صحافت میں زندگی کے بہت سے ’خواب‘ پیچھے رہ گئے
کتاب کے تبصروں کے لیے نذرانوں کی پیشکش بھی ہوئی
KARACHI:
'ایکسپریس' میں آنے کے بعد ہماری قسمت اچھی تھی کہ محض دو سال بعد ہی ترقیاں ہوگئیں اور ہم ایسے 'سب ایڈیٹر' کے ساتھ بھی 'سینئر' کا سابقہ لگ گیا اور کچھ محنتانہ بھی بڑھ گیا، اس عرصے میں ہم 'کراچی یونین آف جرنلسٹ' اور پھر 2019ءمیں معجزاتی طور پر 'کراچی پریس کلب' کے رکن بھی بن گئے سب ایڈیٹنگ، مضمون نگاری، فیچرو انٹرویو اور ترجمے وغیرہ سے آگے بڑھ کر ہم نے کتابوں پر تبصروں میں بھی ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔
تھوڑا سا ماضی کھنگالتے ہیں، تو فروری 2014ءسے ایکسپریس کی ویب سائٹ (express.pk) کے لیے اعزازی طور پر 'بلاگ' لکھنے شروع کیے، کبھی کبھی ادارتی صفحے پر نادر شاہ عادل صاحب کی کرم نوازی کے صدقے کچھ شایع ہو جاتا تھا، 2015ءمیں 'صد لفظی کتھا' کا آغاز بھی ادارتی صفحات سے ہی ہوا مارچ 2017ءمیں ہمارے سینئر ساتھی اقبال خورشید روزنامہ 'دنیا' چلے گئے، تو ہمارے میگزین مدیر جناب احفاظ الرحمن نے اقبال بھائی کی جگہ انٹرویو کا اہم ہفتہ وار صفحہ "شخصیت" ہمیں سونپ دیا۔
پیشہ وارانہ زندگی میں یہ مرحلہ بہ یک وقت ایک سنگ میل بھی تھا اور ایک بڑا چیلینج بھی جس سے ہم نے خوب لطف اٹھایا اور ساتھ بہت کچھ سیکھا بھی احفاظ صاحب سے ڈانٹ ڈپٹ کھانے والے اِس نوآموز پر اُن کا یہ اعتماد کرنا واقعی کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ بیسیوں عام انٹرویو تو ہم پہلے بھی کر چکے تھے، لیکن اب مختلف شخصیات کے ساتھ بیٹھک رہی۔ ہم اب تک مختلف شعبہ ہائے زندگی کی 75 سے زائد نام ور شخصیات کے انٹرویو قلم بند کر چکے ہیں۔
جس میں سابق گورنر سندھ بیرسٹر کمال اظفر اور سابق وزیر اعلیٰ سندھ لیاقت جتوئی سے لے کر سابق ترجمان 'آئی ایس پی آر' بریگیڈیر (ر) عبدالرحمن صدیقی، سابق کیبنٹ سیکریٹری ڈاکٹر معصومہ حسن، سابق وفاقی وزیر جاوید جبار، بیرسٹر شاہدہ جمیل، بیرسٹر صبغت اللہ قادری، آزاد بن حیدر، کشور زہرہ، امین الحق، وسیم اختر، رضا ہارون، اقبال یوسف، وقار مہدی، شہلا رضا وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
اسی طرح علمی و ادبی دنیا سے ہمیں ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری (مرحوم)، ڈاکٹر یونس حسنی، ڈاکٹر رﺅف پاریکھ، شکیل عادل زادہ اور انور مقصود، ایچ اقبال، رفیع الزماں زبیری، زاہدہ حنا اور رئیس فاطمہ وغیرہ سے گفتگو کا موقع ملا۔ شعر وسخن کی دنیا سے رسا چغتائی (مرحوم)، افتخار عارف اور جاوید صبا صاحب سے سوال جواب کیے۔ وادی¿ صحافت سے روزنامہ 'امن' کے اجمل دہلوی، 'جسارت' کے اطہر ہاشمی (مرحوم)، 'بی بی سی' کے شفیع نقی جامعی اور 'مشرق' کے علی اختر رضوی (مرحوم) کے انٹرویو شایع کیے۔ طب کے میدان سے ڈاکٹر عطا الرحمن اور ڈاکٹر طاہر شمسی سے ملاقات رہی۔ شیوخ الجامعات جامعہ کراچی و 'این ای ڈی' یونیورسٹی ڈاکٹر محمد اجمل خان (مرحوم) اور ڈاکٹر سروش حشمت لودھی، 'ہمدرد' کی روح ورواں سعدیہ راشد، 'اخوت' کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب، کرکٹر اسد شفیق اور براڈ کاسٹر بدر رضوان کو بھی قلم بند کرنے کا اعزاز ملا۔
