پیچیدہ نکات کیساتھ انٹر کی داخلہ پالیسی جاری
ڈومیسائل اور پرائمری کے سرٹیفکیٹ کے نکات پہلی بار شامل،شرط پوری نہ کرنیوالے طالب علم کی انٹرمیں انرولمنٹ نہیں ہوسکے گی
حکومت سندھ کے محکمہ کالج ایجوکیشن کی جانب سے کراچی سمیت پورے صوبے میں انٹرسال اول کے لیے بنائی گئی نئی داخلہ پالیسی بعض ایسے نئے اور پیچیدہ نکات کے ساتھ جاری کی گئی ہے جس نے ڈیڑھ لاکھ کے قریب طلبہ وطالبات اوران کے والدین کے لیے نئی مشکلات کھڑی کردی ہیں۔
طالب علم اوراس کے والد کا ڈومیسائل ،طالب علم کامڈل کاسرٹیفکیٹ اور پرائمری کا سرٹیفکیٹ وہ دستاویزات ہیں جو داخلے کے لیے طالب علم کولازمی جمع کرانی ہونگے یہ نکات پہلی بار مرکزی داخلہ پالیسی میں شامل کیے گئے ہیں اور اس بات کاانکشاف بھی ہوا ہے کہ اگرکوئی طالب علم مذکورہ تینوں دستاویزات (ڈومیسائل،پرائمری سرٹیفیکیٹ اورمڈل سرٹیفیکیت)کی شرط پوری نہیں کرتاتوانٹرمیڈیٹ بورڈ میں اس کی انرولمنٹ نہیں ہوسکے گی اوروہ انٹرکے امتحان دینے کااہل نہیں ہو گا۔
دوسری جانب کالج ایجوکیشن ڈپارٹنمنٹ نے یہ بھی دعویٰ کیاہے کہ اس بار کراچی کے سرکاری کالجوں میں داخلوں کے لیے 20ہزار نشستوں کا اضافہ کیا جا رہا ہے، اس طرح یہ نشستیں 1لاکھ 40ہزار ہوجائیں گی تاہم کراچی سمیت سندھ بھرکے سرکاری کالجوں میں انفرااسٹرکچرکی صورتحال انتہائی سنگین اورابترہے۔
کالج ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے نئی شرائط کے حوالے سے ''ایکسپریس''سے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ ایسے طلبا کی انرولمنٹ نہیں ہوسکے گی جو دستاویزات کی مذکورہ شرائط پوری نہیں کرتے، علاوہ ازیں اسی طرح گزشتہ 21برس میں پہلی بار کراچی کے سرکاری کالجوں میں کلیم سینٹرقائم ہی نہیں کیے جارہے ہیں اوراگرمیرٹ لسٹ سے کسی بھی بنیادپر عدم اتفاق کرنے والاطالب علم اس پر کلیم کرنا چاہے یا اپنا داخلہ طے شدہ میرٹ کے تحت ہی کسی دوسرے کالج میں لیناچاہے تو داخلے کے لیے ایک بارپھرآن لائن درخواست دینی ہوگی۔
کالج کے پرنسپل کوسختی سے اس بات کاپابند کردیاگیاہے کہ متعلقہ نئی لگائی گئی شرائط کے ساتھ دستاویزات پوری ہونے پر صرف ان طلبا کوہی داخلہ دے سکے گاجس کاجاری کی گئی میرٹ لسٹ میں نام موجود ہوتاہم یہ بھی اس صورت میں ہوگا جب میرٹ لسٹ کے اجراکے بعدداخلے کے لیے کالج پہنچنے والاطالب علم متعلقہ متنازع نکات کے حامل دستاویزات کے ساتھ کالج آئے۔
اس حوالے سے جب پالیسی سازوں سے ''ایکسپریس''نے رابطہ کیاتوڈائریکٹرجنرل کالج کاعارضی چارج رکھنے والے قائم مقام ڈی جی راشد مہر کی موجودگی میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر راشد کھوسو نے ''ایکسپریس''کوبتایا''کہ اگرکوئی پرنسپل متعلقہ نئے ہدایت نامے یاشرائط کے برعکس کسی طالب علم کوکالج میں داخلے کے لیے فارم جاری کردیتاہے توفوری طورپر داخلہ توہوجائے گاتاہم پرنسپلزکومحکمے کی جانب سے واضح ہدایت دی جارہی ہیں کہ ایسے طالب علم کی انرولمنٹ اس وقت تک بورڈ نہ بھجوائی جائیں جب تک وہ ڈومیسائل اورپرائمری ومڈل کے سرٹیفیکیٹ کی عائد شرط کوپورانہیں کر دیتا۔
''ایکسپریس''کے سوال پر اس کی وجہ بتاتے ہوئے انھوں نے کہاکہ آج کل پہلے ہی جعلی ڈومیسائل کاایشوچل رہا ہے اوراس فیصلے سے ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ کتنے طالب علم ایسے ہیں جو اصل میں کراچی یاسندھ سے باہر کے رہائشی ہیں انھوں نے میٹرک تویہاں سے کرلیاہے تاہم پرائمری اور آٹھویں جماعت کسی دوسرے شہر یاصوبے سے پاس کی ہے جب یہ اعداد و شمار ایک بار ہمارے پاس آجائیں گے توہم بھی پنجاب کی طرح کالجوں میں دیگر صوبوں یاشہروں کی طرح کوٹاعائد کرسکیں گے۔
علاوہ ازیں نئی داخلہ پالیسی میں میٹرک سائنس اورجنرل گروپ میں ای گریڈ کے حامل طلبا کو انٹر سال اول میں داخلے نہ دینے کافیصلہ بھی اس پالیسی کے نکات میں پہلی بار شامل کیاگیاہے، اس طرح یہ تاریخ میں پہلی بارایساہواہے کہ حکومت سندھ کا ایک محکمہ خود حکومت سندھ کی پالیسی کوہی قبول کرنے کوتیارنہیں ہیں کیونکہ میٹرک کی سطح پر حکومت کی جانب سے امتحانات کے سلسلے میں بنائی گئی ''پروموشن اوراسسمنٹ ''پالیسی کے تحت طلبہ کے صرف اختیاری مضامین کے پرچے لیے گئے ہیں اوراسی بنیادپر لازمی مضامین کے نتائج تیار کیے گئے ہیں یہ پالیسی پہلے بین الصوبائی وزرائے تعلیم کانفرنس میں طے کی گئی تھی۔
محکمہ کالج ایجوکیشن کااس سلسلے میں موقف ہے کہ'' ای گریڈ لانے والے طلباکوکالجوں میں داخلے کاحق ہی نہیں ہے کیونکہ وہ پہلے ہی کچھ مضامین کے امتحانات دیے بغیرپاس ہونگے جبکہ جن مضامین میں کم اسکور کی وجہ سے ان کے ای گریڈ آئیں گے ان میں بھی ان کی کارکردگی انتہائی خراب رہے گی۔
پہلی بار کالجوں میں طلبہ کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے سختی کی کوشش کی گئی ہے اورداخلے کے حوالے سے جاری ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ ایک ہفتے تک کالج سے بغیر اطلاع کے غائب رہنے والے طالب علم کا نام کالج سے خارج کردیا جائے گا۔
طالب علم اوراس کے والد کا ڈومیسائل ،طالب علم کامڈل کاسرٹیفکیٹ اور پرائمری کا سرٹیفکیٹ وہ دستاویزات ہیں جو داخلے کے لیے طالب علم کولازمی جمع کرانی ہونگے یہ نکات پہلی بار مرکزی داخلہ پالیسی میں شامل کیے گئے ہیں اور اس بات کاانکشاف بھی ہوا ہے کہ اگرکوئی طالب علم مذکورہ تینوں دستاویزات (ڈومیسائل،پرائمری سرٹیفیکیٹ اورمڈل سرٹیفیکیت)کی شرط پوری نہیں کرتاتوانٹرمیڈیٹ بورڈ میں اس کی انرولمنٹ نہیں ہوسکے گی اوروہ انٹرکے امتحان دینے کااہل نہیں ہو گا۔
دوسری جانب کالج ایجوکیشن ڈپارٹنمنٹ نے یہ بھی دعویٰ کیاہے کہ اس بار کراچی کے سرکاری کالجوں میں داخلوں کے لیے 20ہزار نشستوں کا اضافہ کیا جا رہا ہے، اس طرح یہ نشستیں 1لاکھ 40ہزار ہوجائیں گی تاہم کراچی سمیت سندھ بھرکے سرکاری کالجوں میں انفرااسٹرکچرکی صورتحال انتہائی سنگین اورابترہے۔
کالج ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے نئی شرائط کے حوالے سے ''ایکسپریس''سے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ ایسے طلبا کی انرولمنٹ نہیں ہوسکے گی جو دستاویزات کی مذکورہ شرائط پوری نہیں کرتے، علاوہ ازیں اسی طرح گزشتہ 21برس میں پہلی بار کراچی کے سرکاری کالجوں میں کلیم سینٹرقائم ہی نہیں کیے جارہے ہیں اوراگرمیرٹ لسٹ سے کسی بھی بنیادپر عدم اتفاق کرنے والاطالب علم اس پر کلیم کرنا چاہے یا اپنا داخلہ طے شدہ میرٹ کے تحت ہی کسی دوسرے کالج میں لیناچاہے تو داخلے کے لیے ایک بارپھرآن لائن درخواست دینی ہوگی۔
کالج کے پرنسپل کوسختی سے اس بات کاپابند کردیاگیاہے کہ متعلقہ نئی لگائی گئی شرائط کے ساتھ دستاویزات پوری ہونے پر صرف ان طلبا کوہی داخلہ دے سکے گاجس کاجاری کی گئی میرٹ لسٹ میں نام موجود ہوتاہم یہ بھی اس صورت میں ہوگا جب میرٹ لسٹ کے اجراکے بعدداخلے کے لیے کالج پہنچنے والاطالب علم متعلقہ متنازع نکات کے حامل دستاویزات کے ساتھ کالج آئے۔
اس حوالے سے جب پالیسی سازوں سے ''ایکسپریس''نے رابطہ کیاتوڈائریکٹرجنرل کالج کاعارضی چارج رکھنے والے قائم مقام ڈی جی راشد مہر کی موجودگی میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر راشد کھوسو نے ''ایکسپریس''کوبتایا''کہ اگرکوئی پرنسپل متعلقہ نئے ہدایت نامے یاشرائط کے برعکس کسی طالب علم کوکالج میں داخلے کے لیے فارم جاری کردیتاہے توفوری طورپر داخلہ توہوجائے گاتاہم پرنسپلزکومحکمے کی جانب سے واضح ہدایت دی جارہی ہیں کہ ایسے طالب علم کی انرولمنٹ اس وقت تک بورڈ نہ بھجوائی جائیں جب تک وہ ڈومیسائل اورپرائمری ومڈل کے سرٹیفیکیٹ کی عائد شرط کوپورانہیں کر دیتا۔
''ایکسپریس''کے سوال پر اس کی وجہ بتاتے ہوئے انھوں نے کہاکہ آج کل پہلے ہی جعلی ڈومیسائل کاایشوچل رہا ہے اوراس فیصلے سے ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ کتنے طالب علم ایسے ہیں جو اصل میں کراچی یاسندھ سے باہر کے رہائشی ہیں انھوں نے میٹرک تویہاں سے کرلیاہے تاہم پرائمری اور آٹھویں جماعت کسی دوسرے شہر یاصوبے سے پاس کی ہے جب یہ اعداد و شمار ایک بار ہمارے پاس آجائیں گے توہم بھی پنجاب کی طرح کالجوں میں دیگر صوبوں یاشہروں کی طرح کوٹاعائد کرسکیں گے۔
علاوہ ازیں نئی داخلہ پالیسی میں میٹرک سائنس اورجنرل گروپ میں ای گریڈ کے حامل طلبا کو انٹر سال اول میں داخلے نہ دینے کافیصلہ بھی اس پالیسی کے نکات میں پہلی بار شامل کیاگیاہے، اس طرح یہ تاریخ میں پہلی بارایساہواہے کہ حکومت سندھ کا ایک محکمہ خود حکومت سندھ کی پالیسی کوہی قبول کرنے کوتیارنہیں ہیں کیونکہ میٹرک کی سطح پر حکومت کی جانب سے امتحانات کے سلسلے میں بنائی گئی ''پروموشن اوراسسمنٹ ''پالیسی کے تحت طلبہ کے صرف اختیاری مضامین کے پرچے لیے گئے ہیں اوراسی بنیادپر لازمی مضامین کے نتائج تیار کیے گئے ہیں یہ پالیسی پہلے بین الصوبائی وزرائے تعلیم کانفرنس میں طے کی گئی تھی۔
محکمہ کالج ایجوکیشن کااس سلسلے میں موقف ہے کہ'' ای گریڈ لانے والے طلباکوکالجوں میں داخلے کاحق ہی نہیں ہے کیونکہ وہ پہلے ہی کچھ مضامین کے امتحانات دیے بغیرپاس ہونگے جبکہ جن مضامین میں کم اسکور کی وجہ سے ان کے ای گریڈ آئیں گے ان میں بھی ان کی کارکردگی انتہائی خراب رہے گی۔
پہلی بار کالجوں میں طلبہ کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے سختی کی کوشش کی گئی ہے اورداخلے کے حوالے سے جاری ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ ایک ہفتے تک کالج سے بغیر اطلاع کے غائب رہنے والے طالب علم کا نام کالج سے خارج کردیا جائے گا۔