ایک چپ سو سکھ
آج کل خاموش رہنے کو بزدلی گردانا جاتا ہے اور لوگ آپ کو اور دبانے لگتے ہیں
کہتے ہیں کہ چپ رہنے کے بھی بہت سے فوائد ہیں کیونکہ خاموشی خود بڑی دانائی اور عبادت ہے۔ خاموش رہنے سے انسان بہت سے تنازعات سے بچ سکتا ہے۔ خاموشی بذات خود ایک زبان ہے اور یہ ناراضی کے اظہار کا بھی ایک مہذب اور کسی حد تک قابل قبول طریقہ ہے۔
خاموش رہنا آپ کو بہت سے مسائل سے بچا لیتا ہے کیونکہ بات کرنے اور نہ کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ جب آپ کسی بھی معاملے میں چپ رہتے ہیں تو آپ کے منہ سے بھی نامناسب باتیں نہیں نکلتیں، جس کی وجہ سے کسی کی دل آزاری بھی نہیں ہوتی اور آپ ہزیمت سے محفوظ رہتے ہیں۔
لیکن میرے خیال کے مطابق ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ 'ایک چپ سو سکھ' کے صرف چند ہی فوائد ہیں اور وہ بھی ہرگز ہر وقت نہیں۔ اول تو انسان کےلیے اگر بولنا اہم نہ ہوتا تو انسان کو حیوان ناطق ہی کیوں بنا کر بھیجا جاتا؟ جبکہ ہمارا خالق تو ہمیں بولنے کی قوت سے محروم کرکے پیدا کرنے پر بھی قادر تھا اور ہے۔
انسان جب غاروں میں رہتا تھا تو اشاروں کنایوں میں بات کرتا تھا، پھر جیسے جیسے انسانی تہذیب ترقی کرتی گئی اور شہری آبادی بڑھتی گئی تو بہت سی زبانیں وجود میں آگئیں۔ آج زبان کی اتنی اہمیت ہے کہ دنیا بھر کی اقوام کی نہ صرف قومی بلکہ علاقائی زبانیں بھی ہیں اور یہ زبانیں ان اقوام کی شناخت کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔
کسی سے اچھی گفتگو کرنا بھی انسان کے بہترین خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ بولو تاکہ پہچانے جاؤ۔
خاموشی ہر جگہ کارگر نہیں ہوتی۔ کسی بھی محفل میں کوئی آپ کو برا بھلا کہے تو انسانی فطرت ہے کہ وہ ایک حد تک ہی برداشت کرتا ہے پھربول پڑتا ہے کیونکہ دفاع کا حق تو سب کو ہے۔
محلے میں کوئی بھی داداگیری کرے تو آپ ایک حد تک ہی خاموش رہتے ہیں۔ ایک نہ ایک دن محلے والے اس شرپسند شخص کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور سب مل کر بولتے ہیں، ورنہ اجتماعی نقصان ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اول تو خاموش رہو یا کسی بھی ناخوشگوار واقعے کو نظر انداز کردو۔ لیکن یہ کرنا بھی بہت مشکل ہے کیونکہ ناگوار باتوں کو نظر انداز کرنا بھی ایک حد تک ہی بہتر اور ضروری ہوتا ہے۔
ہمیں اپنے جذبات کے اظہار کےلیے بھی بولنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ورنہ شاعری، مقالات اور تحاریر جو سب زبان کے اظہار کی بدولت ہی تخلیق کی جاتی ہیں، ان کا ہونا تو ناممکنات میں سے ہی ہوجاتا۔ اگرچہ کسی بھی صورتحال میں چاہے وہ خوشی ہو یا غمی، غصہ یا اجتناب... چہرے کے تاثرات اہمیت رکھتے ہیں لیکن پھر بھی جذبوں کو الفاظ کی حاجت رہتی ہے۔ اگر جذبات پھول ہیں تو الفاظ ان میں خوشبو کی طرح رچ بس جاتے ہیں۔ لیکن یہ آپ پر منحصر ہوتا ہے کہ آپ الفاظ کو مثبت یا منفی کس انداز میں استعمال کر رہے ہیں۔
