ہونہار بیٹی نے گولڈ میڈل جیت کر مرحوم والدین کی آخری خواہش پوری کردی
بیٹی نے والدین کا خواب پورا کر دکھایا، گولڈ میڈل لینے کے دوران آبدیدہ
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ انسٹیٹوٹ آف منیجمنٹ سائنسز میں ایم پی اے کی طالبہ نے اسپتال میں امتحان کی تیاری کرتے کرتے گولڈ میڈل حاصل کر لیا۔
بینش جاوید کی والدہ کینسر کی مریضہ تھیں جن کی خواہش بیٹی کی اول پوزیشن لینا تھی، ماں کی خواہش پوری ہوگئی لیکن وہ دنیا میں موجود نہیں، بینش نے حال ہی میں پشاور یونیورسٹی سے ایم پی اے ایک مضمون میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ کہانی صرف ایک گولڈ میڈل کی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے جدوجہد کی ایک داستان موجود ہے، جب میں پشاور یونیورسٹی میں داخلہ لے رہی تھی تو میرے والد نے یہ خواہش ظاہر کی کہ میری بیٹی گولڈ میڈل حاصل کرے اور اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے میں نے دن رات محنت کی اور ہر سمسٹر میں میں ٹاپ کیا مگر دوسرے سمسٹر کے امتحانات کے دوران میرے والد کی اچانک موت کی اطلاع ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ سن کر سکتے میں آگئی اور والد کے جنازے میں شرکت کی کی، اپنے والد کو اپنے ہاتھوں سے رخصت کرنے کے بعد اگلے دن صبح وہ پشاور آئیں اور اپنا باقی امتحان دیا اور اس بار بھی انہوں نے ٹاپ کیا مگر کہانی یہاں پر ختم نہیں ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ آخری سمسٹر کے دوران ان کی والدہ کینسر کے عارضے میں مبتلا ہوگئی، وہ اپنی والدہ کو کیمو کی ڈرپس ہاسپٹل میں لگوانے کے بعد اپنے امتحان دینے ڈپارٹمنٹ جایا کرتی۔
ان کا کہنا ہے کہ آج ان کے والدین حیات نہیں ہیں مگر یہ گولڈ میڈل حاصل کر کے انہوں نے اپنے والدین کا نام روشن کیا وہ اپنا یہ گولڈ میڈل اپنے مرحوم والدین اور اپنی مرحوم آنٹی سیماب اعوان کے نام کرتی ہیں۔
بینش جاوید کی والدہ کینسر کی مریضہ تھیں جن کی خواہش بیٹی کی اول پوزیشن لینا تھی، ماں کی خواہش پوری ہوگئی لیکن وہ دنیا میں موجود نہیں، بینش نے حال ہی میں پشاور یونیورسٹی سے ایم پی اے ایک مضمون میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ کہانی صرف ایک گولڈ میڈل کی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے جدوجہد کی ایک داستان موجود ہے، جب میں پشاور یونیورسٹی میں داخلہ لے رہی تھی تو میرے والد نے یہ خواہش ظاہر کی کہ میری بیٹی گولڈ میڈل حاصل کرے اور اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے میں نے دن رات محنت کی اور ہر سمسٹر میں میں ٹاپ کیا مگر دوسرے سمسٹر کے امتحانات کے دوران میرے والد کی اچانک موت کی اطلاع ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ سن کر سکتے میں آگئی اور والد کے جنازے میں شرکت کی کی، اپنے والد کو اپنے ہاتھوں سے رخصت کرنے کے بعد اگلے دن صبح وہ پشاور آئیں اور اپنا باقی امتحان دیا اور اس بار بھی انہوں نے ٹاپ کیا مگر کہانی یہاں پر ختم نہیں ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ آخری سمسٹر کے دوران ان کی والدہ کینسر کے عارضے میں مبتلا ہوگئی، وہ اپنی والدہ کو کیمو کی ڈرپس ہاسپٹل میں لگوانے کے بعد اپنے امتحان دینے ڈپارٹمنٹ جایا کرتی۔
ان کا کہنا ہے کہ آج ان کے والدین حیات نہیں ہیں مگر یہ گولڈ میڈل حاصل کر کے انہوں نے اپنے والدین کا نام روشن کیا وہ اپنا یہ گولڈ میڈل اپنے مرحوم والدین اور اپنی مرحوم آنٹی سیماب اعوان کے نام کرتی ہیں۔