یہی نہیں بیرون ملک سے آنے والوں میں اردو کے جاپانی پروفیسر ہیروجی کاتاﺅکا، اردو کے مصری استاد ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم، ہندوستان سے شاعرہ انا دہلوی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے محقق ڈاکٹر عطا خورشید اور جاپانی طالب علم محمد نعیم (شوہے) کے علاوہ بہ ذریعہ فون ہندوستانی بلاگر محمد علم اللہ اور محقق ڈاکٹر جاں نثار معین کے انٹرویو بھی کیے۔
جنوری 2019ءمیں اپنے 'بشارت' کے زمانے (2011ئ) کے مستقل کالم 'خانہ پُری' کو سنڈے میگزین میں قدرے مختلف اور ہلکے پھلکے انداز میں شروع کیا یہاں بھی ان 'خانہ پُریوں' کی تعداد 70 ہو چکی ہے، جب کہ مبشر علی زیدی کی 'سو لفظوں کی کہانی' سے متاثر ہو کر شروع کی گئی 'صد لفظی کتھا' کی تعداد بھی اب 90 ہے ایکسپریس کی ویب سائٹ پر 'ایکسپریس' اخبار کی بہت سی تحریریں اور انٹرویو موجود نہ ہونے کے باوجود ہمارے رشحات قلم ماشااللہ 400 سے متجاوز ہیں، جب کہ 'ڈان' کے لیے 40 سے زائد بلاگ شایع ہو چکے ہیں یوں مجموعی طور پر ہماری 'آن لائن' دست یاب تحریروں کی تعداد 450 سے زائد ہے۔
یہ حساب کتاب یوں ضروری تھا کہ انسانی زندگی میں 10 برس بہت ہوا کرتے ہیں اگر ہم اب بھی کہیں نہ کہیں یہ محسوس کریں کہ ہم ابھی "کیرئیر بنا رہے ہیں!" تو پیشہ وارانہ جمع تفریق میں یہ بات بالکل بھی اچھی نہیں سمجھی جائے گی کہ میاں، اگر اب ابھی کیرئیر بنے گا، تو پھر باقی ہی کتنا رہ جائے گا؟ بات تو سچ ہے، لیکن بات ہے رسوائی کی آپس کی بات ہے کہ 'کوچہ صحافت' میں ہم خود کو کچھ خاص کام یاب تصور نہیں کرتے، بس کبھی چند ایک چیزوں کو خیال میں لا کر خود کو اوسط درجے کی کارکردگی والے صحافی کا کچھ اطمینان دلا دیتے ہیں مگر کچھ دن قبل ایک بڑے اخبار کے سابق چیف رپورٹر اور ایک چینل کے موجودہ 'بیوروچیف' نے ہمیں یہ شعبہ بدلنے کا سفاک مشورہ دے ڈالا! ہمارا معاملہ تو یہ ہے کہ
کروں گا کیا جو "صحافت" میں ہوگیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
گذشتہ دنوں 'ٹوئٹر' پر ایک دبنگ صحافی نصرت جاوید کے حوالے سے لکھا گیا کہ انھوں نے کہا "میں نے شعبۂ صحافت کو عشق کے طور پر اختیار کیا تھا، لیکن ایمان داری سے کہتا ہوں کہ میں نے بڑی غلطی کی تھی، میں ایمان داری سے مشورہ دیتا ہوں کہ جن صحافیوں کی عمر 30 سے 35 سال تک ہے، وہ کوئی اور پیشہ اختیار کرلیں!"
ہم بھی عمر کے اسی دائرے میں ہیں، جو نصرت صاحب نے فرمائی! شاید آپ مجھ جیسے 'عاشق صحافی' پر ان کے اس 'مشورے' کی 'تاب کاری' اور شدت کا اندازہ نہ لگا سکیں، کہ کتنے پاپڑ بیل کر ہم اب یہاں تک پہنچے ہیں، تو ہمیں یہ سننے کو مل رہا ہے کہ گویا ہم تو "غلط" آگئے
جنھیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے!
