خوشبوؤں اور محبتوں کے کچھ اور سفیر
کتابوں سے والہانہ عشق کا ذکر ہوا تو بھلا بتائیے، ہم انور سدید صاحب کو کیسے بھول سکتے ہیں
گزشتہ کالم ''خوشبوؤں کے سفیر'' کو بوجہ طوالت دو حصوں میں تقسیم کرنا پڑا۔ لیکن یہ تقسیم بالکل آخری لمحے میں کرنی پڑی، اس لیے کچھ نام رہ بھی گئے اور کچھ لوگوں کے حوالے سے چند باتیں بھی جگہ کی کمی کی نذر ہوگئیں۔ جس کا پتہ اس وقت چلا جب لاہور اور کراچی سے فون اور SMS آئے۔ تب سوچا کہ دوسرے حصے کو ازسر نو ترتیب دیا جائے۔
دراصل کتابوں سے عشق کرنے والوں میں سب سے پہلی شخصیت جس سے میرا تعارف گلڈ انجمن کتاب گھر (مرحوم) میں ہوا تھا وہ تھی ادب کا انسائیکلو پیڈیا پروفیسر سحر انصاری صاحب کی۔ میں اس وقت کراچی کالج میں تھرڈ ایئرکی طالبہ تھی اور پابندی سے ہر ہفتے پندرہ دن بعد گلڈ کتاب گھر اچھے ادبی رسائل کی خریداری کے لیے جایا کرتی تھی، جن میں 'فنون، نقوش، ادب لطیف، سویرا، اوراق اور دیگر کتب و رسائل شامل تھے۔ میری ترجیح زیادہ تر پرانے رسائل کے خصوصی نمبر ہوتے ۔ وہاں کے منتظم عاشق کیرانوی تھے۔ جو اب گوشہ نشینی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ وہ ہمیشہ طلبہ وطالبات کو کتابوں کی خریداری پر اچھا خاصا ڈسکاؤنٹ بھی دیا کرتے تھے۔ وہیں پروفیسر سحر انصاری صاحب سے ایک دن ملاقات ہوئی تو انھوں نے فوراً بڑی شفقت سے فرمایا۔۔۔ ''بہت اچھا لکھتی ہو۔۔۔۔لکھنا نہ چھوڑنا''۔۔۔۔مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہ کون سی ایسی باخبر اور علم دوست شخصیت ہے جو مجھ ناچیز سے واقف ہے۔ تب عاشق صاحب نے ان کا تعارف کروایا۔۔۔۔ اس ملاقات کے بعد ان کی علمی و ادبی معلومات سے آگاہی ہوئی تو حیرت زدہ رہ گئی۔۔۔۔جب بھی کبھی مجھے اور قاضی اختر کو کتابوں کے حوالے سے کوئی بھی معلومات درکار ہوتی ہے، ہم ہمیشہ ان ہی سے رابطہ کرتے ہیں۔
خواہ پرانی کتابوں کے حوالے سے خواہ کراچی میں ریگل صدر کا اتوار بازار ہو یا گلشن اقبال کا۔۔۔۔ یا لاہور میں پرانی انارکلی کا اتوار بازار یا کہیں بھی۔ وہ آپ کو ہر اس جگہ ملیں گے جہاں جہاں کتابوں کی خوشبو بکھری پڑی ہوگی۔ 2012 میں جب ان کے نہایت قیمتی کتب خانے میں دوسری بار آگ لگی تو پروفیسر صاحب صدر میں پرانی کتابوں سے محو گفتگو تھے۔ کتابوں سے ان کا عشق دیوانگی کی حد تک ہے۔ گلڈ انجمن کتاب گھر میں بڑی بڑی نام ور شخصیات سے نیاز حاصل ہوا، یہیں پہلی بار شکیل بھائی (شکیل عادل زادہ) سے ملاقات رہی۔2010 میں پہلی بار پی ٹی وی لاہور کے ایک اہم پروڈیوسر افتخار مجاز کا فون آیا تو پتہ چلا کہ مجاز صاحب بھی کتابوں کے ان ہی دیوانوں میں شامل ہیں، جن کے ذکر کے بغیر کتاب کلچر کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔ مجاز صاحب نے بہ ہزار دقت پی ٹی وی لاہور سے کتابوں کے تعارف پر ایک نہایت اہم پروگرام شروع کیا تھا۔ جس میں تین اہم شخصیات کسی بھی اچھی کتاب کا تجزیہ کرتی تھیں۔ پتہ نہیں ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد کسی نے کوشش کی یا نہیں کہ اس پروگرام کو جاری رکھ سکیں۔ مجاز صاحب یہ پروگرام صرف سرکاری نوکری کی ذمے داریاں نبھانے کے لیے نہیں کرتے تھے بلکہ یہ ان کا جنون تھا، کتابوں سے عشق تھا۔
پچھلے کالم میں ایک کتاب دوست شخصیت کا نام سہواً غلط چھپ گیا۔ یہ ہیں امین ہاشم صاحب نہ کہ امین قریشی۔۔۔۔اسی طرح طوالت کے پیش نظر راشد اشرف کے حوالے سے بھی کچھ سطریں کم کرنی پڑی تھیں۔ لیکن یہ بے انصافی ہوگی اگر میں یہ اعتراف نہ کروں کہ اردو ادب کی بہترین آپ بیتیاں اور سوانح عمریوں سے واقفیت راشد ہی کی وجہ سے ہوئی۔ جس طرح جوہری مٹی میں سے ہیرے نکال لیتا ہے، اسی طرح یہ نوجوان بھی بلاکسی مالی منفعت اور ذاتی مفاد کے ان بیش قیمت اور نادر کتابوں کی کھوج لگا لیتا ہے جنھیں لکھنے والوں کی آل اولاد نے بھی یاد نہ رکھا اور وہ نایاب ہوگئیں۔ کتابوں کے عشق کے ساتھ ساتھ بڑی خوبی یہ دیکھی کہ بیرون ملک سے آئے ہوئے اہل علم کو اگر کسی کتاب کی تلاش ہوئی تو بھی راشد نے اپنا پٹرول جلایا، اپنا وقت صرف کیا، لیکن مہمان کو مایوس نہیں کیا۔
کتابوں سے والہانہ عشق کا ذکر ہوا اور میرے پسندیدہ شہر لاہور کی بات بھی ہو، تو بھلا بتائیے، ہم انور سدید صاحب کو کیسے بھول سکتے ہیں کہ وہ تو برگد کا وہ درخت ہیں جن کی علمیت، انکسار اور ادب نوازی کا سایہ ہر کسی پہ پڑتا ہے۔ انھیں میں نے ہمیشہ کتابوں کے درمیان ہی پایا۔ جیسے وہ بیٹھک میں لگی کتابوں کے درمیان ان ہی کا حصہ ہوں۔۔۔۔کیا خوب آدمی ہیں۔ بلا کا مطالعہ، غضب کا حافظہ۔۔۔ ۔اور منکسر المزاجی ایسی جو صوفیوں کا ورثہ ہے۔ ان کا تو اوڑھنا بچھونا صرف کتابیں ہی ہیں۔ اپنی جوڑوں کی درد کی تکلیف کے باوجود، ایک معاصر اردو اخبار کے سنڈے ایڈیشن اور ماہنامہ ''الحمراء'' لاہور کے ہر شمارے میں وہ نئی کتابوں پہ بے لاگ تبصرہ کرتے ہیں۔ اس میں کسی رو رعایت کی گنجائش نہیں۔ وہ صرف تحریر کو مد نظر رکھتے ہیں۔ یہی ایک سچے ادیب کی پہچان بھی ہے کیونکہ کتابیں محبتوں کی سفیر بھی ہوتی ہیں۔
کتابوں کے عاشقوں کی فہرست میں ایک اور نام بھی ہے۔ جس سے کراچی میں تقریباً سبھی پڑھے لکھے لوگ واقف ہیں خصوصاً صحافی برادری۔۔۔۔یہ ہیں جناب نیاز الدین خاں۔ ادیبوں، شاعروں اور کتابوں کے حوالے سے ان کا حافظہ گنجینہ گوہر ہے۔ آپ صرف سنتے جائیے اور حیران ہوتے جائیے، ایسی ایسی دلچسپ یادداشتیں ان کے حافظے کی زنبیل میں سے برآمد ہوتی ہیں کہ بس سنا کیجیے اور اپنی معلومات کے خزانے میں اضافہ کرتے جائیے۔ ہمارے ٹی وی چینل پہ کئی سالوں سے غیر سنجیدہ افراد کا قبضہ ہے۔ علم و دانش کا داخلہ وہاں ممنوع ہے۔ جس اخبار سے وہ برسوں وابستہ رہے اس نے بھی کبھی ان کی انتہائی دلچسپ معلومات سے استفادہ نہیں کیا۔۔۔۔ چینل پہ رخ روشن دکھانے کے لیے شاید سیاسی وابستگی اور سفارش کا ہونا بھی ضروری ہے۔ نیاز الدین خاں ان ''صفات'' سے محروم ہیں۔ کاش کوئی ادارہ ان کی دلچسپ معلومات کو ریکارڈ کرکے کتابی شکل میں شایع کرے تو یہ کتاب ہاٹ کیک کی طرح بکے گی۔ گفتگو ریکارڈ کرنے کی بات میں نے اس لیے کی کہ نیاز بھائی گفتار کے غازی ہیں۔ اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے۔۔۔۔اس کی تصدیق ان کی اہلیہ معروف صحافی اور ''عصمت'' کی مدیرہ صفوراخیری بھی کریں گی۔