قلعہ تُلاجہوادی سون کا 5 ہزار سال قدیم شہر
22 ایکڑ پر پھیلا ہوا قلعہ منگول یلغاروں سے تحفظ کے لئے تعمیر کیا گیا، اطراف میں دفاعی کھائیاں کھودی گئیں۔
بلاشبہ تمام تہذیبیں مختلف مدارج کے ساتھ اپنے عروج و زوال کی داستانیں تاریخ کے اوراق میں محفوظ کرتے ہوئے ختم ہوتی چلی جاتی ہیں مگر ان کے آثار اور باقیات اُس تہذیب کی چاشنی سے ہمیں روشناس کرواتی ہیں۔
ہم اس تہذیب سے لے کر اپنے وقت کے تہذیب و تمدن کا جائزہ انہیں آثار اور باقیات سے کرتے ہیں۔ دنیا میں زمانہ قدیم سے مختلف اوقات میں مختلف تہذیبیں پرورش پاتی رہیں اور پھر گردش دوراں کا شکار ہو کر زوال پذیر ہوتے ہوئے دنیا کے منظرنامہ سے غائب ہوتی چلی گئیں۔ وادی سندھ کی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک اور کسی صورت بھی بابل' عراق' فرات یا مصروروم کی تہذیبوں سے کم نہیں تھی مگر گردش دوراں کے اوراق پلٹ جانے سے تہذیب کہیں گم ہو گئی۔
پاکستان تہذیب اور ثقافت کے لحاظ سے خوبصورت رنگوں سے مزین ایک بھرپور ملک ہے، جہاں مختلف ثقافتوں کا خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے مگر حیف صد افسوس کہ عرصہ دراز گزارنے کے باوجود بھی پاکستان کے اس خوبصورت چہرے کی عکاسی کے لیے کوئی واضح اور مدلل کوشش نہیں کی گئی۔ پچھلے ادوار کی نسبت موجودہ حکومت نے تہذیب و ثقافت کی تصویر کو اُجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور سیاحتی نقطہ نظر کے ساتھ ساتھ ثقافتی زاویوں سے بھی پاکستان کی مثبت تصویر سیاحوں اور دنیا کے سامنے پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔
حکومت کی دلچسپی اس بات کی مکمل عکاس ہے کہ حکومتی ارباب اس ضمن میں پوری طرح آگاہ ہیں کہ سیاحت کو فروغ دینے سے نہ صرف ہم پاکستان کی مثبت تصویر دنیا کے سامنے رکھ سکتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سیاحتی صنعت کی ترویج سے ملکی معیشت اور روزگار کو بھی پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔
پاکستان تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف تہذیبوں کی آماجگاہ رہا ہے اور وادی سندھ کی تہذیب سے لے کر یونانیوں کی آمدکے اثرات تک اور بعدازاں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ مسلم فنِ تعمیر سے لے کر ثقافتی اثرات تک بہت سے ادوار دیکھے ہیں۔ مزید برآں سکھ اور برٹش ثقافتی ورثہ بھی نمایاں اہمیت کے حامل ہیں اور ہماری شاندار تاریخ اور تہذیب کی عکاسی کرتے ہیں۔
موجودہ حکومت نے سیاحتی صنعت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ آثارِ قدیمہ کو بھی تلاش کرنے کے لیے خاطر خواہ کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان اور حکومت پنجاب کے ویژن کے مطابق اس ضمن میں مختلف پراجیکٹس چل رہے ہیں، جو آثارِ قدیمہ اور تاریخی ورثہ کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ اسی حوالے سے حکومتِ پنجاب نے ایک کمیٹی تشکیل دی، جن میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ آثار قدیمہ کی ٹیم ڈاکٹر محمد حمید کی زیرنگرانی شامل ہے اور نمایاں کام کر رہی ہے۔