اس تلخ اور مایوس کُن صورت حال کے باوجود الحمدللہ ہمیں رَتّی برابر بھی کوئی پچھتاوا یا افسوس نہیں کہ ہم نے یہ شعبہ کیوں منتخب کیا، یا یہ کہ ہم یہ سوچتے ہوں کہ کاش ہم نے کچھ اور کر لیا ہوتا! کیوں کہ صحافت ہمارے فطری میلان اور رجحان کے نزدیک ترین شعبہ ہے، اور ہم اب بھی یہی کہتے ہیں کہ زندگی میں پیسہ بہت کچھ ہوتا ہے، لیکن سب کچھ نہیں ہوتا۔ یہ سچ ہے کہ 'ایکسپریس' کے نو اور ہماری صحافت کے اِن 10 سالوں نے ہمیں ایک نام، پہچان، اعتبار، عزت، وقار اور رتبہ بھی دیا، ہمیں اس کام کی ایک تنخواہ بھی ملتی ہے لیکن ہم نے اپنی 'تحریکی صحافت' کے لیے اپنی عمر کے ایک قیمتی ترین وقت کی قربانی بھی دی ہے! صرف ادارتی پالیسی سے مطمئن نہ ہونے کے باعث دُگنی تنخواہوں کے موقعے بھی ہاتھ سے جانے دیے ہیں، کیوں کہ اس کام کو ہمیشہ ایک مقصد اور جدوجہد سمجھ کر ادا کیا، اور ہر ممکن طریقے سے اچھائی کو بڑھانے اور خرابیوں کی بیخ کنی کی سوچ رکھی ہے، جو کہ معاش کی زبان میں شاید کوئی 'نارمل رویہ' شمار نہ کیا جائے تاہم مولانا ابو الکلام آزاد کے ہاں تو صحافت منفعت تو درکنار سراسر گھاٹے کا راستہ ہی بتایا گیا۔
ہاںِ، صحافت میں آگے بڑھنے کی جستجو میں زندگی کے بہت سے خواب ضرور بہت پیچھے رہ گئے! لیکن معاش کی کشتی میں چَپو چلا کر اللہ کے کرم سے بہت سے بحرانوں کا سامنا کر ہی رہے ہیں صرف ایک بار انٹرویو کے بعد کچھ ہلکے پھلکے 'تحائف' ہمیں تھمائے گئے، جس کا بہت دنوں تک ضمیر پر بوجھ رہا کہ یہ بھی کچھ بد دیانتی سی ہوگئی اور یہ تھا بھی کیا ایک چائے کی دیدہ زیب پیالی، ایک اچھا بٹوا، خوش نما ڈائری اور دل لبھاتا ہوا پین وغیرہ۔
الحمدللہ، ہمیں کبھی باقاعدہ 'لفافے' کی پیش کش نہیں ہوئی، بقول شخصے، ہمیں وہ لَچھن اور بھرم بازیاں ہی نہیں آتیں، جو 'لفافے والے' صحافیوں کا خاصّہ ہوا کرتی ہیں، البتہ ایک مرتبہ ایک انٹرویو کے بعد شاید دو، چار ہزار روپے 'نذرانے' کے آئے، ہم نے سختی سے منع کر دیا۔ اس کے علاوہ ایک کتاب کے تبصرے کی اشاعت کے بعد پانچ ہزار روپے دینے کا کہا، ہم نے بہت معذرت کر لی، بہت اصرار ہوا کہ دراصل یہ روپیا تو ہم نے کتاب کے 'بجٹ' میں رکھا تھا لیکن ہمارا جی نہیں مانا۔
دراصل اس دشت میں بہت سے صحافت کا لبادہ اوڑھنے والے افراد کسی نہ کسی کے 'ہرکارے' ہیں، یا کسی کے 'نمک خوار' بس اسی بنیاد پر ان کے اسکرپٹ، الفاظ، خبر، کالم، فیچر اور مضمون آگ اگلتا ہے یا گُل و گُل زار ہوا جاتا ہے بہت سوں کے تو ہر ہر لفظ کے پیچھے کوئی نہ کوئی 'معشوق' ضرور ہوتی ہے لیکن ہم نے ہمیشہ اپنے فہم اور ضمیر کے مطابق لکھا، اور ہمارا ایک ایک لفظ ہمارے اندر ہر وقت لگی رہنے والی عدالت کے کٹہرے میں جواب دہ ہوتا ہے۔ ہر لفظ پر غوروخوص اور لکھنے کے بعد اس کا حساب کتاب اپنے آپ جاری و ساری رہتا ہے۔ اس لیے پورا سچ سننے سے 'پریشان' لوگ کیا سوچتے ہیں، ہمیں اس کی چنداں پروا نہیں۔
