ماحولیاتی تبدیلی
کانفرنس میں پاکستانی پویلین عالمی رہنماؤں کی توجہ کا مرکز بن گیا
BEIJING:
ماحولیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کے لیے اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں شریک عالمی رہنماؤں نے 2030 تک جنگلات کی کٹائی کو روکنے اور کاربن گیسوں کے اخراج کو صفر تک لانے کے اہداف کے حصول کے لیے نئی مہم کے آغاز پر زور دیتے ہوئے سرکاری اور نجی شعبے میں بیس ارب ڈالر جمع کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے ۔
کانفرنس میں پاکستانی پویلین عالمی رہنماؤں کی توجہ کا مرکز بن گیا ، جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور یو اے ای کے وزیر ماحولیات نے پاکستانی پویلین کا دورہ کیا ۔
اس وقت پوری دنیا کو ماحولیاتی تغیر کا سامنا ہے ، اگر بروقت مناسب تدابیر اختیار نہ کی گئیں اور درجہ حرارت بڑھتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب کرہ ارض ماحولیاتی تغیر کی لپیٹ میں آکر انسانوں اور دیگر جانداروں کے لیے انتہائی خطرناک ہو جائے گا۔ اقوام متحدہ کے زیر نگرانی حکومتوں کے درمیان ماحولیاتی تغیر کے پینل کی ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا میں ماحولیاتی تبدیلی تیزی سے وقوع پذیر ہو رہی ہے ، بعض تبدیلیاں تو ایسی ہیں جنھیں سیکڑوں بلکہ ہزاروں سال بھی ختم نہیں کیا جا سکے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زہریلی گیسوں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اگر کمی نہ لائی گئی تو عالمی درجہ حرارت میں ڈیڑھ گنا اور موسمی درجہ حرارت میں دو ڈگری کا اضافہ نا گزیر ہو جائے گا، اس طرح سے بڑھتا حرارت کرہ ارض پر موجود زندگی کے لیے نقصان دہ بن جائے گا۔
اگر ہم اس تناظر میں پاکستان کی بات کریں تو پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے 10 ارب درخت لگانے کے منصوبے سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ رواں برس ایک ارب درخت لگائے جائیں گے جب کہ پہلے مرحلے کے اختتام پر 2023 تک 3.2 ارب درخت لگانے کا منصوبہ ہے۔ موسمی اثرات کو کم کرنے کے لیے ملک میں قابلِ تجدید توانائی کا استعمال 30 فی صد تک لے جانے، آب پاشی کے لیے شمسی توانائی کا استعمال، پلاسٹک کو ایک سے زائد بار استعمال کے قابل بنانے کے اقدامات، الیکٹرک گاڑیوں کی پالیسی کی تیاری اور دیگر منصوبوں پر بھی حکومتی سطح پر کام جاری ہے۔
حکومتی اقدامات اور کوششیں اپنی جگہ لیکن دوسری جانب پاکستان میں پچھلی ایک دہائی کے دوران موسمیاتی تبدیلی کے باعث شدید موسمیاتی واقعات بشمول سیلاب، قحط سالی، گلیشیئر پگھلنے سے بننے والی جھیلوں کے پھٹنے سے آنے والے سیلاب، سائیکلون اور ہیٹ ویو کے باعث نہ صرف انسانی جانوں کا نقصان ہوا اور ملکی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی گرمی بڑھی اور اس کی ایک اہم وجہ گلوبل وارمنگ ہے۔
پاکستان میں آلودگی کا تعلق عالمی کلائمٹ چینج سے کم اور ہماری اپنی غلطیوں سے زیادہ ہے۔ سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ہم جو کوڑا اکٹھا کرتے ہیں اسے آگ لگانا اپنا فرض سمجھتے ہیں، وہ چاہے بلدیاتی حکومت کے ادارے ہوں یا انفرادی طور پر عوام، ہم کوڑا جلا دیتے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ خطرناک پلاسٹک بیگز ہیں جو اگر جلتے ہیں تو ہوا کو زہریلا کر دیتے ہیں۔ پاکستان کے تمام چھوٹے ، بڑے شہروں کے قریب بڑی تعداد میں فیکٹریاں لگائی جا رہی ہیں اور اس عمل میں تمام ماحولیاتی اصولوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
