کوئی صورت نظر نہیں آتی
مسلم محاصرے کی حکمتِ عملی میں تازہ ہتھیار اردو کا گھیراؤ ہے۔
آہستہ آہستہ ہندوتوا کا نظریہ ایناکونڈا اژدھے کی طرح دیوار سے لگی بیس فیصد مسلم اقلیت کی جسمانی، سیاسی و ثقافتی ہڈیاں توڑ کر ہلاک کرنے کے ایجنڈے کی گرفت مضبوط تر کرتا جا رہا ہے۔
یہ کوشش نازی جرمنی میں یہودی اقلیت کے خاتمے کی منصوبہ بندی سے زیادہ مربوط اور مسلسل ہے۔رفتار یہی رہی تو اگلے پانچ برس میں بالخصوص شمالی و مغربی ہندوستان کے مسلمان اپنے ہی ملک میں دنیا کا سب سے بڑا روہنگیا گروہ بن جائیں گے۔
ایک اقلیت کو پاتال سے لگانے کا یہ سفر گاؤ رکھشکوں پر مشتمل بھگوا پوش لڑکوں کی ہر قصبے اور شہر کے گلی کوچوں میں گشت اور مسلمانوں کی مارپیٹ اور ہلاکتوں سے شروع ہوا۔ پھر گائے کا گوشت برآمد ہونے پر سات برس تک قید کے قانون کے ذریعے اسے باقاعدہ شکل دی گئی۔یوں گوشت کے کاروبار اور درآمد و برآمد و ٹرانسپورٹیشن سے نسل در نسل وابستہ ہزاروں خاندانوں کا معاشی قتلِ عام شروع ہوا۔
جب کوویڈ کی پہلی لہر آئی تو اسے پھیلانے کا الزام مسلمانوں پر عائد ہوا۔ایک خاص عرصے بعد اس الزام میں جان نہ رہی تو پھر شمالی ہندوستان میں چہار جانب یہ افواہ سرکار سے وابستہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے پھیلائی گئی کہ مسلمان دکاندار ، خوانچہ فروش اور پھیری والے جان بوجھ کر کوویڈ پھیلا رہے ہیں۔لہٰذا نہ تو ان سے خرید و فروخت کی جائے نہ ہی اپنے اپنے محلوں اور سوسائٹیوں میں گھسنے دیا جائے۔
لاک ڈاؤن نے ویسے تو بلا مذہب و ملت ہر محنت کش طبقے کی زندگی اجیرن کر دی مگر مسلمانوں کو کوویڈ کے بہانے دہری مار سہنا پڑی۔ لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد بھی مسلمانوں کی معاشی جکڑ بندی میں کوئی کمی نہ آئی۔ویسے بھی آبادی میں بیس فیصد تناسب کے باوجود سرکاری و نجی ملازمتوں میں مسلم تناسب کبھی بھی چار ساڑھے چار فیصد سے زیادہ نہیں رہا۔
پچھلے سات برس میں تو یہ تناسب اور بھی تیزی سے کم ہوا۔جو ملازمتیں ملتی بھی ہیں وہ ادنیٰ درجے کی ہوتی ہیں۔اس میں ایک جانب تو مسلمانوں کی مسلسل تعلیمی پسماندگی اور بیدار مغز لیڈرشپ کا فقدان ایک اہم سبب ہے۔ دوسرے ہر منزل پر پوشیدہ و اعلانیہ مذہبی تعصب بھی مسلسل گل کھلا رہا ہے۔
تنگ آمد جب مسلمان ملازمتوں کا خیال چھوڑ کر چھوٹے موٹے کاروبار اور ہنرمندی کی جانب راغب ہوتے ہیں تو ہندوتوا ہجوم کو کسی نہ کسی بہانے ان کے کاروبار برباد کر دینے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔جب وہ بے گھر ہوتے ہیں تو انھیں نئی جگہ آباد ہونے پر بھی شدید مذہبی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس کی تازہ ترین مثال گزشتہ برس فروری میں شہریت کے نئے قانون پر احتجاج کی سزا کے طور پر دلی کی مسلمان بستیوں میں کاروبار ، عبادت گاہوں اور گھروں کی تباہی اور ہلاکتوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔
ہر نیا فساد مسلمانوں کو ہر اعتبار سے دس بیس برس پیچھے دھکیل دیتا ہے اور ہجوم جزا و سزا کے خوف سے بے نیاز ایک نئی اقلیت کش مہم کے لیے تازہ دم ہو جاتا ہے۔
حکمتِ عملی یہ ہے کہ تابڑ توڑ حملے مسلسل جاری رکھے جائیں تاکہ سنبھلنے کا موقع نہ مل سکے۔جہاں ہجوم پیچھے رہ جائے وہاں قانون کا ڈنڈا استعمال کیا جائے۔ شہریت کا نیا قانون اور لو جہاد کے انسدادی قوانین۔ جب ہدف یہ ہو کہ ایک گروہ کو نیم انسان سمجھ کر اسے عزتِ نفس سے محروم کر کے مٹانا ہے تو اس فضا میں ظالم اور مظلوم کا تعین یا اس بارے میں بحث بے کار کی بات ہے۔