وادیِ سون کی تہذیب اپنے نمایاںخدوخال اور ثقافت کی وجہ سے نمایاں ہے اور حکومتی سربراہی میں یہ کام مذکورہ تحقیقاتی ٹیم کے سپرد کیا گیا ہے کہ وہ تاریخ اور آثارِ قدیمہ کے حوالے سے اہم مقامات کا تعین کریں اور اس کی تاریخی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے اس کے تاریخی مقام کو بحال کرنے کی کوشش کریں۔ ڈاکٹر محمد حمید کی سربراہی میں شعبہ آرکیالوجی نہ صرف نندنہ فورٹ تک پہنچا بلکہ تُلاجہ فورٹ جیسی تاریخی اور ثقافتی جگہ کا بھی دورہ کیا۔
سالٹ رینج بنیادی طور پر کم اوسط کی اونچائی والے پہاڑوں کا سلسلہ ہے جو کہ دریائے سندھ کی وادی اور دریائے جہلم کے درمیان واقع ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ علاقہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ البیرونی نے اسی علاقے میں نندنہ کے قریب زمین کی پیمائش کا تجزیہ کیا تھا اوراسی علاقے میں موجود کئی قدیم معبد مختلف اقوام کے لیے مذہبی اہمیت کی حامل ہیں، جن میں بدھ مت کے سٹوپا اور ہندوؤں کے لیے کٹاس راج مندر اور بھی بہت سے اہم جگہیں شامل ہیں۔
وادی سون میں موجود بے شمار تاریخی اہمیت کے حامل مقامات میں سے تُلاجہ فورٹ یا قلعہ تُلاجہ ہے، جس کو حالات کے تھپیڑوں نے معدوم یا بالکل ختم کر دیا ہے، لیکن موجودہ حکومت کی کوششیں بار آور ثابت ہو رہی ہیں اور اس کی بحالی پر کام جاری ہے۔ تُلاجہ قلعہ یا شہر تک جس کو مقامی آبادی شہرِ گُمشدہ بھی کہتی ہے' تک ایک غیرہموار اور نا پختہ راستوں سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی پیدل مسافت سے پہنچا جا سکتا ہے۔ سبزے کے ساتھ ساتھ ایک خوبصورت ندی بھی اس علاقے کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتی ہے، جہاں سے لوگ اپنی پانی کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔
تُلاجہ قلعہ رکھ خور سے مشرق اور دربار بابا کچھی والا سے شمال مشرق میں واقع ہے۔ مقامی روایات قلعہ کو 5000 سال سے بھی زیادہ پُرانا بتاتی ہیں جبکہ مقامی آبادی کے مطابق اس کو منگولوں کی ریشہ دوانیوں سے بچنے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس قلعہ کی تعمیر تکونی پتھروں کے ساتھ کی گئی اور مقامی روایات کے مطابق اس کا دروازہ ایک غار میں کھلتا تھا جس کو ایک بھاری پتھر کے ساتھ بند کر دیا جاتا تھا۔
جا بجا سکیورٹی چیک پوسٹیں موجود ہونے کے آثار اب بھی باقی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جلا ل الدین خوارزم شاہ منگولوں سے شکست کھانے کے بعد اس علاقے میں آ بسا اور اس کے بعد اس کے جنرل سیف الدین قرلاغ نے اس علاقے پر حکومت کی۔ اس علاقے کے لوگ دراز قد اور مضبوط جسم کے حامل ہیں جو کہ دنیا کے بہترین فوجیوں کا علاقہ ہے۔ جلال الدین خوارزم شاہ 1221ء میں منگولوں سے ہارنے کے بعد اس علاقے میں پہنچا اور مقامی کھوکھر سردار رائے سنگین کا دوست بنا اور یہاں اس قلعہ میں قیام پذیر ہوا۔ بعدازاں جلال الدین خوارزم نے یہ علاقہ بھی چھو ڑ دیا اور ایران کی طرف چلا گیا۔
اِن تمام تر سینہ بہ سینہ روایات اور تاریخی حقائق سے پردہ اُٹھانے کے لیے اس علاقے کی تفصیلی رپورٹ مرتب کرنے کے لیے شعبہ آثار قدیمہ جامعہ پنجاب نے تُلاجہ فورٹ پر تحقیقی کام شروع کیا۔ جس میں جامعہ پنجاب کے پروفیشنل ماہرین پر مشتمل ماہرین آثار قدیمہ' تاریخ دان' فوٹوگرافر' ڈرافٹسمین اور ماہرڈرون نے مسلسل کئی دِن تک اس قلعے کے مختلف حصوں کا سروے کیا اور روزانہ مشکل چڑھائی چڑھتے ہوئے اس جگہ کی خصوصیات کو ریکارڈ کیا ۔