اس کے نتیجے میں کراچی سمیت تمام بڑے شہروں میں دریاؤں اور زیر زمین پانی اور ہوا کی آلودگی پیدا ہو چکی ہے جو اب خطرناک حدود میں داخل ہو چکی ہے۔ کراچی جو ملک کا سب سے بڑا صنعتی و تجارتی شہر ہے ، یہاں بھی فضائی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے ، فیکٹریوں کی چمنیوں سے اٹھتے دھویں کے بادل ، لاکھوں گاڑیوں کا دھواں اور صنعتوں کے فضلے نے سمندر کو بھی آلودہ کردیا ہے ، جب کہ دوسری جانب زراعت میں استعمال ہونے والے زہریلے اسپرے ایک اور مشکل ہیں۔
پنجاب اور سندھ کے زرعی علاقوں میں کئی اقسام کے کینسر، پھیپھڑوں اور جگر کی بیماریاں عام ہیں۔ حکومت ان کرم کش کیمیکلز کے استعمال کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ لگ بھگ زراعت میں استعمال ہونے والی تمام کرم کش ادویات ملٹی نیشنل کمپنیاں بناتی ہیں۔ ادھر بے شمار ہاؤسنگ اسکیمیں زرعی زمینوں کو ختم کرکے بنائی جارہی ہیں ، دولت کی ہوس میں لوگ اندھے ہوگئے ہیں ، بحیثیت قوم ماحول دشمنی میں ہم اپنا پورا حصہ ڈال رہے ہیں۔
دھند جیسی نظر آنے والی اسموگ میں سلفر، لیڈ، میتھینسمیت بڑی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ موجود ہوتی ہے ، اسموگ کا مسئلہ پورے ملک بالخصوص صوبہ پنجاب میں شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ کھیتوں کی صفائی کے لیے کوئی جدید طریقہ یا آلات دستیاب نہ ہونے کے باعث کسان اگلی فصل کی کاشت سے پیشتر پچھلی فصل کے مڈھوں کو جلا ڈالتے ہیں۔ نتیجتاً متصل دیہاتوں اور شہروں میں اسموگ کی ایک بڑی وجہ بنتے ہیں۔ اسموگ سے آلودہ فضا میں ایک دن سانس لینا ، دو سو سے تین سو سگریٹ پھونکنے کے مترادف ہے۔ گزرے برس لاہور، گوجرانوالہ اور فیصل آباد میں اسموگ کی وجہ سے کئی اموات واقع ہوئیں اور متعدد افراد اسپتالوں میں داخل رہے۔ لاہور میں فضائی آلودگی کی سطح بہت بلند ہے اور یہ شہر آلودگی کی رینکنگ میں مسلسل سرفہرست شہروں میں شامل ہوتا ہے۔
لاہور پرانی عمارتوں کا شہر ہے اور یہ ہوا کی آلودگی انھیں بھی شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ زیر زمین سیوریج کی وجہ سے گندا پانی ان پرانی عمارتوں کی بنیادوں میں جا کر انھیں کمزور کر رہا ہے۔ مغل دور میں ڈیمپ پروف سیمنٹ کا رواج نہیں تھا اس لیے جب پانی چڑھنا شروع ہوتا ہے دیواروں پر تو چڑھتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح آلودہ ہوا ان عمارتوں کے رنگ کو خراب کرتی ہے اور ایک طرح کی کالک ان عمارتوں پر جم جاتی ہے جو بارش کے بعد بھی نہیں اترتی۔ لاہور میں بوہڑ(برگد)، پیپل، شیشم، نیم وغیرہ کے درخت ختم ہوتے جارہے ہیں،جس کی وجہ سے گرم موسم میں بڑی سڑکیں تنور بن جاتی ہیں۔
