ایمن صاحب کی زنبیل
کتاب میں شامل ایک تحریر کا عنوان ہے ’’ چرسی گدھا ‘‘ وہ ہم نے نہیں پڑھی، دراصل سیاسی مضامین سے دل اُچاٹ ہوگیا ہے۔
اپنے مضمون کا آغاز ہم ایک اعتراف سے کرنا چاہتے ہیں۔ ہوا یوں کہ م ص ایمن صاحب نے کوئی سال بھر قبل ہمیں اپنی کتاب ''سنگ بے بنیاد'' کا مسودہ عطا کیا اور فرمایا کہ اس پرکچھ لکھیں۔ لکھ دیا۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہماری یادداشت بڑی بے وفا ہے، جب دیکھو ساتھ چھوڑ جاتی ہے، یوں کہیے کہ یاد داشت نہیں کم بخت پوری ''یاد داشتہ'' ہے۔ سو ہم اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ ایمن صاحب نے ہمیں مسودہ نہیں کتاب دی تھی۔ جب انھوں نے کتاب کی تقریب رونمائی میں بہ طور مقرر مدعو کیا تو ہم نے ''سنگ بے بنیاد'' کو اپنے کتابوں کے ذخیرے میں اس قدر ٹٹولا جس قدر ہماری کاہلی نے اجازت دی، اور ہماری کاہلی ہمیں کام کی اتنی ہی اجازت دیتی ہے جتنی آمرانہ حکومتوں میں اظہار رائے کو حاصل ہوتی ہے۔
کتاب تھی ہی نہیں اور ہوتی بھی تو کیسے ملتی کہ ہمارے نظم وضبط کا یہ حال ہے کہ جذبات ضبط کیے بغیر نظم کہہ ڈالتے ہیں، یوں کبھی بیوی کی نظر میں مشکوک ہوجاتے ہیں کبھی لوگوں کی نظر میں معتوب ٹھہرتے ہیں۔ رہا سلیقہ، تو اس کا یہ عالم ہے کہ اگر کسی گھر کی بہو ہوتے تو سسرال کا وہی حال ہوجاتا جو ان دنوں پاکستان کا ہے، اور سسر ساس کو طعنے دے رہے ہوتے کہ '' واہ بھئی، اچھی بہو سلیکٹ کی ہے'' بہرحال، تھک ہار کر بیٹھ گئے۔
خاتونِ خانہ کی طرف دیکھا تو انھیں امورخانہ داری میں مصروف پایا، کوئی ایسی ترکیب سوچنے لگے کہ وہ سارے کام چھوڑ کر کتاب کی تلاش میں مگن ہوجائیں۔ ذرا دماغ لڑایا اور کام بن گیا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہم لڑنے لڑانے والی آدمی نہیں، بس دماغ لڑاتے ہیں، ان دنوں آنکھوں کو بھی صرف پڑھنے پر لگا رکھا ہے۔
خیر ہم حسب ترکیب بیگم کے پاس گئے اور اداکاری کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے کھنکھارے، پھر نظریں چُراتے اور اپنے سر پر دھیرے سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا،'' تم نے ایمن کی کتاب دیکھی ہے؟ یہیں کہیں رکھی تھی۔''،''کون ایمن'' انھوں نے چونک کر پوچھا۔ '' ارے وہ ہیں ایک '' ہم نے گالوں پر سُرخی لانے کی پوری کوشش کرتے ہوئے دھیرے سے مسکرا کر ہولے سے جواب دیا اور ان کی '' آتش شک'' بھڑکا دی۔ پھر سکون سے بیٹھے گھنٹوں انھیں کتاب ڈھونڈتے دیکھا کیے۔ کتاب تو کیا ملتی ، بیگم کو ہمیں سنانے کا موقع ضرور مل گیا۔ آخر انھیں فیس بک پر ایمن صاحب کی تصویر دکھا کر مطمئن کیا۔
اب آتے ہیں کتاب پر۔ کتاب کیا ہے ایمن صاحب کی زنبیل ہے جس میں سے آپ مزاح ، فلسفہ ، سائنس ، حیوانیات، سماجی مسائل، مذہبی حکایات ، قصے کہانیاں سب کچھ نکال سکتے ہیں، بلکہ ضرورت پڑے تو فال بھی نکال سکتے ہیں۔ یہ ہمارا طنز نہیں مصنف کے علمی تنوع کو خراج تحسین ہے۔ ایمن صاحب کا مطالعہ وسیع ہے اور مشاہدہ عمیق، جس کا عکس کتاب میں شامل ان کی ہر تقریباً تحریر ہے۔
چناں چہ سرورق پر لکھے جملے '' خبردار! مطالعہ جہالت کے لیے مضر ہے'' سے اختلاف کرتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ ''خبردار! اس کتاب کا پڑھنا جہالت کے لیے ہلاکت خیز ہے۔'' چار حصوں میں منقسم یہ تصنیف بڑی رنگا رنگ ہے۔ یہ رنگ صفحہ درصفحہ کہیں الگ الگ نظر آتے ہیں کہیں ایک دوسرے میں گُھلتے ہوئے۔ تاہم مصنف کی نمایندگی شوخ رنگ کرتے ہیں، یہ رنگ باتیں نہیں شرارتیں کرتے ہیں اور کہیں کہیں سنجیدہ لفظوں کی دست بستہ قطار میں شگوفہ بن کر کِھل اُٹھتے اور پڑھنے والے کے کِھلکِھلا اور کبھی کبھی تو کُھل کُھلا کر ہنسنے کا سبب بن جاتے ہیں۔
کتاب پڑھتے ہوئے ہم پر یہ بھی منکشف ہوا کہ مصنف فوج سے وابستہ رہے ہیں۔ ہمارے ملک کی فوج نے مزاح کی دنیا میں بہت سے نام پیدا کیے ہیں، جیسے کرنل محمد خان ، میجر جنرل ریٹائرڈ شفیق الرحمٰن، ضمیر جعفری، اشفاق حسین اورضیاء الحق دیکھیے یادداشتہ کی حرکت ہم ضیاء الحق قاسمی مرحوم کو فوج سے وابستہ کر بیٹھے، حالاں کہ مرحوم کا فوج سے کوئی تعلق نہیں تھا، وہ دوسرے ضیاء الحق تھے، جو قاسمی نہیں کسی اور قسم کے تھے۔
وہ مزاح نویس تو نہیں لیکن تھے بڑے ہی ''مذاقیہ''، پورے ایک عشرے تک قوم سے مسلسل مذاق کرتے رہے۔ تو ہم کہہ یہ رہے تھے کہ ہماری فوج نے مزاح کے بہت بڑے بڑے نام پیدا کیے، بلکہ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بہت مزاح پیدا کیا ۔ ایمن صاحب نے لکھا ہے کہ انھوں نے فوج میں ملازمت کا آغاز سِلائی کے شعبے سے کیا۔ یعنی یہ وردیاں سیتے اور ان میں جیبیں لگاتے رہے ہیں۔ وہ ملازمت ترک کرنے کے بعد انھوں نے یہ پیشہ بھی چھوڑ دیا۔
شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمن صاحب بڑی بڑی جیبیں سینے کے ماہر اور عادی تھے، اور سویلینز کی جیبیں نسبتاً بہت چھوٹی ہوتی ہیں۔ ہم فخر محسوس کر رہے ہیں کہ ہمیں ایک ایسے قلم کار پر لکھنے کا اعزاز حاصل ہوا جس کے شانوں سے دو محنت کش ہاتھ جُڑے ہیں، اور وہ اردو نثر میں احسان دانش اور قمر جلالوی کی اُجلی روایت کا امین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ہاتھوں کے تراشیدہ لفظ محض خوب صورت ہی نہیں زندگی سے پوری طرح جُڑے ہوئے بھی ہیں۔
یہی سبب ہے کہ اس کتاب کی فکاہیہ نگارشات ہوں یا سنجیدہ مضامین ، ان میں حقیقی کردار اور روزمرہ کی زندگی میں جنم لیتے واقعات نظر آتے ہیں۔ یہ حقیقت نگاری مصنف کے سچے فن کار ہونے کا ثبوت بھی ہے اور ان کی کتاب کو مزید دل چسپ بھی بنادیتی ہے۔ آپ ہماری تعریف سے یہ مت سمجھ بیٹھیے گا کہ اس کتاب میں سب اچھا ہے۔ بعض جگہ ہمیں مایوسی بھی ہوئی۔
جیسے بڑے شوق سے '' ٹھنڈا گوشت '' کے زیرعنوان مضمون پڑھا ، سوچا مصنف منٹو سے چار قدم آگے گئے ہوں گے، لیکن ایک لفظ بھی ناقابل اشاعت نہ پاکر ہمارا تبصرہ تھا،'' یہ تو واقعی ٹھنڈا گوشت ہے، بلکہ ڈی فریزر کا رکھا ہوا منجمد گوشت۔'' اس تحریر میں ایمن صاحب نے بتایا ہے کہ وہ ڈیفنس کے جمعہ بازار میں بک اسٹال لگاتے تھے۔ ایک روز انھوں نے منٹو کی کتاب '' ٹھنڈا گوشت '' غائب پائی، بعد میں پتا چلا کہ اسے ملازم لڑکے نے کھانے پینے کی ترکیبوں والی کتابوں کے درمیان رکھ دیا تھا۔
ہم سوچ رہے ہیں اگر یہ کتاب خاوند کو نئے نئے پکوان بناکر کھلانے کی شوقین کوئی خاتون خرید کر لے جاتیں تو اپنے شوہر کو پہلی بار پکوان کی ترکیبوں کی کتاب ذوق وشوق سے پڑھتے دیکھ کر کتنی حیران ہوتیں۔ ممکن ہے یہ فرمائش بھی کر بیٹھتیں کہ ''اب آپ نے پڑھا ہے تو آپ ہی پکائیے۔''کتاب میں شامل ایک تحریر کا عنوان ہے '' چرسی گدھا '' وہ ہم نے نہیں پڑھی، دراصل سیاسی مضامین سے دل اُچاٹ ہوگیا ہے۔آخر میں ''سنگ بے بنیاد'' کے مصنف کو مبارک باد کہ وہ ایک ایسی کتاب لے کر آئے ہیں جس میں پڑھنے اور جاننے کو بہت کچھ ہے۔
(جمعہ 29 اکتوبر 2021 کو منعقدہ مزاح نگار جناب م ص ایمن کی کتاب ''سنگ بے بنیاد'' کی تقریب رونمائی میں پڑھا گیا مضمون۔)
مسئلہ یہ ہے کہ ہماری یادداشت بڑی بے وفا ہے، جب دیکھو ساتھ چھوڑ جاتی ہے، یوں کہیے کہ یاد داشت نہیں کم بخت پوری ''یاد داشتہ'' ہے۔ سو ہم اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ ایمن صاحب نے ہمیں مسودہ نہیں کتاب دی تھی۔ جب انھوں نے کتاب کی تقریب رونمائی میں بہ طور مقرر مدعو کیا تو ہم نے ''سنگ بے بنیاد'' کو اپنے کتابوں کے ذخیرے میں اس قدر ٹٹولا جس قدر ہماری کاہلی نے اجازت دی، اور ہماری کاہلی ہمیں کام کی اتنی ہی اجازت دیتی ہے جتنی آمرانہ حکومتوں میں اظہار رائے کو حاصل ہوتی ہے۔
کتاب تھی ہی نہیں اور ہوتی بھی تو کیسے ملتی کہ ہمارے نظم وضبط کا یہ حال ہے کہ جذبات ضبط کیے بغیر نظم کہہ ڈالتے ہیں، یوں کبھی بیوی کی نظر میں مشکوک ہوجاتے ہیں کبھی لوگوں کی نظر میں معتوب ٹھہرتے ہیں۔ رہا سلیقہ، تو اس کا یہ عالم ہے کہ اگر کسی گھر کی بہو ہوتے تو سسرال کا وہی حال ہوجاتا جو ان دنوں پاکستان کا ہے، اور سسر ساس کو طعنے دے رہے ہوتے کہ '' واہ بھئی، اچھی بہو سلیکٹ کی ہے'' بہرحال، تھک ہار کر بیٹھ گئے۔
خاتونِ خانہ کی طرف دیکھا تو انھیں امورخانہ داری میں مصروف پایا، کوئی ایسی ترکیب سوچنے لگے کہ وہ سارے کام چھوڑ کر کتاب کی تلاش میں مگن ہوجائیں۔ ذرا دماغ لڑایا اور کام بن گیا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہم لڑنے لڑانے والی آدمی نہیں، بس دماغ لڑاتے ہیں، ان دنوں آنکھوں کو بھی صرف پڑھنے پر لگا رکھا ہے۔
خیر ہم حسب ترکیب بیگم کے پاس گئے اور اداکاری کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے کھنکھارے، پھر نظریں چُراتے اور اپنے سر پر دھیرے سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا،'' تم نے ایمن کی کتاب دیکھی ہے؟ یہیں کہیں رکھی تھی۔''،''کون ایمن'' انھوں نے چونک کر پوچھا۔ '' ارے وہ ہیں ایک '' ہم نے گالوں پر سُرخی لانے کی پوری کوشش کرتے ہوئے دھیرے سے مسکرا کر ہولے سے جواب دیا اور ان کی '' آتش شک'' بھڑکا دی۔ پھر سکون سے بیٹھے گھنٹوں انھیں کتاب ڈھونڈتے دیکھا کیے۔ کتاب تو کیا ملتی ، بیگم کو ہمیں سنانے کا موقع ضرور مل گیا۔ آخر انھیں فیس بک پر ایمن صاحب کی تصویر دکھا کر مطمئن کیا۔
اب آتے ہیں کتاب پر۔ کتاب کیا ہے ایمن صاحب کی زنبیل ہے جس میں سے آپ مزاح ، فلسفہ ، سائنس ، حیوانیات، سماجی مسائل، مذہبی حکایات ، قصے کہانیاں سب کچھ نکال سکتے ہیں، بلکہ ضرورت پڑے تو فال بھی نکال سکتے ہیں۔ یہ ہمارا طنز نہیں مصنف کے علمی تنوع کو خراج تحسین ہے۔ ایمن صاحب کا مطالعہ وسیع ہے اور مشاہدہ عمیق، جس کا عکس کتاب میں شامل ان کی ہر تقریباً تحریر ہے۔
چناں چہ سرورق پر لکھے جملے '' خبردار! مطالعہ جہالت کے لیے مضر ہے'' سے اختلاف کرتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ ''خبردار! اس کتاب کا پڑھنا جہالت کے لیے ہلاکت خیز ہے۔'' چار حصوں میں منقسم یہ تصنیف بڑی رنگا رنگ ہے۔ یہ رنگ صفحہ درصفحہ کہیں الگ الگ نظر آتے ہیں کہیں ایک دوسرے میں گُھلتے ہوئے۔ تاہم مصنف کی نمایندگی شوخ رنگ کرتے ہیں، یہ رنگ باتیں نہیں شرارتیں کرتے ہیں اور کہیں کہیں سنجیدہ لفظوں کی دست بستہ قطار میں شگوفہ بن کر کِھل اُٹھتے اور پڑھنے والے کے کِھلکِھلا اور کبھی کبھی تو کُھل کُھلا کر ہنسنے کا سبب بن جاتے ہیں۔
کتاب پڑھتے ہوئے ہم پر یہ بھی منکشف ہوا کہ مصنف فوج سے وابستہ رہے ہیں۔ ہمارے ملک کی فوج نے مزاح کی دنیا میں بہت سے نام پیدا کیے ہیں، جیسے کرنل محمد خان ، میجر جنرل ریٹائرڈ شفیق الرحمٰن، ضمیر جعفری، اشفاق حسین اورضیاء الحق دیکھیے یادداشتہ کی حرکت ہم ضیاء الحق قاسمی مرحوم کو فوج سے وابستہ کر بیٹھے، حالاں کہ مرحوم کا فوج سے کوئی تعلق نہیں تھا، وہ دوسرے ضیاء الحق تھے، جو قاسمی نہیں کسی اور قسم کے تھے۔
وہ مزاح نویس تو نہیں لیکن تھے بڑے ہی ''مذاقیہ''، پورے ایک عشرے تک قوم سے مسلسل مذاق کرتے رہے۔ تو ہم کہہ یہ رہے تھے کہ ہماری فوج نے مزاح کے بہت بڑے بڑے نام پیدا کیے، بلکہ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بہت مزاح پیدا کیا ۔ ایمن صاحب نے لکھا ہے کہ انھوں نے فوج میں ملازمت کا آغاز سِلائی کے شعبے سے کیا۔ یعنی یہ وردیاں سیتے اور ان میں جیبیں لگاتے رہے ہیں۔ وہ ملازمت ترک کرنے کے بعد انھوں نے یہ پیشہ بھی چھوڑ دیا۔
شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمن صاحب بڑی بڑی جیبیں سینے کے ماہر اور عادی تھے، اور سویلینز کی جیبیں نسبتاً بہت چھوٹی ہوتی ہیں۔ ہم فخر محسوس کر رہے ہیں کہ ہمیں ایک ایسے قلم کار پر لکھنے کا اعزاز حاصل ہوا جس کے شانوں سے دو محنت کش ہاتھ جُڑے ہیں، اور وہ اردو نثر میں احسان دانش اور قمر جلالوی کی اُجلی روایت کا امین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ہاتھوں کے تراشیدہ لفظ محض خوب صورت ہی نہیں زندگی سے پوری طرح جُڑے ہوئے بھی ہیں۔
یہی سبب ہے کہ اس کتاب کی فکاہیہ نگارشات ہوں یا سنجیدہ مضامین ، ان میں حقیقی کردار اور روزمرہ کی زندگی میں جنم لیتے واقعات نظر آتے ہیں۔ یہ حقیقت نگاری مصنف کے سچے فن کار ہونے کا ثبوت بھی ہے اور ان کی کتاب کو مزید دل چسپ بھی بنادیتی ہے۔ آپ ہماری تعریف سے یہ مت سمجھ بیٹھیے گا کہ اس کتاب میں سب اچھا ہے۔ بعض جگہ ہمیں مایوسی بھی ہوئی۔
جیسے بڑے شوق سے '' ٹھنڈا گوشت '' کے زیرعنوان مضمون پڑھا ، سوچا مصنف منٹو سے چار قدم آگے گئے ہوں گے، لیکن ایک لفظ بھی ناقابل اشاعت نہ پاکر ہمارا تبصرہ تھا،'' یہ تو واقعی ٹھنڈا گوشت ہے، بلکہ ڈی فریزر کا رکھا ہوا منجمد گوشت۔'' اس تحریر میں ایمن صاحب نے بتایا ہے کہ وہ ڈیفنس کے جمعہ بازار میں بک اسٹال لگاتے تھے۔ ایک روز انھوں نے منٹو کی کتاب '' ٹھنڈا گوشت '' غائب پائی، بعد میں پتا چلا کہ اسے ملازم لڑکے نے کھانے پینے کی ترکیبوں والی کتابوں کے درمیان رکھ دیا تھا۔
ہم سوچ رہے ہیں اگر یہ کتاب خاوند کو نئے نئے پکوان بناکر کھلانے کی شوقین کوئی خاتون خرید کر لے جاتیں تو اپنے شوہر کو پہلی بار پکوان کی ترکیبوں کی کتاب ذوق وشوق سے پڑھتے دیکھ کر کتنی حیران ہوتیں۔ ممکن ہے یہ فرمائش بھی کر بیٹھتیں کہ ''اب آپ نے پڑھا ہے تو آپ ہی پکائیے۔''کتاب میں شامل ایک تحریر کا عنوان ہے '' چرسی گدھا '' وہ ہم نے نہیں پڑھی، دراصل سیاسی مضامین سے دل اُچاٹ ہوگیا ہے۔آخر میں ''سنگ بے بنیاد'' کے مصنف کو مبارک باد کہ وہ ایک ایسی کتاب لے کر آئے ہیں جس میں پڑھنے اور جاننے کو بہت کچھ ہے۔
(جمعہ 29 اکتوبر 2021 کو منعقدہ مزاح نگار جناب م ص ایمن کی کتاب ''سنگ بے بنیاد'' کی تقریب رونمائی میں پڑھا گیا مضمون۔)