'ایکسپریس' میں آنے کے بعد ہماری قسمت اچھی تھی کہ محض دو سال بعد ہی ترقیاں ہوگئیں اور ہم ایسے 'سب ایڈیٹر' کے ساتھ بھی 'سینئر' کا سابقہ لگ گیا اور کچھ محنتانہ بھی بڑھ گیا، اس عرصے میں ہم 'کراچی یونین آف جرنلسٹ' اور پھر 2019ءمیں معجزاتی طور پر 'کراچی پریس کلب' کے رکن بھی بن گئے سب ایڈیٹنگ، مضمون نگاری، فیچرو انٹرویو اور ترجمے وغیرہ سے آگے بڑھ کر ہم نے کتابوں پر تبصروں میں بھی ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔
تھوڑا سا ماضی کھنگالتے ہیں، تو فروری 2014ءسے ایکسپریس کی ویب سائٹ (express.pk) کے لیے اعزازی طور پر 'بلاگ' لکھنے شروع کیے، کبھی کبھی ادارتی صفحے پر نادر شاہ عادل صاحب کی کرم نوازی کے صدقے کچھ شایع ہو جاتا تھا، 2015ءمیں 'صد لفظی کتھا' کا آغاز بھی ادارتی صفحات سے ہی ہوا مارچ 2017ءمیں ہمارے سینئر ساتھی اقبال خورشید روزنامہ 'دنیا' چلے گئے، تو ہمارے میگزین مدیر جناب احفاظ الرحمن نے اقبال بھائی کی جگہ انٹرویو کا اہم ہفتہ وار صفحہ "شخصیت" ہمیں سونپ دیا۔
پیشہ وارانہ زندگی میں یہ مرحلہ بہ یک وقت ایک سنگ میل بھی تھا اور ایک بڑا چیلینج بھی جس سے ہم نے خوب لطف اٹھایا اور ساتھ بہت کچھ سیکھا بھی احفاظ صاحب سے ڈانٹ ڈپٹ کھانے والے اِس نوآموز پر اُن کا یہ اعتماد کرنا واقعی کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ بیسیوں عام انٹرویو تو ہم پہلے بھی کر چکے تھے، لیکن اب مختلف شخصیات کے ساتھ بیٹھک رہی۔ ہم اب تک مختلف شعبہ ہائے زندگی کی 75 سے زائد نام ور شخصیات کے انٹرویو قلم بند کر چکے ہیں۔
جس میں سابق گورنر سندھ بیرسٹر کمال اظفر اور سابق وزیر اعلیٰ سندھ لیاقت جتوئی سے لے کر سابق ترجمان 'آئی ایس پی آر' بریگیڈیر (ر) عبدالرحمن صدیقی، سابق کیبنٹ سیکریٹری ڈاکٹر معصومہ حسن، سابق وفاقی وزیر جاوید جبار، بیرسٹر شاہدہ جمیل، بیرسٹر صبغت اللہ قادری، آزاد بن حیدر، کشور زہرہ، امین الحق، وسیم اختر، رضا ہارون، اقبال یوسف، وقار مہدی، شہلا رضا وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
اسی طرح علمی و ادبی دنیا سے ہمیں ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری (مرحوم)، ڈاکٹر یونس حسنی، ڈاکٹر رﺅف پاریکھ، شکیل عادل زادہ اور انور مقصود، ایچ اقبال، رفیع الزماں زبیری، زاہدہ حنا اور رئیس فاطمہ وغیرہ سے گفتگو کا موقع ملا۔ شعر وسخن کی دنیا سے رسا چغتائی (مرحوم)، افتخار عارف اور جاوید صبا صاحب سے سوال جواب کیے۔ وادی¿ صحافت سے روزنامہ 'امن' کے اجمل دہلوی، 'جسارت' کے اطہر ہاشمی (مرحوم)، 'بی بی سی' کے شفیع نقی جامعی اور 'مشرق' کے علی اختر رضوی (مرحوم) کے انٹرویو شایع کیے۔ طب کے میدان سے ڈاکٹر عطا الرحمن اور ڈاکٹر طاہر شمسی سے ملاقات رہی۔ شیوخ الجامعات جامعہ کراچی و 'این ای ڈی' یونیورسٹی ڈاکٹر محمد اجمل خان (مرحوم) اور ڈاکٹر سروش حشمت لودھی، 'ہمدرد' کی روح ورواں سعدیہ راشد، 'اخوت' کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب، کرکٹر اسد شفیق اور براڈ کاسٹر بدر رضوان کو بھی قلم بند کرنے کا اعزاز ملا۔