ٹیکسٹائل پاکستان کی سب سے بڑی صنعت ہے اور اس سیکٹر کی فیکٹریوں بالخصوص رنگائی اور چھپائی کے دوران بے پناہ مایع فضلے کا اخراج ہوتا ہے۔ کیونکہ فضلے کے ٹریٹمنٹ کے لیے درکار وسائل مہنگے ہیں اس وجہ سے ان پر کام کیا ہی نہیں جاتا، اگر کہیں ٹریٹمنٹ پلانٹ نصب بھی کیے گئے ہیں تو عام طور پر انھیں استعمال نہیں کیا جاتا کیونکہ اس کا مقصد عالمی خریداروں کو بس یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ اس حوالے سے صنعتکار کتنے سنجیدہ ہیں۔ چمڑے کی صنعت بھی پاکستان میں شدید آلودگی کا باعث بننے والی صنعتوں میں شامل ہے۔ چمڑا بنانے میں استعمال ہونے والے کیمیکل یورپ میں بنتے ہیں لیکن ان کا استعمال ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔ یہ شدید زہریلے کیمیکل ہوتے ہیں جن کی وجہ سے نا صرف چمڑے کی صنعتوں میں کام کرنے والے مزدور بلکہ ملحقہ علاقوں میں بسنے والے علاقوں کے مکین بھی کینسر سے متاثر ہوتے ہیں۔
فضائی آلودگی کے ساتھ پاکستان پوری دنیا میں اپنے دریاؤں کو آلودہ کرنے میں بھی بد نامِ ہے۔ تقریباً تمام فیکٹریاں اپنا مایع فضلہ بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے نہروں اور دریاؤں میں بہا رہی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق عوامی فضلے کا 8 فیصد اور صنعتی فضلے کا 1 فیصد ہی ٹریٹمنٹ کے بعد دریاؤں میں بہایا جاتا ہے۔ یہ زہریلے دریا دیہی علاقوں میں رہنے والے عوام کی زندگیوں میں زہر گھول رہے ہیں جو نہروں اور دریاؤںسے پینے سمیت روزمرہ ضروریات کے لیے پانی حاصل کرتے ہیں۔ دریا کینسر کا سبب بننے والے مادوں (Carcinogens) سے بھرے پڑے ہیں اور آرسینک، سیسہ، کیڈمیم، کرومیم وغیرہ محفوظ حدود سے بے تحاشا تجاوز کر چکے ہیں۔ دریاؤں میں موجود کم وبیش تمام مچھلیاں زہریلے مادوں سے آلود ہو چکی ہیں اور پھر یہی زہر کھانے کے راستے انسانی جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔
گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں میں دس گنا اضافہ ہوا ہے۔ گاڑیوں کی فنانسنگ اسکیموں کی وجہ سے سڑکوں پر دوڑتی گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، تقریباً تمام گاڑیاں شدید فضائی آلودگی پھیلاتی ہیں کیونکہ پورے ملک میں کہیں بھی گاڑیوں کی معیاری سرکاری چیکنگ اور نگرانی کا نظام موجود نہیں ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والی بجلی کا ایک بڑا حصہ فاسل فیولز (تیل، گیس، کوئلہ) سے آتا ہے۔ پورے ملک کے پٹرول پمپوں پر بکنے والے پٹرول اور دیگر ایندھن میں سستے کیروسین کی ملاوٹ کی جاتی ہے۔ اس وجہ سے ایک طرف ایندھن کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور دوسری طرف گاڑیوں کے انجن کی خرابی کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کے دھویں میں انتہائی زہریلے مادوں کا اخراج ہوتا ہے۔
بلاشبہ حکومت شجرکاری کے حوالے سے کام کررہی ہے ، لیکن ملک میں اب ولایتی درخت زیادہ لگائے جارہے ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں۔ پائن اور کورنو کارپس کے درخت لاکھوں میں لگا دیے گئے ہیں، یہ وہ درخت ہیں جن کی جڑیں سیوریج کی نالیاں توڑ کر باہر نکل جاتی ہیں۔ ان کا نہ سایہ ہے نہ پرندے ان پر گھونسلہ بنا پاتے ہیں۔ ہمارے درخت تو پیپل، شیشم، شہتوت، نیم ، بوہڑ وغیرہ ہیں، انھیں زیادہ سے زیادہ لگایا جائے، درخت دراصل شہروں کے لیے پھیپھڑوں کا کام کرتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی اور تباہ کن گلوبل وارمنگ کے حوالے سے عوام میں آگاہی اور شعور بیدارکیا جائے ، کیونکہ یہ مسئلہ ہماری نسلوں کی بقا سے جڑا ہوا ہے ۔
ماحولیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کے لیے اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں شریک عالمی رہنماؤں نے 2030 تک جنگلات کی کٹائی کو روکنے اور کاربن گیسوں کے اخراج کو صفر تک لانے کے اہداف کے حصول کے لیے نئی مہم کے آغاز پر زور دیتے ہوئے سرکاری اور نجی شعبے میں بیس ارب ڈالر جمع کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے ۔
کانفرنس میں پاکستانی پویلین عالمی رہنماؤں کی توجہ کا مرکز بن گیا ، جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور یو اے ای کے وزیر ماحولیات نے پاکستانی پویلین کا دورہ کیا ۔
اس وقت پوری دنیا کو ماحولیاتی تغیر کا سامنا ہے ، اگر بروقت مناسب تدابیر اختیار نہ کی گئیں اور درجہ حرارت بڑھتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب کرہ ارض ماحولیاتی تغیر کی لپیٹ میں آکر انسانوں اور دیگر جانداروں کے لیے انتہائی خطرناک ہو جائے گا۔ اقوام متحدہ کے زیر نگرانی حکومتوں کے درمیان ماحولیاتی تغیر کے پینل کی ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا میں ماحولیاتی تبدیلی تیزی سے وقوع پذیر ہو رہی ہے ، بعض تبدیلیاں تو ایسی ہیں جنھیں سیکڑوں بلکہ ہزاروں سال بھی ختم نہیں کیا جا سکے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زہریلی گیسوں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اگر کمی نہ لائی گئی تو عالمی درجہ حرارت میں ڈیڑھ گنا اور موسمی درجہ حرارت میں دو ڈگری کا اضافہ نا گزیر ہو جائے گا، اس طرح سے بڑھتا حرارت کرہ ارض پر موجود زندگی کے لیے نقصان دہ بن جائے گا۔
اگر ہم اس تناظر میں پاکستان کی بات کریں تو پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے 10 ارب درخت لگانے کے منصوبے سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ رواں برس ایک ارب درخت لگائے جائیں گے جب کہ پہلے مرحلے کے اختتام پر 2023 تک 3.2 ارب درخت لگانے کا منصوبہ ہے۔ موسمی اثرات کو کم کرنے کے لیے ملک میں قابلِ تجدید توانائی کا استعمال 30 فی صد تک لے جانے، آب پاشی کے لیے شمسی توانائی کا استعمال، پلاسٹک کو ایک سے زائد بار استعمال کے قابل بنانے کے اقدامات، الیکٹرک گاڑیوں کی پالیسی کی تیاری اور دیگر منصوبوں پر بھی حکومتی سطح پر کام جاری ہے۔
حکومتی اقدامات اور کوششیں اپنی جگہ لیکن دوسری جانب پاکستان میں پچھلی ایک دہائی کے دوران موسمیاتی تبدیلی کے باعث شدید موسمیاتی واقعات بشمول سیلاب، قحط سالی، گلیشیئر پگھلنے سے بننے والی جھیلوں کے پھٹنے سے آنے والے سیلاب، سائیکلون اور ہیٹ ویو کے باعث نہ صرف انسانی جانوں کا نقصان ہوا اور ملکی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی گرمی بڑھی اور اس کی ایک اہم وجہ گلوبل وارمنگ ہے۔
پاکستان میں آلودگی کا تعلق عالمی کلائمٹ چینج سے کم اور ہماری اپنی غلطیوں سے زیادہ ہے۔ سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ہم جو کوڑا اکٹھا کرتے ہیں اسے آگ لگانا اپنا فرض سمجھتے ہیں، وہ چاہے بلدیاتی حکومت کے ادارے ہوں یا انفرادی طور پر عوام، ہم کوڑا جلا دیتے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ خطرناک پلاسٹک بیگز ہیں جو اگر جلتے ہیں تو ہوا کو زہریلا کر دیتے ہیں۔ پاکستان کے تمام چھوٹے ، بڑے شہروں کے قریب بڑی تعداد میں فیکٹریاں لگائی جا رہی ہیں اور اس عمل میں تمام ماحولیاتی اصولوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
اس کے نتیجے میں کراچی سمیت تمام بڑے شہروں میں دریاؤں اور زیر زمین پانی اور ہوا کی آلودگی پیدا ہو چکی ہے جو اب خطرناک حدود میں داخل ہو چکی ہے۔ کراچی جو ملک کا سب سے بڑا صنعتی و تجارتی شہر ہے ، یہاں بھی فضائی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے ، فیکٹریوں کی چمنیوں سے اٹھتے دھویں کے بادل ، لاکھوں گاڑیوں کا دھواں اور صنعتوں کے فضلے نے سمندر کو بھی آلودہ کردیا ہے ، جب کہ دوسری جانب زراعت میں استعمال ہونے والے زہریلے اسپرے ایک اور مشکل ہیں۔
پنجاب اور سندھ کے زرعی علاقوں میں کئی اقسام کے کینسر، پھیپھڑوں اور جگر کی بیماریاں عام ہیں۔ حکومت ان کرم کش کیمیکلز کے استعمال کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ لگ بھگ زراعت میں استعمال ہونے والی تمام کرم کش ادویات ملٹی نیشنل کمپنیاں بناتی ہیں۔ ادھر بے شمار ہاؤسنگ اسکیمیں زرعی زمینوں کو ختم کرکے بنائی جارہی ہیں ، دولت کی ہوس میں لوگ اندھے ہوگئے ہیں ، بحیثیت قوم ماحول دشمنی میں ہم اپنا پورا حصہ ڈال رہے ہیں۔
دھند جیسی نظر آنے والی اسموگ میں سلفر، لیڈ، میتھینسمیت بڑی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ موجود ہوتی ہے ، اسموگ کا مسئلہ پورے ملک بالخصوص صوبہ پنجاب میں شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ کھیتوں کی صفائی کے لیے کوئی جدید طریقہ یا آلات دستیاب نہ ہونے کے باعث کسان اگلی فصل کی کاشت سے پیشتر پچھلی فصل کے مڈھوں کو جلا ڈالتے ہیں۔ نتیجتاً متصل دیہاتوں اور شہروں میں اسموگ کی ایک بڑی وجہ بنتے ہیں۔ اسموگ سے آلودہ فضا میں ایک دن سانس لینا ، دو سو سے تین سو سگریٹ پھونکنے کے مترادف ہے۔ گزرے برس لاہور، گوجرانوالہ اور فیصل آباد میں اسموگ کی وجہ سے کئی اموات واقع ہوئیں اور متعدد افراد اسپتالوں میں داخل رہے۔ لاہور میں فضائی آلودگی کی سطح بہت بلند ہے اور یہ شہر آلودگی کی رینکنگ میں مسلسل سرفہرست شہروں میں شامل ہوتا ہے۔
لاہور پرانی عمارتوں کا شہر ہے اور یہ ہوا کی آلودگی انھیں بھی شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ زیر زمین سیوریج کی وجہ سے گندا پانی ان پرانی عمارتوں کی بنیادوں میں جا کر انھیں کمزور کر رہا ہے۔ مغل دور میں ڈیمپ پروف سیمنٹ کا رواج نہیں تھا اس لیے جب پانی چڑھنا شروع ہوتا ہے دیواروں پر تو چڑھتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح آلودہ ہوا ان عمارتوں کے رنگ کو خراب کرتی ہے اور ایک طرح کی کالک ان عمارتوں پر جم جاتی ہے جو بارش کے بعد بھی نہیں اترتی۔ لاہور میں بوہڑ(برگد)، پیپل، شیشم، نیم وغیرہ کے درخت ختم ہوتے جارہے ہیں،جس کی وجہ سے گرم موسم میں بڑی سڑکیں تنور بن جاتی ہیں۔