لے دے کے آخری امید بین الاقوامی دباؤ رہ جاتا ہے۔مگر بین الاقوامی دباؤ چھوٹے ممالک پر تو کارگر ہوتا ہے۔بھارت جیسی بڑی مارکیٹ جہاں لگ بھگ چالیس کروڑ افراد کی مڈل کلاس ہے۔اس کا شمار دنیا کی بیس بڑی معیشتوں میں ہوتا ہے۔بھارت خلیجی ریاستوں کے تیل کی پانچ بڑی منڈیوں میں شمار ہوتا ہے اور جس کی افرادی قوت ان ریاستوں کی روزمرہ زندگی کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔
مغرب کو چین کے خلاف کھڑا کرنے کے لیے جس گینڈے کی طاقت درکار ہے اور جو دس سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے ممالک میں شامل ہے۔ ایسے ملک کے بارے میں اگر یہ سوچا جائے کہ کشمیر اور بھارتی مسلمانوں کی گلو خلاصی کے لیے کوئی بھی بڑی طاقت، امیر ملک یا اتحاد یا بین الاقوامی ادارہ بھر پور دباؤ ڈالنا چاہے گا یا مستقبلِ قریب میں دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں ہو گا تو یہ سوچ ہی احمقوں کی جنت میں رہنے کے برابر ہے۔
ہندوتوا قوتوں کو بین الاقوامی اخلاقی کمزوری اور اپنی سودے بازی کی قوت کا بخوبی احساس ہے۔ لہٰذا پچھلے سات برس میں بھارت میں اس تناظر میں جن جن پالیسیوں پر دھڑلے سے عمل کیا جارہا ہے۔ان میں سے کوئی ایک پالیسی بھی واپس لینا تو درکنار اس پر ایک دن کے لیے بھی عمل درآمد نہیں روکا گیا اور یہ معاملہ صرف مسلمانوں کے مجموعی گھیراؤ تک ہی محدود نہیں ہے۔
بھارتی کسانوں کے حقوق کی تحریک اور زراعت کو کارپوریٹ سرمایہ داری کے چنگل سے بچانے کے لیے گزشتہ ڈیڑھ برس سے یوپی ، ہریانہ اور پنجاب کے کسان سڑکوں پر دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔سیکڑوں احتجاجی جلسے ہو چکے ہیں اور ہو رہے ہیں۔
بیسیوں اموات ہو چکی ہیں۔تازہ ترین حادثے میں حکمران جماعت کے ایک وزیر کے بیٹے نے کئی کسانوں کو اپنے جیپ قافلے سے کچل ڈالا۔ مجال ہے کہ مرکزی حکومت ٹس سے مس ہوئی ہو۔حالانکہ ان میں سے بیشتر کسان وہ ہیں جنھوں نے دو بار عام انتخابات میں بی جے پی کو ہی ووٹ دیا تھا۔ جو حکومت اپنے ووٹروں کے مفادات کو بھی اپنے ایجنڈے کی سربلندی کے لیے بلڈوز کر سکتی ہے۔اس کے سامنے مسلمان کس کھیت کی مولی ہیں۔
مرے پر سوواں درہ حزبِ اختلاف کی بے عملی ہے۔اس کے سامنے وہ ووٹ بینک ہے جو سات برس پہلے ہی اس سے چھن گیا۔اب اس کا خیال ہے کہ اگر وہ اخلاقی بینادوں پر کچھ موضوعات پر سیاست کرے گی تو رہا سہا ووٹ بینک بھی جائے گا۔اس کے علاوہ آپس کے شخصی اختلافات اور پارٹیوں کی اندرونی ٹوٹ پھوٹ بھی ہندوتوا ایجنڈے کے لیے من و سلوی سے کم نہیں۔
کوویڈ اور لاک ڈاؤن سے پیدا ہونے والا انسانی المیہ بھی بی جے پی کے ووٹ بینک میں ڈینٹ نہ ڈال پایا تو منتشر حزبِ اختلاف جو ہندوتوا کے بالمقابل کسی متبادل بیانیے سے بھی محروم ہے بی جے پی کی نظریاتی دیوار میں کیا شگاف ڈال پائے گی۔
مسلم محاصرے کی حکمتِ عملی میں تازہ ہتھیار اردو کا گھیراؤ ہے۔یعنی سیاست و معیشت سے نکالنے کے بعد مسلمانوں کو بھارت کے ثقافتی دائرے میں بھی اچھوت بنا دیا جائے۔اس بابت اگلے مضمون میں بات ہو گی۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)