مالیاتی سہولیات سے استفادہ چین کو 26ارب روپے کا قرض ادا کرنا پڑا
دونوں ممالک کے درمیان مقامی کرنسی میں تجارت کی غرض سے 4.5 ڈالر کی رقم رکھی گئی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے چین کو گزشتہ مالی سال کے دوران تجارتی مالیاتی سہولیات سے مستفید ہونے کے عوض 26 ارب روپے سود کی مد میں ادا کیے۔
گزشتہ مالی سال کے حوالے سے جاری رپورٹ میں مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ پاک چین کرنسی مبادلہ کے معاہدے کے تحت 4 ارب 50 کروڑ ڈالر یا 30 ارب چینی یوان رکھے گئے تھے جس کا پاکستان نے گزشتہ مالی سال کے دوران بھرپور فائدہ اٹھایا تاہم اس سلسلے میں اسے چین کو 26 ارب روپے سود کی مد میں ادا کرنے پڑے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران ابتدا میں 20 ارب چینی یوان رکھے گئے تھے تاکہ تجارت کے دوران کرنسی کے تبادلے کی سہولیات سے فائدہ اٹھایا جاسکے تاہم بعد ازاں اس رقم کو بڑھا کر 30 ارب یوان کردیا گیا تھا جس کی مدت تین سال تھی، اگر پاکستانی کرنسی میں جائزہ لیں تو یہ تجارتی کرنسی مبادلے کی سہولت پاکستانی روپوں میں 476 ارب 60 کروڑ روپے تھے جسے گزشتہ مالی سال کے اختتام تک بڑھا کر748 ارب 50 کروڑ روپے کردیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ پاکستان اس مالیاتی سہولت سے زیادہ تر بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے کا کام لیتا ہے، یعنی پاک چین تجارتی سہولیات کے لیے رکھے گئے 4 ارب 50 کروڑ ڈآلر کی رقم بھی پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کا حصہ ہے۔ یہ سہولیات جو دراصل دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت کو اپنی مقامی کرنسیوں میں فروغ دینے کی غرض سے رکھی گئی تھی وہ زیادہ تر بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں کام آرہی ہے۔
گزشتہ مالی سال کے حوالے سے جاری رپورٹ میں مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ پاک چین کرنسی مبادلہ کے معاہدے کے تحت 4 ارب 50 کروڑ ڈالر یا 30 ارب چینی یوان رکھے گئے تھے جس کا پاکستان نے گزشتہ مالی سال کے دوران بھرپور فائدہ اٹھایا تاہم اس سلسلے میں اسے چین کو 26 ارب روپے سود کی مد میں ادا کرنے پڑے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران ابتدا میں 20 ارب چینی یوان رکھے گئے تھے تاکہ تجارت کے دوران کرنسی کے تبادلے کی سہولیات سے فائدہ اٹھایا جاسکے تاہم بعد ازاں اس رقم کو بڑھا کر 30 ارب یوان کردیا گیا تھا جس کی مدت تین سال تھی، اگر پاکستانی کرنسی میں جائزہ لیں تو یہ تجارتی کرنسی مبادلے کی سہولت پاکستانی روپوں میں 476 ارب 60 کروڑ روپے تھے جسے گزشتہ مالی سال کے اختتام تک بڑھا کر748 ارب 50 کروڑ روپے کردیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ پاکستان اس مالیاتی سہولت سے زیادہ تر بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے کا کام لیتا ہے، یعنی پاک چین تجارتی سہولیات کے لیے رکھے گئے 4 ارب 50 کروڑ ڈآلر کی رقم بھی پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کا حصہ ہے۔ یہ سہولیات جو دراصل دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت کو اپنی مقامی کرنسیوں میں فروغ دینے کی غرض سے رکھی گئی تھی وہ زیادہ تر بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں کام آرہی ہے۔