جنگ آزادی کے بعد اردو ادب
1857 کی پہلی جنگ آزادی کی ناکامی کا عام ہندوستانیوں پر منفی اثر ہوا۔
سرسید احمد خان کا اثر اردو ادب کی اصناف ، تاریخ ، سوانح، مضمون ، ناول ، تنقید ، افسانہ اور شاعری و ادب کی تبدیلیاں سیاسی اور سماجی حالات کی رہین منت ہیں۔ سیاسی و تمدنی حالات ادبی تبدیلیوں کے محرک ہوتے ہیں۔
1757جنگ پلاسی سے لے کر 1857 آزادی کی تحریک تک ہندوستان کی تاریخ میں معمولی اختیارات رونما ہوئے۔ انگریزوں نے ایک خاص حکمت عملی '' پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو '' اختیار کی۔ انگریزوں کی یہ چال کامیاب رہی ، بنگال اور میسور میں اپنے قدم جمانے کے بعد انگریز پورے ہندوستان کو زیرنگیں کرنے کی کوشش میں لگے رہے۔
انھوں نے مغلیہ صوبہ داروں کو خود مختار بننے میں مدد کی۔ ادھر ہندوستان میں مختلف اقوام آپس میں برسر پیکار تھیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغلیہ سلطنت سمٹ گئی۔ بہادر شاہ ظفر تک پہنچتے پہنچتے مغلیہ سلطنت صرف ایک خاص حصے تک محدود ہو کر رہ گئی اور ہر جگہ انگریزوں کا راج قائم ہو گیا۔
1857 کی جنگ آزدی ناکام ہوئی اور انگریز ہندوستان کے حکمران بن گئے، سیاسی و معاشی حالات کے زیر اثر تہذیبی اور سماجی زندگی میں بھی تبدیلی آئی۔ حالات کی بے یقینی اور غیر اطمینان بخش کیفیت نے توہم پرستی کی راہیں ہموار کیں۔ لوگ مختلف عقائد میں مبتلا ہونے لگے، زندگی سے فرار کی طرف رجحان بڑھنے لگا۔ ایک طرف خانقاہیت عام ہوئی تو دوسری طرف اس زندگی کو ہی سب کچھ سمجھ کر لوگ عیش و عشرت کی طرف راغب ہونے لگے۔ ان حالات کا اثر دانشوروں، مفکرین، مبلغین، ادیب و شاعر، قلمکاروں پر بھی پڑا۔
اس دور کے بڑے دانشور سرسید احمد خان نے سب سے پہلے بڑی سنجیدگی کے ساتھ ان حالات کا احتساب کیا، سائنٹیفک سوسائٹی قائم کرکے مغربی علم و ادب کا شغف عام کرنے کی جدوجہد کی۔ وہ حقیقی روشنی میں حرکت و عمل کے قائل تھے۔ ان کے نزدیک فطرت پرستی اور حقیقت نگاری کی بڑی اہمیت تھی انھوں نے ادب میں انقلاب آفریں تغیر کی تبدیلی کی۔ بہت سے قلم کار ان سے متاثر ہوئے جن میں الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی، ڈپٹی نذیر احمد، محمد حسین آزاد، محسن الملک، ذکا اللہ، مہندی فاضل وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
سرسید احمد خان کا عہد نثر نگاری کی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اسے جدیدیت نثر کا دور بھی کہتے ہیں۔ سرسید احمد خان سے قبل اردو نثر قصہ کہانیوں تک محدود تک اور اسکالرز بیان بھی عام طور پر پرتکلف اور پر تصنع ہوا کرتا تھا۔ انھوں نے اپنی تحریر میں سادہ ، سلیس اور ایسی زبان استعمال کی جو بول چال کی زبان سے قریب تھی ان کا انداز تحریر بے تکلف اور سادہ آسان تھا۔ ان کو تاوریخ سے غیر معمولی دلچسپی تھی، واقعات تاریخی کے اسباب تلاش کرنے پر زور دیا۔ سرسید احمد خان کے رفقا میں اہم نام مولانا محمد حسین آزاد ہے محمد حسین آزاد نے اردو نثر کو ایک نئی دلکشی اور رنگینی عطا کی۔
1857 کے بعد کی سوانح عمری لکھی گئی مولانا الطاف حسین حالی اور شبلی نعمانی نے سوانح نگاری کی سمت کو وہ ترقی دی کہ شاید کوئی فراموش نہ کرسکے۔ ان کی تین سوانح عمری خاص ہیں''حیات جاوید''، ''یادگارغالب''، ''حیات سعدی''۔ حیات جاوید میں سرسید کی زندگی، یادگار غالب میں غالب کی شخصیت کی عظمت اور دل آویزی کو بہترین طور پر نمایاں کیا، حیات سعدی میں سعدی کو بحیثیت ایک انسان کے پیش کیا۔ شبلی نعمانی نے مولانا روم ،النعمان،غزالی اور مامون کی سوانح عمری لکھیں۔ ایک مورخ کی طرح اس دور کے مسائل اور تاریخی واقعات بھی بیان کیے۔
ناول کی صنف نذیر احمد کے سر ہے، ان کا پہلا ناول ''مراۃ العروس'' 1869 میں لکھا گیا۔ اس کے بعد ''حیات النفس، توبۃ النصوع ، رویائی سرائے ، مہقیات، مہیامی، فسانہ مبتلا یہ منظر عام پر آئے۔ نذیر احمد نے تعلیم نسواں کی اہمیت کو محسوس کرکے ایسی کتب لکھیں جو خواتین کے لیے خاص طور پر مفید تھیں۔ ان کے ناول کے ذریعے اردو نثر کو فروغ ملا۔ راشدالخیری کی پوری ناول نگاری نذیر احمد سے متاثر ہے۔ ناول نگاری جڑپکڑنے لگی۔
اردو میں ناول نگاری الطاف حسین حالی، سرشار، رسوا، شرر، پریم چند وغیرہ اس طرف راغب ہوئے اور کثیر تعداد میں ناول لکھے گئے۔1857 کے بعد اردو نثر کی صنف افسانہ بھی متعارف ہوا۔ بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں یورپی افسانوں کے تراجم بعد میں طبع زاد افسانے لکھے گئے۔ سجاد حیدر یلدرم کا ''نشے کی پہلی ترنگ'' 1907 میں شایع ہوا۔ محققین کے مطابق یہ اردو میں پہلا طبع زاد افسانہ ہے۔ منشی پریم چند کا پہلا افسانہ ''دنیا کا پہلا رتن'' شایع ہوا۔ بعدازاں افسانہ نگاری کا سلسلہ چل پڑا اور اردو کے بے شمار افسانے قلم بند ہوئے۔
1857 کے بعد مضمون اور مقالہ نگاری میں ''تہذیب الاخلاق'' نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ تخلیق پرستی، توہم پرستی، جہالت، کاہلی، رسم و رواج، خوشامد، چاپلوسی، تعلیم کی اہمیت، اپنی مدد آپ، امید کی خوشی وغیرہ اہم اور اچھوتے موضوعات ہیں جن پر سرسید احمد خان نے بڑی جرأت کے ساتھ ایسے مضامین لکھے۔ ان کے مضامین میں خالق و خطاب کی حیثیت یہ ہے کہ وہ آسان سلیس اور عام فہم زبان میں لکھے گئے۔ انھیں ہر طبقے کے لوگ پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں۔ تہذیب الخلاق میں سرسید احمد کے بعد سب سے زیادہ مضامین محسن الملک میں ملتے ہیں۔ جب رومان نثر کو عروج حاصل ہوا تو مہندی افسادی، سجاد حیدر یلدرم، وحید الدین سلیم، عنایت اللہ دہلوی اور ناصر علی نے مضمون نگاری کو فروغ دیا۔ مضمون نگاری کے ساتھ تحقیقی مقالے لکھنے کا رواج بھی عام ہوا۔ شبلی نعمانی، سرسید اور نذیر احمد نے سنجیدہ اور تحقیقی مقالے تحریر کیے۔
1857 کے بعد مکتوب نگاروں نے غالب کے علاوہ سرسید، شبلی نعمانی، الطاف حسین حالی، ڈپٹی نذیر احمد، محسن الملک وغیرہ کے مکاتب علمی و ادبی نثر کا موقع ہیں۔
1857 کے بعد شاعری کا جائزہ لیتے ہیں اس دور کا اہم شعری کارنامہ ''مد و جزر اسلام'' ہے جسے مولانا الطاف حسین حالی نے سرسید احمد خان کی فرمائش پر لکھا۔ حالی نے کئی نظمیں ملک کے قومی اور دوسرے موضوعات پر لکھیں جن میں مناجات، بیوہ، اور چپ کی داد اہم ہیں۔ الطاف حسین حالی اپنے وقت کے نباض تھے ان کا احساس شدید تھا ،ان کے شعور میں بیداری تھی اس لیے ان کے پاس زندگی کو بنانے اور حالات کو سدھارنے کی خواہش تھی۔ انجمن پنجاب نے بھی غیر معمولی حصہ ادا کیا حالی اور محمد حسین آزاد اسی انجمن کے روح رواں تھے۔ اقبال کی شاعری کی ابتدا اسی ماحول میں ہوئی جہاں ہر طرف فطرت پرستی، حب الوطنی، اتحاد، دفاع، انقلاب کے ترانے پیش کیے۔
شمس العلماء محمد حسین آزاد کو جدید اردو نظم کابانی اور مجدد کہا جاتا ہے۔ کیونکہ عنوانی نظم نگاری اور نیچرل شاعری کی ابتداء ان ہی کے ہاتھوں ہوئی۔ آپ بڑے ادیب ،نامی گرامی نقاد، مشہور نثرنگار ،ماہرِ تعلیم اورایک معروف اخبار نویس تھے۔ علاوہ ازیں آپ فلالوجی (philology ) کے بھی بڑے ماہر اور جدید فارسی کے استاد کامل تھے۔ مولانا محمد حسین آزاد 10 جون 1830ء کو دلی میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کا نام مولانا محمد باقر تھا۔ جو کہ ذوق کے دوست تھے اسی وجہ سے آزاد کی ابتدائی تعلیم ذوق کے سایۂ عاطفت میں ہوئی۔ان کی بابرکت صحبت سے موصوف نے شعر گوئی اور فن عروض سیکھا۔آزاد نے عربی اور فارسی اپنے والد سے ہی سیکھی ۔
1857 کی پہلی جنگ آزادی کی ناکامی کا عام ہندوستانیوں پر منفی اثر ہوا۔ شبلی، حالی، نذیر احمد، محمد حسین آزاد ، شرر، وحیدالدین سلیم، پریم چند، پنڈت رتن ناتھ سرشار، عصمت بیگ چغتائی، ملا وجہی، یلدرم وغیرہ کی اردو نثر اور اردو ادب میں نمایاں خدمات تاریخ کے اوراق میں موجود ہیں۔