بھارتی انتخابات خونِ مسلم سے ہولی جیت کےلیے ضروری

بی جے پی انتخابات میں کامیابی کےلیے ہندو مسلم کو لڑانے کے اپنے آزمودہ فارمولے پر عمل کررہی ہے


تری پورہ کی مسلم آبادی اس وقت جان بچانے کے جتن میں مصروف ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاک بھارت میچ کے آفٹر شاکس کا سلسلہ جاری ہے۔ مقدمات، دہشت گردی کے کیسز اور معافی ناموں کی خبریں مسلسل آرہی ہیں۔ اسی دوران تری پورہ میں ہندو مسلم فسادات کی خبریں منظر عام پر آئیں۔ حسینہ واجد کی شٹ اپ کال کام آئی اور نہ ہی امیت شاہ کی جھوٹی تسلیوں نے کوئی کام دکھایا۔ بنگلہ دیش میں ہندو مسلم فسادات کی آگ بھارت کی شمال مشرقی ریاست اور انڈیا، بنگلہ دیش کی سرحد تری پورہ تک پہنچ چکی ہے۔

نریندر مودی کی انتہاپسند جماعت بی جی پی کے آشیرباد سے ہندو جاگرن منچ اور وشوا ہندوپریشد کے دہشت گردوں نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ریاست کی سرحدی علاقوں میں 21 مسلمان نفرت انگیز مہم کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ 15 مساجد کو نذرِ آتش کردیا گیا ہے۔ 200 کے قریب مسلمانوں کی دکانوں کو بھی جلا دیا گیا ہے۔ ریاست میں چاروں جانب خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے، لیکن اس ہولی کو کنٹرول کرنے کےلیے پولیس نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ تادم تحریر کوئی بھی فرد گرفتار نہیں کیا گیا جبکہ پولیس کی جانب سے محض تسلیاں ہی دی جارہی ہیں۔

تری پورہ کی 8 فیصد مسلم آبادی اس وقت جان بچانے کے جتن میں مصروف ہے۔ مسلسل سات دنوں میں گھروں اور مساجد پر حملوں کے 40 بڑے واقعات پیش آئے ہیں۔ اہم مسلم شخصیات کے گھروں پر زعفرانی پرچم لہرائے گئے۔ کئی دکانیں جل گئی ہیں۔ دیہی علاقوں میں صورتحال ابتر ہے۔ لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ لیکن ریاستی حکومت خاموش تماشائی ہے۔ مرکزی حکومت کو تو گویا سانپ ہی سونگھ گیا ہے۔ بی جے پی تشدد کو ہوا دے رہی ہے مگر کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے منہ سے بھی کوئی لفظ نہیں نکل رہا۔ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے مگر سیاسی قیادت اپنے ووٹرز کو ناراض کرنے سے ڈر رہی ہے۔ پولیس کی مجرمانہ خاموشی، نریندر مودی کے ٹوئٹر ہینڈل کی چپ اور دیگر سیاسی جماعتوں کی غفلت کے بعد کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ تری پورہ میں فسادات کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت پرامن ریاست میں تشدد کو ہوا کیوں دی جارہی ہے؟ مسلمانوں کے خلاف ہندو انتہاپسندوں کی حمایت کون کررہا ہے؟ پولیس مسلمانوں کو تحفظ دینے میں ناکام کیوں ہے؟ بھارتی حکومت، میڈیا اور عوام تری پورہ فسادات پر خاموش کیوں ہیں؟ ہندو مسلم فسادات کو بھڑکانے کے کیا مقاصد ہیں؟ اس حوالے سے تری پورہ میں موجود صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنان سے رابطہ کیا۔ رپورٹس کے مطابق گزشتہ ہفتے بنگلہ دیش میں قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کے بعد مندروں اور درگا پوجا کے پنڈالوں میں توڑ پھوڑ کے خلاف ہندو شدت پسند تنظیم ہندو جاگرن منچ اور وشوا ہندوپریشد نے مظاہرے کا اعلان کیا تھا۔ حالانکہ انتظامیہ نے اس کی اجازت نہیں دی تھی، اس کے باوجود دس ہزار سے زائد مظاہرین اس میں شامل ہوگئے۔