یہ کہنا بھی کہ کہیں تصادم نہ ہوجائے خاموش رہو، صرف ایک حد تک ہی درست ہے ورنہ آج کل خاموش رہنے کو بزدلی گردانا جاتا ہے اور لوگ آپ کو اور دبانے لگتے ہیں۔ کسی کی غلط بات پر ردعمل کا اظہار نہ کیا جائے تو لوگ مزید طنز کا نشانہ بناتے ہیں۔ دوسری طرف لڑائی کے دوران خاموشی کی وجہ سے یہ سننا پڑتا ہے کہ فلاں بندہ تو بہت گھنا اور میسنا ہے۔ یہ کبھی بھی نہیں بولتا۔ کم ازکم اسے اس معاملے کی مخالفت اور موافقت میں کچھ تو بولنا ہی چاہیے تھا۔
خاموش رہنے کی وجہ سے لوگ ہمیں مغرور بھی سمجھتے ہیں کہ دیکھو یار یہ فلاں کے ساتھ بہت باتیں بگھار رہا ہے اور ہمیں تو لفٹ ہی نہیں کرواتا۔ میرا مقصد کسی کو اس بات پر ابھارنا ہرگز نہیں کہ ہر مرتبہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے، ورنہ اس طرح تو ہر کوئی میدان کارزار میں ہی نظر آئے گا۔ بات صرف غلط بات پر درست اور برمحل جواب دینے کی ہورہی ہے تاکہ مقابل آیندہ کوئی غلط بات کرکے آپ کی پریشانی یا الجھن نہ بڑھا سکے۔
جب بات سوشل میڈیا کی آتی ہے تو یہاں پر بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں آپ تعلقات ایک حد تک ہی بنائیں تو بہتر ہے۔ کیونکہ آج کل سوشل میڈیا تک ہر کس و ناکس کی پہنچ ہے، سو کوئی بھی آپ کو کیا جواب دے دے اس کے بارے میں کوئی گارنٹی نہیں دی جاسکتی۔ اس لیے کوئی بھی جہاں غلط بات کرے پہلے تو حدود متعین کریں ورنہ پھر مذکورہ شخص کو بلاک کردیں۔ سو زبان کا برمحل اور درست استعمال اہم ہے کیونکہ زبان عرش سے فرش پر بھی لا سکتی ہے۔ زبان سے ادا کیے گئے کلمات کبھی واپس نہیں آسکتے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
خاموش رہنا آپ کو بہت سے مسائل سے بچا لیتا ہے کیونکہ بات کرنے اور نہ کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ جب آپ کسی بھی معاملے میں چپ رہتے ہیں تو آپ کے منہ سے بھی نامناسب باتیں نہیں نکلتیں، جس کی وجہ سے کسی کی دل آزاری بھی نہیں ہوتی اور آپ ہزیمت سے محفوظ رہتے ہیں۔
لیکن میرے خیال کے مطابق ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ 'ایک چپ سو سکھ' کے صرف چند ہی فوائد ہیں اور وہ بھی ہرگز ہر وقت نہیں۔ اول تو انسان کےلیے اگر بولنا اہم نہ ہوتا تو انسان کو حیوان ناطق ہی کیوں بنا کر بھیجا جاتا؟ جبکہ ہمارا خالق تو ہمیں بولنے کی قوت سے محروم کرکے پیدا کرنے پر بھی قادر تھا اور ہے۔
انسان جب غاروں میں رہتا تھا تو اشاروں کنایوں میں بات کرتا تھا، پھر جیسے جیسے انسانی تہذیب ترقی کرتی گئی اور شہری آبادی بڑھتی گئی تو بہت سی زبانیں وجود میں آگئیں۔ آج زبان کی اتنی اہمیت ہے کہ دنیا بھر کی اقوام کی نہ صرف قومی بلکہ علاقائی زبانیں بھی ہیں اور یہ زبانیں ان اقوام کی شناخت کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔
کسی سے اچھی گفتگو کرنا بھی انسان کے بہترین خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ بولو تاکہ پہچانے جاؤ۔
