اللہ میاں کی گائے کا قصہ
بات یہ نہیں ہے کہ فقط عورت ظلم سہتی ہے کہیں تو مرد بھی استحصال کا شکار ہو جاتا ہے۔۔۔
وہ حالات کی ستائی ہوئی ہے۔ مگر ظلم مسکرا کر سہتی ہے۔ جسے وہ سمجھوتے کا نام دیتی ہے۔ مجھے اس کی یہ بات پسند نہیں ہے، کیونکہ ظلم سہنا بھی ایک حساب سے ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ جس میں انسان اپنی ذات کے ساتھ زیادتی کرتا ہے۔ ظالم ہمیشہ طاقتور ہوتا ہے۔ اور مظلوم بے بس۔ انسان جتنا خاموشی سے منفی رویے برداشت کرتا ہے، ان رویوں کی شدت بڑھتی ہے۔ منفی رویوں کو وقت پر روکنا بہت ضروری ہے۔ میں نے جب بھی صوفیہ کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ یہ کہہ کر خاموش ہو جاتی کہ اسے ڈرایا جاتا ہے اور وہ ہتھیار ڈال دیتی ہے۔ انسان سمجھوتے اور مصلحت کے تحت خاموش رہتا ہے مگر اس کی خاموشی اگر جبر کو شہ دے رہی ہے۔ اور وہ رویہ ذہنوں کو اذیت میں مبتلا کر کے بھٹکنے پر مجبور کر رہا ہے تو ایک بہت بڑی راہداری ہے۔ سمجھوتے کی کئی صورتیں ہیں لیکن ہر وہ صورت قابل مذمت ہے جو انسانی ذہن، جسم و روح کو ناقابل بیان نقصان پہنچائے۔ زندگی تضادات کا مجموعہ ہے، جو کبھی آسان اور سازگار نہیں رہتی۔ بہت سے لوگ جو سمجھدار ہیں وہ اپنی سوجھ بوجھ اور ذاتی، صلاحیت کی بنا پر انھیں حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر لوگ ڈر، خوف اور مصلحت کی بنا پر غلط رویوں کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے اور کئی نسلیں غیر انسانی رویوں کے دھارے میں بہہ جاتی ہیں۔
وہ ظلم سہتی ہے اور مسکراتی ہے۔ یہ رویہ مجھے الجھا دیتا ہے۔ لیکن وہ کبھی کبھی میرے سامنے مسلسل بولتی ہے۔ تمام دکھ کہہ ڈالتی ہے۔
''تم اپنے شوہر سے بات کرو۔ اسے سمجھاؤ سکون کے ساتھ ہو سکتا ہے کہ وہ تمہاری بات سمجھ جائے''۔
''میں اگر کوئی اس کے مزاج کے خلاف بات کہوں تو وہ کوئی بھی چیز اٹھاکر مجھے دے مارتا ہے اور میں خاموش ہو جاتی ہوں۔''
''یہ رویہ وہ تمہاری اجازت سے اپنائے ہوئے ہے۔''
''میری اجازت سے؟'' صوفیہ حیرانی سے کہتی ہے۔
''جو کچھ بھی زندگی میں ہمارے ساتھ برا ہوتا ہے وہ ہم ہی تو ہیں، جو دوسرے کو موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ ہم سے برا سلوک کرے۔'' میری بات سن کر وہ سوچ کی گہرائی میں ڈوب جاتی ہے۔
''تم اگر شہد اور مکھن کے امتزاج سے نہ بنی ہوتیں، اور تمہارا لہجہ ترش اور ماتھے پر تیوریاں ہوتیں تو آج حالات مختلف ہوتے۔''
''ہاں شاید ایسا ہی ہو۔ مگر اللہ میاں نے مجھے ایسا کیوں بنایا ہے؟'' وہ بے بسی سے کہتی۔
''اللہ نے تمہیں عقل بھی دی ہے، جسے استعمال کر کے تم حالات کو بدل سکتی ہو۔''
''میرا ذہن ہی کام نہیں کرتا میں کیا کروں۔'' وہ معصومیت سے کہتی۔
