ڈسکہ الیکشن میں پولنگ عملہ غائب ہونے کی انکوائری رپورٹ میں تہلکہ خیز انکشافات
ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر اور ریٹرننگ آفیسر کی نااہلی کے باعث ڈسکہ الیکشن سبوتاژ ہوا، رپورٹ
NEW DELHI:
این اے 75 ڈسکہ ضمنی انتخاب میں پولنگ عملہ کے غائب ہونے کی تہلکہ خیز انکوائری رپورٹ سامنے آگئی۔
انکوائری کمیٹی نے دھاندلی کا ذمہ دار الیکشن کمیشن افسران ڈی آر او عابد حسین اور آر او اطہر عباسی کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر اور ریٹرننگ آفیسر کی نااہلی کے باعث ڈسکہ الیکشن سبوتاژ ہوا۔
رپورٹ میں نا اہل ڈی آر او اور آر او کو آئندہ کوئی انتظامی پوسٹ نہ دینے اور انتخابی ڈیوٹی سے دور رکھنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا گیا کہ ریٹرننگ افسران میں بروقت فیصلہ کرنے کا فقدان نظر آیا، پولنگ کے روز ہونے والے واقعات سے پولیس اور انتظامیہ آگاہ تھی لیکن ان کی روک تھام کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات نطر نہیں آئے، پولیس نے اپنی ذمہ داریاں پوری طرح ادا کرنے میں کوتاہی کی، الیکشن ڈیوٹی پر مامور محکمہ تعلیم کے ملازمین بھی واقعات میں ملوث نکلے، سی ای او ایجوکیشن سیالکوٹ مقبول احمد شاکر بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے، انہوں نے نااہلی اور جانبداری کا مظاہرہ کیا، ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈسکہ ضمنی الیکشن میں حکومت کو شکست، مسلم لیگ (ن) کامیاب
رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر فرخندہ یاسمین پر اپنے گھر پر غیر قانونی میٹنگ منعقد کرنے کا الزام ثابت ہوا، ان کے خلاف فوجداری اور محکمانہ سخت کارروائی کی سفارش کی جاتی ہے، پولیس افسران اور اہلکار غیر قانونی سرگرمیوں میں پوری طرح ملوث تھے، انہوں نے الیکشن پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی اور الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے۔ پولیس افسر 20 پریذائیڈنگ افسران کو آر او آفس کے بجائے دوسری جگہ منتقل کر کے دباؤ کے تحت نتائج تبدیل کرانے میں ملوث رہے، پولنگ عملے کے مخلتف مفادات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
انکوائری کمیٹی نے تمام ملوث افراد کے خلاف انضباطی کارروائی اور پریذائیڈنگ آفیسرز کی جانب سے نامزد پولیس افسران کیخلاف فوجداری کارروائی کی سفارش کی۔
رپورٹ میں 20 متنازعہ پولنگ اسٹیشنز پر تعینات پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی محکمانہ کارروائی کی سفارش کرتے ہوئے کہا گیا کہ پریذائیڈنگ افسران سرکاری گاڑی کی بجائے پرائیویٹ کار میں آر او آفس کے لیے روانہ ہوئے، وہ دوران ڈیوٹی مختلف افراد سے کال پر بات چیت کرتے رہے، دوران انکوائری بعض افراد نے انکوائری میں تعاون بھی نہیں کیا، پریذائیڈنگ افسران انکوائری کے دوران جھوٹ سے کام لیتے رہے، لیکن سی ڈی آر رپورٹ کے حوالہ کے بعد پریذائیڈنگ افسران نے آر او آفس کے بجائے دوسری جگہ جانے کا اعتراف کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پریذائیڈنگ افسران کی گمشدگی اتفاق نہیں بلکہ منصوبہ بندی کے تحت ہوئی، انہیں پہلے پسرور پھر سیالکوٹ لے جایا گیا ۔
رپورٹ میں فردوس عاشق اعوان پر بھی انگلیاں اٹھاتے ہوئے کہا گیا کہ اسسٹنٹ کمشنر (اے سی) ڈسکہ کے گھر پر ضمنی انتخاب میں دھاندلی کیلئے میٹنگ ہوئی، جس میں فردوس عاشق اعوان ، وزیراعلی پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری علی عباس، ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ تعلیم محمد اقبال اور دیگر موجود تھے۔
رپورٹ کے مطابق پریذائیڈنگ افسران کو شناختی کارڈ کی نقول پر بھی ووٹ ڈالنے کی اجازت دینے کا کہا گیا، عملے کو کہا گیا پولیس اور انتظامیہ کے کام میں مداخلت نہیں کرنی، انتخابی عملہ اور سرکاری مشینری قانون توڑنے والوں کے کٹھ پتلی بنے رہے۔ انکوائری رپورٹ میں لاپتہ پریذائیڈنگ افسران کا کردار بھی مشکوک قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کے اپنے افسران کو بھی ذمہ دار قرار دیا گیا۔
انکوائری کمیشن نے فارم 45 اور 46 میں ترمیم کرنے اور ان میں پولنگ ایجنٹ کی ریسیونگ کا خانہ شامل کرنے کی سفارش بھی کی۔
این اے 75 ڈسکہ ضمنی انتخاب میں پولنگ عملہ کے غائب ہونے کی تہلکہ خیز انکوائری رپورٹ سامنے آگئی۔
انکوائری کمیٹی نے دھاندلی کا ذمہ دار الیکشن کمیشن افسران ڈی آر او عابد حسین اور آر او اطہر عباسی کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر اور ریٹرننگ آفیسر کی نااہلی کے باعث ڈسکہ الیکشن سبوتاژ ہوا۔
رپورٹ میں نا اہل ڈی آر او اور آر او کو آئندہ کوئی انتظامی پوسٹ نہ دینے اور انتخابی ڈیوٹی سے دور رکھنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا گیا کہ ریٹرننگ افسران میں بروقت فیصلہ کرنے کا فقدان نظر آیا، پولنگ کے روز ہونے والے واقعات سے پولیس اور انتظامیہ آگاہ تھی لیکن ان کی روک تھام کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات نطر نہیں آئے، پولیس نے اپنی ذمہ داریاں پوری طرح ادا کرنے میں کوتاہی کی، الیکشن ڈیوٹی پر مامور محکمہ تعلیم کے ملازمین بھی واقعات میں ملوث نکلے، سی ای او ایجوکیشن سیالکوٹ مقبول احمد شاکر بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے، انہوں نے نااہلی اور جانبداری کا مظاہرہ کیا، ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈسکہ ضمنی الیکشن میں حکومت کو شکست، مسلم لیگ (ن) کامیاب
رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر فرخندہ یاسمین پر اپنے گھر پر غیر قانونی میٹنگ منعقد کرنے کا الزام ثابت ہوا، ان کے خلاف فوجداری اور محکمانہ سخت کارروائی کی سفارش کی جاتی ہے، پولیس افسران اور اہلکار غیر قانونی سرگرمیوں میں پوری طرح ملوث تھے، انہوں نے الیکشن پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی اور الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے۔ پولیس افسر 20 پریذائیڈنگ افسران کو آر او آفس کے بجائے دوسری جگہ منتقل کر کے دباؤ کے تحت نتائج تبدیل کرانے میں ملوث رہے، پولنگ عملے کے مخلتف مفادات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
انکوائری کمیٹی نے تمام ملوث افراد کے خلاف انضباطی کارروائی اور پریذائیڈنگ آفیسرز کی جانب سے نامزد پولیس افسران کیخلاف فوجداری کارروائی کی سفارش کی۔
رپورٹ میں 20 متنازعہ پولنگ اسٹیشنز پر تعینات پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی محکمانہ کارروائی کی سفارش کرتے ہوئے کہا گیا کہ پریذائیڈنگ افسران سرکاری گاڑی کی بجائے پرائیویٹ کار میں آر او آفس کے لیے روانہ ہوئے، وہ دوران ڈیوٹی مختلف افراد سے کال پر بات چیت کرتے رہے، دوران انکوائری بعض افراد نے انکوائری میں تعاون بھی نہیں کیا، پریذائیڈنگ افسران انکوائری کے دوران جھوٹ سے کام لیتے رہے، لیکن سی ڈی آر رپورٹ کے حوالہ کے بعد پریذائیڈنگ افسران نے آر او آفس کے بجائے دوسری جگہ جانے کا اعتراف کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پریذائیڈنگ افسران کی گمشدگی اتفاق نہیں بلکہ منصوبہ بندی کے تحت ہوئی، انہیں پہلے پسرور پھر سیالکوٹ لے جایا گیا ۔
رپورٹ میں فردوس عاشق اعوان پر بھی انگلیاں اٹھاتے ہوئے کہا گیا کہ اسسٹنٹ کمشنر (اے سی) ڈسکہ کے گھر پر ضمنی انتخاب میں دھاندلی کیلئے میٹنگ ہوئی، جس میں فردوس عاشق اعوان ، وزیراعلی پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری علی عباس، ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ تعلیم محمد اقبال اور دیگر موجود تھے۔
رپورٹ کے مطابق پریذائیڈنگ افسران کو شناختی کارڈ کی نقول پر بھی ووٹ ڈالنے کی اجازت دینے کا کہا گیا، عملے کو کہا گیا پولیس اور انتظامیہ کے کام میں مداخلت نہیں کرنی، انتخابی عملہ اور سرکاری مشینری قانون توڑنے والوں کے کٹھ پتلی بنے رہے۔ انکوائری رپورٹ میں لاپتہ پریذائیڈنگ افسران کا کردار بھی مشکوک قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کے اپنے افسران کو بھی ذمہ دار قرار دیا گیا۔
انکوائری کمیشن نے فارم 45 اور 46 میں ترمیم کرنے اور ان میں پولنگ ایجنٹ کی ریسیونگ کا خانہ شامل کرنے کی سفارش بھی کی۔