خاموشی ہر جگہ کارگر نہیں ہوتی۔ کسی بھی محفل میں کوئی آپ کو برا بھلا کہے تو انسانی فطرت ہے کہ وہ ایک حد تک ہی برداشت کرتا ہے پھربول پڑتا ہے کیونکہ دفاع کا حق تو سب کو ہے۔
محلے میں کوئی بھی داداگیری کرے تو آپ ایک حد تک ہی خاموش رہتے ہیں۔ ایک نہ ایک دن محلے والے اس شرپسند شخص کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور سب مل کر بولتے ہیں، ورنہ اجتماعی نقصان ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اول تو خاموش رہو یا کسی بھی ناخوشگوار واقعے کو نظر انداز کردو۔ لیکن یہ کرنا بھی بہت مشکل ہے کیونکہ ناگوار باتوں کو نظر انداز کرنا بھی ایک حد تک ہی بہتر اور ضروری ہوتا ہے۔
ہمیں اپنے جذبات کے اظہار کےلیے بھی بولنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ورنہ شاعری، مقالات اور تحاریر جو سب زبان کے اظہار کی بدولت ہی تخلیق کی جاتی ہیں، ان کا ہونا تو ناممکنات میں سے ہی ہوجاتا۔ اگرچہ کسی بھی صورتحال میں چاہے وہ خوشی ہو یا غمی، غصہ یا اجتناب... چہرے کے تاثرات اہمیت رکھتے ہیں لیکن پھر بھی جذبوں کو الفاظ کی حاجت رہتی ہے۔ اگر جذبات پھول ہیں تو الفاظ ان میں خوشبو کی طرح رچ بس جاتے ہیں۔ لیکن یہ آپ پر منحصر ہوتا ہے کہ آپ الفاظ کو مثبت یا منفی کس انداز میں استعمال کر رہے ہیں۔
یہ کہنا بھی کہ کہیں تصادم نہ ہوجائے خاموش رہو، صرف ایک حد تک ہی درست ہے ورنہ آج کل خاموش رہنے کو بزدلی گردانا جاتا ہے اور لوگ آپ کو اور دبانے لگتے ہیں۔ کسی کی غلط بات پر ردعمل کا اظہار نہ کیا جائے تو لوگ مزید طنز کا نشانہ بناتے ہیں۔ دوسری طرف لڑائی کے دوران خاموشی کی وجہ سے یہ سننا پڑتا ہے کہ فلاں بندہ تو بہت گھنا اور میسنا ہے۔ یہ کبھی بھی نہیں بولتا۔ کم ازکم اسے اس معاملے کی مخالفت اور موافقت میں کچھ تو بولنا ہی چاہیے تھا۔
خاموش رہنے کی وجہ سے لوگ ہمیں مغرور بھی سمجھتے ہیں کہ دیکھو یار یہ فلاں کے ساتھ بہت باتیں بگھار رہا ہے اور ہمیں تو لفٹ ہی نہیں کرواتا۔ میرا مقصد کسی کو اس بات پر ابھارنا ہرگز نہیں کہ ہر مرتبہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے، ورنہ اس طرح تو ہر کوئی میدان کارزار میں ہی نظر آئے گا۔ بات صرف غلط بات پر درست اور برمحل جواب دینے کی ہورہی ہے تاکہ مقابل آیندہ کوئی غلط بات کرکے آپ کی پریشانی یا الجھن نہ بڑھا سکے۔
جب بات سوشل میڈیا کی آتی ہے تو یہاں پر بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں آپ تعلقات ایک حد تک ہی بنائیں تو بہتر ہے۔ کیونکہ آج کل سوشل میڈیا تک ہر کس و ناکس کی پہنچ ہے، سو کوئی بھی آپ کو کیا جواب دے دے اس کے بارے میں کوئی گارنٹی نہیں دی جاسکتی۔ اس لیے کوئی بھی جہاں غلط بات کرے پہلے تو حدود متعین کریں ورنہ پھر مذکورہ شخص کو بلاک کردیں۔ سو زبان کا برمحل اور درست استعمال اہم ہے کیونکہ زبان عرش سے فرش پر بھی لا سکتی ہے۔ زبان سے ادا کیے گئے کلمات کبھی واپس نہیں آسکتے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