تُلاجہ قلعہ کی تفصیلی پیمائش کی گئی۔ نمایاں آثار میں ایک مساوی پیمائش کی مسجد ہے، جس سے منسلک ایک مرکزی گلی اور قریبی چھوٹے اور بڑے گھر اور سب سے اہم ایک 30x30 میٹر کا تالاب دریافت کیا گیا۔ اس سارے عمل میں عمارتوں میں استعمال ہونے والے پتھروں کے سائز' اینٹوں کا استعمال اور آبادی کے مختلف حصوں کی بھی نشاندہی کی گئی۔ بعدازں اس سارے کام کی تفصیلی رپورٹ محکمہ سیاحت اور آرکیالوجی کے عہدیداران کو پیش کی گئی، جسے خوب سراہا گیا۔
تاریخی اعتبار سے تُلاجہ قلعہ ایک پہاڑی پر واقع ہے جس کے چاروں اطراف میں گہری کھائیاں ہیں جس کی وجہ سے اس قلعے کو قدرتی طور پر ایک مضبوط اور ناقابل تسخیر تصور کیا جاتا ہے۔ اس کا رقبہ تقریباً 22ایکڑ ہے اور اس جگہ پر رہنے والی آبادی تقریبًا200 سے زائد گھروں پر مشتمل تھی۔ یہ لوگ مکمل طور پر طرزِ زندگی کے تمام آداب سے واقف تھے ۔ قوی امکان ہے کہ بنیادی ضروریات کے ناپید ہونے کی وجہ سے مقامی آبادی نے نقل مکانی اختیار کی اور یوں یہ قلعہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ اپنی تمام تر رعنائیوں سے محروم ہو گیا اور موجودہ آثار کی شکل میں موجود ہے ۔
اس قلعے سے متعلق کئی اہم رازوں اور سوالات سے پردہ اُٹھانا ابھی باقی ہے۔ مثال کے طور پر یہ قلعہ سب سے پہلے کب بنا ' کن لوگوں نے بنایا ' کون اس کے پہلے باسی تھے' کس مذہب کے پیروکار تھے' یہ قلعہ کتنے سو سال تک آباد رہا اور کن کن خاندانوں کے زیراثر رہا ' کتنی دفعہ اُجڑا اور آبادی ہوا اور آخری نقل مکانی کب ہوئی؟ اب حکومتِ پنجاب کی کوششوں سے اس کی بحالی کے لیے کام کیا جا رہا ہے اور ڈاکٹر محمد حمید کی سربراہی میں کیے جانے والے کام کی حکومت پنجاب بھی معترف ہے۔
ہم اس تہذیب سے لے کر اپنے وقت کے تہذیب و تمدن کا جائزہ انہیں آثار اور باقیات سے کرتے ہیں۔ دنیا میں زمانہ قدیم سے مختلف اوقات میں مختلف تہذیبیں پرورش پاتی رہیں اور پھر گردش دوراں کا شکار ہو کر زوال پذیر ہوتے ہوئے دنیا کے منظرنامہ سے غائب ہوتی چلی گئیں۔ وادی سندھ کی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک اور کسی صورت بھی بابل' عراق' فرات یا مصروروم کی تہذیبوں سے کم نہیں تھی مگر گردش دوراں کے اوراق پلٹ جانے سے تہذیب کہیں گم ہو گئی۔
پاکستان تہذیب اور ثقافت کے لحاظ سے خوبصورت رنگوں سے مزین ایک بھرپور ملک ہے، جہاں مختلف ثقافتوں کا خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے مگر حیف صد افسوس کہ عرصہ دراز گزارنے کے باوجود بھی پاکستان کے اس خوبصورت چہرے کی عکاسی کے لیے کوئی واضح اور مدلل کوشش نہیں کی گئی۔ پچھلے ادوار کی نسبت موجودہ حکومت نے تہذیب و ثقافت کی تصویر کو اُجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور سیاحتی نقطہ نظر کے ساتھ ساتھ ثقافتی زاویوں سے بھی پاکستان کی مثبت تصویر سیاحوں اور دنیا کے سامنے پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔
حکومت کی دلچسپی اس بات کی مکمل عکاس ہے کہ حکومتی ارباب اس ضمن میں پوری طرح آگاہ ہیں کہ سیاحت کو فروغ دینے سے نہ صرف ہم پاکستان کی مثبت تصویر دنیا کے سامنے رکھ سکتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سیاحتی صنعت کی ترویج سے ملکی معیشت اور روزگار کو بھی پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔
پاکستان تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف تہذیبوں کی آماجگاہ رہا ہے اور وادی سندھ کی تہذیب سے لے کر یونانیوں کی آمدکے اثرات تک اور بعدازاں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ مسلم فنِ تعمیر سے لے کر ثقافتی اثرات تک بہت سے ادوار دیکھے ہیں۔ مزید برآں سکھ اور برٹش ثقافتی ورثہ بھی نمایاں اہمیت کے حامل ہیں اور ہماری شاندار تاریخ اور تہذیب کی عکاسی کرتے ہیں۔
موجودہ حکومت نے سیاحتی صنعت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ آثارِ قدیمہ کو بھی تلاش کرنے کے لیے خاطر خواہ کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان اور حکومت پنجاب کے ویژن کے مطابق اس ضمن میں مختلف پراجیکٹس چل رہے ہیں، جو آثارِ قدیمہ اور تاریخی ورثہ کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ اسی حوالے سے حکومتِ پنجاب نے ایک کمیٹی تشکیل دی، جن میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ آثار قدیمہ کی ٹیم ڈاکٹر محمد حمید کی زیرنگرانی شامل ہے اور نمایاں کام کر رہی ہے۔
وادیِ سون کی تہذیب اپنے نمایاںخدوخال اور ثقافت کی وجہ سے نمایاں ہے اور حکومتی سربراہی میں یہ کام مذکورہ تحقیقاتی ٹیم کے سپرد کیا گیا ہے کہ وہ تاریخ اور آثارِ قدیمہ کے حوالے سے اہم مقامات کا تعین کریں اور اس کی تاریخی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے اس کے تاریخی مقام کو بحال کرنے کی کوشش کریں۔ ڈاکٹر محمد حمید کی سربراہی میں شعبہ آرکیالوجی نہ صرف نندنہ فورٹ تک پہنچا بلکہ تُلاجہ فورٹ جیسی تاریخی اور ثقافتی جگہ کا بھی دورہ کیا۔
سالٹ رینج بنیادی طور پر کم اوسط کی اونچائی والے پہاڑوں کا سلسلہ ہے جو کہ دریائے سندھ کی وادی اور دریائے جہلم کے درمیان واقع ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ علاقہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ البیرونی نے اسی علاقے میں نندنہ کے قریب زمین کی پیمائش کا تجزیہ کیا تھا اوراسی علاقے میں موجود کئی قدیم معبد مختلف اقوام کے لیے مذہبی اہمیت کی حامل ہیں، جن میں بدھ مت کے سٹوپا اور ہندوؤں کے لیے کٹاس راج مندر اور بھی بہت سے اہم جگہیں شامل ہیں۔
وادی سون میں موجود بے شمار تاریخی اہمیت کے حامل مقامات میں سے تُلاجہ فورٹ یا قلعہ تُلاجہ ہے، جس کو حالات کے تھپیڑوں نے معدوم یا بالکل ختم کر دیا ہے، لیکن موجودہ حکومت کی کوششیں بار آور ثابت ہو رہی ہیں اور اس کی بحالی پر کام جاری ہے۔ تُلاجہ قلعہ یا شہر تک جس کو مقامی آبادی شہرِ گُمشدہ بھی کہتی ہے' تک ایک غیرہموار اور نا پختہ راستوں سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی پیدل مسافت سے پہنچا جا سکتا ہے۔ سبزے کے ساتھ ساتھ ایک خوبصورت ندی بھی اس علاقے کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتی ہے، جہاں سے لوگ اپنی پانی کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔
تُلاجہ قلعہ رکھ خور سے مشرق اور دربار بابا کچھی والا سے شمال مشرق میں واقع ہے۔ مقامی روایات قلعہ کو 5000 سال سے بھی زیادہ پُرانا بتاتی ہیں جبکہ مقامی آبادی کے مطابق اس کو منگولوں کی ریشہ دوانیوں سے بچنے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس قلعہ کی تعمیر تکونی پتھروں کے ساتھ کی گئی اور مقامی روایات کے مطابق اس کا دروازہ ایک غار میں کھلتا تھا جس کو ایک بھاری پتھر کے ساتھ بند کر دیا جاتا تھا۔
جا بجا سکیورٹی چیک پوسٹیں موجود ہونے کے آثار اب بھی باقی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جلا ل الدین خوارزم شاہ منگولوں سے شکست کھانے کے بعد اس علاقے میں آ بسا اور اس کے بعد اس کے جنرل سیف الدین قرلاغ نے اس علاقے پر حکومت کی۔ اس علاقے کے لوگ دراز قد اور مضبوط جسم کے حامل ہیں جو کہ دنیا کے بہترین فوجیوں کا علاقہ ہے۔ جلال الدین خوارزم شاہ 1221ء میں منگولوں سے ہارنے کے بعد اس علاقے میں پہنچا اور مقامی کھوکھر سردار رائے سنگین کا دوست بنا اور یہاں اس قلعہ میں قیام پذیر ہوا۔ بعدازاں جلال الدین خوارزم نے یہ علاقہ بھی چھو ڑ دیا اور ایران کی طرف چلا گیا۔
اِن تمام تر سینہ بہ سینہ روایات اور تاریخی حقائق سے پردہ اُٹھانے کے لیے اس علاقے کی تفصیلی رپورٹ مرتب کرنے کے لیے شعبہ آثار قدیمہ جامعہ پنجاب نے تُلاجہ فورٹ پر تحقیقی کام شروع کیا۔ جس میں جامعہ پنجاب کے پروفیشنل ماہرین پر مشتمل ماہرین آثار قدیمہ' تاریخ دان' فوٹوگرافر' ڈرافٹسمین اور ماہرڈرون نے مسلسل کئی دِن تک اس قلعے کے مختلف حصوں کا سروے کیا اور روزانہ مشکل چڑھائی چڑھتے ہوئے اس جگہ کی خصوصیات کو ریکارڈ کیا ۔
تُلاجہ قلعہ کی تفصیلی پیمائش کی گئی۔ نمایاں آثار میں ایک مساوی پیمائش کی مسجد ہے، جس سے منسلک ایک مرکزی گلی اور قریبی چھوٹے اور بڑے گھر اور سب سے اہم ایک 30x30 میٹر کا تالاب دریافت کیا گیا۔ اس سارے عمل میں عمارتوں میں استعمال ہونے والے پتھروں کے سائز' اینٹوں کا استعمال اور آبادی کے مختلف حصوں کی بھی نشاندہی کی گئی۔ بعدازں اس سارے کام کی تفصیلی رپورٹ محکمہ سیاحت اور آرکیالوجی کے عہدیداران کو پیش کی گئی، جسے خوب سراہا گیا۔
تاریخی اعتبار سے تُلاجہ قلعہ ایک پہاڑی پر واقع ہے جس کے چاروں اطراف میں گہری کھائیاں ہیں جس کی وجہ سے اس قلعے کو قدرتی طور پر ایک مضبوط اور ناقابل تسخیر تصور کیا جاتا ہے۔ اس کا رقبہ تقریباً 22ایکڑ ہے اور اس جگہ پر رہنے والی آبادی تقریبًا200 سے زائد گھروں پر مشتمل تھی۔ یہ لوگ مکمل طور پر طرزِ زندگی کے تمام آداب سے واقف تھے ۔ قوی امکان ہے کہ بنیادی ضروریات کے ناپید ہونے کی وجہ سے مقامی آبادی نے نقل مکانی اختیار کی اور یوں یہ قلعہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ اپنی تمام تر رعنائیوں سے محروم ہو گیا اور موجودہ آثار کی شکل میں موجود ہے ۔
اس قلعے سے متعلق کئی اہم رازوں اور سوالات سے پردہ اُٹھانا ابھی باقی ہے۔ مثال کے طور پر یہ قلعہ سب سے پہلے کب بنا ' کن لوگوں نے بنایا ' کون اس کے پہلے باسی تھے' کس مذہب کے پیروکار تھے' یہ قلعہ کتنے سو سال تک آباد رہا اور کن کن خاندانوں کے زیراثر رہا ' کتنی دفعہ اُجڑا اور آبادی ہوا اور آخری نقل مکانی کب ہوئی؟ اب حکومتِ پنجاب کی کوششوں سے اس کی بحالی کے لیے کام کیا جا رہا ہے اور ڈاکٹر محمد حمید کی سربراہی میں کیے جانے والے کام کی حکومت پنجاب بھی معترف ہے۔