اس وقت نریندر مودی حکومت اپنے سیاسی اور مذہبی نظریات کے پرچار کےلیے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ موجودہ حکومت کےلیے لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں اکثریت کا حصول اسی صورت ممکن ہوسکتا ہے جب سارا ہندوستان ان کے نظریے کا شکار ہوجائے۔ جس کی واضح مثال گزشتہ چند سال سے عمومی طور پر پرسکون علاقوں میں زعفرانی دہشت گردوں کی سرگرمیوں میں تیزی ہے۔ اتر پردیش، مہاراشٹر، بہار، مدھیہ پردیش، گجرات، راجستھان، آسام پر قبضے کے بعد آر ایس ایس کی نظریں آندھرا پردیش، کرناٹک، کیرالا، ناگالینڈ، تری پورہ اور سکم پر ہیں۔ بنیادی طور پر ان علاقوں کے لوگ سیدھے، خوش حال، ملنسار ہیں لیکن نریندر مودی اور ان کا زعفرانی بریگیڈ ان علاقوں میں آر ایس ایس کے خودکش تیار کر رہا ہے۔ اسی طرح تری پورہ میں بھی ہندو مسلم کشیدگی کے اس سے قبل کوئی بھی واقعات دیکھنے میں نہیں آئے۔ لیکن اگلے ماہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات سے قبل نریندر مودی کی پارٹی بی جے پی نے علاقے میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کا آغاز کردیا ہے۔

مقامی صحافیوں کے مطابق بی جے پی کے پاس عوام کے سامنے اپنی کارکردگی کو پیش کرنے کےلیے کچھ بھی نہیں ہے، اس لیے وہ ہندو مسلم کو لڑانے کے اپنے آزمودہ فارمولے کو اپنا رہی ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی تری پورہ میں 25 برس تک اقتدار میں رہی۔ گزشتہ اسمبلی الیکشن میں اسے عوامی ناراضی کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور چونکہ اس وقت مرکز میں بی جے پی کی حکومت تھی، اس لیے ووٹروں نے اسے ریاست میں بھی اقتدار سونپنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن پچھلے چار برس سے زیادہ عرصے کے دوران بی جے پی حکومت نے کوئی اہم کام نہیں کیا۔ اس لیے عوام اس سے خوش نہیں ہیں۔ ایسے میں وزیراعلیٰ وپلاب دیب کو ہندو ووٹروں کی صف بندی ہی کامیابی کا واحد راستہ دکھائی دے رہا ہے۔ وپلاب دیب یوں بھی اپنے مسلم مخالف بیانات کےلیے کافی مشہور ہیں۔ لیکن اس تشدد انگیز مہم کے بعد چاروں جانب خوف کے گہرے بادل اور غیر یقینی صورتحال ہے۔ محض چند سو ووٹوں کےلیے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے۔ تری پورہ اور آسام کے مسلمان آج پھر کسی مسیحا کی تلاش میں ہیں۔

نریندر مودی اور بی جے پی کارکردگی کے بجائے اقلیتوں کے حوالے سے متشدد نظریات کا پرچار کرکے بھارت پر اقتدار کا خواب دیکھ رہی ہے۔ لیکن سب سے حیران کن بات اپوزیشن جماعتوں کی مجرمانہ خاموشی ہے۔ بھارت کی اپوزیشن بھی کوئی بھی ایسا کام کرنے سے گریزاں ہے جس سے ان کا ووٹ بینک متاثر ہو۔ نتیجتاً نچلی ذات کے ہندو، مسلمان، عیسائی، سکھ اور پارسی شدید اضطراب کا شکار ہیں۔ بھارت کے اسی رویے کے باعث ڈھاکا اور دہلی کے درمیان فاصلے بڑھ چکے ہیں۔ سری لنکا اور نیپال بھی بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات سے گریزاں ہیں۔ پاکستان پہلے ہی مقبوضہ کشمیر میں مظالم کے بعد بھارت سے دوریاں بڑھا چکا ہے جبکہ چین کے ساتھ بھی ہندوستان کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ زعفرانی بریگیڈ کے حملے خطے میں بڑے خطرے کی نشاندہی کر رہے ہیں جبکہ آر ایس ایس کے دہشت گرد امن کےلیے خودکش حملہ آور ثابت ہورہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سارک اور دیگر بین الاقوامی تنظیمیں بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کا نوٹس لیں۔ اگر ان مظالم کو بروقت نہ روکا گیا تو دنیا میں دہشتگردی اور انتہاپسندی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ اگر آج تری پورہ، آسام اور ناگالینڈ میں اقلیتوں کی بستیاں، عبادت گاہیں اور املاک جلائی جارہی ہیں تو وہ وقت دور نہیں جب آگ کی یہ تپش دہلی اور ممبئی کی گلیوں میں بھی محسوس کی جائے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں