سیکیولر

آج یہ ملک جس دوراہے پر کھڑا ہے اس کی وجہ الفاظ کو ان کی روحانی معنی دینے سے اجتناب ہے۔

Jvqazi@gmail.com

سوال یہ تھا کہ کس طرح ملک سے جمہوریت کو گول کیا جائے؟ یہ جو ملک جمہوریت کے ذریعے معروض وجود میں آیا تھا، یہ جو قرارداد پاکستان کے نام سے ہم جانتے ہیں۔

پاکستان بننے کے سات سال بعد ایک ایسی پارٹی کے سالانہ اجلاس کی قرار داد تھی جو انتخابات کے ذریعے پاکستان چاہتی تھی اور یہ قرار داد اس تسلسل کا حصہ تھی یہ جو 1940 کے لگ بھگ کانگریس کی چلائی کوئٹ انڈیا موومنٹ تھی، وہ بھی جمہوریت کا تسلسل تھی کہ انگریز سامراج ہندوستان کو اب مقامی لوگوں کے حوالے کرے۔ عائشہ جلال سے لے کر ایچ ایم سیروائی تک نہ جانے کتنے تاریخ دانوں نے تقسیم ہند کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے۔

ایک میرا بھی مقدمہ ہے تاریخ کے کٹہرے میں ، میں بھی اپنی عرض رکھوں گا ، کس طرح تاریخ اپنا راستہ لیتی ہے ، کتنی بے رحم ہوتی ہے یہ ، کچھ نہیں دیکھتی۔ کتنی کرب آمیز ہے ہجرت کی داستان ہماری بھی اور ان کی بھی جو یہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔

روک دی تھی جناح نے وہ ساری اقلیت متحدہ ہندوستان میں ''دو قومی نظریے'' کی بنیاد پر کھڑے بیانیے کی باگ دوڑ ،گیارہ اگست کی تقریر میں پاکستان کے معرض وجود میں آنے کہ تین دن پہلے کہ سب کو اپنے مذہب ، ریت و رسم پے چلنے کی کھلی آزادی ہوگی کہ ریاست کو کسی کے مذہب میں جانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ ''دو قومی تحریک ''ایک سیاسی اسٹرٹیجی کے سوا اور کچھ بھی نہ تھی جب مقصد حاصل ہوا تو پھر آگے کی چیلنجز کو دیکھنا تھا۔ یہ شیخ مجیب، یہ شہید سہروردی کون تھے ،یہ بنگالی تھے۔

آل انڈیا مسلم لیگ لیڈر شپ یا تو یوپی سے تھی یا مشرقی پاکستان سے۔ ہم مغربی پاکستان کا تو اتنا بڑا مسئلہ پاکستان بنانا نہ تھا کہ ہم تو مسلمان اکثریت والی ریاستوں پر مبنی تھے ، مسئلہ یوپی، گجرات وغیرہ کے مسلمانان ہند کا تھا کہ وہ اقلیت میں تھے ، مگر پاکستان کی تحریک، مجموعی طور پر اقلیت کی تحریک تھی وہ متحدہ ہندوستان کے بنتے ہوئے آئین میں تحفظ چاہتی تھی ، برابری چاہتی تھی ۔ ریاست اور مذہب کو الگ الگ کرنا چاہتی تھی۔

نہرو اور گاندھی بھی یہی چاہتے تھے مگر کانگریس کا تیسرا یا روحانی طور پر سب سے بڑا لیڈر ولبھ بھائی پٹیل مودی کے روحانی والد یہ نہیں چاہتے تھے ،جس نے آج کل گجرات میں اتنا بڑا مجسمہ کھڑا کیا گیا ہے ، ولبھ بھائی پٹیل کا۔ دنیا کے چند عظیم مجسموں میں اس کا شمار ہوتا ہے وہ مجسمہ اور وہ مودی ، ہندوستان کی سیکیولر حیثیت پر ایک کلنگ کے علاوہ کچھ نہیںاور وہ ہندوستان کو اندر سے کمزور کر رہا ہے۔

جناح کا تسلسل ، فاطمہ جناح کا تسلسل ، شہید سہروردی کا تسلسل تھے شیخ مجیب، وہ بنگالی قوم پرست نہیں تھے ، وہ بنگال کے لوگوں کا حق مانگتے تھے ، لیکن تھے وہ سیکیولر ۔ اگر 1971 کے انتخابات کے نتائج قبول ہوجاتے تو جناح کی گیارہ اگست والی تقریر جو ہم نے ریڈیو پاکستان سے غائب کردی تھی ، جو بھٹو اور ضیاء الحق کے زمانے میں تو بالکل ہی گول کر دی گئی جو قرارداد مقاصد ہمارے بیانیہ میں پیوست کردی گئی ۔ کتنے لاکھوں نوجوان تھے اس وقت میری طرح جو پاکستان کی مسخ شدہ تاریخ کا شکار ہوئے، ہمیں کچھ بھی خبر نہیں کہ ہم نے جانا کدھر ہے ، ہماری منزل کیا ہے ؟


ہندوستان کے آئین میں بھی تحریری طور پر سیکیولرا زم کا لفظ نہیں تھا، اور وہ بھی 76 ترمیم کے ذریعے اس کے Preamble میں اندرا گاندھی کے زمانے میں ڈالا گیا تھا ۔ یہ ان کے آرٹیکل پندرہ وغیرہ ہے جس کو کورٹ نے تشریح کرکے سیکیولرازم کے لیے گنجائش نکالی اور اب ہندوستا ن کا سیکیولرازم پھر سے خطرے میں ہے کہ ریاست تو مانتی ہے آئین بھی مانتا ہے مگر مودی کا بیانیہ اس نفرت میں ابھی رہ کے اپنے اقتدار کو تول دینا چاہتا ہے۔

یہ شیخ مجیب تھا، شہیدسہروردی ، جناح اور فاطمہ کا تسلسل تھا، جس نے بنگلہ دیش کے آئین کا تحریری بنیادی ڈھانچہ دیا، جو کہ بنگلہ د یش کے آئین کو بہت مختلف اسے لیے کرتا ہے کہ امریکا سے لے کے ہندوستان کے آئین کا بنیادی ڈھانچہ Doctrine of implied limitations کے تحت کورٹ نے تشریح کرتے ہوئے ڈھونڈ نکالا تھا مگر شیخ مجیب والا بنگلہ دیش کی آئین ساز اسمبلی نے بنیادی ڈھانچہ خود تحریری طور پر ڈالا تھا اور اس میں سیکیولرازم لازمی ستون کرکے ڈالا تھا کہ جسے کوئی بھی ترمیم کرکے نہیں نکال سکتا ۔ مگر بنگلہ دیش ہماری کوکھ سے بنا تھا ، وہاں بھی وہی بیماری مارشل لاء والی پیدا ہوئی۔

جنرل ارشاد والی پارلیمنٹ نے مخصوص سوچ کو جمہوریت کی تحریک سے الگ کرنے کے لیے سیکیولرازم آئین سے نکال دیا اور آج تیسرے ادوار میں شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش کے آئین میں سیکیولرازم کا لفظ واپس لے آئی ہے ۔ یقینا اب بھی بنگلہ دیش کو سیکیولر ریاست نہیں کہا جائیگا کیونکہ آئین grand norm اچانک نہیں بن جاتا یا یوں کہیے ریاست اور لوگوں کو ایک صفحے پر آنے کے لیے دہائیاں چاہیے ہوتی ہیں ، کبھی کبھی تو صدیاں لگ جاتی ہیں ۔ امریکا کے چودہویں ترمیم کے تحت (جو ہماری آئین کی آرٹیکل پچیس کی شکل ہے) سب قانون کے سامنے برابر ہیں تو کیا وہاں کے سیاہ فام لوگوں کو برابر سمجھا جاتا ہے۔

ہمارے آئین میں بھی موجود ہے آرٹیکل 20 جس کے تحت سب کو آزادی ہے، اپنے اپنے مذہب کے اعتبار سے اپنی عبادت، ریتیں رسمیں کریں۔ صرف ایک ہی غالبا کورٹ کی جج منٹ ہے ،وہ ہے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی والی۔ جس نے آرٹیکل 20 کی تشریح کی ہے۔

اور اب ہم اس اسی ڈگر کے بیچ پھنس گئے ہیں ، ایک طرف افغانستان ہے طالبان کی حکومت ہے، ہمارے پاس اب سڑکوں پر جی ٹی روڈ پر قبضہ ہے، اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ ہے۔ ہم اب بھی مصلحت پسندی سے کام لینے پر مجبور ہیں ، ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ ہم اپنے آئین میں ایسا کوئی گیارہ اگست والا کام کریں بھلے چاہے ، کتنی ہی جناح بانی پاکستان اور قائد اعظم ہوں۔ یہ جو سیکیولر لفظ اس کا origin یورپ کی تحریک میں ہے اور ہمارا origin صوفی اور بھگتی تحریک کی شکل میں موجود ہے۔ منصور ہلاج ، سرمد، مخدوم بلاول ، جنید بغدادی، رابعہ بصری ، رومی، جامی، سچل ، لطیف ۔ باہو کی شکل میں ہے۔

سیکیولر لفظ تاریخ کے اعتبار سے ـ''دنیوی'' لفظ کی انگریزی اصطلاح ہے۔ آگے جاکے آئین کے فلاسفروں نے سیکیولر لفظ کی تشریح یوں کی کہ ریاست اور مذہب کو الگ الگ کرو۔ یعنی ریاست سب مذہب والوں کی جو اس ریاست کے شہری ہیں۔

بدنصیبی سے ہم سیکیولر لفظ کی معانی بھی بگاڑ بیٹھے ہیں، ہماری لغت میں سیکیولر لفظ کی معنی ہے لادینیت ۔ یہ معنی کسی اور نے نہیں بلکہ خود بابا ئے اردو مولوی عبد الحق کی تحریر شدہ ڈکشنری میں بھی یہی معنی ہے جو کہ آکسفرڈ ڈکشنری وغیرہ میں دی ہوئی معنی کے بالکل الٹ ہے۔

آج یہ ملک جس دوراہے پر کھڑا ہے اس کی وجہ الفاظ کو ان کی روحانی معنی دینے سے اجتناب ہے، ہر فرقہ کے لوگ اپنے بارے میں سمجھتے ہیں ہم مسلمان ہیں باقی غلط ہیں ۔ہم نے غدار اور کافر کا لفظ کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔ اپنے ذاتی مفاد ات کے لیے اور دیکھیے ہم اب کہاں کھڑے ہیں ۔
Load Next Story