اداکارہ میرا کے گلے شکوے

میرا پر جب انڈین بولی وڈ کی نظر انتخاب پڑی تو کوئی میرا تیرا نہ رہا اور میرا فلم بندی کے لیے بولی وڈ سدھار گئیں


Adnan Ashraf Advocate February 06, 2014
[email protected]

20 سال قبل ماڈلنگ سے اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والی بولی وڈ کی سپر اسٹار سینئر اداکارہ میرا گزشتہ کئی برسوں سے پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا میں مختلف النوع خبروں اور اسکینڈلز کی وجہ سے عوام کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ پاک میڈیا ایوارڈ، نگار فلمی ایوارڈ اور پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ حاصل کر کے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لینے والی میرا پر جب انڈین بولی وڈ کی نظر انتخاب پڑی تو کوئی میرا تیرا نہ رہا اور میرا فلم بندی کے لیے بولی وڈ سدھار گئیں، اس کے بعد جو خبریں اور قابل اعتراض مناظر سامنے آئے وہ محب وطن شہریوں کو ہرگز نہ بھائے مگر پھر بھی ایک طبقے کی حمایت و تائید میرا کی شامل حال رہی، یہاں تک تو میرا کا کردار اور رویہ قابل بحث تھا اس پر ان کے پرستاروں، ناقدین اور میڈیا ان سے سوال و جواب کرنے کا حق رکھتا تھا۔ لیکن اس کے بعد میرا کی ذاتی زندگی اور نجی معاملات کو جس طرح زیر بحث لایا جا رہا ہے وہ نہایت قابل افسوس ہے۔ کبھی کسی تقریب میں اس کا پاؤں پھسل جائے تو کسی عیب کی طرح کمنٹری کے ساتھ بار بار پیش کیا جاتا ہے۔ حالانکہ دنیا کی بڑی بڑی شخصیات، سربراہان حکومت اور خواتینِ اول کے ساتھ اس قسم کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔

اگر اس کی زبان لڑکھڑا جائے یا تلفظ یا جملے کی ادائیگی میں غلطی ہو جائے تو اس کو اس طرح ہائی لائٹ کیا جاتا ہے جیسے کوئی بہت بڑا انکشاف ہو گیا ہو۔ میرا محض شوبز سے تعلق رکھنے والی شخصیت ہے، فصیح و بلیغ عالم یا دانشور ہستی نہیں ہے، ہمارے تو بڑے بڑے عہدوں پر متمکن ذمے داران اور شخصیات، حکمران اور خود میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد ایسے ہیں جنھیں قومی تہواروں، قومی شخصیات اور اسلام سے متعلق بنیادی معلومات نہیں ہیں، جنھیں کسی زبان پر بھی عبور نہیں ہوتا، جو اردو بولنے تک میں سنگین قسم کی غلطیاں کر جاتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے ایک سابق اسپیکر نے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد صحیح انگلش بولنے کے لیے ٹیوٹر کی خدمات حاصل کی تھیں۔ ایک ممبر اسمبلی نے انگریزی میں سوال کیا تو اسپیکر ان کی انگریزی سن کر بولیں بیٹی آپ اردو میں بات کر لیں۔ زبان کسی شخص کے خیالات، مشاہدات، جذبات اور علم و تجربے کے اظہار کا ذریعہ ہوتی ہے جب کہ اصل چیز اس کا علم اور صلاحیت ہوتی ہے۔ جس طرح ایک کار کو دوڑانے کے لیے بیٹری کی تار یا پٹرول کا پائپ انتہائی ضروری ہوتا ہے حالانکہ اس میں بنیادی و کلیدی حیثیت کار کے انجن و دیگر تکنیکی نظام کی ہوتی ہے، اسی لیے دنیا کی عظیم طاقتیں اپنی معیشت کی گاڑی کو دوڑانے کے لیے اپنی ہی زبانوں کو ذریعہ اظہار بناتی ہیں۔

میرا کا کہنا ہے کہ انھیں انڈیا میں بے حد پیار اور عزت ملتی ہے اور پاکستان میں میڈیا، حکومت اور لوگ ہمیشہ ان کے خلاف بلامقصد پروپیگنڈہ کرتے ہیں کیونکہ لوگ ان سے جلتے ہیں۔ میرا کے جملے کے پہلے حصے سے تو اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن دوسرے حصے میں جو ان کا گلہ شکوہ ہے وہ کافی حد تک حق بجانب دکھائی دیتا ہے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں دکھایا گیا کہ میرا پروگرام کے میزبان کو اپنے موبائل سے ایک انگریزی میسج پڑھ کر سناتی ہے جسے سننے کے بعد میزبان کہتا ہے کہ اب آپ نے یہ میسج زبانی سنانا ہے، میرا کہتی ہے میں نے یہ میسج آپ کے لیے لکھا تھا یاد نہیں کیا ہے، میزبان کہتا ہے ایک مرتبہ پھر سمجھا دیں، میرا کہتی ہے لوگ سمجھ گئے ہیں، میزبان کہتا ہے آخری لائن پھر سے پڑھیں، آپ نے ترجمہ سنایا ہے اب آپ پڑھ کر سنائیں۔ یہ پروگرام دیکھ کر محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی استاد اپنے کسی کند ذہن شاگرد کو ٹیوشن پڑھا رہا ہو۔ اس قسم کا رویہ واقعی قابل افسوس ہے جو میرا کے علاوہ پروگرام کے ناظرین پر بھی گراں گزرا ہو گا۔

میرا نے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے عمران خان کے ساتھ کام کیا تھا۔ پھر لاہور کے اس حلقے سے جہاں عمران خان، نواز شریف اور لیاقت بلوچ جیسی سیاسی شخصیات پنجہ آزمائی کرتی تھیں ان کے مدمقابل پاکستان جسٹس پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا، اس کے بعد میرا کی کردار کشی کا ایک لامتناہی قسم کا سلسلہ چل نکلا تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے فلم اسٹار مسرت شاہین کی جانب سے مساوات پارٹی بنا کر مولانا فضل الرحمن کے مقابلے کے اعلان کے بعد اس کے ساتھ ہوا تھا اور اس بیچاری کو روتے ہوئے اپنے تحفظ کے لیے پریس کانفرنس کرنا پڑی، اب یہ دونوں اداکارائیں عملاً سیاست سے دست بردار نظر آتی ہیں، میرا نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ وہ سیاست اور سیاستدانوں سے نفرت کرتی ہے۔

عوامی فلاح و بہبود کے نعرے کے تحت سیاست میں حصہ لینے کی ناکام کوششوں کے بعد اب میرا نے عوام کے لیے ایک بڑا اسپتال قائم کرنے کا اعلان کیا، وہ عمران خان اور ابرار الحق کے بعد تیسری شخصیت ہیں جس نے عوامی فلاح و بہبود کے لیے عملی اقدام اٹھایا ہے۔ میرا نے بھی عمران خان کی طرح لاہور میں اپنی والدہ کے نام سے 500 بستروں کا اسپتال بنانے کا اعلان کیا ہے، اس سلسلے میں انھوں نے گورنر پنجاب سے ملاقات کے بعد بتلایا کہ گورنر صاحب نے ایک ٹیم بنا دی ہے جو اس سلسلے میں موزوں زمین تلاش کر کے جلد از جلد ان کے حوالے کر دے گی، جس کے بعد تعمیرات کا کام شروع ہو جائے گا۔ انھوں نے بتایا کہ امریکا میں ڈاکٹروں نے انھیں یقین دلایا کہ وہ پاکستان آ کر ضرورت مندوں کو اپنی مفت خدمات فراہم کریں گے۔ اسپتال میں امیر و غریب کا علاج 10 روپے میں ہو گا، فنکاروں اور صحافیوں کے لیے علیحدہ وارڈ ہوں گے۔

عمران خان اور ابرار الحق کی طرح میرا کو بھی یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اگر عوام کی فلاح و بہبود کا جذبہ و پروگرام رکھتی ہے تو اسے عملی جامہ پہنائے، اس کے ماضی کو یا نجی زندگی کے معاملات کو زیر بحث لا کر کردار کشی کی حد تک نہ جایا جائے۔ عزت نفس ہر شخص کی مقدم ہوتی ہے۔ جب ڈرامہ کوئین کے طور پر مشہور اداکارہ وینا ملک اپنے ماضی سے شرمندہ ہو کر اپنے پرستاروں سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگ کر تائب ہو سکتی ہے، بقول مولانا طارق جمیل کہ میں نے اس کو عزت دی اور بیٹی کہہ کر پکارا تو وہ رونے لگی، اس کی زندگی بدل گئی اور عہد کیا کہ آیندہ کبھی سر سے دوپٹہ نہیں اتاروں گی۔ اس سلسلے میں مولانا کے یہ الفاظ نہایت قابل غور ہیں کہ جرم سے نفرت ہونی چاہیے مجرم سے نہیں، اگر مریض سے مسیحا ہی نفرت کرے گا تو علاج کس طرح ممکن ہو گا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں