حکومتی حلیفوں کی مودبانہ درخواستیں
ہر سیاستدان کے لیے صرف حکومتوں میں مفادات کا حصول اہم ہوتا ہے
CHENNAI:
پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کی ایک اہم ترین حلیف جماعت ایم کیو ایم پاکستان کے مرکزی رہنماؤں نے وزیر اعظم سے اپیل کی ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافے سے گریز کیا جائے کیونکہ ایک ماہ میں دو بار اضافے سے پہلے ہی عوام کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔
ملک میں ہو ش ربا اضافے پر اپوزیشن کی بڑی جماعتیں مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی ، جے یو آئی اور جماعت اسلامی تو اپنی سیاست برقرار رکھنے کے لیے حکومتی اقدامات اور بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات میں اضافے و دیگر معاملات پر بیان بازی اورکبھی کبھی تھوڑا سا احتجاج کرتی ہی ہیں مگر موجودہ حکومتی حلیفوں میں صرف ایم کیو ایم واحد جماعت ہے جو کبھی کبھی حکومتی پالیسی پر احتجاج تو بالکل نہیں کرتی بلکہ اپنی اتحادی حکومت سے مودبانہ درخواست ہی کرلیتی ہے حالانکہ ماضی میں ایم کیو ایم اپنے قائد کے حکم پر احتجاج کے نام پر کراچی میں مکمل شٹر ڈاؤن اور جلاؤ گھیراؤ کراتی تھی جس میں جانی و مالی نقصان ہونے سے ہی خبریں بنتی تھیں۔
سندھ میں وفاقی حکومت کی دوسری حلیف جی ڈی اے ہے جو اصل میں پیر پگاڑا کی مسلم لیگ فنکشنل ہے جو صرف پیپلز پارٹی حکومت پر تنقید کرتی اور حکومتی اقدامات سے بڑھتی مہنگائی سے صرف نظر کر جاتی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات پر ساڑھے دس روپے اضافے کے بعد کراچی کی ہر چھوٹی بڑی جماعتوں نے احتجاج کیا اور مذمتی بیانات دیے مگر فنکشنل لیگ کی طرف سے حکومتی فیصلے کے خلاف احتجاج تو کیا ہونا تھا کوئی اخباری بیان بھی جاری نہیں ہوا۔ جی ڈی اے سندھ کی چھوٹی پارٹیوں کا اتحاد ہے جس میں ذوالفقار مرزا بھی شامل ہیں جن کی اہلیہ جی ڈی اے سے واحد وفاقی وزیر ہیں۔
جب ایم کیو ایم پی پی حکومت کی اتحادی تھی تو ذوالفقار مرزا نے آصف زرداری سے قریبی دوستی چھوڑ کر حکومت کے اہم وزیر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور وہ ایم کیو ایم کے شدید ناقد تھے مگر وفاقی حلیف بننے کے بعد انھیں ایم کیو ایم سے شاید شکایات ختم ہوگئی ہیں کیونکہ حکومت میں اب ایم کیو ایم وفاقی حلیف ہے اور جی ڈی اے کی طرح صرف ایک معمولی وزارت پر قناعت کر رہی ہے۔ جی ڈی اے کا کوئی رہنما حکومت سے مہنگائی نہ بڑھانے کی مودبانہ درخواست بھی نہیں کر رہا۔
وفاقی حکومت کی ایک اہم حلیف مسلم لیگ (ق) ہے جو پنجاب تک تو محدود ہے مگر وہ وفاقی حکومت کی اہم مجبوری ہے جس کے پاس شاید قومی اسمبلی میں پانچ اور پنجاب اسمبلی کی دس نشستیں اور ایک سینیٹر کی نشست بھی ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ہیں۔ ق لیگ کے سیاستدان موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا جانتے اور ہر حکومت سے ڈیلنگ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
مسلم لیگ (ق) کو پہلے آصف زرداری اور پھر عمران خان نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا مگر یہی (ق) لیگ پہلے آصف زرداری کی مجبوری بنی تھی اور اب عمران خان کی مجبوری ہے کیونکہ (ق) لیگ ہی کی وجہ سے پنجاب میں پی ٹی آئی اور وفاق میں عمران خان کی حکومت بنی تھی۔ محدود نشستوں پر (ق) لیگ نے دو وفاقی اور پنجاب میں دو صوبائی وزارتیں لے رکھی ہیں اور چوہدری پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ہیں جن کی ناراضگی کے وزیر اعظم متحمل نہیں ہو سکتے۔
مسلم لیگ (ق) بھی ملک میں مہنگائی کو نظر انداز کر رہی ہے،ہر سیاستدان کے لیے صرف حکومتوں میں مفادات کا حصول اہم ہوتا ہے اور وزیر اعلیٰ پنجاب تو اتحادی جماعتوں کو بہت عزیز ہیں کیونکہ وہ کام کے آدمی ہیں اور اتحادیوں کی ہر بات مانتے ہیں۔
یہ تینوں حکومتی حلیف وفاقی حکومت کی بھرپور حمایت کرتے آ رہے ہیں صرف سندھ میں جی ڈی اے واحد حکومتی حلیف ہے جو پی ڈی ایم پر نہیں صرف سندھ میں پی پی حکومت پر تنقید کرتی ہے۔ ق لیگ کے پی پی سے بہترین تعلقات ہیں اور ایم کیو ایم کو سندھ میں پی پی حکومت پسند نہیں ، عمران خان کی حکومت پسند ہے مگر وہ بھی پی ڈی ایم پر کبھی تنقید نہیں کرتی۔ کبھی کبھی اس کے رہنما معذرت خواہانہ طور پر کراچی کے سلسلے میں وفاقی حکومت پر تنقید کرلیتے ہیں مگر ماضی کی طرح اپنی اکلوتی وزارت گنوانا نہیں چاہتے۔ یہ تینوں حکومتی حلیف قومی اسمبلی میں کبھی وفاقی حکومت کو ناراض نہیں کرتے۔ عوام کو تینوں نے اپنی پالیسیوں سے ناراض کر رکھا ہے مگر وفاقی حکومت اپنے ان تینوں حلیفوں سے مطمئن ہے کیونکہ ان تینوں میں پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی جیسی جرأت نہیں ہے جو کبھی کبھی ایوان میں مہنگائی بڑھنے اور کرپشن پر بول پڑتے ہیں۔