حکومت اور علمائے کرام میں معاہدہ
معاملات کو علم وتدبر، دور اندیشی، دین کی محبت اور انسانیت کی ابدی روشنی سے منور بنایا جائے۔
LONDON:
حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان13 نکاتی معاہدہ، دھرنے اور احتجاجی ہنگاموں کے بعد طے پانا خوش آیند ہے۔ معاہدے کے تحت تحریک لبیک دھرنا ختم کردے گی، آیندہ کسی لانگ مارچ یا دھرنے سے گریز ، بطور سیاسی جماعت سیاسی دھارے میں شریک ہوگی، دھرنے کے شرکا کے خلاف حکومت کسی قسم کی کارروائی نہیں کرے گی۔
تنظیم کے گرفتارکارکنوں کو رہا کردیا جائے گا ،تاہم دہشت گردی سمیت سنگین مقدمات کا سامنا کرنے والے کارکنوں کو عدالت سے ریلیف لینا ہوگا۔ معاہدے سے قبل مذاکرات میں حکومت کی طرف سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد جب کہ ٹی ایل پی کی جانب سے مفتی عمیر الازہری، حافظ حفیظ اور علامہ غلام عباس فیضی شریک ہوئے۔ ذرایع کے مطابق تحریک لبیک کی جانب سے مفتی منیب الرحمان نے بطور ضامن کردار ادا کیا۔ حکومت کی جانب سے شاہ محمود قریشی، اسد قیصر اور علی محمد خان نے معاہدے پر دستخط کیے۔
مذاکرات کے بعد معاہدے پر عملدرآمد کے لیے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان کی سربراہی میں اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ کمیٹی کے حکومتی ارکان میں صوبائی وزیر راجہ بشارت، سیکریٹری داخلہ اور ہوم سیکریٹری پنجاب جب کہ تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے مفتی غوث بغدادی اور حفیظ اللہ قلبی شامل ہوں گے، یہ کمیٹی آج سے کام شروع کرے گی۔
معاہدے کے بعد سابق چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمان نے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر مملکت علی محمد خان، ٹی ایل پی کی مجلس شوری کے رکن علامہ غلام عباس فیضی اور مفتی محمد عمیر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور ٹی ایل پی معاہدے کو حافظ سعد رضوی کی تائید حاصل ہے۔ تاہم اس موقعے پر حافظ سعد رضوی کی رہائی کا اعلان نہیں کیا گیا۔ مفتی منیب الرحمٰن کا کہنا تھا کہ معاہدے کی تفصیلات ہفتہ دس دن میں سامنے لائی جائیں گی۔
مفتی منیب الرحمٰن کا کہنا تھا کہ معاہدہ 12 ،13 گھنٹے طویل مذاکرات کا نتیجہ ہے۔ یہ کسی کی فتح یا شکست نہیں، یہ پاکستان، اسلام اور انسانی جانوں کی حرمت کی فتح ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ معاہدے کے دوران فریقین نے سنجیدگی دکھائی، جوش پر ہوش غالب آیا ، معاہدے پر آیندہ عشرے کے دوران مثبت نتائج سامنے آ جائیں گے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ معاہدے میں امن اور بہتری کا راستہ تلاش کیا گیا ہے، قوم اضطراب میں مبتلا تھی، سڑکیں کاروبار بند ، معیشت ٹھپ تھی، علما اور مشائخ نے اپنے تدبر سے امن اور بہتری کا راستہ تلاش کیا ہے، وزیر خارجہ نے مولانا بشیر فاروق، مولانا ثروت اعجاز قادری، مولانا حامد سعید کاظمی، صاحبزادہ حامد رضا سمیت ان تمام جید علماء کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے وزیر اعظم سے ملاقات کر کے معاملات سلجھانے کی کوشش کی۔
