اسمگلنگ پاکستان کے لیے زہر قاتل
ڈالر کے حالیہ بحران میں بھی ہمارے معاشی ماہرین کا یہی موقف ہے کہ پاکستان کی مارکیٹ سے ڈالر افغانستان اسمگل ہو گیا ہے۔
اسمگلنگ پاکستان کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ڈالر کے حالیہ بحران میں بھی ہمارے معاشی ماہرین کا یہی موقف ہے کہ پاکستان کی مارکیٹ سے ڈالر افغانستان اسمگل ہو گیا ہے۔
افغانستان میں ڈالر کی کمی کی وجہ سے وہاں ڈالر کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے اسمگلرز نے ڈالر پاکستان سے افغانستان سمگل کر دیا۔ ڈالر کی افغانستان اسمگلنگ کی وجہ سے پاکستان میں روپے کی قدر میں شدید کمی ہوئی ہے اور پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے ۔
ایک طرف روپے کی قدر میں کمی کے سوال پر افغانستان میں ڈ الر کی کمی کی داستان سنائی جا رہی ہے دوسری طرف حکومت کی طرف سے ڈالر کی افغانستان اسمگلنگ پر کوئی انکوائری بھی نہیں کی جا رہی ۔ سوال یہ ہے کہ کیسے پاکستان سے ڈالر سمگل ہو کر افغانستان چلا گیا۔ یہ تو کوئی موقف نہیں کہ چونکہ افغانستان میں ڈالر کی کمی ہے اس لیے ڈالر افغانستان سمگل ہو گیا ہے۔
ویسے تو اپوزیشن کے رہنماؤں کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمات قائم رکھنے کے لیے حکومت روزانہ کی بنیاد پر نیب آرڈیننس میں ترمیم کر رہی ہے۔بار بار کی ترامیم کے باوجود حکومت کو کوئی ایسا راستہ نہیں مل رہا ۔ جس سے وہ اپوزیشن کے رہنماؤں کو خود ہی مرضی کی سزا سنا دے۔ عدالتوں کی محتاجی ہی ختم ہو جائے۔ اسی لیے احتساب عدالتوں کے جج لگانے کے اختیار بھی حاصل کیے جا رہے ہیں اور چیئرمین نیب کا ریموٹ کنٹرول بھی اپنے پاس رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تا ہم یہ سب اپنی جگہ لیکن پاکستان سے ڈالر کی اسمگلنگ بھی پوری آب وتاب سے جاری ہے اور اس کے پاکستان کی معیشت پرنہایت منفی اثرات سامنے آرہے ہیں۔
ویسے تو عالمی ادارے اور پاکستان میں بھی ماہرین حکومت کو خبردار کر رہے ہیں کہ جیسے جیسے افغانستان میں بھوک ننگ اور افلاس بڑھے گی لوگوں کے پاس کھانے پینے کی اشیا کی قلت ہوگی، ویسے ویسے پاکستان سے افغانستان اسمگلنگ بھی بڑھے گی ۔ کہا جا رہا ہے کہ گندم سمیت ضروریات زندگی کی تمام اشیا پاکستان سے افغانستان جائیں گی۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں ان کی قلت ہونے کا خدشہ ہے۔ گندم، چینی اور گھی سمیت کھانے پینے کی اشیا پہلے ہی پاکستان میں کم ہیں۔ ہمیں اپنے ملک میں ان کی قلت کا سامنا ہے۔ ایسے میں اگر یہ سب کچھ افغانستان سمگل ہو گیا تو ہماری مارکیٹ میں ایک نیا بحران آنے کا خدشہ ہے۔ ہمارے ملک میں خوراک کی بنیادی چیزوں کی قلت ہو جائے گی۔ ان کی قیمتیں صرف اس غیر قانونی اسمگلنگ کی وجہ سے کئی گنا بڑھ جائیں گی۔ اس لیے ساری دنیا پاکستان کو خبردار کر رہی ہے۔ لیکن ہم مزے کی نیند سو رہے ہیں۔
