کاغذی کھیت
اس حقیقت کوبھی توکوئی نہیں جھٹلاسکتا کہ بڑے بڑے تناور گھنے اورسایہ دار پھل دار پیڑوں کے نیچے صرف گھاس پھوس ہی اگتی ہے۔
یہ ہم ان کھیتوں کی بات نہیں کررہے ہیں جن میں ہم ''قلم کا ہل''چلاکر روزانہ پھول بوتے اور کاٹتے ہیں بلکہ یہ ایک اورطرح کے کھیت ہوتے ہیں جن کا ''رقبہ'' کاغذات میں توبہت زیادہ ہوتاہے لیکن پیمائش کرنے پر کم بلکہ بہت ہی کم نکلتے ہیں۔
ویسے تو یہ پرانی اصطلاح ہے لیکن اس کے نئے استعمال یانشاۃ ثانیہ سے بات شروع کریں گے ،شاہی باغ پشاورمیں ایک بہت بڑاجلسہ تھا جس میں ایوب خان کے خلاف تمام بڑے بڑے اپوزیشن لیڈرجمع ہوئے تھے ،کوئی اتحاد بھی بنایا تھا یہ پاکستان میں ایک روٹین کاعام اوررواں دواں سلسلہ ہے کہ جب کسی ڈسپوزیبل سرینج کاکام ختم ہوجاتاہے اوراسے پھینک کرہی دواکانیاسرینج نکالنا مقصود ہوتو اپوزیشن والوں سے ایساہی ایک بڑامیلہ لگوایاجاتاہے ،ہم نے اپنی ایک دو تحریروں میں ''ٹشوپیپر'' کالفظ استعمال کیاتھا جس پرکچھ شریف لوگ برامان گئے تھے۔
اس لیے اب اس کے لیے ہم نے ''ڈسپوزیبل سرینج'' کانام وضع کردیا ہے،جب کسی ایسے سرینج کاکام پوراہوجاتاہے اور عوام کی رگوں میںجوکچھ اتارنا ہوتاہے، اتاردیا جاتا ہے تو پھر اس سرینج کو ڈسپوزآف کرنے کے لیے اپوزیشن کاایسا ہی میلہ منعقد کیاجاتاہے ،یہ بیچارے میلہ لگائے رہ جاتے ہیں اورچادر چرا کر کسی نئے ہیرو یا ڈسپوزیبل سرینج کے کاندھوں پر ڈال دی جاتی ہے جو اس غرض کے لیے پہلے ہی سے ''تیار'' کیا گیا ہوتا ہے ۔
ایوب خان کی جڑوں سے بھی جب بھٹونام کا سرینج نکالنا مقصود تھا تو اپوزیشن سے میلہ لگوایا گیا تھا جب اس نے سوشل ازم اینجکٹ کیا تواسلام انجکٹ کرنے کے لیے مردحق ضیاء الحق کاانتخاب ہوا ،اس کی آمد سے بھی پہلے ایسا ہی میلہ منعقد کیاگیاتھا اورفی الحال جو کچھ ہورہاہے وہ بھی ایسا ہی سلسلہ تھا اب یہ کوئی بہت ہی پہنچاہوا ماہرنجوم یاعامل کامل ہی بتا سکتا ہے کہ موجودہ تقریباً اذکار رقبہ سرینج کی جگہ نیاسرینج کس کمپنی کاہوگا لیکن وقت توسرینج بدلے کا ہوچکا ہے اور آثار بھی یہی بتا رہے ہیں لیکن ہمیں تو ڈسپوزیبل سرینجوںکاذکر نہیں کرناہے بلکہ ان کھیتوں کاذکرکرنا ہے جو کاغذات میں مربعوں اورایکڑوں کے حساب سے درج ہوتے ہیں لیکن زنجیرکھینچنے پر ''کنالوں'' اورمرلوں کے نکل آتے ہیں،جس حلیے کاہم ذکر کررہے ہیں۔
ان میں نوابزادہ نصراللہ خان جمع حقہ جمع ترکی ٹوپی جمع شیروانی بھی تھے ،ان کے اشعار پر مبنی تقریر کے بعد ہمارے پہلومیں بیٹھے ہوئے غلام عباس آف اکبرپورہ نے کہا۔کھیت کاغذات میں تو بہت بڑا تھا لیکن موقع پر کچھ بھی نہیں نکلا،تب ہم نے اس پرانی اصطلاح کو نئے سرے سے لانچ کیا اوراسے ازمنہ قدیم سے موجودہ سیاسی اراضی پر لے آئے۔چنانچہ اس وقت ہمارے سامنے ایسے بہت سارے کھیت بکھرے پڑے ہیں جو کاغذات میں توکراں تاکراں بتائے جاتے ہیں لیکن اگر پٹواری نے زنجیرکھینچی تو شاید آدھ آدھ مرلے کی کیاریاں بھی نہ نکلیں۔ لیکن یہ پشتوکہاوت بھی توایک حقیقت ہے کہ بیوی اگرشوہرکو پسند ہے تو گاؤں جائے بھاڑ میں۔
خاص طورپر وہ کھیت جن کے باپ واقعی بڑے کھیت تھے لیکن اس حقیقت کو بھی تو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ بڑے بڑے تناور گھنے اورسایہ دار پھل دار پیڑوں کے نیچے صرف گھاس پھوس ہی اگتی ہے ۔
ایک حقیقہ یاد آیا۔ایک شخص نے ہمیں اپنا مجموعہ کلام بھیجاکہ ہم اس پر کچھ لکھ دیں اورساتھ ہی یہ بھی لکھا تھا کہ میں فلاں مرحوم شاعر کابیٹا ہوں، واقعی اس کاباپ ایک مشہوراوربالمثل شاعرتھا لیکن بیٹے نے جو کچھ لکھاتھا وہ پڑھنے تو کیادیکھنے اور سونگھنے کے لائق بھی نہیں تھا۔ہم نے کاپی پر لکھا بلکہ اس سے استدعا کی تھی کہ اپنا یہ کلام کسی کو بھی نہ دکھائیں اوراپنے والدکاحوالہ تو ہرگزنہ دیں کیوں کہ اس کی نیک نامی کو بھی رسواکردوگے، خوشی کی بات یہ ہے کہ اس نے بات مان لی لیکن اکثرلوگ تو بالکل بھی نہیں مانتے اور خوامخوا اپنے ساتھ اپنے والدین کو بھی بعدازمرگ رسوا کرتے رہتے ہیں اس سلسلے میں رحمان بابا نے جو بات کہی ہے اسی کا جواب نہیں۔فرماتے ہیں ۔
ھغہ ناوے چہ پخپلہ خائستہ نہ وی
سوک بہ ئے سہ کاندی خائست دموراونیا
جو دلہن خود خوبصورت نہ ہوکوئی اس کی ماں اوردادی کے حسن کو لے کرکیاکرے گا۔