ٹافیوں والے بابا
ٹافیوں والے بابا کا نام محمد اقبال تھا مگر ان کے نام کے ساتھ ان کا کاروباری حوالہ بھی لگا ہوا تھا۔۔۔۔
بچے بڑے اداس ہیں، وہ ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں ''ٹافیوں والے بابا کہاں گئے؟'' بابا جوڑیا بازار کی جس دکان سے تھوک کے حساب سے ٹافیاں خریدتے تھے، جب پندرہ دن تک بابا نہیں آئے تو انھیں بھی تشویش ہوئی۔ انھوں نے بھی پتہ کروایا بابا کا خود کا بزنس بھی کراچی کی تھوک مارکیٹ جوڑیا بازار میں تھا، بابا کے لڑکوں نے بتایا کہ آج کل طبیعت خراب چل رہی ہے انشاء اللہ ابا ٹھیک ہو جائیں تو ڈبل تعداد میں ٹافیاں خرید لیں گے۔
ٹافیوں والے بابا کا نام محمد اقبال تھا مگر ان کے نام کے ساتھ ان کا کاروباری حوالہ بھی لگا ہوا تھا۔ یوں وہ محمد اقبال جاپان والا کے نام سے جانے پہچانے جاتے تھے۔ پاکستان کی مشہور کاروباری برادری، دہلی پنجابی سوداگران سے بابا کا تعلق تھا۔ ان کے باپ دادا سبھی بڑے نیک نام لوگ تھے، ڈینسو ہال بندر روڈ کراچی میں آج بھی ان کے بزرگوں کی تعمیر کردہ ''موتی مسجد'' موجود ہے۔ موتی مسجد کے بارے میں خود بابا کئی بار ذکر کیا کرتے تھے۔ اپنے آبا کے اس کار عظیم پر بابا بڑے نازاں تھے۔ موتی مسجد کے ذکر اور ان کے چہرے پر بکھرتے خوشی و انبساط کے رنگ دیدنی ہوتے تھے۔ بابا درمیانے قد اور دبلے جسم کے مالک تھے۔ چہرے پر مٹھی بھر سفید داڑھی، خوبصورت خد و خال اور ہر دم مسکراتی آنکھیں، بات چیت کریں تو پھول جھڑیں۔ میرا ان سے تعارف تقریباً دس پندرہ سال پہلے ہوا تھا، وہ مجھے بھائی محمد سعید کہہ کر بلاتے تھے۔ یہ ان کا روز کا مشغلہ تھا کہ وہ بچوں بڑوں میں ٹافیاں تقسیم کیا کرتے تھے۔ ان کا ملازم کار میں ٹافیوں کے بڑے پیکٹوں سے ٹافیاں لاتا رہتا۔
بابا واسکٹ کی جیبوں میں ٹافیاں بھر لیتے اور پھر بچوں بڑوں کو دیتے رہتے۔ بچے تو اب انھیں خوب پہچان گئے تھے۔ بابا کو دیکھتے ہی وہ ان کی طرف بھاگتے اور بابا مسکراتے ہوئے جیب میں ہاتھ ڈالتے۔ دو ٹافیاں بچے کے ہاتھ پر رکھتے اور بچے خوش ہو جاتے۔ بچوں کا خوش ہو جانا ہی بابا کی روزانہ کی کمائی تھی۔ خصوصاً رمضان شریف کا مہینہ بابا ہماری مسجد میں گزارتے تھے۔ ان کے بیٹے ہماری مسجد میں تراویح پڑھاتے تھے۔ مسجد کے مصلّے کے علاوہ مسجد میں چار مصلّے اور بھی بچھائے جاتے تھے۔ جہاں حافظ قرآن حضرات قرآن سناتے تھے۔ ان ہی میں ایک مصلّہ بابا کے بیٹے کا بھی ہوتا تھا۔ میں اویس قرنی مسجد میں روزہ افطار کے بعد دیکھتا۔ بابا مسجد کے کھلے صحن میں کرسی پر بیٹھ جاتے اور بچے دوڑ دوڑ کر ان کے پاس جاتے۔ بابا واسکٹ کی جیب سے دو ٹافیاں نکالتے اور بچوں کو دیتے۔
میں نماز مغرب پڑھ کر نکلنے لگتا تو بابا مجھے آواز دے کر بلا لیتے ''ارے بھائی محمد سعید!'' اور میں جواباً پلٹ کر ان کی جانب لپکتا۔ وہ جیب سے دو ٹافیاں نکال کر مجھے دیتے ہوئے پاس بٹھا لیتے۔ میں گھر جانے کو کہتا تو وہ میرا ہاتھ پکڑ کر بٹھا لیتے اور کہتے ''بھائی محمد سعید! چائے تیار ہے، پی لو پھر چلے جانا''۔ پورا رمضان شریف کا مینہ چائے کے سماوار ان کے گھر سے تیار ہو کر آتے اور احباب چائے پیتے۔ مسجد کی دیوار کے ساتھ ہی ان کی گاڑیاں کھڑی ہوئی تھیں۔ چائے، کھانے کے برتن، ٹافیوں کی تھیلیاں سب ان کی گاڑیوں سے ملازمین یا ان کے بیٹے لاتے رہتے اور لنگر چلتا رہتا۔ عشا کی نماز اور تراویح کے بعد پھر ٹافیوں کا لنگر دوبارہ شروع ہو جاتا۔ ایک ایک بچہ دو دو تین تین بار ٹافیاں لیتا اور بابا جانتے بوجھتے انجان بنے ٹافیاں دیتے رہتے۔
دس روز ہوئے ٹافیوں والے بابا اپنے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ صبح فجر کی نماز کے بعد مولوی عمران عثمان صاحب نے دوران دعا یہ الفاظ ادا کیے ''دعا کیجیے ہماری مسجد کے ایک دیرینہ نمازی محمد اقبال صاحب کا ابھی کچھ دیر پہلے انتقال ہو گیا ہے''۔ میں نے سنا اور میرے دل کی رفتار بدلی۔ بعد نماز میں نے مسجد کے ساتھیوں احمد دین چاولہ اور بھائی عثمان سے پوچھا تو پتہ چلا کہ یہ وہی محمد اقبال ہیں جاپان والے۔ نماز فجر، درس و تلاوت قرآن اور نوافل نماز اشراق کی ادائیگی کے بعد بھائی محمد اقبال جاپان والا کے گھر جانا ہوا۔ ٹافیوں والے بابا سفید کفن پہنے لیٹے ہوئے تھے۔ ان کے بیٹے بتا رہے تھے کل شام مغرب کی نماز عالمگیر مسجد بہادر آباد (کراچی) میں برادری کے دو نکاح تھے۔ ابا ہمارے ساتھ شریک تھے۔ عشا بھی ابا نے پڑھی پھر کہنے لگے ''سینے میں کچھ بوجھ سا محسوس ہو رہا ہے''۔ ہم اسپتال لے گئے بظاہر سب ٹھیک نکلا پھر ابا نے کہا ''گھر چلتے ہیں صبح دیکھا جائے گا''۔
اور ٹافیوں والے بابا اپنے گھر والوں کو تکلیف دیے بغیر خاموشی سے اپنے رب کے پاس چلے گئے۔ کفن میں لیٹے بابا کو دیکھ کر ابھی پچھلے رمضان شریف کی بات مجھے یاد آ رہی تھی۔ ٹافیوں والے بابا مجھے کہہ رہے تھے ''ارے بھائی محمد سعید! جب ہم نہیں ہوں گے تو یہ بچے آپ سے پوچھیں گے ٹافیوں والے بابا کہاں گئے؟'' اسلامی مہینے رجب کی آج پہلی تاریخ ہے۔ اگلا مہینہ شعبان کا ہے اور پھر رمضان شریف ہو گا۔ دو ماہ رہ گئے پھر مسجد میں بچے مجھ سے پوچھیں گے ''ٹافیوں والے بابا کہاں گئے؟'' تو میں جیب سے دو ٹافیاں نکال کر ان کے ہاتھ میں دے دوں گا۔ محمد اقبال جاپان والا لوگوں میں خوشیاں بانٹتے تھے۔ یہ بہت اعلیٰ درجے کی عبادت ہے۔ اپنے خدا کے حضور بابا نماز، روزے، حج، زکوٰۃ کے ساتھ یہ خاص عبادت بھی لے کر گئے ہیں ورنہ بقول صابر ظفر:
کیا بشر کی بساط
آج ہے کل نہیں
ٹافیوں والے بابا کا نام محمد اقبال تھا مگر ان کے نام کے ساتھ ان کا کاروباری حوالہ بھی لگا ہوا تھا۔ یوں وہ محمد اقبال جاپان والا کے نام سے جانے پہچانے جاتے تھے۔ پاکستان کی مشہور کاروباری برادری، دہلی پنجابی سوداگران سے بابا کا تعلق تھا۔ ان کے باپ دادا سبھی بڑے نیک نام لوگ تھے، ڈینسو ہال بندر روڈ کراچی میں آج بھی ان کے بزرگوں کی تعمیر کردہ ''موتی مسجد'' موجود ہے۔ موتی مسجد کے بارے میں خود بابا کئی بار ذکر کیا کرتے تھے۔ اپنے آبا کے اس کار عظیم پر بابا بڑے نازاں تھے۔ موتی مسجد کے ذکر اور ان کے چہرے پر بکھرتے خوشی و انبساط کے رنگ دیدنی ہوتے تھے۔ بابا درمیانے قد اور دبلے جسم کے مالک تھے۔ چہرے پر مٹھی بھر سفید داڑھی، خوبصورت خد و خال اور ہر دم مسکراتی آنکھیں، بات چیت کریں تو پھول جھڑیں۔ میرا ان سے تعارف تقریباً دس پندرہ سال پہلے ہوا تھا، وہ مجھے بھائی محمد سعید کہہ کر بلاتے تھے۔ یہ ان کا روز کا مشغلہ تھا کہ وہ بچوں بڑوں میں ٹافیاں تقسیم کیا کرتے تھے۔ ان کا ملازم کار میں ٹافیوں کے بڑے پیکٹوں سے ٹافیاں لاتا رہتا۔
بابا واسکٹ کی جیبوں میں ٹافیاں بھر لیتے اور پھر بچوں بڑوں کو دیتے رہتے۔ بچے تو اب انھیں خوب پہچان گئے تھے۔ بابا کو دیکھتے ہی وہ ان کی طرف بھاگتے اور بابا مسکراتے ہوئے جیب میں ہاتھ ڈالتے۔ دو ٹافیاں بچے کے ہاتھ پر رکھتے اور بچے خوش ہو جاتے۔ بچوں کا خوش ہو جانا ہی بابا کی روزانہ کی کمائی تھی۔ خصوصاً رمضان شریف کا مہینہ بابا ہماری مسجد میں گزارتے تھے۔ ان کے بیٹے ہماری مسجد میں تراویح پڑھاتے تھے۔ مسجد کے مصلّے کے علاوہ مسجد میں چار مصلّے اور بھی بچھائے جاتے تھے۔ جہاں حافظ قرآن حضرات قرآن سناتے تھے۔ ان ہی میں ایک مصلّہ بابا کے بیٹے کا بھی ہوتا تھا۔ میں اویس قرنی مسجد میں روزہ افطار کے بعد دیکھتا۔ بابا مسجد کے کھلے صحن میں کرسی پر بیٹھ جاتے اور بچے دوڑ دوڑ کر ان کے پاس جاتے۔ بابا واسکٹ کی جیب سے دو ٹافیاں نکالتے اور بچوں کو دیتے۔
میں نماز مغرب پڑھ کر نکلنے لگتا تو بابا مجھے آواز دے کر بلا لیتے ''ارے بھائی محمد سعید!'' اور میں جواباً پلٹ کر ان کی جانب لپکتا۔ وہ جیب سے دو ٹافیاں نکال کر مجھے دیتے ہوئے پاس بٹھا لیتے۔ میں گھر جانے کو کہتا تو وہ میرا ہاتھ پکڑ کر بٹھا لیتے اور کہتے ''بھائی محمد سعید! چائے تیار ہے، پی لو پھر چلے جانا''۔ پورا رمضان شریف کا مینہ چائے کے سماوار ان کے گھر سے تیار ہو کر آتے اور احباب چائے پیتے۔ مسجد کی دیوار کے ساتھ ہی ان کی گاڑیاں کھڑی ہوئی تھیں۔ چائے، کھانے کے برتن، ٹافیوں کی تھیلیاں سب ان کی گاڑیوں سے ملازمین یا ان کے بیٹے لاتے رہتے اور لنگر چلتا رہتا۔ عشا کی نماز اور تراویح کے بعد پھر ٹافیوں کا لنگر دوبارہ شروع ہو جاتا۔ ایک ایک بچہ دو دو تین تین بار ٹافیاں لیتا اور بابا جانتے بوجھتے انجان بنے ٹافیاں دیتے رہتے۔
دس روز ہوئے ٹافیوں والے بابا اپنے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ صبح فجر کی نماز کے بعد مولوی عمران عثمان صاحب نے دوران دعا یہ الفاظ ادا کیے ''دعا کیجیے ہماری مسجد کے ایک دیرینہ نمازی محمد اقبال صاحب کا ابھی کچھ دیر پہلے انتقال ہو گیا ہے''۔ میں نے سنا اور میرے دل کی رفتار بدلی۔ بعد نماز میں نے مسجد کے ساتھیوں احمد دین چاولہ اور بھائی عثمان سے پوچھا تو پتہ چلا کہ یہ وہی محمد اقبال ہیں جاپان والے۔ نماز فجر، درس و تلاوت قرآن اور نوافل نماز اشراق کی ادائیگی کے بعد بھائی محمد اقبال جاپان والا کے گھر جانا ہوا۔ ٹافیوں والے بابا سفید کفن پہنے لیٹے ہوئے تھے۔ ان کے بیٹے بتا رہے تھے کل شام مغرب کی نماز عالمگیر مسجد بہادر آباد (کراچی) میں برادری کے دو نکاح تھے۔ ابا ہمارے ساتھ شریک تھے۔ عشا بھی ابا نے پڑھی پھر کہنے لگے ''سینے میں کچھ بوجھ سا محسوس ہو رہا ہے''۔ ہم اسپتال لے گئے بظاہر سب ٹھیک نکلا پھر ابا نے کہا ''گھر چلتے ہیں صبح دیکھا جائے گا''۔
اور ٹافیوں والے بابا اپنے گھر والوں کو تکلیف دیے بغیر خاموشی سے اپنے رب کے پاس چلے گئے۔ کفن میں لیٹے بابا کو دیکھ کر ابھی پچھلے رمضان شریف کی بات مجھے یاد آ رہی تھی۔ ٹافیوں والے بابا مجھے کہہ رہے تھے ''ارے بھائی محمد سعید! جب ہم نہیں ہوں گے تو یہ بچے آپ سے پوچھیں گے ٹافیوں والے بابا کہاں گئے؟'' اسلامی مہینے رجب کی آج پہلی تاریخ ہے۔ اگلا مہینہ شعبان کا ہے اور پھر رمضان شریف ہو گا۔ دو ماہ رہ گئے پھر مسجد میں بچے مجھ سے پوچھیں گے ''ٹافیوں والے بابا کہاں گئے؟'' تو میں جیب سے دو ٹافیاں نکال کر ان کے ہاتھ میں دے دوں گا۔ محمد اقبال جاپان والا لوگوں میں خوشیاں بانٹتے تھے۔ یہ بہت اعلیٰ درجے کی عبادت ہے۔ اپنے خدا کے حضور بابا نماز، روزے، حج، زکوٰۃ کے ساتھ یہ خاص عبادت بھی لے کر گئے ہیں ورنہ بقول صابر ظفر:
کیا بشر کی بساط
آج ہے کل نہیں