میں نے اسے ہمیشہ یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ بات چیت سے کئی مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ معاشرے کا رویہ بھی ایسا بن چکا ہے کہ جو مسائل کی تکرار تو کرتا ہے مگر حل نہیں ڈھونڈ پاتا۔ جب کہ ہر مسئلے کے دس حل موجود ہوتے ہیں۔ مگر حل دھند کے اس پار کسی روشن ستارے کی طرح پوشیدہ ہوتا ہے۔ یہ مسائل انفرادی ہوں یا اجتماعی ہوں۔ گھروں میں سر اٹھائیں یا گلیوں و محلوں کا سکون تہس نہس کر ڈالیں یا سیاست کے ایوانوں میں نفاق ڈال کر بنیادیں ہلا ڈالیں، جوں کے توں رہتے ہیں۔ لیکن کسی صورت حل ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ سگمنڈ فرائڈ پہلا ماہر نفسیات ہے جس نے Talk Therapy گفتگو کے وسیلے علاج کا طریقہ ڈھونڈ نکالا۔ جس کی جدید صورت Psychotherapy ہے۔ باتوں ہی باتوں میں سوچ کے زاویے بدل جاتے ہیں، مایوسی کے بادل چھٹ جاتے ہیں اور انسان خود رحمی اور شکایتوں کے پیچیدہ جال سے باہر نکل آتا ہے۔
بات یہ نہیں ہے کہ فقط عورت ظلم سہتی ہے کہیں تو مرد بھی استحصال کا شکار ہو جاتا ہے۔ حل ڈھونڈنے کے لیے ذاتی تجزیہ، حقیقت پسندی و برداشت کا ہونا اشد ضروری ہے۔ جس کا فارمولا آسان ہے یعنی برداشت +حقیقت پسندی+ذاتی تجزیہ =حل۔ مسائل کے پہلے مرحلے میں برداشت جواب دے جاتی ہے۔ جس سے کئی جذباتی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ برداشت کا مادہ نہ ہونے کی وجہ سے انسان حقائق کو سمجھ نہیں پاتا۔ غصہ یا جارحیت حقائق کو تسلیم نہ کرنے کا ردعمل ہیں۔ جو ذاتی تجربے کی صلاحیت کو پنپنے نہیں دیتا۔ جس سے دو رویوں کا ٹکراؤ رہتا ہے یعنی جارحیت اور دفاعی عمل۔ جھوٹ، مفاہمت، منافقت، مصلحت زیادہ تر جارحیت کی پیداوار ہیں۔ طاقتور ہمیشہ مظلوم کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس کے بعد جب مظلوم اپنی خود رحمی سے طاقت لے کر ابھرتا ہے تو گھر، ادارے اور یہ پورا معاشرہ افراتفری کا شکار ہو جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ منفی رویوں کو منفی طریقے سے کبھی نہیں روکا جا سکتا۔ مگر مثبت رویہ بہت پیچیدہ مسائل کا حل ڈھونڈ نکالتا ہے۔ کسی بھی رویے کی شدت جب سامنے آتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ تنگ کرنے والے کو مطلوبہ چیز نہیں مل پا رہی ہے۔ عدم توجہی ایسے رویوں کا سبب بنتی ہے۔ جس کا حل فریقین کے مابین بات چیت ہے۔ جس کے لیے تحمل کا ہونا ضروری ہے۔ جہاں بات مزاج کے خلاف ہونے لگتی ہے اسے یا تو سنا نہیں جاتا یا پھر گرما گرم بحث شروع ہو جاتی ہے۔ جس کی مثال ٹی وی کے ٹاک شوز ہیں جہاں چار کھڑکھیاں کھلی ہوتی ہیں۔ اور تمام لوگ ایک ساتھ بول رہے ہوتے ہیں۔ تحمل سے اگر مخالفین کو سنا جائے تو مخالفت مفاہمت میں بدل جاتی ہے۔ تنقید کی صورت جارحانہ رویہ خود اعتمادی کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ جارحانہ انداز بھی بعض اوقات تحفظ فراہم کرتا ہے اس فریق کو جس نے یہ رویہ اپنا رکھا ہے۔ مرد انفرادی یا اجتماعی طور پر جارحانہ رویہ اس لیے اختیار کرتے ہیں تا کہ ان کا مفاد متاثر نہ ہو۔ جیسے صوفیہ کا شوہر پہلے تو بات نہیں سنتا یا جب اسے محسوس ہوتا ہے کہ صوفیہ دلیل اور حقائق کو سامنے رکھ کر بات کر رہی ہے تو وہ ایک دم شور مچا دیتا ہے۔ چیزیں الٹ پلٹ کر کے وہ اپنی برتری ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
صوفیہ بیمار رہنے لگی کیونکہ گھر میں یہ جذباتی و ہیجانی کیفیات اس کی صحت کو متاثر کرنے لگیں۔ شوہر نہ صرف غیر ذمے دار تھا بلکہ بری عادتوں میں مبتلا تھا۔ خالص متوسط طبقے کے لوگوں کے بہت سے مسائل ایسے ہیں جو ظاہری رکھ رکھاؤ اور حد درجہ انا پرستی کی وجہ سے ان کے گھروں کے سکون کو درہم برہم کر دیتے ہیں۔ پھر بھی ایک دن جب ہم اس موضوع پر بات کر رہے تھے تو میں نے اس سے کہا۔
''تمہارے پاس پھر بھی ایک اسپیس ہے، تمہاری جاب ہے، ٹھیک ہے کہ تم خود زندگی کا بوجھ اٹھاتی ہو، مگر پھر بھی تمہاری زندگی بہت سی عورتوں سے قدرے بہتر ہے جن کے پاس کوئی چوائس نہیں ہے۔''
لیکن وہ بضد تھی کہ اس کے ساتھ بہت زیادتی ہو رہی ہے۔ اس کے پاس دو صورتیں تھیں کہ یا تو وہ حقائق کو تسلیم کر لیتی یا پھر بات چیت کے ذریعے معاملات سنبھال لیتی۔ مگر وہ کوئی ایک حل بھی اپنانے کو تیار نہ تھی۔ ہماری معاشرتی زندگی کا یہ المیہ ہے کہ ہم مسائل کا حل نہیں چاہتے۔ جس کا بہترین ذریعہ Dialogue بات چیت ہے۔ ہم مختلف مزاج، رویوں اور مکتبہ فکر کے لوگ اپنی بات کی برتری چاہتے ہیں۔ اور لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانا چاہتے ہیں۔ کہ ہماری سنو، ہم بہترین ہیں۔ اور دوسرے کی ذات کی نفی سے چیزوں کی ترتیب بگڑنی شروع ہوجاتی ہے۔ دوسرے کی ذات کی نفی نرگسی رویوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ اپنی ذات کے محور کے گرد ہونا، فقط اپنی ذات، پسند و ناپسند کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے رہنا غیر انسانی رویے ہیں۔ سگمنڈ فرائڈ کے نزدیک خیالات کا اظہار کرنے سے فرد کے لاشعوری محرکات، تضادات اور ابطال کا پتہ چلتا ہے۔ خاص طور پر Conflict تصادم کی تمام تر صورت حال سامنے آ جاتی ہے۔
جسے فرائڈ نے Analysis of free association آزاد تلازم تجزیے کا نام دیا۔ جس کے مطابق جب فرد کسی بات یا واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے جہاں رک جاتا ہے یا بات بدل دیتا ہے یا اس کی آواز میں لرزش آ جاتی ہے، اس سے متعلق مزید معلومات لی جاتی ہے۔ لیکن بہت سے لوگ ماہر نفسیات تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ مگر وہ یہ تو کر سکتے ہیں کہ ایک گھر، ادارے یا اجتماعی طور پر بڑی تباہی سے بچنے کے لیے وہ کھلے ذہنوں کے ساتھ ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کر سکتے ہیں۔ ہم آخر ایک دوسرے کی ذہنی آزادی کو کیوں مغلوب کرنا چاہتے ہیں؟ بہر حال قصہ مختصر آج کل صوفیہ مہلک بیماری میں مبتلا ہے۔ اب وہ زندگی کے تمام تر گلے شکوے، مسائل اور محرومیاں بھول چکی ہے۔ اب اس کے لیے فقط یہ بات اہم ہے کہ اسے اپنے بچوں کی خاطر زندہ رہنا ہے۔ اب اس کے لیے فقط زندگی اہم ہے۔ میں اگر اس کے حالات کا تجزیہ کرتی ہوں تو وہ مجھے مظلوم ہوتے ہوئے بھی قصور وار نظر آتی ہے۔ ہم ہمیشہ ظالم کو ہی قصور وار ٹھہراتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ مظلوم کی شخصی کمزوریاں، لاپرواہی اور بے جا مصلحت پسندی کس طرح بہت بڑے طوفانوں کا پیش خیمہ بنتی ہے۔
وہ ظلم سہتی ہے اور مسکراتی ہے۔ یہ رویہ مجھے الجھا دیتا ہے۔ لیکن وہ کبھی کبھی میرے سامنے مسلسل بولتی ہے۔ تمام دکھ کہہ ڈالتی ہے۔
''تم اپنے شوہر سے بات کرو۔ اسے سمجھاؤ سکون کے ساتھ ہو سکتا ہے کہ وہ تمہاری بات سمجھ جائے''۔
''میں اگر کوئی اس کے مزاج کے خلاف بات کہوں تو وہ کوئی بھی چیز اٹھاکر مجھے دے مارتا ہے اور میں خاموش ہو جاتی ہوں۔''
''یہ رویہ وہ تمہاری اجازت سے اپنائے ہوئے ہے۔''
''میری اجازت سے؟'' صوفیہ حیرانی سے کہتی ہے۔
''جو کچھ بھی زندگی میں ہمارے ساتھ برا ہوتا ہے وہ ہم ہی تو ہیں، جو دوسرے کو موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ ہم سے برا سلوک کرے۔'' میری بات سن کر وہ سوچ کی گہرائی میں ڈوب جاتی ہے۔
''تم اگر شہد اور مکھن کے امتزاج سے نہ بنی ہوتیں، اور تمہارا لہجہ ترش اور ماتھے پر تیوریاں ہوتیں تو آج حالات مختلف ہوتے۔''
''ہاں شاید ایسا ہی ہو۔ مگر اللہ میاں نے مجھے ایسا کیوں بنایا ہے؟'' وہ بے بسی سے کہتی۔
''اللہ نے تمہیں عقل بھی دی ہے، جسے استعمال کر کے تم حالات کو بدل سکتی ہو۔''
''میرا ذہن ہی کام نہیں کرتا میں کیا کروں۔'' وہ معصومیت سے کہتی۔
میں نے اسے ہمیشہ یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ بات چیت سے کئی مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ معاشرے کا رویہ بھی ایسا بن چکا ہے کہ جو مسائل کی تکرار تو کرتا ہے مگر حل نہیں ڈھونڈ پاتا۔ جب کہ ہر مسئلے کے دس حل موجود ہوتے ہیں۔ مگر حل دھند کے اس پار کسی روشن ستارے کی طرح پوشیدہ ہوتا ہے۔ یہ مسائل انفرادی ہوں یا اجتماعی ہوں۔ گھروں میں سر اٹھائیں یا گلیوں و محلوں کا سکون تہس نہس کر ڈالیں یا سیاست کے ایوانوں میں نفاق ڈال کر بنیادیں ہلا ڈالیں، جوں کے توں رہتے ہیں۔ لیکن کسی صورت حل ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ سگمنڈ فرائڈ پہلا ماہر نفسیات ہے جس نے Talk Therapy گفتگو کے وسیلے علاج کا طریقہ ڈھونڈ نکالا۔ جس کی جدید صورت Psychotherapy ہے۔ باتوں ہی باتوں میں سوچ کے زاویے بدل جاتے ہیں، مایوسی کے بادل چھٹ جاتے ہیں اور انسان خود رحمی اور شکایتوں کے پیچیدہ جال سے باہر نکل آتا ہے۔
بات یہ نہیں ہے کہ فقط عورت ظلم سہتی ہے کہیں تو مرد بھی استحصال کا شکار ہو جاتا ہے۔ حل ڈھونڈنے کے لیے ذاتی تجزیہ، حقیقت پسندی و برداشت کا ہونا اشد ضروری ہے۔ جس کا فارمولا آسان ہے یعنی برداشت +حقیقت پسندی+ذاتی تجزیہ =حل۔ مسائل کے پہلے مرحلے میں برداشت جواب دے جاتی ہے۔ جس سے کئی جذباتی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ برداشت کا مادہ نہ ہونے کی وجہ سے انسان حقائق کو سمجھ نہیں پاتا۔ غصہ یا جارحیت حقائق کو تسلیم نہ کرنے کا ردعمل ہیں۔ جو ذاتی تجربے کی صلاحیت کو پنپنے نہیں دیتا۔ جس سے دو رویوں کا ٹکراؤ رہتا ہے یعنی جارحیت اور دفاعی عمل۔ جھوٹ، مفاہمت، منافقت، مصلحت زیادہ تر جارحیت کی پیداوار ہیں۔ طاقتور ہمیشہ مظلوم کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس کے بعد جب مظلوم اپنی خود رحمی سے طاقت لے کر ابھرتا ہے تو گھر، ادارے اور یہ پورا معاشرہ افراتفری کا شکار ہو جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ منفی رویوں کو منفی طریقے سے کبھی نہیں روکا جا سکتا۔ مگر مثبت رویہ بہت پیچیدہ مسائل کا حل ڈھونڈ نکالتا ہے۔ کسی بھی رویے کی شدت جب سامنے آتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ تنگ کرنے والے کو مطلوبہ چیز نہیں مل پا رہی ہے۔ عدم توجہی ایسے رویوں کا سبب بنتی ہے۔ جس کا حل فریقین کے مابین بات چیت ہے۔ جس کے لیے تحمل کا ہونا ضروری ہے۔ جہاں بات مزاج کے خلاف ہونے لگتی ہے اسے یا تو سنا نہیں جاتا یا پھر گرما گرم بحث شروع ہو جاتی ہے۔ جس کی مثال ٹی وی کے ٹاک شوز ہیں جہاں چار کھڑکھیاں کھلی ہوتی ہیں۔ اور تمام لوگ ایک ساتھ بول رہے ہوتے ہیں۔ تحمل سے اگر مخالفین کو سنا جائے تو مخالفت مفاہمت میں بدل جاتی ہے۔ تنقید کی صورت جارحانہ رویہ خود اعتمادی کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ جارحانہ انداز بھی بعض اوقات تحفظ فراہم کرتا ہے اس فریق کو جس نے یہ رویہ اپنا رکھا ہے۔ مرد انفرادی یا اجتماعی طور پر جارحانہ رویہ اس لیے اختیار کرتے ہیں تا کہ ان کا مفاد متاثر نہ ہو۔ جیسے صوفیہ کا شوہر پہلے تو بات نہیں سنتا یا جب اسے محسوس ہوتا ہے کہ صوفیہ دلیل اور حقائق کو سامنے رکھ کر بات کر رہی ہے تو وہ ایک دم شور مچا دیتا ہے۔ چیزیں الٹ پلٹ کر کے وہ اپنی برتری ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
صوفیہ بیمار رہنے لگی کیونکہ گھر میں یہ جذباتی و ہیجانی کیفیات اس کی صحت کو متاثر کرنے لگیں۔ شوہر نہ صرف غیر ذمے دار تھا بلکہ بری عادتوں میں مبتلا تھا۔ خالص متوسط طبقے کے لوگوں کے بہت سے مسائل ایسے ہیں جو ظاہری رکھ رکھاؤ اور حد درجہ انا پرستی کی وجہ سے ان کے گھروں کے سکون کو درہم برہم کر دیتے ہیں۔ پھر بھی ایک دن جب ہم اس موضوع پر بات کر رہے تھے تو میں نے اس سے کہا۔
''تمہارے پاس پھر بھی ایک اسپیس ہے، تمہاری جاب ہے، ٹھیک ہے کہ تم خود زندگی کا بوجھ اٹھاتی ہو، مگر پھر بھی تمہاری زندگی بہت سی عورتوں سے قدرے بہتر ہے جن کے پاس کوئی چوائس نہیں ہے۔''
لیکن وہ بضد تھی کہ اس کے ساتھ بہت زیادتی ہو رہی ہے۔ اس کے پاس دو صورتیں تھیں کہ یا تو وہ حقائق کو تسلیم کر لیتی یا پھر بات چیت کے ذریعے معاملات سنبھال لیتی۔ مگر وہ کوئی ایک حل بھی اپنانے کو تیار نہ تھی۔ ہماری معاشرتی زندگی کا یہ المیہ ہے کہ ہم مسائل کا حل نہیں چاہتے۔ جس کا بہترین ذریعہ Dialogue بات چیت ہے۔ ہم مختلف مزاج، رویوں اور مکتبہ فکر کے لوگ اپنی بات کی برتری چاہتے ہیں۔ اور لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانا چاہتے ہیں۔ کہ ہماری سنو، ہم بہترین ہیں۔ اور دوسرے کی ذات کی نفی سے چیزوں کی ترتیب بگڑنی شروع ہوجاتی ہے۔ دوسرے کی ذات کی نفی نرگسی رویوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ اپنی ذات کے محور کے گرد ہونا، فقط اپنی ذات، پسند و ناپسند کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے رہنا غیر انسانی رویے ہیں۔ سگمنڈ فرائڈ کے نزدیک خیالات کا اظہار کرنے سے فرد کے لاشعوری محرکات، تضادات اور ابطال کا پتہ چلتا ہے۔ خاص طور پر Conflict تصادم کی تمام تر صورت حال سامنے آ جاتی ہے۔
جسے فرائڈ نے Analysis of free association آزاد تلازم تجزیے کا نام دیا۔ جس کے مطابق جب فرد کسی بات یا واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے جہاں رک جاتا ہے یا بات بدل دیتا ہے یا اس کی آواز میں لرزش آ جاتی ہے، اس سے متعلق مزید معلومات لی جاتی ہے۔ لیکن بہت سے لوگ ماہر نفسیات تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ مگر وہ یہ تو کر سکتے ہیں کہ ایک گھر، ادارے یا اجتماعی طور پر بڑی تباہی سے بچنے کے لیے وہ کھلے ذہنوں کے ساتھ ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کر سکتے ہیں۔ ہم آخر ایک دوسرے کی ذہنی آزادی کو کیوں مغلوب کرنا چاہتے ہیں؟ بہر حال قصہ مختصر آج کل صوفیہ مہلک بیماری میں مبتلا ہے۔ اب وہ زندگی کے تمام تر گلے شکوے، مسائل اور محرومیاں بھول چکی ہے۔ اب اس کے لیے فقط یہ بات اہم ہے کہ اسے اپنے بچوں کی خاطر زندہ رہنا ہے۔ اب اس کے لیے فقط زندگی اہم ہے۔ میں اگر اس کے حالات کا تجزیہ کرتی ہوں تو وہ مجھے مظلوم ہوتے ہوئے بھی قصور وار نظر آتی ہے۔ ہم ہمیشہ ظالم کو ہی قصور وار ٹھہراتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ مظلوم کی شخصی کمزوریاں، لاپرواہی اور بے جا مصلحت پسندی کس طرح بہت بڑے طوفانوں کا پیش خیمہ بنتی ہے۔