یہی نہیں بیرون ملک سے آنے والوں میں اردو کے جاپانی پروفیسر ہیروجی کاتاﺅکا، اردو کے مصری استاد ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم، ہندوستان سے شاعرہ انا دہلوی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے محقق ڈاکٹر عطا خورشید اور جاپانی طالب علم محمد نعیم (شوہے) کے علاوہ بہ ذریعہ فون ہندوستانی بلاگر محمد علم اللہ اور محقق ڈاکٹر جاں نثار معین کے انٹرویو بھی کیے۔
جنوری 2019ءمیں اپنے 'بشارت' کے زمانے (2011ئ) کے مستقل کالم 'خانہ پُری' کو سنڈے میگزین میں قدرے مختلف اور ہلکے پھلکے انداز میں شروع کیا یہاں بھی ان 'خانہ پُریوں' کی تعداد 70 ہو چکی ہے، جب کہ مبشر علی زیدی کی 'سو لفظوں کی کہانی' سے متاثر ہو کر شروع کی گئی 'صد لفظی کتھا' کی تعداد بھی اب 90 ہے ایکسپریس کی ویب سائٹ پر 'ایکسپریس' اخبار کی بہت سی تحریریں اور انٹرویو موجود نہ ہونے کے باوجود ہمارے رشحات قلم ماشااللہ 400 سے متجاوز ہیں، جب کہ 'ڈان' کے لیے 40 سے زائد بلاگ شایع ہو چکے ہیں یوں مجموعی طور پر ہماری 'آن لائن' دست یاب تحریروں کی تعداد 450 سے زائد ہے۔
یہ حساب کتاب یوں ضروری تھا کہ انسانی زندگی میں 10 برس بہت ہوا کرتے ہیں اگر ہم اب بھی کہیں نہ کہیں یہ محسوس کریں کہ ہم ابھی "کیرئیر بنا رہے ہیں!" تو پیشہ وارانہ جمع تفریق میں یہ بات بالکل بھی اچھی نہیں سمجھی جائے گی کہ میاں، اگر اب ابھی کیرئیر بنے گا، تو پھر باقی ہی کتنا رہ جائے گا؟ بات تو سچ ہے، لیکن بات ہے رسوائی کی آپس کی بات ہے کہ 'کوچہ صحافت' میں ہم خود کو کچھ خاص کام یاب تصور نہیں کرتے، بس کبھی چند ایک چیزوں کو خیال میں لا کر خود کو اوسط درجے کی کارکردگی والے صحافی کا کچھ اطمینان دلا دیتے ہیں مگر کچھ دن قبل ایک بڑے اخبار کے سابق چیف رپورٹر اور ایک چینل کے موجودہ 'بیوروچیف' نے ہمیں یہ شعبہ بدلنے کا سفاک مشورہ دے ڈالا! ہمارا معاملہ تو یہ ہے کہ
کروں گا کیا جو "صحافت" میں ہوگیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
گذشتہ دنوں 'ٹوئٹر' پر ایک دبنگ صحافی نصرت جاوید کے حوالے سے لکھا گیا کہ انھوں نے کہا "میں نے شعبۂ صحافت کو عشق کے طور پر اختیار کیا تھا، لیکن ایمان داری سے کہتا ہوں کہ میں نے بڑی غلطی کی تھی، میں ایمان داری سے مشورہ دیتا ہوں کہ جن صحافیوں کی عمر 30 سے 35 سال تک ہے، وہ کوئی اور پیشہ اختیار کرلیں!"
ہم بھی عمر کے اسی دائرے میں ہیں، جو نصرت صاحب نے فرمائی! شاید آپ مجھ جیسے 'عاشق صحافی' پر ان کے اس 'مشورے' کی 'تاب کاری' اور شدت کا اندازہ نہ لگا سکیں، کہ کتنے پاپڑ بیل کر ہم اب یہاں تک پہنچے ہیں، تو ہمیں یہ سننے کو مل رہا ہے کہ گویا ہم تو "غلط" آگئے
جنھیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے!
اس تلخ اور مایوس کُن صورت حال کے باوجود الحمدللہ ہمیں رَتّی برابر بھی کوئی پچھتاوا یا افسوس نہیں کہ ہم نے یہ شعبہ کیوں منتخب کیا، یا یہ کہ ہم یہ سوچتے ہوں کہ کاش ہم نے کچھ اور کر لیا ہوتا! کیوں کہ صحافت ہمارے فطری میلان اور رجحان کے نزدیک ترین شعبہ ہے، اور ہم اب بھی یہی کہتے ہیں کہ زندگی میں پیسہ بہت کچھ ہوتا ہے، لیکن سب کچھ نہیں ہوتا۔ یہ سچ ہے کہ 'ایکسپریس' کے نو اور ہماری صحافت کے اِن 10 سالوں نے ہمیں ایک نام، پہچان، اعتبار، عزت، وقار اور رتبہ بھی دیا، ہمیں اس کام کی ایک تنخواہ بھی ملتی ہے لیکن ہم نے اپنی 'تحریکی صحافت' کے لیے اپنی عمر کے ایک قیمتی ترین وقت کی قربانی بھی دی ہے! صرف ادارتی پالیسی سے مطمئن نہ ہونے کے باعث دُگنی تنخواہوں کے موقعے بھی ہاتھ سے جانے دیے ہیں، کیوں کہ اس کام کو ہمیشہ ایک مقصد اور جدوجہد سمجھ کر ادا کیا، اور ہر ممکن طریقے سے اچھائی کو بڑھانے اور خرابیوں کی بیخ کنی کی سوچ رکھی ہے، جو کہ معاش کی زبان میں شاید کوئی 'نارمل رویہ' شمار نہ کیا جائے تاہم مولانا ابو الکلام آزاد کے ہاں تو صحافت منفعت تو درکنار سراسر گھاٹے کا راستہ ہی بتایا گیا۔
ہاںِ، صحافت میں آگے بڑھنے کی جستجو میں زندگی کے بہت سے خواب ضرور بہت پیچھے رہ گئے! لیکن معاش کی کشتی میں چَپو چلا کر اللہ کے کرم سے بہت سے بحرانوں کا سامنا کر ہی رہے ہیں صرف ایک بار انٹرویو کے بعد کچھ ہلکے پھلکے 'تحائف' ہمیں تھمائے گئے، جس کا بہت دنوں تک ضمیر پر بوجھ رہا کہ یہ بھی کچھ بد دیانتی سی ہوگئی اور یہ تھا بھی کیا ایک چائے کی دیدہ زیب پیالی، ایک اچھا بٹوا، خوش نما ڈائری اور دل لبھاتا ہوا پین وغیرہ۔
الحمدللہ، ہمیں کبھی باقاعدہ 'لفافے' کی پیش کش نہیں ہوئی، بقول شخصے، ہمیں وہ لَچھن اور بھرم بازیاں ہی نہیں آتیں، جو 'لفافے والے' صحافیوں کا خاصّہ ہوا کرتی ہیں، البتہ ایک مرتبہ ایک انٹرویو کے بعد شاید دو، چار ہزار روپے 'نذرانے' کے آئے، ہم نے سختی سے منع کر دیا۔ اس کے علاوہ ایک کتاب کے تبصرے کی اشاعت کے بعد پانچ ہزار روپے دینے کا کہا، ہم نے بہت معذرت کر لی، بہت اصرار ہوا کہ دراصل یہ روپیا تو ہم نے کتاب کے 'بجٹ' میں رکھا تھا لیکن ہمارا جی نہیں مانا۔
دراصل اس دشت میں بہت سے صحافت کا لبادہ اوڑھنے والے افراد کسی نہ کسی کے 'ہرکارے' ہیں، یا کسی کے 'نمک خوار' بس اسی بنیاد پر ان کے اسکرپٹ، الفاظ، خبر، کالم، فیچر اور مضمون آگ اگلتا ہے یا گُل و گُل زار ہوا جاتا ہے بہت سوں کے تو ہر ہر لفظ کے پیچھے کوئی نہ کوئی 'معشوق' ضرور ہوتی ہے لیکن ہم نے ہمیشہ اپنے فہم اور ضمیر کے مطابق لکھا، اور ہمارا ایک ایک لفظ ہمارے اندر ہر وقت لگی رہنے والی عدالت کے کٹہرے میں جواب دہ ہوتا ہے۔ ہر لفظ پر غوروخوص اور لکھنے کے بعد اس کا حساب کتاب اپنے آپ جاری و ساری رہتا ہے۔ اس لیے پورا سچ سننے سے 'پریشان' لوگ کیا سوچتے ہیں، ہمیں اس کی چنداں پروا نہیں۔