ٹیکسٹائل پاکستان کی سب سے بڑی صنعت ہے اور اس سیکٹر کی فیکٹریوں بالخصوص رنگائی اور چھپائی کے دوران بے پناہ مایع فضلے کا اخراج ہوتا ہے۔ کیونکہ فضلے کے ٹریٹمنٹ کے لیے درکار وسائل مہنگے ہیں اس وجہ سے ان پر کام کیا ہی نہیں جاتا، اگر کہیں ٹریٹمنٹ پلانٹ نصب بھی کیے گئے ہیں تو عام طور پر انھیں استعمال نہیں کیا جاتا کیونکہ اس کا مقصد عالمی خریداروں کو بس یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ اس حوالے سے صنعتکار کتنے سنجیدہ ہیں۔ چمڑے کی صنعت بھی پاکستان میں شدید آلودگی کا باعث بننے والی صنعتوں میں شامل ہے۔ چمڑا بنانے میں استعمال ہونے والے کیمیکل یورپ میں بنتے ہیں لیکن ان کا استعمال ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔ یہ شدید زہریلے کیمیکل ہوتے ہیں جن کی وجہ سے نا صرف چمڑے کی صنعتوں میں کام کرنے والے مزدور بلکہ ملحقہ علاقوں میں بسنے والے علاقوں کے مکین بھی کینسر سے متاثر ہوتے ہیں۔
فضائی آلودگی کے ساتھ پاکستان پوری دنیا میں اپنے دریاؤں کو آلودہ کرنے میں بھی بد نامِ ہے۔ تقریباً تمام فیکٹریاں اپنا مایع فضلہ بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے نہروں اور دریاؤں میں بہا رہی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق عوامی فضلے کا 8 فیصد اور صنعتی فضلے کا 1 فیصد ہی ٹریٹمنٹ کے بعد دریاؤں میں بہایا جاتا ہے۔ یہ زہریلے دریا دیہی علاقوں میں رہنے والے عوام کی زندگیوں میں زہر گھول رہے ہیں جو نہروں اور دریاؤںسے پینے سمیت روزمرہ ضروریات کے لیے پانی حاصل کرتے ہیں۔ دریا کینسر کا سبب بننے والے مادوں (Carcinogens) سے بھرے پڑے ہیں اور آرسینک، سیسہ، کیڈمیم، کرومیم وغیرہ محفوظ حدود سے بے تحاشا تجاوز کر چکے ہیں۔ دریاؤں میں موجود کم وبیش تمام مچھلیاں زہریلے مادوں سے آلود ہو چکی ہیں اور پھر یہی زہر کھانے کے راستے انسانی جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔
گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں میں دس گنا اضافہ ہوا ہے۔ گاڑیوں کی فنانسنگ اسکیموں کی وجہ سے سڑکوں پر دوڑتی گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، تقریباً تمام گاڑیاں شدید فضائی آلودگی پھیلاتی ہیں کیونکہ پورے ملک میں کہیں بھی گاڑیوں کی معیاری سرکاری چیکنگ اور نگرانی کا نظام موجود نہیں ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والی بجلی کا ایک بڑا حصہ فاسل فیولز (تیل، گیس، کوئلہ) سے آتا ہے۔ پورے ملک کے پٹرول پمپوں پر بکنے والے پٹرول اور دیگر ایندھن میں سستے کیروسین کی ملاوٹ کی جاتی ہے۔ اس وجہ سے ایک طرف ایندھن کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور دوسری طرف گاڑیوں کے انجن کی خرابی کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کے دھویں میں انتہائی زہریلے مادوں کا اخراج ہوتا ہے۔
بلاشبہ حکومت شجرکاری کے حوالے سے کام کررہی ہے ، لیکن ملک میں اب ولایتی درخت زیادہ لگائے جارہے ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں۔ پائن اور کورنو کارپس کے درخت لاکھوں میں لگا دیے گئے ہیں، یہ وہ درخت ہیں جن کی جڑیں سیوریج کی نالیاں توڑ کر باہر نکل جاتی ہیں۔ ان کا نہ سایہ ہے نہ پرندے ان پر گھونسلہ بنا پاتے ہیں۔ ہمارے درخت تو پیپل، شیشم، شہتوت، نیم ، بوہڑ وغیرہ ہیں، انھیں زیادہ سے زیادہ لگایا جائے، درخت دراصل شہروں کے لیے پھیپھڑوں کا کام کرتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی اور تباہ کن گلوبل وارمنگ کے حوالے سے عوام میں آگاہی اور شعور بیدارکیا جائے ، کیونکہ یہ مسئلہ ہماری نسلوں کی بقا سے جڑا ہوا ہے ۔