مہنگائی اور وزیر اعظم کا خطاب
لوگ نہ توایسے مصنوعی پیکیجز سے مطمئن ہوںگے اورنہ ہی لوگ اب اپوزیشن کومورد الزام ٹھہرانے کی پالیسی پرمطمئن ہوسکتے ہیں۔
وزیر اعظم نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ یہ ریلیف پیکیج کس قدر موثر ہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا، میری یا کسی اورکی رائے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی۔
مہنگائی ہر گھر کا مسئلہ ہے۔ اس لیے ہر گھر خود ہی یہ فیصلہ کر لے گا کہ وزیر اعظم کا ریلیف پیکیج درست ہے یا غلط۔ اس لیے زیادہ پریشانی والی بات نہیں ہے، عوام کا فیصلہ ہی آخری فیصلہ ہوگا۔ آواز خلق ہی نقارہ خدا سمجھی جاتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں یہ پیشکش بھی کی ہے کہ اگر دو خاندان 30سال میں لوٹی ہوئی رقم واپس لے آئیں تو وہ اشیاء خورو نوش کی قیمتیں آدھی کر دیں گے۔ یہ سننے کے بعد میں نے حساب لگانا شروع کر دیا کہ ان دونوں خاندانوں یعنی شریف اور زرداری خاندان پر کتنی مالیت کے کیس اس وقت موجود ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ کیس سچے ہیں یا جھوٹے کیا ان کیسز کی مالیت اتنی ہے کہ ان کی ریکوری سے ملک میں اشیا خورو نوش کی قیمتیں آدھی ہو جائیں گی۔
نواز شریف جب علاج کی غرض سے بیرون ملک جا رہے تھے،اس وقت پاکستان کی وفاقی کابینہ نے وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں منعقدہ اپنے اجلاس میں یہ طے کیا تھا کہ اگر نواز شریف اپنے اوپر عائد جرمانے کی رقم کے برابر Surity Bondدے دیں تو انھیں ملک سے باہر جانے کی اجازت دی جا ئے گی۔ حالانکہ ملک میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے کہ جب کوئی ملزم یا مجرم علاج کی غرض سے بیرون ملک جائے گا تو جرمانے کی مکمل رقم کے برابرsurity bondدے کر جائے گا۔
یہ خصوصی شرط صرف نواز شریف کے لیے رکھی گئی، اس کے بعد اور نہ ہی اس سے پہلے کسی کے لیے یہ شرط عائد کی گئی، اسی لیے عدالت نے اس شرط کو ختم کیا کیونکہ اس کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔
اگر حکومت اور وفاقی کابینہ واقعی جرمانے کی رقم کا surity bondلینے میں سنجیدہ تھی تو انھیں اس ضمن میں باقاعدہ قانون سازی کرنی چاہیے تھی اگروہ فوری نہیں ہو سکتی تھی تو آرڈیننس ہی جاری کر دیتے۔ حکومت کو بھی اندازہ تھا کہ اس کا غیر قانونی فیصلہ عدالت سے ختم ہو جائے گا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ حکومت نے نواز شریف کو عدالت سے ریلیف لینے کا بھر پور موقع دیا۔
بہر حال اس ساری بحث سے قطع نظر سوال یہ ہے کہ نواز شریف پر عدالت نے کتنا جرمانہ عائد کیا ہوتھا۔ اس وقت کے اعداد و شمار کے مطابق دونوں کیسز کے جرمانہ ملا کر ساڑھے پانچ ارب کا جرمانہ واجب الادا تھا۔ اس لیے حکومت پاکستان کا نواز شریف پر کل کلیم ساڑھے پانچ ارب کا ہے ۔ اس پر ابھی اپیل جاری ہیں، مقدمہ کا مکمل فیصلہ نہیں ہوا۔ کیا پتہ کل نواز شریف بری ہی ہو جائیں۔ لیکن حکومت پاکستان نواز شریف سے صرف ساڑھے پانچ ارب روپے مانگ رہی تھی۔