انھوں نے کہا انتشار میں پاکستان کا فائدہ نہیں بلکہ ان قوتوں کا فائدہ ہے جو ملک میں افراتفری پھیلانا چاہتی ہیں، ہمیں اللہ تعالیٰ نے سرخرو کیا، پوری قوم کو مبارکباد دیتے ہیں۔ پریس کانفرنس کے بعد مفتی منیب الرحمن کی سربراہی میں 6 رکنی کمیٹی سربمہر معاہدہ لے کر وزیر آباد روانہ ہوگئی۔ دریں اثنا حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان معاہدے کے باوجود اتوار اور پیر کی درمیانی شب مظاہرین بدستور وزیر آباد میں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے اور اسلام آباد کی جانب گامزن مارچ کو ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا گیا۔
مذاکرات کی کامیابی کے بعد اتوار کی شام شاہراہوں پر رکھے کنٹینرز اور رکاوٹیں ہٹا دی گئیں، معمولات زندگی بحال ہوگئے۔علمائے کرام اور حکومت نے معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے میں جس تدبر اور دانش کا مظاہرہ کیا وہ یقیناً قابل ستائش ہے۔
گزشتہ چند روز میں اقتصادی و معاشی حالات اور مہنگائی میں بے حساب اضافہ ہوا، ادارہ شماریات پاکستان کی رپورٹ میں خور ونوش کی اشیا کے دام جس رفتار سے بڑھے اس پر صارفین کے اعصاب شل ہوئے، گھریلو بجٹ تباہ ہوا، ملکی ماہرین نے پیدا شدہ چند روزہ صورتحال کا جو احوال میڈیا میں بیان کیا وہ بے حد درد انگیز تھا، ایسا محسوس ہوا کہ تاجروں، دکانداروں اور سبزی فروشوں کو ایسی لوٹ مار کا پھر کبھی شاید موقع نہیں ملے گا۔
ملکی سماجی و سیاسی صورتحال کے تناظر میں تو حالات نے عوام کو بھی مہنگائی، ٹرانسپورٹ، انتظامی انحطاط اور سسٹم کی بے بسی نے جمہوری ثمرات اور حکومتی مشیروں، وزرا اور حکام نے عوام کو اعانت، مدد مہیا کرنے کے کوئی امکانات بھی پیدا نہیں کیے، ایک جمہوری اور آئینی و قانونی صورتحال کی ایسی ابتری کو ماہرین کس سسٹم کا نام دے سکتے ہیں اور اس کے عوام کی ریاست وحکومت اور آئینی حیثیت کو عوام صرف نصابی کتابوں میں ہی پڑھ سکتے ہیں۔
جمہوریت کے عملی سسٹم کی مجبور، بے چارگی اور لاچاری اس درجہ ایک میکنزم سے بھی گر سکتی ہے ، اسے بنانا ری پبلک کہنے ہی کی دیر ہوگی، ارباب فکر و نظر چرچل کے اس بیان کا حوالہ دیتے رہتے ہیں جو انھوں نے عالمی جنگ کے دوران لندن کی بمباری کے موقعے پر عدالتوں کے بارے میں دیا تھا۔ در اصل وہ ایک سیاسی دانشور کا آفاقی سوال تھا، اس کا جواب ہمارے حکمرانوں کے پاس نہیں ہوگا، جب کہ وقت یہی ہے کہ زندہ اور دور اندیش قومیں اپنے تلخ سیاسی عدالتی تجربات، معاشی حالات اور سماجی دکھ درد سے سیکھتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جمہوری سسٹم میں ہر قسم کے حالات پیش آتے ہیں، لیکن حیرت ہے کہ جمہوریت کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، وزرا، مشیر، حلیف و رفقائے کار ضرورت کے وقت نظر نہیں آئے، محترم علمائے کرام نے حکومت کی مدد کی، ارباب اختیار نے صائب مشاورت سے معاملات کو سنبھالا اور حالات کو قانون و آئین کی وسعت قلبی اور قومی ملی مذہبی اور دینی احساس سے اجالا کر دیا۔
یہ ہماری نام نہاد جمہوریت ہے جس کے پاس چارہ گری کا سامان نہیں، عوام پریشان ہیں، مہنگائی، بیروزگاری اور غریبی سے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا ہے۔ اقتصادی غیر یقینی، سیاسی عدم استحکام کا خطرہ اپنی جگہ جب کہ دوسری جانب ہمسایہ ملک افغانستان میں بحران ہوگا تو اس کے اثرات پاکستان میں بھی نمودار ہونگے اور مزید چیلنجز بھی منتظر ہونگے۔
لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ معاملات کو علم وتدبر، دور اندیشی، دین کی محبت اور انسانیت کی ابدی روشنی سے منور بنایا جائے، اسی سرمدی اصول کو معیار حیات بنائیے جو اقبال نے کہا تھا۔
کی محمد سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان13 نکاتی معاہدہ، دھرنے اور احتجاجی ہنگاموں کے بعد طے پانا خوش آیند ہے۔ معاہدے کے تحت تحریک لبیک دھرنا ختم کردے گی، آیندہ کسی لانگ مارچ یا دھرنے سے گریز ، بطور سیاسی جماعت سیاسی دھارے میں شریک ہوگی، دھرنے کے شرکا کے خلاف حکومت کسی قسم کی کارروائی نہیں کرے گی۔
تنظیم کے گرفتارکارکنوں کو رہا کردیا جائے گا ،تاہم دہشت گردی سمیت سنگین مقدمات کا سامنا کرنے والے کارکنوں کو عدالت سے ریلیف لینا ہوگا۔ معاہدے سے قبل مذاکرات میں حکومت کی طرف سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد جب کہ ٹی ایل پی کی جانب سے مفتی عمیر الازہری، حافظ حفیظ اور علامہ غلام عباس فیضی شریک ہوئے۔ ذرایع کے مطابق تحریک لبیک کی جانب سے مفتی منیب الرحمان نے بطور ضامن کردار ادا کیا۔ حکومت کی جانب سے شاہ محمود قریشی، اسد قیصر اور علی محمد خان نے معاہدے پر دستخط کیے۔
مذاکرات کے بعد معاہدے پر عملدرآمد کے لیے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان کی سربراہی میں اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ کمیٹی کے حکومتی ارکان میں صوبائی وزیر راجہ بشارت، سیکریٹری داخلہ اور ہوم سیکریٹری پنجاب جب کہ تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے مفتی غوث بغدادی اور حفیظ اللہ قلبی شامل ہوں گے، یہ کمیٹی آج سے کام شروع کرے گی۔
معاہدے کے بعد سابق چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمان نے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر مملکت علی محمد خان، ٹی ایل پی کی مجلس شوری کے رکن علامہ غلام عباس فیضی اور مفتی محمد عمیر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور ٹی ایل پی معاہدے کو حافظ سعد رضوی کی تائید حاصل ہے۔ تاہم اس موقعے پر حافظ سعد رضوی کی رہائی کا اعلان نہیں کیا گیا۔ مفتی منیب الرحمٰن کا کہنا تھا کہ معاہدے کی تفصیلات ہفتہ دس دن میں سامنے لائی جائیں گی۔
مفتی منیب الرحمٰن کا کہنا تھا کہ معاہدہ 12 ،13 گھنٹے طویل مذاکرات کا نتیجہ ہے۔ یہ کسی کی فتح یا شکست نہیں، یہ پاکستان، اسلام اور انسانی جانوں کی حرمت کی فتح ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ معاہدے کے دوران فریقین نے سنجیدگی دکھائی، جوش پر ہوش غالب آیا ، معاہدے پر آیندہ عشرے کے دوران مثبت نتائج سامنے آ جائیں گے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ معاہدے میں امن اور بہتری کا راستہ تلاش کیا گیا ہے، قوم اضطراب میں مبتلا تھی، سڑکیں کاروبار بند ، معیشت ٹھپ تھی، علما اور مشائخ نے اپنے تدبر سے امن اور بہتری کا راستہ تلاش کیا ہے، وزیر خارجہ نے مولانا بشیر فاروق، مولانا ثروت اعجاز قادری، مولانا حامد سعید کاظمی، صاحبزادہ حامد رضا سمیت ان تمام جید علماء کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے وزیر اعظم سے ملاقات کر کے معاملات سلجھانے کی کوشش کی۔
انھوں نے کہا انتشار میں پاکستان کا فائدہ نہیں بلکہ ان قوتوں کا فائدہ ہے جو ملک میں افراتفری پھیلانا چاہتی ہیں، ہمیں اللہ تعالیٰ نے سرخرو کیا، پوری قوم کو مبارکباد دیتے ہیں۔ پریس کانفرنس کے بعد مفتی منیب الرحمن کی سربراہی میں 6 رکنی کمیٹی سربمہر معاہدہ لے کر وزیر آباد روانہ ہوگئی۔ دریں اثنا حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان معاہدے کے باوجود اتوار اور پیر کی درمیانی شب مظاہرین بدستور وزیر آباد میں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے اور اسلام آباد کی جانب گامزن مارچ کو ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا گیا۔
مذاکرات کی کامیابی کے بعد اتوار کی شام شاہراہوں پر رکھے کنٹینرز اور رکاوٹیں ہٹا دی گئیں، معمولات زندگی بحال ہوگئے۔علمائے کرام اور حکومت نے معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے میں جس تدبر اور دانش کا مظاہرہ کیا وہ یقیناً قابل ستائش ہے۔
گزشتہ چند روز میں اقتصادی و معاشی حالات اور مہنگائی میں بے حساب اضافہ ہوا، ادارہ شماریات پاکستان کی رپورٹ میں خور ونوش کی اشیا کے دام جس رفتار سے بڑھے اس پر صارفین کے اعصاب شل ہوئے، گھریلو بجٹ تباہ ہوا، ملکی ماہرین نے پیدا شدہ چند روزہ صورتحال کا جو احوال میڈیا میں بیان کیا وہ بے حد درد انگیز تھا، ایسا محسوس ہوا کہ تاجروں، دکانداروں اور سبزی فروشوں کو ایسی لوٹ مار کا پھر کبھی شاید موقع نہیں ملے گا۔
ملکی سماجی و سیاسی صورتحال کے تناظر میں تو حالات نے عوام کو بھی مہنگائی، ٹرانسپورٹ، انتظامی انحطاط اور سسٹم کی بے بسی نے جمہوری ثمرات اور حکومتی مشیروں، وزرا اور حکام نے عوام کو اعانت، مدد مہیا کرنے کے کوئی امکانات بھی پیدا نہیں کیے، ایک جمہوری اور آئینی و قانونی صورتحال کی ایسی ابتری کو ماہرین کس سسٹم کا نام دے سکتے ہیں اور اس کے عوام کی ریاست وحکومت اور آئینی حیثیت کو عوام صرف نصابی کتابوں میں ہی پڑھ سکتے ہیں۔
جمہوریت کے عملی سسٹم کی مجبور، بے چارگی اور لاچاری اس درجہ ایک میکنزم سے بھی گر سکتی ہے ، اسے بنانا ری پبلک کہنے ہی کی دیر ہوگی، ارباب فکر و نظر چرچل کے اس بیان کا حوالہ دیتے رہتے ہیں جو انھوں نے عالمی جنگ کے دوران لندن کی بمباری کے موقعے پر عدالتوں کے بارے میں دیا تھا۔ در اصل وہ ایک سیاسی دانشور کا آفاقی سوال تھا، اس کا جواب ہمارے حکمرانوں کے پاس نہیں ہوگا، جب کہ وقت یہی ہے کہ زندہ اور دور اندیش قومیں اپنے تلخ سیاسی عدالتی تجربات، معاشی حالات اور سماجی دکھ درد سے سیکھتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جمہوری سسٹم میں ہر قسم کے حالات پیش آتے ہیں، لیکن حیرت ہے کہ جمہوریت کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، وزرا، مشیر، حلیف و رفقائے کار ضرورت کے وقت نظر نہیں آئے، محترم علمائے کرام نے حکومت کی مدد کی، ارباب اختیار نے صائب مشاورت سے معاملات کو سنبھالا اور حالات کو قانون و آئین کی وسعت قلبی اور قومی ملی مذہبی اور دینی احساس سے اجالا کر دیا۔
یہ ہماری نام نہاد جمہوریت ہے جس کے پاس چارہ گری کا سامان نہیں، عوام پریشان ہیں، مہنگائی، بیروزگاری اور غریبی سے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا ہے۔ اقتصادی غیر یقینی، سیاسی عدم استحکام کا خطرہ اپنی جگہ جب کہ دوسری جانب ہمسایہ ملک افغانستان میں بحران ہوگا تو اس کے اثرات پاکستان میں بھی نمودار ہونگے اور مزید چیلنجز بھی منتظر ہونگے۔
لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ معاملات کو علم وتدبر، دور اندیشی، دین کی محبت اور انسانیت کی ابدی روشنی سے منور بنایا جائے، اسی سرمدی اصول کو معیار حیات بنائیے جو اقبال نے کہا تھا۔
کی محمد سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں