شام میں بچوں کو حراست میں رکھنے اور قتل کے واقعات کے حوالے سے منظرعام پر آنے والی اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 3 سالہ خانہ جنگی کے دوران شام میں کم از کم 10 ہزار بچوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔
اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے پیش کرددہ حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام میں حکومت کی جانب سے حراست میں لئے گئے بچوں کو جنسی زیادتی کے ساتھ شدید جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے کے علاوہ اپوزیشن سے جھڑپوں میں استعمال کیا جارہا ہے، رپورٹ رواں ہفتے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں پیش کی گئی جس پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے نمائندہ خصوصی برائے چلڈرن لیلی زروگئی آئندہ ہفتے بریفنگ دیں گے۔
رپورٹ کے مطابق شام میں مارچ 2011 کے بعد سے جاری خانہ جنگی کے دوران کم از کم 10 ہزار بچوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے جبکہ اس قتل و غارت گری میں تمام جماعتیں برابر کی شریک ہیں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2011 سے 2012 کے درمیان حکومتی حراستی مراکز میں مردوں کے ساتھ چھوٹے بچوں کو بھی رکھا گیا جنہیں نہ صرف زیادتی کا نشانہ بنایا گیا بلکہ ان پر جسمانی تشدد بھی کیا گیا ، تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق دوران حراست بچوں کو ربڑ کی تاروں سے مارا گیا اور بچوں کے جسم کو سگریٹ سے جلانے کے علاوہ ان کے ناخن تک کھینچے گئے جبکہ بعض بچوں کے مطابق انہیں الیکٹرک شاکس بھی لگائے گئے۔
دوسری جانب شامی حکومت نے بچوں کے حراستی مراکز کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ شام میں کہیں بھی حراستی مراکز موجود نہیں ، شامی نائب وزیر خارجہ نے اقوم متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی رپورٹ پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کو حراست میں رکھنے کی خبریں صرف افواہیں ہیں جبکہ اپوزیشن کی جانب سے حکومت پر اس قسم کے الزامات عائد کئے جارہے ہیں۔