’’ زندگی تماشا ہے ‘‘
وزیراعظم عمران خان فلم کی اہمیت سے واقف ہیں۔ ان کے رفاحی منصوبوں کی تکمیل میں فلموں کے اداکاروں نے اہم کردار ادا کیا۔
ریڈیو ، ٹی وی ، فلم اور تھیٹر فنون لطیفہ کو فروغ دینے کے اہم ادارے ہیں۔ ان ذرایع ابلاغ میں فلم سب سے زیادہ قدیم ہے۔ پاکستان کی فلمی صنعت کی تاریخ ہندوستان سے جڑی ہوئی ہے۔ ہندوستان میں فلم کی آمد 19ویں صدی کی آخری دہائی میں ہوئی۔
شروع شروع میں نیوز ریلیز کو بطور فلم نمائش کے لیے پیش کیا گیا، پھر سماجی موضوعات پر فلمیں بننے لگیں۔ 1913 میں ہندوستان میں خاموش فلمیں بننا شروع ہوئیں۔ ان فلموں کو آواز سے ہم آہنگ کردیا گیا۔ کلکتہ، بمبئی اور لاہور فلم سازی کے بڑے مراکز بن گئے۔
معروف محقق عقیل عباس جعفری نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ پاکستان میں اردو فلمی صنعت کے ارتقاء پر تحریر کیا ہے۔ عقیل عباس جعفری اپنے مقالہ میں لکھتے ہیں کہ 1913 میں دادا صاحب پھالکے نے ہندوستان کی پہلی فلم بنائی ۔ جعفری کی تحقیق کے مطابق ہندوستان میں پہلی فلم 1896 میں دکھائی گئی۔
یہ فلم فرانس میں تیارہوئی تھی۔ اسی طرح 1907 میں برصغیر میں پہلا سینما گھر تعمیر ہوا اور یوں یہ فلمیں زیادہ منظم انداز میں نمائش پذیر ہونے لگیں۔ جعفری نے اپنے مقالہ میں پنجاب میں فلمی صنعت کے ارتقاء کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان کا ثقافتی مرکز لاہور ابتداء سے تہذیب و ثقافت کا مرکز رہا۔ یہاں کے اہلِ دانش اور فن کاروں نے تاریخ کے ہر دور میں علوم و فنون اور تفریح کے میدان میں قابل قدر خدمات اور قابل تقلید کارنامے انجام دیے۔ اس دور میں بمبئی، کلکتہ اور دہلی کے بعد سب سے زیادہ تھیٹر لاہور میں تھے۔
اس دور میں لاہور میں آبادی قدیم شہر کے دروازہ کے اندر مقیم ہوا کرتی تھی اس لیے زیادہ تر تھیٹر بھاٹی گیٹ، شاہ عالمی دروازوں کے بیرونی حصوں میں ہواکرتے تھے۔ اس تھیٹر میں ماسٹر رحمت کی کمپنی ڈرامے پیش کرتی تھی۔ ان ڈراموں میں ماسٹر غلام حیدر جو بعد میں برصغیر کے نامور موسیقار تھے موسیقی دیا کرتے تھے۔ ماسٹر غلام حیدر نے برصغیر کی فلمی موسیقی میں پنجاب رنگ کو متعارف کرایا۔ لاہور 1935 سے 1947 تک فلمی صنعت اور تھیٹر کا مرکز رہا۔ تقسیم ہند کے وقت لاہور کی فلمی صنعت صرف 23 برس پرانی تھی لیکن اس مختصر عرصہ میں اس نے اپنا ایک انداز اور معیار طے کرلیا تھا۔
لاہور میں فلموں کے 4 تقسیم کار مسلمان تھے جن کے مالک آغا جی، اے گل، باری، بیگم ملک شریف اور قاضی خورشید الحسن شامل تھے۔ جون 1947میں لاہور میں فسادات شروع ہوئے۔ تقریبا تمام اسٹوڈیوز بند ہوگئے۔ ان دنوں جو فلمیں ان اسٹوڈیوز میں تقریبا مکمل تھیں ان کے نیگیٹو ہندو فلم ساز لاہور سے بمبئی لے گئے۔ یہ فلمیں بھارت میں نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔ ان فلموں میں بت تراش، رستم و سہراب، خانہ بدوش وغیرہ قابل ذکر تھیں۔ لاہور میں اس زمانہ میں 6 فلم اسٹوڈیوز تھے۔ ان کو بلوائیوں نے جلادیا۔ تین میں لوٹ مار کر کے سامان ساتھ لے گئے۔
جعفری صاحب نے اپنی تحقیق میں لکھا ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد برصغیر کے عظیم ہدایت کار محبوب لاہور آئے۔ مرکزی وزیر صنعت راجہ غضنفر علی خان سے ملاقات کرکے لاہور میں فلم سازی کے لیے کچھ سہولتیں حاصل کرنے کی استدعا کی۔ ان کی استدعا فضا میں کھو گئی۔
محبوب واپس بمبئی گئے اور بھارت کی جدید فلمی صنعت کے بانیوں میں شامل ہوئے۔ پاکستان کے معروف ہدایت کار ڈبلیو زیڈ احمد نے پاکستانی سینما کے مصنف مشتاق گزدر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ 1949 میں حکومت پاکستان کی دعوت پر تین فلم سازوں کے وفد نے مرکزی وزیر صنعت سردار عبدالرب نشتر سے ملاقات کی اور فلم انڈسٹری کی ترقی کے لیے مدد کی درخواست کی۔ عبدالرب نشتر نے اس وفد سے ملاقات کے بعد ایک بیان میں فرمایا ''اصولی طور پر مسلمانوں کو فلم سازی سے اجتناب برتنا چاہیے کیونکہ فلمیں بنانے کا کام کافروں کو ہی کرنا چاہیے۔
حکومت کے منفی رویہ اور سماجی رکاوٹوں کے ماحول میں لاہور میں فلمیں بننا شروع ہوئیں ۔ سینئر صحافی انسانی حقوق کی تحریک کے کارکن آئی اے رحمن نے اس سے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا۔ انھوں نے راقم کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ پاکستانی ریاست نے کبھی فلمی صنعت کی سرپرستی نہیں کی۔
پہلے نگار ایوارڈ کی تقسیم کی تقریب کے لیے اس وقت کے صدر اسکندر مرزا کو مدعو کیا گیا مگر وعدے کے باوجود وہ تقریب میں نہیں آئے۔ دوسرے نگار ایوارڈ کی تقسیم انعامات کے لیے دوسرے صدر ایوب خان کو مدعو کیا گیا مگر وہ بھی نہ آئے۔
اس کے باوجودپاکستان کی فلمی صنعت نے قابل قدر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ بعد میں صدر ایوب خان کی حکومت کی پالیسی تبدیل ہوئی۔ 1947سے 1960 کے دوران اردو زبان میں 183فلمیں بنائی گئیں۔ عقیل عباس جعفری 1960 کی دہائی کو فلمی صنعت کا سنہری دور قرار دیتے ہیں۔ اس دہائی میں مشرقی پاکستان میں فلمیں بننا شروع ہوئیں۔
شروع میں مغربی پاکستان کے فلم سازوں نے مشرقی پاکستان کی فلموں کی یہاں نمائش پر اعتراضات کیے۔ 1965 کی جنگ کے بعد بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی لگی۔ اس دوران اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں فلمیں بننے لگیں ، مگر اس دور میں چربہ فلموں کی بہار ہوئی۔ 1970 میں فلمی صنعت نے اپنے مطالبات کے لیے 11روز تک ہڑتال کی۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت جس کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو تھے، نے فلمی صنعت کی سرپرستی کی اور ایک ادارہ نیشنل فلم ڈیولپمنٹ اتھارٹی NFDECقائم کیا۔
50کی دہائی میں مشرقی بنگال میں جگتو فرنٹ کی حکومت قائم ہوئی تھی۔ بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن اس حکومت میں ثقافت کے وزیر تھے۔ انھوں نے اس وقت مشرقی پاکستان میںنیف ڈیک NEFDECقائم کیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار میں فلم انڈسٹری تباہ ہوگئی مگر 90 کی دہائی میں یہ پھر پروان چڑھی۔آئی ایس پی آر نے فلمی صنعت کی ترقی کے لیے اہم کردار ادا کیا۔جب عمران خان نے شوکت خانم اسپتال کی تعمیر شروع کی تو بھارت کے نامور اداکاروں نے اس اسپتال کے لیے فنڈز جمع کرنے کی مہم میں بھرپور حصہ لیا۔
سرمد کھوسٹ نوجوان ہدایت کار ہیں۔ ان کے والد عرفان کھوسٹ ایک بڑے اداکار ہیں۔ انھوں نے انتہائی محنت سے ایک فلم ''زندگی تماشہ'' تیار کی۔ اس فلم کو تمام صوبائی اور وفاقی سنسر بورڈ نے پاس کیا مگر وہ قوتیں جو فنون لطیفہ کی اہمیت کو محسوس نہیں کرتیں ان قوتوں نے احتجاج شروع کیا ، یوں اس فلم کی نمائش نہیں ہوسکی۔
وزیراعظم عمران خان فلم کی اہمیت سے واقف ہیں۔ ان کے رفاحی منصوبوں کی تکمیل میں فلموں کے اداکاروں نے اہم کردار ادا کیا۔ ان کی حکومت اس مسئلہ پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ وزیر اعظم اگر محسوس کرتے ہیں کہ ڈرامہ، موسیقی، فلم ، تھیٹر، ادب، شاعری اور مصوری ایک صحت مند معاشرہ کے لیے ضروری ہیں تو ان کی حکومت کو فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ تخلیق پر پابندی دانش پر پابندی کے مترادف ہوتی ہے، جن معاشروں میں تخلیق پر پابندی عائد کی جاتی ہے وہ دانش سے محروم ہوجاتے ہیں۔
شروع شروع میں نیوز ریلیز کو بطور فلم نمائش کے لیے پیش کیا گیا، پھر سماجی موضوعات پر فلمیں بننے لگیں۔ 1913 میں ہندوستان میں خاموش فلمیں بننا شروع ہوئیں۔ ان فلموں کو آواز سے ہم آہنگ کردیا گیا۔ کلکتہ، بمبئی اور لاہور فلم سازی کے بڑے مراکز بن گئے۔
معروف محقق عقیل عباس جعفری نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ پاکستان میں اردو فلمی صنعت کے ارتقاء پر تحریر کیا ہے۔ عقیل عباس جعفری اپنے مقالہ میں لکھتے ہیں کہ 1913 میں دادا صاحب پھالکے نے ہندوستان کی پہلی فلم بنائی ۔ جعفری کی تحقیق کے مطابق ہندوستان میں پہلی فلم 1896 میں دکھائی گئی۔
یہ فلم فرانس میں تیارہوئی تھی۔ اسی طرح 1907 میں برصغیر میں پہلا سینما گھر تعمیر ہوا اور یوں یہ فلمیں زیادہ منظم انداز میں نمائش پذیر ہونے لگیں۔ جعفری نے اپنے مقالہ میں پنجاب میں فلمی صنعت کے ارتقاء کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان کا ثقافتی مرکز لاہور ابتداء سے تہذیب و ثقافت کا مرکز رہا۔ یہاں کے اہلِ دانش اور فن کاروں نے تاریخ کے ہر دور میں علوم و فنون اور تفریح کے میدان میں قابل قدر خدمات اور قابل تقلید کارنامے انجام دیے۔ اس دور میں بمبئی، کلکتہ اور دہلی کے بعد سب سے زیادہ تھیٹر لاہور میں تھے۔
اس دور میں لاہور میں آبادی قدیم شہر کے دروازہ کے اندر مقیم ہوا کرتی تھی اس لیے زیادہ تر تھیٹر بھاٹی گیٹ، شاہ عالمی دروازوں کے بیرونی حصوں میں ہواکرتے تھے۔ اس تھیٹر میں ماسٹر رحمت کی کمپنی ڈرامے پیش کرتی تھی۔ ان ڈراموں میں ماسٹر غلام حیدر جو بعد میں برصغیر کے نامور موسیقار تھے موسیقی دیا کرتے تھے۔ ماسٹر غلام حیدر نے برصغیر کی فلمی موسیقی میں پنجاب رنگ کو متعارف کرایا۔ لاہور 1935 سے 1947 تک فلمی صنعت اور تھیٹر کا مرکز رہا۔ تقسیم ہند کے وقت لاہور کی فلمی صنعت صرف 23 برس پرانی تھی لیکن اس مختصر عرصہ میں اس نے اپنا ایک انداز اور معیار طے کرلیا تھا۔
لاہور میں فلموں کے 4 تقسیم کار مسلمان تھے جن کے مالک آغا جی، اے گل، باری، بیگم ملک شریف اور قاضی خورشید الحسن شامل تھے۔ جون 1947میں لاہور میں فسادات شروع ہوئے۔ تقریبا تمام اسٹوڈیوز بند ہوگئے۔ ان دنوں جو فلمیں ان اسٹوڈیوز میں تقریبا مکمل تھیں ان کے نیگیٹو ہندو فلم ساز لاہور سے بمبئی لے گئے۔ یہ فلمیں بھارت میں نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔ ان فلموں میں بت تراش، رستم و سہراب، خانہ بدوش وغیرہ قابل ذکر تھیں۔ لاہور میں اس زمانہ میں 6 فلم اسٹوڈیوز تھے۔ ان کو بلوائیوں نے جلادیا۔ تین میں لوٹ مار کر کے سامان ساتھ لے گئے۔
جعفری صاحب نے اپنی تحقیق میں لکھا ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد برصغیر کے عظیم ہدایت کار محبوب لاہور آئے۔ مرکزی وزیر صنعت راجہ غضنفر علی خان سے ملاقات کرکے لاہور میں فلم سازی کے لیے کچھ سہولتیں حاصل کرنے کی استدعا کی۔ ان کی استدعا فضا میں کھو گئی۔
محبوب واپس بمبئی گئے اور بھارت کی جدید فلمی صنعت کے بانیوں میں شامل ہوئے۔ پاکستان کے معروف ہدایت کار ڈبلیو زیڈ احمد نے پاکستانی سینما کے مصنف مشتاق گزدر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ 1949 میں حکومت پاکستان کی دعوت پر تین فلم سازوں کے وفد نے مرکزی وزیر صنعت سردار عبدالرب نشتر سے ملاقات کی اور فلم انڈسٹری کی ترقی کے لیے مدد کی درخواست کی۔ عبدالرب نشتر نے اس وفد سے ملاقات کے بعد ایک بیان میں فرمایا ''اصولی طور پر مسلمانوں کو فلم سازی سے اجتناب برتنا چاہیے کیونکہ فلمیں بنانے کا کام کافروں کو ہی کرنا چاہیے۔
حکومت کے منفی رویہ اور سماجی رکاوٹوں کے ماحول میں لاہور میں فلمیں بننا شروع ہوئیں ۔ سینئر صحافی انسانی حقوق کی تحریک کے کارکن آئی اے رحمن نے اس سے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا۔ انھوں نے راقم کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ پاکستانی ریاست نے کبھی فلمی صنعت کی سرپرستی نہیں کی۔
پہلے نگار ایوارڈ کی تقسیم کی تقریب کے لیے اس وقت کے صدر اسکندر مرزا کو مدعو کیا گیا مگر وعدے کے باوجود وہ تقریب میں نہیں آئے۔ دوسرے نگار ایوارڈ کی تقسیم انعامات کے لیے دوسرے صدر ایوب خان کو مدعو کیا گیا مگر وہ بھی نہ آئے۔
اس کے باوجودپاکستان کی فلمی صنعت نے قابل قدر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ بعد میں صدر ایوب خان کی حکومت کی پالیسی تبدیل ہوئی۔ 1947سے 1960 کے دوران اردو زبان میں 183فلمیں بنائی گئیں۔ عقیل عباس جعفری 1960 کی دہائی کو فلمی صنعت کا سنہری دور قرار دیتے ہیں۔ اس دہائی میں مشرقی پاکستان میں فلمیں بننا شروع ہوئیں۔
شروع میں مغربی پاکستان کے فلم سازوں نے مشرقی پاکستان کی فلموں کی یہاں نمائش پر اعتراضات کیے۔ 1965 کی جنگ کے بعد بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی لگی۔ اس دوران اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں فلمیں بننے لگیں ، مگر اس دور میں چربہ فلموں کی بہار ہوئی۔ 1970 میں فلمی صنعت نے اپنے مطالبات کے لیے 11روز تک ہڑتال کی۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت جس کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو تھے، نے فلمی صنعت کی سرپرستی کی اور ایک ادارہ نیشنل فلم ڈیولپمنٹ اتھارٹی NFDECقائم کیا۔
50کی دہائی میں مشرقی بنگال میں جگتو فرنٹ کی حکومت قائم ہوئی تھی۔ بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن اس حکومت میں ثقافت کے وزیر تھے۔ انھوں نے اس وقت مشرقی پاکستان میںنیف ڈیک NEFDECقائم کیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار میں فلم انڈسٹری تباہ ہوگئی مگر 90 کی دہائی میں یہ پھر پروان چڑھی۔آئی ایس پی آر نے فلمی صنعت کی ترقی کے لیے اہم کردار ادا کیا۔جب عمران خان نے شوکت خانم اسپتال کی تعمیر شروع کی تو بھارت کے نامور اداکاروں نے اس اسپتال کے لیے فنڈز جمع کرنے کی مہم میں بھرپور حصہ لیا۔
سرمد کھوسٹ نوجوان ہدایت کار ہیں۔ ان کے والد عرفان کھوسٹ ایک بڑے اداکار ہیں۔ انھوں نے انتہائی محنت سے ایک فلم ''زندگی تماشہ'' تیار کی۔ اس فلم کو تمام صوبائی اور وفاقی سنسر بورڈ نے پاس کیا مگر وہ قوتیں جو فنون لطیفہ کی اہمیت کو محسوس نہیں کرتیں ان قوتوں نے احتجاج شروع کیا ، یوں اس فلم کی نمائش نہیں ہوسکی۔
وزیراعظم عمران خان فلم کی اہمیت سے واقف ہیں۔ ان کے رفاحی منصوبوں کی تکمیل میں فلموں کے اداکاروں نے اہم کردار ادا کیا۔ ان کی حکومت اس مسئلہ پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ وزیر اعظم اگر محسوس کرتے ہیں کہ ڈرامہ، موسیقی، فلم ، تھیٹر، ادب، شاعری اور مصوری ایک صحت مند معاشرہ کے لیے ضروری ہیں تو ان کی حکومت کو فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ تخلیق پر پابندی دانش پر پابندی کے مترادف ہوتی ہے، جن معاشروں میں تخلیق پر پابندی عائد کی جاتی ہے وہ دانش سے محروم ہوجاتے ہیں۔