سبق آموز واقعہ

مجھے قطعی نہیں لگتا کہ آج کے دور میں ہم سب کو شیطان سے کچھ لینے کی ضرورت ہے۔

کتاب ''حیات الحیوان'' کے مطالعے کے بعد حضرت عیسیٰؑ کی شیطان سے ملاقات ، میرے ذاتی خیال میں ہر دور میں اہم اور پر اثر ہے۔ مختلف موضوعات پر طبع آزمائی کی ہے یہ نہایت سبق آموز واقعہ ہمارے ذہن میں شامل ہے۔ حضرت عیسیٰؑ اللہ تعالیٰ کے بڑے نیک اور برگزیدہ پیغمبر تھے۔

آپؑ کا شمار اللہ تعالیٰ کے ان نبیوں میں ہوتا ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتب نازل فرمائیں انھیں انجیل مقدس عطا کی گئی۔ حضرت عیسیٰؑ نبی کریمؐ کی آمد سے قبل دنیا میں تشریف لانے والے آخری نبی ہیں۔ حضرت عیسیٰؑ کی زندگی بھی بے انتہا عاجزی اور اللہ تعالیٰ کے حضور محبت و عنایت کی عمدہ مثال ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کی جب ملعون شیطان سے ملاقات براہ راست ہوئی، ویسے تو شیطان اور اس کے چیلے قیامت تک لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال کر انھیں گناہوں پر اکساتے رہیں گے ، لیکن ہمارے انبیائے کرامؑ جیسی نیک ہستیوں کا شیطان ملعون سے کئی بار سامنا ہوا ، جن کے قصے ، واقعات اسلامی و تاریخی کتب میں ملتے ہیں۔

حضرت عیسیٰؑ کی شیطان ملعون سے ملاقات مضمون کے لحاظ سے زبردست واقعہ ہے جس کو مختصراً بیان کرنے کے ساتھ ساتھ میری کوشش رہے گی کہ میں آگے کا مفہوم بھی سمجھاتا رہوں۔کتاب ''حیات الحیوان'' میں روایت ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کا کہیں سے گزر ہو رہا تھا۔ انھوںؑ نے دیکھا کہ شیطان آ رہا ہے اور اس کے ساتھ پانچ خچر ہیں جن پر اس نے سامان لاد رکھا ہے۔

حضرت عیسیٰؑ نے اس سے پوچھا کہ '' تمہارے پاس یہ سامان کیا ہے؟ '' کہنے لگا '' یہ میرا سودا ہے جسے میں فروخت کرنے جا رہا ہوں۔'' اس کا یہ جواب حیران کن تھا لہٰذا حضرت عیسیٰؑ نے اس سے دوبارہ سوال کیا!'' اچھا تمہارے پاس پانچ خچر ہیں تم نے ان پر کیا، کیا سامان لاد رکھا ہے؟ '' شیطان کہنے لگا۔ ''پہلے خچر پر میں نے ظلم لاد رکھا ہے، اس میں ظلم ہے ، ظلم۔'' حضرت عیسیٰؑ فرمانے لگے '' ظلم تم سے کون خریدے گا؟ '' وہ کہنے لگا '' ظلم مجھ سے حکمران ، بادشاہ خریدیں گے اور وہ رعیت پر ظلم کریں گے'' درحقیقت بادشاہ یا کوئی اور حاکم اللہ تعالیٰ کی اول درجہ کی صفت ہے۔

وہ خود بھی بادشاہ ہے اور اپنے خاص اور نیک بندوں کو وہ ان صفات میں سے کچھ عطا بھی کرتے ہیں لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بیشتر ظالم بادشاہ ہوتے ہیں کچھ نیک بھی ہیں۔ شمار میں بہت کم ہیں جو اللہ رب العزت سے ڈرنے والے تھے وہ ہمارے مسلم بادشاہ ہوں یا غیر مسلم۔ اگر میری اس بات کو آسان الفاظ میں سمجھا جائے تو میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ شاید طاقت کا نشہ بادشاہ یا کسی حکمران کے دل سے نرمی کو دور کردیتا ہے۔ اس کے بعد حضرت عیسیٰؑ نے پوچھا''اچھا تو یہ دوسرے خچر میں کیا ہے؟'' شیطان کہنے لگا۔

اس میں '' تکبر'' ہے۔ آپؑ فرمانے لگے '' اچھا، یہ تکبر کون خریدے گا؟'' شیطان نے جواب دیا کہ '' یہ تکبر زمیندار لیں گے'' یہاں میں عرض کرتا چلوں ، زمیندار کی مثال کچھ یوں ہے کہ اگر وہ بھوکا بھی ہو تو تکبر اس میں '' تاجوں'' سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ شیطان بولا زمیندار وہ بڑے تکبر سے اپنی زمینوں میں کہتے پھریں گے کہ زمین ہماری ہے اور لوگوں پر ظلم و زیادتی کریں گے۔ پھر حضرت عیسیٰؑ نے پوچھا'' اچھا یہ بتاؤ تیسرے خچر میں کیا ہے؟'' وہ کہنے لگا اس میں سراب ، دھوکا ، خیانت ، چکر بازی ہے۔'' آپؑ نے پوچھا '' یہ تم سے کون لے گا ؟ '' ملعون شیطان بولا '' یہ میں تجار (تاجروں) کو دوں گا ، دنیا کے جتنے تاجر ہیں میں ان کو خیانت بیچوں گا۔


وہ اپنے مال میں خیانت، دھوکا، چکر بازی کریں گے اور اس سے میں بہت خوش ہو جاؤں گا'' اگر ہم اپنے آج کے دور کا بغور مشاہدہ فرمائیں تو مجھے قطعی نہیں لگتا کہ تیسری بات کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے ، لیکن سب ایک جیسے نہیں کوئی ٹھیک بھی ہوتا ہے، شاید وہ لاکھوں میں ایک ہوتا ہوگا۔

اس کے بعد آپؑ چوتھے خچر کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا '' اس پر تم نے کیا لاد رکھا ہے؟ ''شیطان کہنے لگا اس میں حسد اورکینہ ہے۔ آپؑ نے پوچھا کہ '' یہ تم کسے فروخت کروگے؟ '' شیطان بولا '' میں علمائے کرام کو دوں گا، دنیا کے جتنے علمائے کرام ہیں ، ان کو فروخت کروں گا، وہ ایک دوسرے سے حسد کریں گے، ایک دوسرے کی عزت اچھالیں گے، ایک دوسرے کو نیچا دکھائیں گے اور خود کو بڑا ثابت کریں گے۔'' درحقیقت حسد ایک انتہائی شیطانی چیز ہے، ہم کسی کو بہتر دیکھ کر اس سے حسد کرنے لگتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا حکم ہے حسد نہ کرو، نہ حسد کو سراہنے والے ہو، جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ فلاں بندہ ہماری کسی بات سے حسد کرتا ہے تو ہم اسے مزید ستاتے ہیں کہ وہ چڑتا رہے۔دنیا میں پہلا گناہ کوئی شرک نہیں تھا، نہ ہی کفر تھا بلکہ وہ ایک قتل تھا اور اس کی وجہ حسد تھی۔

قابیل کو ہابیل سے حسد ہوگیا اور اس نے اسی آگ میں جل کر ہابیل کو قتل کر دیا۔ یہ حسد ہی ہے کہ اپنے آپ کو نمایاں اور سب کی نگاہیں اس پر رہیں۔ اس کے بعد آپؑ نے پانچویں اور آخری خچر کے بارے میں سوال کیا '' اچھا تم اب یہ بتا دوکہ اس خچر میں کیا ہے؟'' شیطان کہنے لگا '' اس میں چکر ہے جو میں عورتوں کو دوں گا، یہاں عورتوں سے مراد نیک خواتین نہیں، بلکہ بدچلن اور مکار خواتین ہیں جو اپنی باتوں اور حرکات سے لوگوں میں فتنہ و فساد پیدا کریں گی۔''

یہ وہ ٹاکرا تھا جو حضرت عیسیٰؑ کا شیطان سے ہوا، جس میں ہمارے لیے گہری وضاحت موجود ہے۔ بلاشبہ آج کے دور میں ہم یہ تو نہیں دیکھ سکتے کہ اب شیطان کیا لا رہا ہے اور کسے دے رہا ہے لیکن آج معاشرہ میں دوسروں سے وہی سب کچھ مل رہا ہے جو سب حضرت عیسیٰؑ نے اپنے دور میں شیطان کو لاتے ہوئے دیکھا۔آج ہمارے حکمرانوں کو دیکھ لیں کتنے ظالم اور مظلوموں پر ظلم کرنے والے ہیں جب آتے ہیں تو بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں، لیکن انصاف پسند حاکم نہیں، جس نے انصاف کرنا چاہا اس کو ملک کے لٹیروں اور ان کے چیلوں نے مختلف طریقوں سے روک دیا۔

اگر حاکم ایماندار، نیک ہے تو اس کو گھیرے میں رکھنے والے کرپٹ ہیں وہ نہیں چاہیں گے کہ برائی ختم کی جائے۔ ہمارے تاجروں کا حال دیکھ لیں کس طرح وہ چکر بازی اور نوسر بازی سے لوگوں کو لوٹتے ہیں، ماہ رمضان المبارک دیکھ لیں جیسے ہی رمضان کا مبارک مہینہ آتا ہے تو تاجر کیسے اپنے من پسند نرخ لگا لیتے ہیں اور بے چارے غریب سارا رمضان ان اشیا سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ہمارے علما کرام کو دیکھ لیں اپنے وعظ سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کوشاں ہیں۔

مجھے قطعی نہیں لگتا کہ آج کے دور میں ہم سب کو شیطان سے کچھ لینے کی ضرورت ہے،کیونکہ آج کے دور میں شیطان کو یہ سب کچھ فروخت کرنے کی ضرورت نہیں ، شاید یہ سب کچھ ہم نے اپنالیا ہے بلکہ سامراج، صہیونی طاقتوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہم میں سب کچھ پیدا کردیا ہے۔ خواہ بادشاہ ہو، تاجر ہو، علما ہوں، چاہے خواتین، ہر طرف فساد ظلم، زیادتی، دھوکا بازی، مکر و فریب، حسد کی آگ لگی ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو تمام برائیوں سے دور رکھے۔
Load Next Story