ریلوے میں 66 ٹرینوں کی نجکاری کا فیصلہ
اگر آپ نے ریلوے میں نجکاری ہی کرنی ہے تو پھر خدارا کچھ خیال کرلیں کہ یہ کیسی نجکاری ہے۔
KARACHI:
پاکستان ریلوے نے کئی بار نجکاری کی اور پھر واپس۔ ٹھیکیدار ریلوے کا مال اور پیسہ کھا کر بھاگ گئے اور اب پھر پہلی مرتبہ ملک بھر میں چلنے والی تمام ٹرینیں جوکہ 33 اپ میں ہوں گی اور اسی طرح 33 ڈاؤن ٹریک پر دوڑتی ہیں کل 66 ٹرینوں کی کمرشل مینجمنٹ یعنی صرف ٹکٹ بیچنے کا ٹھیکہ دے کر پاکستان ریلوے کا نام ہی مٹانے کا فیصلہ کرلیا ہے جوکہ ناصرف قابل مذمت ہے بلکہ ملک اور عوام کے ساتھ ایک بہت بڑا دھوکا اور فراڈ ہے۔
پاکستان ریلوے نے سارے ملک کو جوڑ کر رکھا ہوا ہے جو اب تک 1861 سے پورے برصغیر میں انگریز سرکار بناکر گئی تھی جب کہ ہندوستان سمیت دنیا بھر میں کہیں بھی پرائیویٹ ٹکٹ بیچنے والی ٹرینیں نہیں ہیں شاید 2 ممالک میں پرائیویٹ مالک اپنی ٹرین ٹریک پر لا کر چلا رہے ہیں صرف ہمارے ملک میں تمام ٹرینوں کو ٹکٹ بیچنے کا ٹھیکہ دے کر فروخت کیا جا رہا ہے۔
اس سلسلے میں ہم نے کئی بار کالم لکھے، ٹی وی پر انٹرویوز دیے، خبریں چلوائیں، جلسے و جلوس کیے اور ہڑتالیں بھی کیں مگر اب تو حد ہوگئی ہے کہ پسنجر ٹرینوں کو مکمل طور پر پیچا جا رہا ہے جب کہ مال گاڑیوں کی نجکاری کا عمل جاری ہے۔ ریلوے کی زمین فروخت کی جا رہی ہے، اسپتال اور اسکول فروخت کیے جا رہے ہیں، ریلوے کلب، گراؤنڈ سمیت ورکشاپس کو فروخت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟
ہمارے حکمران ورلڈ بینک، آئی ایم ایف سے قرضے لے کر اور ان کی شرائط مان کر پٹرول، گیس، بجلی، آٹا، چینی، گھی، تیل، سبزی، دالیں اور گوشت کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کے بعد بھی کہہ رہے ہیں کہ اب بھی پاکستان میں مہنگائی کم ہے۔ دنیا میں بھی قیمتیں بڑھی ہیں۔ لیکن کیا دنیا میں اجرتوں میں اضافہ نہیں ہوا؟ کیا وہاں کی حکومتیں اپنے عوام کو رہائش، تعلیم، علاج کی سہولتیں نہیں دے رہی ہیں؟
ہمارے ملک میں تو لوگ بھوک، بیماری، غربت، بے روزگاری سے تنگ ہوکر خودکشیاں کر رہے ہیں۔ خیر بات بڑی لمبی ہو جائے گی۔ میں صرف پاکستان ریلوے کی طرف آتا ہوں۔ سب سے پہلے جنرل ضیا الحق کے دور میں ہماری فریٹ ٹرینوں مال گاڑیوں کی آمدنی کو روکنے کے لیے اس کے مقابلے پر دوسرے اداروں کو لاکھڑا کیا اور اس کے بعد والی حکومتوں نے بھی یہ کام جاری رکھا۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں دوبارہ بیڑہ غرق کیا گیا۔ چین سے انجن اور کوچز منگوا کر ریلوے کو بھاری نقصان پہنچایا۔ ریلوے کی قیمتی زمینیں فروخت کیں، ریلوے کلب بیچے، لاہور کے پام کلب اور بنگلوں کو فروخت کیا، کیس اب تک چل رہے ہیں، پھر آصف علی زرداری کی حکومت کے وزیر غلام احمد بلور نے ریلوے کی بہترین اور اچھی ٹرین پاک بزنس ٹرین کی ٹکٹوں کی فروخت کا ٹھیکہ ایک فرم کو دیا ہم نے احتجاج کیا لیکن ٹرین چلا دی گئی۔