اسی طرح شہباز شریف اور ان کے مکمل خاندان پر جو منی لانڈرنگ کے کیس بنائے گئے ہیں۔ حالانکہ یہ ایک مکمل کاروباری معاملہ ہے۔ اس میں کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔ حکومت ابھی تک شہباز شریف کے خلاف کرپشن کا کوئی کیس سامنے نہیں لا سکی ہے۔ ٹی ٹی کا استعمال ہر کاروباری شخص کرتا رہا ہے۔ اس میں صرف شہباز شریف کے بچوں کو پکڑنا بھی ٹارگٹڈ احتساب یا انتقام ہی قرار دیا جارہا ہے۔
لیکن پھر بھی اس ساری بات سے قطع نظر اگر دیکھا جائے تو شہباز شریف کے خاندان پر حکومت کی جانب سے منی لانڈرنگ کا 25ارب روپے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ اس طرح اگر شہباز شریف اور نواز شریف دونوں پر الزامات کی رقم کو جمع کر لیا جائے تو یہ تیس ارب روپے سے زیادہ نہیں ہے۔ حکومت ابھی تک ا س سے زیادہ کیس ہی نہیں بنا سکی، اس لیے شریف فیملی پر کل تیس ارب روپے کا الزام ہے۔
اب زرداری خاندان کو دیکھ لیں توان پر بھی جعلی اکائونٹس کیس میں کل کلیم بیس ارب روپے سے زائد نہیں ہے۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اس مقدمہ میں نیب 33ارب روپے پری بارگین سے وصول بھی کر چکی ہے۔ اس مقدمہ میں زیادہ رقم واپس آچکی ہے۔ صرف آصف زرداری ہی اپنے مقدمات اور ریفرنس کا سامنا کر رہے ہیں۔ جن کی مالیت بھی بیس ارب روپے سے زائد نہیں ہے۔ اس میں ان کی بہنوں پر بھی الزام شامل ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو حکومت پاکستان اور نیب نے اب تک دونوں خاندانوں پر کل پچاس ارب سے زائد کرپشن کے مقدمات دائر کیے ہیں۔ میں ان مقدمات کے سچے اور جھوٹے ہونے کی بحث میں نہیں جانا چاہتا۔ میں وزیر اعظم کی اس بات پر تجزیہ کر رہا ہوں کہ اگر دونوں خاندان اپنے اوپر کرپشن کے الزامات کی تمام رقم واپس کر دیں تو ہمارے محبوب وزیر اعظم اشیاء خورو نوش کی قیمتیں آدھی کر دیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ملک بھر میں اشیا خورو نوش کی قیمتیں آدھی کرنے کی راہ میں صرف پچاس ارب روپے ہی رکاوٹ ہیں۔ کیا اگر یہ پچاس ارب روپے مل جائیں تو ملک میںساری مہنگائی ختم ہو جائے گی۔
یہ تو مراد سعید والی بات ہی ہے کہ جس دن تحریک انصاف اقتدار میں آئے گی بیرون ملک بینکوں میں موجود پاکستانیوں کا دو سو ارب ڈالر واپس لا ئے گی۔ اس میں سو ارب ڈالر آئی ایم ایف کے منہ پر مارے گی اور سو ارب ڈالر سے ملک کے تمام مسائل حل کر دے گی۔ بعد ازاں جب اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف کے ذمے داران سے پوچھا گیا کہ بھا ئی آپ وہ دو سوا رب ڈالر واپس کیوں نہیں لا رہے۔ اس میں سو ارب ڈ الر آئی ایم ایف کے منہ پر ماریں اور سو ارب ڈالر سے دودھ اور شہد کی نہریں چلا دیں ۔ تو وہ معصوم سے منہ بنا کر کہتے کہ ایسے دو سو ارب ڈالر کا تو کوئی وجود ہی نہیں ہے، واپس کہاں سے لائیں۔
عمران خان اور ان کی کابینہ کو کون سمجھا ئے گا کہ اب وہ پاکستان کی عوام کو مزید بیوقوف نہیں بنا سکتے۔ لوگوں نے ان کا کرپشن کا منترہ بہت سن لیا۔ ان کو لانے والوں نے بھی بہت سن لیا۔ اب کارکردگی کی باری ہے۔ لوگ ان کی کارکردگی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ورنہ یہ رائے دن بدن مضبوط ہوتی جا رہی ہے کہ پرانے حکمران آپ سے بہت بہتر تھے۔ لوگ ان کو دوبارہ ووٹ اسی لیے ڈال رہے ہیں کہ لوگ آپ سے نا امید ہو رہے ہیں۔
جب آپ پٹرول مہنگا کرتے جائیں گے، بجلی مہنگی کرتی جائیں گے، گیس مہنگی کرتی جائیں گے، روپے کی قدر میں کمی کرتی جائیں گے، آئی ایم ایف کے سامنے لیٹتے جائیں گے، اپنے اقتدار کے لیے عوام کا گلہ گھوٹتے جائیں گے تو لوگ نہ تو ایسے مصنوعی پیکیجز سے مطمئن ہوںگے اور نہ ہی لوگ اب اپوزیشن کو مورد الزام ٹھہرانے کی پالیسی پر مطمئن ہو سکتے ہیں۔ عمران خان صاحب کو یقین کرنا ہوگا کہ اب صرف اور صرف ان کی اپنی کارکردگی ہی ان کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچا سکے گی۔
انھیں سمجھنا ہوگا کہ مہنگائی ایک حقیقت ہے، لوگ مغرب اور دوسرے ممالک سے موازنہ بھی نہیں مانیں گے۔ لوگوں کو اپنی ذات اور اپنی جیب سے غرض ہے۔ اس لیے جعلی اقدامات سے لوگ مطمئن نہیں ہوں گے۔ حکومت کو حقیقی کام کرنا ہوںگے ، ورنہ عوام اپنا فیصلہ سنائیں گے۔
مہنگائی ہر گھر کا مسئلہ ہے۔ اس لیے ہر گھر خود ہی یہ فیصلہ کر لے گا کہ وزیر اعظم کا ریلیف پیکیج درست ہے یا غلط۔ اس لیے زیادہ پریشانی والی بات نہیں ہے، عوام کا فیصلہ ہی آخری فیصلہ ہوگا۔ آواز خلق ہی نقارہ خدا سمجھی جاتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں یہ پیشکش بھی کی ہے کہ اگر دو خاندان 30سال میں لوٹی ہوئی رقم واپس لے آئیں تو وہ اشیاء خورو نوش کی قیمتیں آدھی کر دیں گے۔ یہ سننے کے بعد میں نے حساب لگانا شروع کر دیا کہ ان دونوں خاندانوں یعنی شریف اور زرداری خاندان پر کتنی مالیت کے کیس اس وقت موجود ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ کیس سچے ہیں یا جھوٹے کیا ان کیسز کی مالیت اتنی ہے کہ ان کی ریکوری سے ملک میں اشیا خورو نوش کی قیمتیں آدھی ہو جائیں گی۔
نواز شریف جب علاج کی غرض سے بیرون ملک جا رہے تھے،اس وقت پاکستان کی وفاقی کابینہ نے وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں منعقدہ اپنے اجلاس میں یہ طے کیا تھا کہ اگر نواز شریف اپنے اوپر عائد جرمانے کی رقم کے برابر Surity Bondدے دیں تو انھیں ملک سے باہر جانے کی اجازت دی جا ئے گی۔ حالانکہ ملک میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے کہ جب کوئی ملزم یا مجرم علاج کی غرض سے بیرون ملک جائے گا تو جرمانے کی مکمل رقم کے برابرsurity bondدے کر جائے گا۔
یہ خصوصی شرط صرف نواز شریف کے لیے رکھی گئی، اس کے بعد اور نہ ہی اس سے پہلے کسی کے لیے یہ شرط عائد کی گئی، اسی لیے عدالت نے اس شرط کو ختم کیا کیونکہ اس کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔
اگر حکومت اور وفاقی کابینہ واقعی جرمانے کی رقم کا surity bondلینے میں سنجیدہ تھی تو انھیں اس ضمن میں باقاعدہ قانون سازی کرنی چاہیے تھی اگروہ فوری نہیں ہو سکتی تھی تو آرڈیننس ہی جاری کر دیتے۔ حکومت کو بھی اندازہ تھا کہ اس کا غیر قانونی فیصلہ عدالت سے ختم ہو جائے گا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ حکومت نے نواز شریف کو عدالت سے ریلیف لینے کا بھر پور موقع دیا۔
بہر حال اس ساری بحث سے قطع نظر سوال یہ ہے کہ نواز شریف پر عدالت نے کتنا جرمانہ عائد کیا ہوتھا۔ اس وقت کے اعداد و شمار کے مطابق دونوں کیسز کے جرمانہ ملا کر ساڑھے پانچ ارب کا جرمانہ واجب الادا تھا۔ اس لیے حکومت پاکستان کا نواز شریف پر کل کلیم ساڑھے پانچ ارب کا ہے ۔ اس پر ابھی اپیل جاری ہیں، مقدمہ کا مکمل فیصلہ نہیں ہوا۔ کیا پتہ کل نواز شریف بری ہی ہو جائیں۔ لیکن حکومت پاکستان نواز شریف سے صرف ساڑھے پانچ ارب روپے مانگ رہی تھی۔
اسی طرح شہباز شریف اور ان کے مکمل خاندان پر جو منی لانڈرنگ کے کیس بنائے گئے ہیں۔ حالانکہ یہ ایک مکمل کاروباری معاملہ ہے۔ اس میں کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔ حکومت ابھی تک شہباز شریف کے خلاف کرپشن کا کوئی کیس سامنے نہیں لا سکی ہے۔ ٹی ٹی کا استعمال ہر کاروباری شخص کرتا رہا ہے۔ اس میں صرف شہباز شریف کے بچوں کو پکڑنا بھی ٹارگٹڈ احتساب یا انتقام ہی قرار دیا جارہا ہے۔
لیکن پھر بھی اس ساری بات سے قطع نظر اگر دیکھا جائے تو شہباز شریف کے خاندان پر حکومت کی جانب سے منی لانڈرنگ کا 25ارب روپے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ اس طرح اگر شہباز شریف اور نواز شریف دونوں پر الزامات کی رقم کو جمع کر لیا جائے تو یہ تیس ارب روپے سے زیادہ نہیں ہے۔ حکومت ابھی تک ا س سے زیادہ کیس ہی نہیں بنا سکی، اس لیے شریف فیملی پر کل تیس ارب روپے کا الزام ہے۔
اب زرداری خاندان کو دیکھ لیں توان پر بھی جعلی اکائونٹس کیس میں کل کلیم بیس ارب روپے سے زائد نہیں ہے۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اس مقدمہ میں نیب 33ارب روپے پری بارگین سے وصول بھی کر چکی ہے۔ اس مقدمہ میں زیادہ رقم واپس آچکی ہے۔ صرف آصف زرداری ہی اپنے مقدمات اور ریفرنس کا سامنا کر رہے ہیں۔ جن کی مالیت بھی بیس ارب روپے سے زائد نہیں ہے۔ اس میں ان کی بہنوں پر بھی الزام شامل ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو حکومت پاکستان اور نیب نے اب تک دونوں خاندانوں پر کل پچاس ارب سے زائد کرپشن کے مقدمات دائر کیے ہیں۔ میں ان مقدمات کے سچے اور جھوٹے ہونے کی بحث میں نہیں جانا چاہتا۔ میں وزیر اعظم کی اس بات پر تجزیہ کر رہا ہوں کہ اگر دونوں خاندان اپنے اوپر کرپشن کے الزامات کی تمام رقم واپس کر دیں تو ہمارے محبوب وزیر اعظم اشیاء خورو نوش کی قیمتیں آدھی کر دیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ملک بھر میں اشیا خورو نوش کی قیمتیں آدھی کرنے کی راہ میں صرف پچاس ارب روپے ہی رکاوٹ ہیں۔ کیا اگر یہ پچاس ارب روپے مل جائیں تو ملک میںساری مہنگائی ختم ہو جائے گی۔
یہ تو مراد سعید والی بات ہی ہے کہ جس دن تحریک انصاف اقتدار میں آئے گی بیرون ملک بینکوں میں موجود پاکستانیوں کا دو سو ارب ڈالر واپس لا ئے گی۔ اس میں سو ارب ڈالر آئی ایم ایف کے منہ پر مارے گی اور سو ارب ڈالر سے ملک کے تمام مسائل حل کر دے گی۔ بعد ازاں جب اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف کے ذمے داران سے پوچھا گیا کہ بھا ئی آپ وہ دو سوا رب ڈالر واپس کیوں نہیں لا رہے۔ اس میں سو ارب ڈ الر آئی ایم ایف کے منہ پر ماریں اور سو ارب ڈالر سے دودھ اور شہد کی نہریں چلا دیں ۔ تو وہ معصوم سے منہ بنا کر کہتے کہ ایسے دو سو ارب ڈالر کا تو کوئی وجود ہی نہیں ہے، واپس کہاں سے لائیں۔
عمران خان اور ان کی کابینہ کو کون سمجھا ئے گا کہ اب وہ پاکستان کی عوام کو مزید بیوقوف نہیں بنا سکتے۔ لوگوں نے ان کا کرپشن کا منترہ بہت سن لیا۔ ان کو لانے والوں نے بھی بہت سن لیا۔ اب کارکردگی کی باری ہے۔ لوگ ان کی کارکردگی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ورنہ یہ رائے دن بدن مضبوط ہوتی جا رہی ہے کہ پرانے حکمران آپ سے بہت بہتر تھے۔ لوگ ان کو دوبارہ ووٹ اسی لیے ڈال رہے ہیں کہ لوگ آپ سے نا امید ہو رہے ہیں۔
جب آپ پٹرول مہنگا کرتے جائیں گے، بجلی مہنگی کرتی جائیں گے، گیس مہنگی کرتی جائیں گے، روپے کی قدر میں کمی کرتی جائیں گے، آئی ایم ایف کے سامنے لیٹتے جائیں گے، اپنے اقتدار کے لیے عوام کا گلہ گھوٹتے جائیں گے تو لوگ نہ تو ایسے مصنوعی پیکیجز سے مطمئن ہوںگے اور نہ ہی لوگ اب اپوزیشن کو مورد الزام ٹھہرانے کی پالیسی پر مطمئن ہو سکتے ہیں۔ عمران خان صاحب کو یقین کرنا ہوگا کہ اب صرف اور صرف ان کی اپنی کارکردگی ہی ان کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچا سکے گی۔
انھیں سمجھنا ہوگا کہ مہنگائی ایک حقیقت ہے، لوگ مغرب اور دوسرے ممالک سے موازنہ بھی نہیں مانیں گے۔ لوگوں کو اپنی ذات اور اپنی جیب سے غرض ہے۔ اس لیے جعلی اقدامات سے لوگ مطمئن نہیں ہوں گے۔ حکومت کو حقیقی کام کرنا ہوںگے ، ورنہ عوام اپنا فیصلہ سنائیں گے۔