۔ اس اسکول کو ایک سیاسی ورکر نے کرائے پر چڑھا دیا اور پانچ سال تک کرایہ لیتا رہا۔ محکمہ تعلیم سندھ کے پاس ایسے اسکولوں کے لیے ایک ہی حل ہے کہ اسکول کی عمارت کو تالے ڈال کر عملے اور اساتذہ کو دیگر اسکولوں میں جوائنگ کی ہدایت جاری کردی جاتی ہے لیکن بند اسکولوں کو کھلوانے یا تعمیر و مرمت یا تعلیمی ترقی کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا ۔
سر مستانی محلے میں قائم گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول حاجی محمود گوٹھ میں 137بچوں کے لیے صرف ایک ہی ٹیچر موجود ہے۔ بائیو میٹرک کے باوجود باقی ٹیچرز پچھلے دو سال سے گھر بیٹھے تنخواہ وصول کررہی ہیں چوکیدار اور دیگر عملہ لاپتہ ہیں۔ دو کمروں پر مشتمل اس اسکول میں سہولتیں کچھ بھی نہیں۔ اسی طرح گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول بنارس (ایک ) پختون آباد 2002میں تعمیر ہونے کے بعد سے اب تک تعلیمی سرگرمیوں ، اساتذہ و دیگر عملے سے محروم ہے۔
19برس گزر نے کے بعد یہ اسکول کھنڈر بن گیا ہے 2کمروں پر مشتمل اسکول کی چار دیواری گر چکی ہے ، اسکول کچرا کنڈی کے طور پر استعمال ہو رہا ہے نشے کے عادی جرائم پیشہ افراد کے زیر استعمال ہے ، اسکول میں نشے کے عادی افراد نے ڈیرے ڈال لیے ہیں یہاں بھی ایجوکیشن افسران نے مذکورہ اسکول کو منگھو پیر ایکسٹینشن کیمپس میں منتقل کرنے کی روایت برقرار رکھتے ہوئے پختون آباد کے مقامی بچوں کو تعلیم سے دورکر دیا ہے۔
سماجی رہنما عبدالغنی کا کہنا ہے کہ محکمہ تعلیم سندھ کی غفلت کی وجہ سے نئی نسل تعلیم کی روشنی سے محروم ہوکر منفی سرگرمیوں کی جانب راغب ہو رہی ہے۔ علاقہ مکینوں نے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ، صوبائی وزیر تعلیم اور سیکریٹری تعلیم سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کھنڈرات نما اسکولوں کی فوری طور پر تعمیر و مرمت کے کام کیے جائیں اور ترقیاتی کاموں اور مرمت کے لیے ملنے والے ایس ایم سی فنڈ میں ہونے والی بے قاعدگیوں اور خورد برد کی تحقیقات کرائی جائے اور گھوسٹ اساتذہ کو برطرف کیا جائے ۔
علاقہ منگھو پیر کے مذکورہ بالا سرکاری اسکولوں کی قابل رحم حالات کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ محکمہ تعلیم کے افسران کی توجہ ان اسکولوں کی جانب ہے ہی نہیں۔ ان کو صرف ماہوار ہزاروں روپے کی تنخواہ سے غرض ہے باقی ان کی طرف سے بچوں کی تعلیم جائے بھاڑ میں۔
محکمہ تعلیم کی لاپرواہی تو واضح ہے لیکن ساتھ ہی صوبائی وزارت تعلیم کو بھی ہوش نہیں ہے کہ اس کے زیر سایہ پلنے والے تعلیمی افسران کی غفلت لاپرواہی اور بے قاعدگیاں عروج پر ہیں اور ان کو کوئی پوچھنے والی اتھارٹی ہی نہیں ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صوبائی وزارت تعلیم خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے۔