جب ہم نے افغانستان کی مکمل سرحد پر باڑ لگا دی ہے اور ہمارا موقف ہے کہ اب ہماری سرحد پر ہماری مرضی کے بغیر چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی تو کیا کوئی ارباب اقتدار سے سوال کر سکتا ہے کہ ڈالر کیسے ادھر سے ادھر چلا گیا۔ جب باڑ لگی ہوئی ہے اور غیر قانونی آمد و رفت پر مکمل پابندی ہے تو ڈالر اور دوسری اشیا کیسے پاکستان سے افغانستان سمگل ہو رہی ہیں ۔ ہم اگر اسمگلنگ نہیں روک سکتے تودہشت گردی کیسے روکیں گے۔ اگر ڈالر نہیں رو ک سکتے تو منشیات کیسے روکیں گے۔
ایک طرف پاکستان کی افغانستان کو برآمدات میں کمی ہو رہی ہے۔ اس ایک وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ افغانستان میں مالی بحران ہے بینک کام نہیں کر رہے اس لیے باقاعدہ تجارت کم ہو رہی ہے۔ لوگوں کے پاس باقاعدہ تجارت کے لیے نہ تو وسائل ہیں اور نہ ہی مواقع۔ اس لیے برآمدات میں کمی ہوئی ہے۔ لیکن دوسری طرف اسمگلنگ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ کیا یہ ہماری نا اہلی نہیں ہے۔ کیا اس کے لیے ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم آج تک جس قسم کے مالی بحران کا شکار ہیں کیا ہم ایسی کسی نا اہلی کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ کیا حکومت ان معاملات کو نظر انداز کر سکتی ہے۔
اسمگلنگ پاکستان میں کوئی نیا کلچر نہیں ہے۔ اسمگلنگ صرف افغانستان سے ہی نہیں ہوتی بلکہ ایران سے بھی بہت اسمگلنگ ہوتی ہے۔ ایرانی تیل کی اسمگلنگ کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک موجود ہے۔ ایران کے ملحقہ پاکستانی علاقوں اور بلوچستان میں بالخصوص ایرانی تیل کی فروخت کوئی جرم نہیں سمجھا جاتا۔ ایران سے صرف تیل ہی نہیں باقی بھی کئی اشیا کی اسمگلنگ ہوتی ہے۔ آپ تربت اور ایسے دیگر علاقوں میں جائیں تو ہمیں ایرانی اسمگلنگ کی اشیا کی بھر مار نظر آتی ہے۔ لیکن ہم نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔
اسی طرح پاکستان کے قبائلی علاقوں میں فاٹا تو اب ختم ہو گیا ہے۔ کیونکہ ہم نے فاٹا کو کے پی میں ضم کر لیا ہے۔ لیکن فاٹا میں اسمگلنگ کا کاروبار آج بھی ویسے ہی چل رہا ہے۔ ہر گھر میں نان کسٹم گاڑی موجود ہے۔ وہاں نان کسٹم گاڑیاں رکھنا کوئی غیر قانونی نہیں سمجھا جاتا۔ اسے قانونی عمل بنا دیا گیا ہے۔ وہیں سے یہ غیر قانونی گاڑیاں پنجاب اور دیگر علاقوں میں بھی آتی ہیں۔ اور یہاں ان کے دو نمبر کاغذ بنانے کا بھی ایک کاروبار موجود ہے۔ کسٹم سے بھی جعلی کاغذ بنتے ہیں اور ایکسائز سے بھی جعلی کاغذ بنتے ہیں۔ اس کے ساتھ اسمگلنگ کی اشیا پاکستان کی مارکیٹوں میں عام بک رہی ہیں اور ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مذاق اڑا رہی ہیں۔
اسمگلنگ کی اشیا کی مارکیٹوں میں فروخت سے تو شاید پاکستان کو اتنا نقصان نہیں تھا لیکن ڈالر کی اسمگلنگ پاکستان کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے مقتدر حلقوں بارڈر کے پہرے داروں اور دیگر اداروں کو مل بیٹھ کر ایسا لائحہ عمل بنانا چاہیے کہ پاکستان سے ڈالر کی افغانستان غیر قانونی اسمگلنگ روکی جا سکے۔