2009 اور 2010 میں اس ٹرین کا کرایہ 7 ہزار مقرر کیا گیا معاہدے میں طے کیا گیا کہ ہر روز کمیشن 28فیصد کمپنی لے گی اور 72 فیصد ریلوے میں کراچی اور لاہور میں جمع کرایا کرے گی۔ مگر تین سال بعد ہی کمپنی ریلوے کو ایک ارب 80 کروڑ روپے کا ٹیکہ لگا کر بھاگ گئی۔ تاہم مقدمہ اب سپریم کورٹ میں چل رہا ہے ۔ بار بار نجکاری کرکے دیکھ لیا صرف نقصان کے کوئی فائدہ نہیں ہوا، پھر کیوں یہ عمل کیا جا رہا ہے؟
ریلوے ملازمین دن رات محنت کرکے ٹوٹی پھوٹی ریل کو کراچی تا پشاور اور کوئٹہ، بلوچستان تا چمن تک چلا رہے ہیں افسران کی فوج ظفر موج ریلوے ہیڈ کوارٹر، ریلوے منسٹری اور پھر 8 ڈویژن میں موجود ہے جب کہ ملازمین کی تعداد گھٹ کر 64 ہزار رہ گئی ہے بھرتیوں پر پابندی ہے، ریٹائرڈ ہوجانے والے تقریباً 7 ہزار ملازمین اور بیوہ کے فنڈز اور گریجویٹی روکی ہوئی ہے دوسری جانب نئے اور پرانے پروجیکٹ بنا کر گریڈ 17 تا 22 گریڈ افسران بھرتی کیے جا رہے ہیں یہ کیا ہو رہا ہے؟
خیر ریلوے اور پاکستان کی بڑی لمبی کہانی ہے سب ہی جانتے ہیں۔ میں چونکہ اسے خوش قسمتی کہوں یا پھر بدقسمتی کہ ریلوے کالونی میں ریلوے ملازم کے گھر 1945 میں پیدا ہو گیا تھا اور پھر جوان ہوکر ریلوے یونین، سیاسی کارکن کی حیثیت سے سب کچھ دیکھتا رہا، پڑھتا رہا، سو اس لیے میں زیادہ بات ریلوے ہی کی کرتا ہوں، جسے آپ برداشت کرلیں گے ایک مرتبہ پھر ریلوے کی نئی لسٹ کل ہی اخبارات میں اشتہار کی شکل میں نظر سے گزری۔ سو سوچا کہ آج ہی جلدی میں کچھ لکھ ڈالوں۔ تو حاضر ہے۔
آپ دیکھ لیں اور پڑھ لیں۔ درج تھا کہ ٹرینوں کی نج کاری کے حوالے سے 30 اکتوبر 2021 کو لاہور ریلوے ہیڈ کوارٹر میں کمیٹی روم نمبر 2 Pre Bid کانفرنس ہوگی۔ ٹھیکیدار حاضر ہوں گے اور 15 نومبر تک ٹینڈرز جمع کرانے ہوں گے۔ تمام ہی ٹرینیں ٹکٹ بیچنے کے لیے نیلام ہوں گی ۔ یہ وہ تمام ٹرینیں ہیں جو پورے پاکستان میں آ اور جا رہی ہیں۔ یہ کیسی نجکاری کی پالیسی ہے یہ تو ٹھیکیداری نظام ٹکٹ بیچنے والی ٹرینیں ہیں جس میں ٹھیکیدار کو فائدہ ہی فائدہ نقصان کسی بھی صورت میں ممکن ہی نہیں ہے۔
