بڑھتے ذہنی امراض

صرف ایک دن کے اخبار کی خبریں ہی کسی بھی شخص کو ذہنی بیمار کرنے کے لیے کافی ہیں۔


سید معظم حئی October 29, 2021
[email protected]

مرد ہیں کہ عورتوں کو جھاپڑ جڑ رہے ہیں، جوتم پیزارکا عالم یہ ہے کہ مرد عورتوں کو دھکے دے دے کر گھروں سے نکال رہے ہیں ، مار کٹائی ، چیخ پکار مچی ہوئی ہے ، ادھر عورتیں عورتوں کے جھونٹے نوچ رہی ہیں، بچوں کی الگ شامت آئی ہوئی ہے ، لوگ بستر مرگ پہ پڑے ایڑیاں رگڑ رہے ہیں، جنازوں پہ جنازے اٹھ رہے ہیں، عورتیں بین ڈال رہی ہیں۔

جی نہیں، یہ کسی پاگل خانے سے لائیو کمنٹری نہیں کی جا رہی بلکہ '' تفریحی '' ڈراموں کا کچھ حال بیان کیا جا رہا ہے اور جی نہیں ہم ہرگز مبالغہ آرائی سے کام نہیں لے رہے بلکہ سچ پوچھیے تو ان ڈراموں کی منظرکشی کرنے میں ابھی بھی کسر نفسی سے دوچار ہیں ورنہ ان ڈراموں کا حال تو ایسا بے حال ہے کہ نارمل انسان جو انھیں دیکھے تو رونگھٹے کھڑے ہوجائیں اور یہ کسی ایک آدھ ڈرامے کا حال احوال نہیں بلکہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اور یہ سائیکو ڈرامے دکھائے کہاں جا رہے ہیں؟ جی ہاں ہمارے اس معاشرے میں جہاں پہلے ہی ہر سو مار دھاڑ، دنگا فساد ، چیخ پکار ، ہنگامہ آرائی ، شور شرابے ، نفسا نفسی کا بیمار ماحول ہے۔

جہاں صرف ایک دن کے اخبار کی خبریں ہی کسی بھی شخص کو ذہنی بیمار کرنے کے لیے کافی ہیں۔ مثلاً '' باپ نے اپنے نو ماہ کے بچے کو تشدد کرکے مار ڈالا، مخالفوں نے ایک شخص کی آنکھوں میں کیلیں ٹھونک دیں،گھریلو ملازمہ کے طور پہ کام کرنیوالی تیرہ سالہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔ یہ سائیکو ڈرامے اس معاشرے میں ہر وقت دکھائے جاتے ہیں جہاں بات بات پہ قتل ہو جاتے ہیں، جہاں ہر روز انسانوں پہ تیزاب پھینکا جاتا ہے، جہاں جعلی دوائیں بیچی جاتی ہیں اور لوگ اپنے بچے بیچنے پر مجبور ہیں۔

اب ذرا یہ بھی تو دیکھیے کہ ان ہسٹاریکل ڈراموں کو دیکھنے والے ہیں کون؟ زیادہ تر خواتین جن میں زیادہ تر وہ ہیں کہ جن کی اپنے مردوں کی طرح شہری آداب ، سماجی رکھ رکھاؤ اور اخلاقی اقدار کی کبھی تربیت ہی نہیں کی گئی اور ان ڈراموں کی کہانیاں کیا ہوتی ہیں؟ وہی گھسے پٹے عشق محبت ، منگنی ، شادی ، طلاق ، گرل فرینڈ ، بوائے فرینڈ کے معاملات ، تقریباً ہر ڈرامے میں ہی آپ کو یہی مسائل ملیں گے اور یہ ''مسائل'' دکھائے کن لوگوں کے جاتے ہیں؟ بڑے بڑے عالی شان بنگلوں میں رہنے والوں کے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب ڈرامے زیادہ تر اسٹوڈیو میں سیٹ پر فلمائے جاتے تھے۔

یہ سیٹ سیٹ ہی لگتے تھے ، سچ مچ کے شیش محل نہیں کیونکہ اصلی گھروں میں شوٹ کرنا اس وقت ایک مشکل کام تھا۔ ڈیجیٹل اور فلم دونوں فارمیٹ کے کیمروں کے لیے سچ مچ کے مکانوں میں شوٹ کرنے کے لیے کئی طرح کی لائٹس اور دوسرے لوازمات درکار ہوتے تھے۔ پھر ایچ ڈی کیمروں کا دور آیا اور جیسے جیسے فلم کیمروں کا سائز چھوٹا ہوتا گیا ویسے ویسے فلم بندی آسان ہوتی گئی اور پکچر کوالٹی کنٹرول بہتر ہوتا گیا ، چنانچہ اب تقریباً ہر ڈرامہ ہی رئیل لوکیشن پر شوٹ ہوتا ہے۔ ملک میں کیونکہ کرپشن یعنی حرام مال کی تاریک معیشت کا راج ہے تو اب ڈراموں میں دکھانے کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک محل نما عالی شان بنگلے دستیاب ہیں ، ان ڈراموں کے مڈل کلاس گھرانے بھی کم ازکم پانچ سوگز والے لان والے گھروں میں رہتے ہیں۔

یہ سب کچھ جن کو دکھایا جا رہا ہے ان کی ایک بڑی تعداد کے لیے مہینے کا سودا سلف خریدنا ، بجلی کا بل دینا ، گھر کے کرایہ ادا کرنا ، ہر مہینے پچھلے مہینے سے زیادہ مشکل چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ ایک طرف یہ عشق محبت، شادی بیاہ، منگنی، طلاق کے نہ ختم ہونے والے گمبھیر مسائل کی کہانیوں والے ایک جیسے ڈرامے ہیں تو دوسری طرف یہ معاشرہ ہے کہ جہاں لوگوں کو سڑکوں سے لے کر سرکاری دفتروں تک ہر جگہ لوٹا جا رہا ہے، جہاں ماں باپ بچوں کے ساتھ خودکشیاں کر رہے ہیں اور حکمران لیکچر پہ لیکچر دے رہے ہیں۔

جہاں حرام حلال ہو چکا ہے، جہاں جو جتنا بڑا حرام کمانیوالا ہے اتنا ہی بڑا مقام وہ اس معاشرے میں کماتا ہے۔ اب لوگ جائیں تو جائیں کہاں؟ اور دیکھیں تو کیا دیکھیں؟ انٹرٹینمنٹ چینلز پہ یہ روتے پیٹتے ڈرامے چھائے ہوتے ہیں، نیوز چینلز لگائیں تو وہاں ٹاک شوز میں اینکر اپنے اپنے سیاسی آقاؤں کے ساتھ بیٹھے سیاست اور جمہوریت کے نام پر کرپشن اور موروثی ملکیت کا گلا سڑا سودا بیچ رہے ہوتے ہیں ، جو اس ملک کو جتنی بڑی گالی دیتا ہے۔

اس ملک کو توڑنے کی دھمکی دیتا ہے اتنا ہی وہ ان ٹاک شو اینکروں کو عزیز ہو جاتا ہے، عوامی عہدوں پہ رہنے والے جس فرد کے جتنے زیادہ اخلاق باختہ وڈیو منظر عام پر آتے ہیں وہ اتنا ہی ان ٹاک شوز میں معتبر ہو جاتا ہے۔ یہ سب کچھ کسی بھی نارمل انسان کا بلڈ پریشر بڑھانے کے لیے کافی سے زیادہ ہے۔ادھر ان ڈراموں کی روتی دھوتی کہانیاں کیا کم ہیں کہ رہی سہی کسر ان ڈراموں میں دھڑلے سے بولی جانیوالی بولی ہی پوری کردیتی ہے۔ نیوز چینلز کے ''اداکاروں'' کی طرح ڈراموں کے ایکٹر بھی اردو میں زیر اور پیش کی موجودگی سے قطعاً انجان نظر آتے ہیں اور ہر لفظ کی ادائیگی زبرکی آواز کے ساتھ کرتے ہیں۔

مذکرکو مونث، واحد کو جمع اور جمع کو واحد بنا کر بولتے ہیں۔ بڑے بڑے کالم نگاروں، ٹاک شو اینکروں کی طرح ان چیختے چلاتے ڈراموں کے اداکار بھی جہاں لفظوں کا اختتام ''یے'' پہ ہونا چاہیے ''ہ'' پر کرتے ہیں۔ ڈرامہ نگاروں کی اپنی ادبی گہرائی ایسی اتھلی ہے کہ معمولی بھارتی فلموں کے ڈائیلاگ سے متاثر ہوکر لکھتے ہیں۔ چند سالوں سے ڈراموں میں جگہ جگہ اداکار بھارتی فلموں کا ایک مخصوص ڈائیلاگ ''کیا ہے کہ''، ''کیا ہے کہ'' دہراتے نظر آتے ہیں۔

چینلز والے، ڈرامہ پروڈیوسرز، ڈائریکٹرز، رائٹرز کی رٹ یہ ہے کہ لوگ ہی روتے دھوتے نفسیاتی ڈرامے پسند کرتے ہیں، بھئی! جب آپ لوگوں کو دکھاتے ہی یہی ہیں تو ان کے پاس اور کیا چوائس ہوگی؟ معیاری مزاح اور تفریحی مواد لکھنا کیونکہ ان روتے دھوتے ڈراموں کے مقابلے میں ایک حقیقی تخلیقی کام ہے اور ان کے بس کی بات نہیں چنانچہ یہ ان روتے دھوتے ڈراموں کو اپنی پریمیم پروڈکٹ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس ملک میں عام لوگوں کے لیے خاص لوگوں نے پہلے ہی بہت مسائل کھڑے کر رکھے ہیں اور ارزاں خوشی کے مواقعے بڑھتی گرانی کی زد میں ہیں ، زندگی ایسی مشکل ہو چلی ہے کہ یہاں ہر دوسرا انسان کسی نہ کسی ذہنی مرض میں مبتلا نظر آتا ہے اور یہ روتے دھوتے ٹینشن زدہ ڈرامے ان ذہنی امراض کو اور بڑھا رہے ہیں۔

چنانچہ اب بس بھی کردیں۔ چلتے چلتے چند حروف آخر۔ طاقتور ادارے اس ملک کو لوٹ لوٹ کرکمزور اور لاچار بنانیوالے '' میگا لٹیروں '' پہ دباؤ ڈال کر پاکستان کے لوٹے گئے اربوں کھربوں کیوں نہیں اگلوا سکتے؟ اور اس ملک کو لوٹ لوٹ کر کنگال کرنے کے جرم میں ان میگا لٹیروں کو کیوں 17 سال نظر بند نہیں رکھ سکتے؟ اور عوام اور میڈیا اس عمل پہ کیوں مکمل چپ نہیں سادھ سکتے؟ ذرا سوچیے...!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں