ریلوے اور خواجہ سعد رفیق کی کارکردگی
اصل میں پاکستانیوں کا مسئلہ ریل کے کرایوں سے زیادہ ریل کی سہولتوں کا ہے۔۔۔
پاکستان میں جمہوریت اور آمریت کے درمیان کھیلی جانے والی آنکھ مچولی میں سب سے زیادہ استحصال قومی انتظامی اداروں کا ہوا ہے۔ ان میں ایک ادارہ محکمہ پاکستان ریلوے کا بھی ہے۔ ہم نے سمجھا ہوا ہے کہ یہ قومی ادارہ ریاست کے مقابلے میں حکومتی افراد کی ملکیت ہے۔ ا س سوچ کی بنیاد پر محکمہ ریلوے کا سب نے ہی سیاسی استحصال کر کے وہاں کرپشن، بدعنوانی، لوٹ مار، اقربا پروری، بدانتظامی، نااہلی، میرٹ کا قتل کر کے محض اپنے ذاتی اور جماعتی مفادات کو تقویت دی۔ دنیا بھر میں ریلوے کو ایک کامیاب، آرام دہ، محفوظ، بروقت اور عام آدمی تک اس کی رسائی کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے، جب کہ پاکستان میں ریلوے ایک تکلیف دہ امر بن چکا ہے۔ ہماری طرز حکمرانی میں احتساب اور قانون کی حکمرانی کا فقدان ہے۔ جس کی وجہ سے وہ لوگ جو اداروں کی بربادی کے ذمے دار ہوتے ہیں حکومتی اور ریاستی اثرو نفوذ کی بنیاد پر قانون کی گرفت سے بچ جاتے ہیں ۔
خواجہ سعد رفیق کا کمال یہ ہے کہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں،اپنے ہونے کا احساس سب کو دلاتے ہیں۔بنیادی طور پر وہ ایک سیاسی کارکن ہیں،جو جدوجہد پر یقین رکھتا ہے ۔ خواجہ سعد رفیق کے پاس دو ہی راستے تھے، اول وہ روائتی انداز میں ریلوے کی وزارت کو چلا کر وہی کچھ کرتے جو ماضی میں ان کے پیش رو کرتے رہے ہیں۔ دوئم وہ اس تباہ شدہ ریلوے میں ایک بڑے سماجی، انتظامی اور معاشی آپریشن کی مدد سے وہ کچھ کرتے، جو ماضی میں نہیں ہو سکا تھا۔ خواجہ سعد رفیق سیاست کرنے کا ہنر جانتے ہیں، وہ روائتی انداز کے بجائے ایک ''جارحانہ انداز '' میں ریلوے میں کچھ نیا کرنے کی لگن رکھتے ہیں ۔ وہ اپنے عزائم میں کس حد تک کامیاب ہونگے، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ کیونکہ انھیں ریلوے کی درستگی کے لیے اندر اور باہر دونوں اطراف ایک بڑی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ وہ طبقہ جو ریلوے کو سفید ہاتھی سمجھتا ہے وہ اپنی لوٹ مار میں کیونکر انقلابی اقدامات کی طرف پیش قدمی کرے گا۔
خواجہ سعد رفیق کے بقول جب انھوں نے اس اہم وزارت کی ذمے داری قبول کی تو محکمہ کم و بیش 30ارب روپے سالانہ خسارے کا سامنا کر رہا تھا۔ وہ ہمارے دوست رؤف طاہر کی دعوت پر جمع ہونے والے سینئر صحافیوں اور کالم نگاروں کے ہجوم میں بیٹھ کر 200 دن کی کارکردگی پر اپنا اور ادارے کا مقدمہ پیش کر رہے تھے۔ وزیر ریلوے کے بقول ان ابتدائی 200 دنوں میں پچھلے مالی سال کے اسی دورانیہ کی نسبت تین ارب 43 کروڑ 49 لاکھ روپے اور نئے مالی سال کے ہدف سے 98 کروڑ 42 لاکھ روپے زیادہ کمائے گئے ہیں۔ اہم بات یہ کہ وزیر ریلوے نے یہ منافع کم کرایوں کی بنیاد پر حاصل کیا، تقریبا 07 فیصد سے 57 فیصد تک اے سی سلیپر، اے سی بزنس، اے سی اسٹینڈرڈ اور اکانومی کلاس میں کمی کی گئی اور اس کا اطلاق 31 مارچ 2014 برقرار رکھا گیا ہے۔
اصل میں پاکستانیوں کا مسئلہ ریل کے کرایوں سے زیادہ ریل کی سہولتوں کا ہے۔ کیونکہ جو سہولتیں اس وقت میسر ہیں وہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہیں۔ اول تو ٹرین میں جن بنیادی سہولتوں کا دعویٰ کیا جاتا ہے جن میں واش روم، پانی، اے سی کی سہولتیں، کھڑکیاں، شیشے، کھانے پینے کی تازہ اشیا، اسٹیشنوں پر موجود مختلف اشیا کے نرخ شامل ہیں، کا فقدان غالب نظر آتا ہے۔ دوئم ٹرینوں کے اوقات کار یعنی چلنے کا اور نہ ہی پہنچنے کے ٹائم شیڈول کی کوئی پابندی موجود ہے۔ خواجہ سعد رفیق دعویٰ کرتے ہیں کہ ان 200 دنوں میں 10 سے 55 فیصد ٹرینوں میں باقاعدگی سمیت جون 2014 تک مکمل آن لائن ٹکٹنگ کا نظام بھی متعارف کروا دیا جائے گا۔
خواجہ سعد رفیق اتفاق کرتے ہیں کہ ماضی میں اس ادارے کے تحت فیصلوں کی بنیاد انتظامی ضرورت سے زیادہ سیاسی نوعیت کی تھی۔ ان کے بقول انھوں نے وزارت کو قبول کرتے ہوئے یہ عہد کیا تھا کہ وہ اس ادارے میں اپنے اور جماعتی مفاد کی بنیاد پر ''سیاسی دکانداری'' چلانے سے گریز کریں گے۔ لیکن بعض لوگ یہ خدشہ پیش کرتے ہیں کہ جس برق رفتاری سے خواجہ سعد رفیق آگے بڑھ رہے ہیں اس پر ان کی ایک بڑی مزاحمت اپنے ہی لوگوں سے ہو گی۔ بعض اوقات حکومت کی پالیسی کے مقابلے میں فرد کی پالیسی زیادہ اہمیت اختیار کر جاتی ہے، لیکن فرد کی پالیسی حکومتی پالیسی میں تبدیل نہ ہو تو بہتری کے امکانات بھی محدود ہی رہتے ہیں ۔
ریلوے میں شفافیت کے نظام کو لانے اور گھوسٹ پنشنروں کے خاتمہ کے لیے ریلوے نے )پراجیکٹ ٹو امپرو فنانشنل رپورٹنگ اینڈ آڈیٹنگ( کے تعاون سے تمام بینکوں میں پنشنرز کے اکاونٹس کے ذریعے ادائیگی کے جدید طریقہ کار پر کام کا آغاز کر دیا ہے۔ اس سے تقریبا ساڑے تین کروڑ روپے کی سالانہ بچت ہو گی جو فی الوقت پنشنروں کی ادائیگی کے لیے بینک کو دینی پڑتی ہے۔ خواجہ سعد رفیق اس بات پر خوش نظر آتے ہیں کہ پچھلے چھ ماہ میں ریلوے سے سفر کرنے والوں کی تعداد میں 15لاکھ لوگوں کا اضافہ ہوا ہے، وہ اس اضافہ کو اگلے چھ ماہ میں 22 لاکھ تک لے جانے کے خواہش مند ہیں۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب لوگوں میں یہ تصور مضبوط ہو کہ واقعی ریلوے تبدیل ہو گیا ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے ایک اہم بات یہ بتائی کہ 1955ء میں حکومت کی ترجیحات میں 68فیصد ریل ٹریک اور 32 فیصد روڈ ٹریک ہوتا تھا۔ لیکن2006-12 میں ہماری حکومتوں کی ترجیحات میں 82 فیصد روڈ ٹریک اور محض 18 فیصد ریل ٹریک رہ گیا ہے۔ ہماری اس وقت کی حکومت اور بالخصوص مسلم لیگ )ن( کی قیادت کی ساری توجہ روڈ ٹریک پر ہے۔ وہ اسی پر سرمایہ کاری کرتے ہیں اور اسی کو ٹرین کے مقابلے میں آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ ایک بڑا مافیا موجود ہے جو ادارہ کے انتظامی افسران کی مددسے ریلوے کے نظام کو ناکام بنانا چاہتا ہے۔
اب تو ریلوے میں یونین نہیں اور 1993ء کے بعد سے ریلوے کیونکر منافع بخش ادارہ نہیں بن سکا، اس پر بھی وزیر ریلوے کو ضرور غور کرنا چاہیے۔ خواجہ سعد رفیق کو ایک بات یہ بھی سمجھنی ہو گی کہ جب تک کسی بھی محکمہ یا اس کے نظام میں مزدور مطمئن نہیں ہو گا، ادارہ ترقی نہیں کر سکتا۔ وزیر ریلوے صرف افسران کی رائے کو مقدم سمجھنے کے بجائے مسئلہ کے حل میں مزدور اور ان کے نمایندوں کی رائے کو بھی اہمیت دیں، وگرنہ وہ محکمہ جاتی سیاست کا شکار ہو کر مزدور طبقہ سے دور ہو جائیں گے۔
ریلوے کی بیوروکریسی خود ریلوے کے خلاف اہم رکاوٹ ہے۔ ریلوے میں پروفیشنل عہدوں پر ریلوے ہی سے افسران کا چناؤ کیا جانا چاہیے۔ باہر سے جو بیوروکریسی آتی ہے وہ ریلوے کے نظام کو سمجھنے سے بھی قاصر ہوتی ہے اور اس کی ادارے پر 0wnership بھی کمزور ہوتی ہے۔ اصل میں کوئی بھی ادارہ اسی وقت کامیاب ہوتا ہے جب اس میں ''ادارہ جاتی'' بنیادوں پر ترقی ہو، وگرنہ افراد وزیروں کے طور پر آتے رہتے ہیں، جب کہ ہمیں ایک تسلسل پر مبنی مضبوط پالیسی اور نگرانی کے نظام کی ضرورت ہے۔ محض وزیر اکیلا کچھ نہیں کر سکتا، جب تک کہ ادارہ اس کے ساتھ نہ کھڑا ہو۔ اگرچہ خواجہ سعد رفیق کی کمٹمنٹ اور عزائم کافی مضبوط اور پرعزم ہیں، لیکن کیا وہ ایسا کر سکیں گے یہ ہی ان کا اصل امتحان بھی ہے کہ وہ اپنے دیگر پیش رو کے مقابلے میں ریلوے کی ترقی میں وہ کچھ کر سکیں جو ماضی میں نہیں ہو سکا ۔