اس سلسلے میں بار بار لکھا اور کہا ہے کہ اگر آپ نے ریلوے میں نجکاری ہی کرنی ہے تو پھر خدارا کچھ خیال کرلیں کہ یہ کیسی نجکاری ہے۔ اگر آپ نے یہ کام کرنا ہی ہے تو پھر نجکاروں یا ٹھیکیداروں سے کہیں کہ وہ اپنی ٹرینیں لائیں اپنے انجن اپنی کوچز لائیں اور ہمارے ٹریک پر چلائیں اور ٹریک کا کرایہ دے دیں تاکہ نفع اور نقصان کا بھی پتا چل سکے، یہ کیا کہ انجن ہمارا، ڈیزل اور تیل ہمارا، بجلی کے پنکھے ہمارے، بلب اور ٹیوب لائٹ ہماری، پانی اور باتھ روم ہمارے اور ٹرینوں کی مرمت بھی ہماری، اگر حادثہ ہو تو انجن اور بوگیاں تباہ ہوں تو بھی نقصان ریلوے کا اور آپ ٹکٹ بیچ کر منافع کمائیں، نا بابا نا۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ ڈرائیور اور فائر مین بھی ہمارا ہی ہے۔
آپ اپنی ٹرین لائیں ہم سے خرید لیں یا پھر ایران، چین سے خرید لیں، ہمارے ٹریک پر چلائیں اور مقابلہ کریں۔ پرائیویٹ ٹرین بمقابلہ پاکستان ریلوے اپنا اسٹاف لائیں، اس طرح روزگار بھی ملے گا اور ٹرینیں بھی بہتر ہو جائیں گی۔ سگنل سسٹم بھی ٹھیک ہو جائے گا، ٹریک بھی مضبوط ہوگا اور روزگار کی راہیں بھی کھل جائیں گی۔
برائے مہربانی پاکستان کے ساتھ ساتھ پاکستان ریلوے سمیت تمام قومی اداروں کی نجکاری کے عمل کو روک کر حکومت اور ان کی انتظامیہ کو چلانے کا اختیار دیا جائے یا پھر دنیا کی مہنگائی کی طرح ہمارے ساتھ بھی انصاف کرتے ہوئے ہمیں بھی وہ تمام مراعات دی جائیں جو دنیا بھر میں خاص کر یورپ، چین، امریکا، روس کے شہریوں کو حاصل ہیں، واضح رہے کہ ریلوے نے یکم نومبر سے کرایوں میں 10 فیصد اضافہ بھی کردیا ہے،اس طرح ٹھیکے داروں کو مزید فائدہ پہنچے گا۔
پاکستان ریلوے نے کئی بار نجکاری کی اور پھر واپس۔ ٹھیکیدار ریلوے کا مال اور پیسہ کھا کر بھاگ گئے اور اب پھر پہلی مرتبہ ملک بھر میں چلنے والی تمام ٹرینیں جوکہ 33 اپ میں ہوں گی اور اسی طرح 33 ڈاؤن ٹریک پر دوڑتی ہیں کل 66 ٹرینوں کی کمرشل مینجمنٹ یعنی صرف ٹکٹ بیچنے کا ٹھیکہ دے کر پاکستان ریلوے کا نام ہی مٹانے کا فیصلہ کرلیا ہے جوکہ ناصرف قابل مذمت ہے بلکہ ملک اور عوام کے ساتھ ایک بہت بڑا دھوکا اور فراڈ ہے۔
پاکستان ریلوے نے سارے ملک کو جوڑ کر رکھا ہوا ہے جو اب تک 1861 سے پورے برصغیر میں انگریز سرکار بناکر گئی تھی جب کہ ہندوستان سمیت دنیا بھر میں کہیں بھی پرائیویٹ ٹکٹ بیچنے والی ٹرینیں نہیں ہیں شاید 2 ممالک میں پرائیویٹ مالک اپنی ٹرین ٹریک پر لا کر چلا رہے ہیں صرف ہمارے ملک میں تمام ٹرینوں کو ٹکٹ بیچنے کا ٹھیکہ دے کر فروخت کیا جا رہا ہے۔
اس سلسلے میں ہم نے کئی بار کالم لکھے، ٹی وی پر انٹرویوز دیے، خبریں چلوائیں، جلسے و جلوس کیے اور ہڑتالیں بھی کیں مگر اب تو حد ہوگئی ہے کہ پسنجر ٹرینوں کو مکمل طور پر پیچا جا رہا ہے جب کہ مال گاڑیوں کی نجکاری کا عمل جاری ہے۔ ریلوے کی زمین فروخت کی جا رہی ہے، اسپتال اور اسکول فروخت کیے جا رہے ہیں، ریلوے کلب، گراؤنڈ سمیت ورکشاپس کو فروخت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟
ہمارے حکمران ورلڈ بینک، آئی ایم ایف سے قرضے لے کر اور ان کی شرائط مان کر پٹرول، گیس، بجلی، آٹا، چینی، گھی، تیل، سبزی، دالیں اور گوشت کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کے بعد بھی کہہ رہے ہیں کہ اب بھی پاکستان میں مہنگائی کم ہے۔ دنیا میں بھی قیمتیں بڑھی ہیں۔ لیکن کیا دنیا میں اجرتوں میں اضافہ نہیں ہوا؟ کیا وہاں کی حکومتیں اپنے عوام کو رہائش، تعلیم، علاج کی سہولتیں نہیں دے رہی ہیں؟
ہمارے ملک میں تو لوگ بھوک، بیماری، غربت، بے روزگاری سے تنگ ہوکر خودکشیاں کر رہے ہیں۔ خیر بات بڑی لمبی ہو جائے گی۔ میں صرف پاکستان ریلوے کی طرف آتا ہوں۔ سب سے پہلے جنرل ضیا الحق کے دور میں ہماری فریٹ ٹرینوں مال گاڑیوں کی آمدنی کو روکنے کے لیے اس کے مقابلے پر دوسرے اداروں کو لاکھڑا کیا اور اس کے بعد والی حکومتوں نے بھی یہ کام جاری رکھا۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں دوبارہ بیڑہ غرق کیا گیا۔ چین سے انجن اور کوچز منگوا کر ریلوے کو بھاری نقصان پہنچایا۔ ریلوے کی قیمتی زمینیں فروخت کیں، ریلوے کلب بیچے، لاہور کے پام کلب اور بنگلوں کو فروخت کیا، کیس اب تک چل رہے ہیں، پھر آصف علی زرداری کی حکومت کے وزیر غلام احمد بلور نے ریلوے کی بہترین اور اچھی ٹرین پاک بزنس ٹرین کی ٹکٹوں کی فروخت کا ٹھیکہ ایک فرم کو دیا ہم نے احتجاج کیا لیکن ٹرین چلا دی گئی۔
2009 اور 2010 میں اس ٹرین کا کرایہ 7 ہزار مقرر کیا گیا معاہدے میں طے کیا گیا کہ ہر روز کمیشن 28فیصد کمپنی لے گی اور 72 فیصد ریلوے میں کراچی اور لاہور میں جمع کرایا کرے گی۔ مگر تین سال بعد ہی کمپنی ریلوے کو ایک ارب 80 کروڑ روپے کا ٹیکہ لگا کر بھاگ گئی۔ تاہم مقدمہ اب سپریم کورٹ میں چل رہا ہے ۔ بار بار نجکاری کرکے دیکھ لیا صرف نقصان کے کوئی فائدہ نہیں ہوا، پھر کیوں یہ عمل کیا جا رہا ہے؟
ریلوے ملازمین دن رات محنت کرکے ٹوٹی پھوٹی ریل کو کراچی تا پشاور اور کوئٹہ، بلوچستان تا چمن تک چلا رہے ہیں افسران کی فوج ظفر موج ریلوے ہیڈ کوارٹر، ریلوے منسٹری اور پھر 8 ڈویژن میں موجود ہے جب کہ ملازمین کی تعداد گھٹ کر 64 ہزار رہ گئی ہے بھرتیوں پر پابندی ہے، ریٹائرڈ ہوجانے والے تقریباً 7 ہزار ملازمین اور بیوہ کے فنڈز اور گریجویٹی روکی ہوئی ہے دوسری جانب نئے اور پرانے پروجیکٹ بنا کر گریڈ 17 تا 22 گریڈ افسران بھرتی کیے جا رہے ہیں یہ کیا ہو رہا ہے؟
خیر ریلوے اور پاکستان کی بڑی لمبی کہانی ہے سب ہی جانتے ہیں۔ میں چونکہ اسے خوش قسمتی کہوں یا پھر بدقسمتی کہ ریلوے کالونی میں ریلوے ملازم کے گھر 1945 میں پیدا ہو گیا تھا اور پھر جوان ہوکر ریلوے یونین، سیاسی کارکن کی حیثیت سے سب کچھ دیکھتا رہا، پڑھتا رہا، سو اس لیے میں زیادہ بات ریلوے ہی کی کرتا ہوں، جسے آپ برداشت کرلیں گے ایک مرتبہ پھر ریلوے کی نئی لسٹ کل ہی اخبارات میں اشتہار کی شکل میں نظر سے گزری۔ سو سوچا کہ آج ہی جلدی میں کچھ لکھ ڈالوں۔ تو حاضر ہے۔
آپ دیکھ لیں اور پڑھ لیں۔ درج تھا کہ ٹرینوں کی نج کاری کے حوالے سے 30 اکتوبر 2021 کو لاہور ریلوے ہیڈ کوارٹر میں کمیٹی روم نمبر 2 Pre Bid کانفرنس ہوگی۔ ٹھیکیدار حاضر ہوں گے اور 15 نومبر تک ٹینڈرز جمع کرانے ہوں گے۔ تمام ہی ٹرینیں ٹکٹ بیچنے کے لیے نیلام ہوں گی ۔ یہ وہ تمام ٹرینیں ہیں جو پورے پاکستان میں آ اور جا رہی ہیں۔ یہ کیسی نجکاری کی پالیسی ہے یہ تو ٹھیکیداری نظام ٹکٹ بیچنے والی ٹرینیں ہیں جس میں ٹھیکیدار کو فائدہ ہی فائدہ نقصان کسی بھی صورت میں ممکن ہی نہیں ہے۔
اس سلسلے میں بار بار لکھا اور کہا ہے کہ اگر آپ نے ریلوے میں نجکاری ہی کرنی ہے تو پھر خدارا کچھ خیال کرلیں کہ یہ کیسی نجکاری ہے۔ اگر آپ نے یہ کام کرنا ہی ہے تو پھر نجکاروں یا ٹھیکیداروں سے کہیں کہ وہ اپنی ٹرینیں لائیں اپنے انجن اپنی کوچز لائیں اور ہمارے ٹریک پر چلائیں اور ٹریک کا کرایہ دے دیں تاکہ نفع اور نقصان کا بھی پتا چل سکے، یہ کیا کہ انجن ہمارا، ڈیزل اور تیل ہمارا، بجلی کے پنکھے ہمارے، بلب اور ٹیوب لائٹ ہماری، پانی اور باتھ روم ہمارے اور ٹرینوں کی مرمت بھی ہماری، اگر حادثہ ہو تو انجن اور بوگیاں تباہ ہوں تو بھی نقصان ریلوے کا اور آپ ٹکٹ بیچ کر منافع کمائیں، نا بابا نا۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ ڈرائیور اور فائر مین بھی ہمارا ہی ہے۔
آپ اپنی ٹرین لائیں ہم سے خرید لیں یا پھر ایران، چین سے خرید لیں، ہمارے ٹریک پر چلائیں اور مقابلہ کریں۔ پرائیویٹ ٹرین بمقابلہ پاکستان ریلوے اپنا اسٹاف لائیں، اس طرح روزگار بھی ملے گا اور ٹرینیں بھی بہتر ہو جائیں گی۔ سگنل سسٹم بھی ٹھیک ہو جائے گا، ٹریک بھی مضبوط ہوگا اور روزگار کی راہیں بھی کھل جائیں گی۔
برائے مہربانی پاکستان کے ساتھ ساتھ پاکستان ریلوے سمیت تمام قومی اداروں کی نجکاری کے عمل کو روک کر حکومت اور ان کی انتظامیہ کو چلانے کا اختیار دیا جائے یا پھر دنیا کی مہنگائی کی طرح ہمارے ساتھ بھی انصاف کرتے ہوئے ہمیں بھی وہ تمام مراعات دی جائیں جو دنیا بھر میں خاص کر یورپ، چین، امریکا، روس کے شہریوں کو حاصل ہیں، واضح رہے کہ ریلوے نے یکم نومبر سے کرایوں میں 10 فیصد اضافہ بھی کردیا ہے،اس طرح ٹھیکے داروں کو مزید فائدہ پہنچے گا۔