برآمدات میں اضافہ اور مالی دباؤ
محض کپاس کی پیداوار میں اضافے کے علاوہ ہر قسم کی زرعی فصلوں کی پیداوار کو دگنا کرنے کی ضرورت ہوگی۔
جولائی تا اکتوبر 2021 کے ان 4 ماہ کے دوران پاکستان کی کل برآمدات میں تاریخی اضافہ ہوا ہے۔ کئی سال قبل اتنی مالیت کی برآمدات 6 ماہ میں ہوا کرتی تھی۔ دنیا بھر کی معیشت کی سرگرمیاں دوبارہ فعال ہو رہی ہیں اور عالمی تجارت میں تاریخی اضافہ ہو رہا ہے۔
مقدار میں اضافہ یعنی بہت سی کموڈیٹیز جوکہ میٹرک ٹن میں درآمد اور برآمد کی جاتی ہیں اور بہت سی مصنوعات گن کر تعداد کے اعتبار سے یعنی درجن، گُرس، فی ہزار وغیرہ کے حساب سے درآمد اور برآمد کی جاتی ہیں ان کی نسبت مالی اعتبار سے بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر اشیا و مصنوعات خاص طور پر اجناس، ربڑ، پلاسٹک مٹیریلز یا ان کی مصنوعات بنانے کے لیے کیمیکلز مختلف پوڈرز اور مختلف اقسام کے مٹیریلز یا پھر تانبا ، سونا ، سلور، اجناس میں خاص طور پر گندم ، دالیں ، مختلف اقسام کے پھل ، خشک میوہ جات (چلغوزہ کی قیمت میں کمی ہوئی ہے) حتیٰ کہ سبزیاں، کوکنگ آئل گھی وغیرہ کی قیمت میں عالمی سطح پر اضافے نے دنیا کے بیشتر ملکوں کو زبردست تجارتی عدم توازن سے دوچار کردیا ہے۔
دنیا کے بہت سے ترقی پذیر ملکوں کی طرح پاکستان بھی بھاری تجارتی ناموافقت کا شکار ہو چکا ہے کیونکہ پاکستان کی برآمدات کی نسبت درآمدات میں تقریباً تین گنا (2.8) کے اضافے نے تجارتی خسارے کو آسمان سے باتیں کرنے پر مائل کردیا ہے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ رواں مالی سال جسے مالی سال 2020-21 کہا جاتا ہے کے پہلے 4 ماہ جولائی تا اکتوبر تک کی کل برآمدات کی مالیت اگرچہ قابل فخر مالیت تک پہنچ چکی تھی لیکن یہ اعزاز اس وقت چھن گیا جب اس کا موازنہ اسی مدت کی درآمدات سے کیا گیا یعنی 4 ماہ کی کل برآمدات کی مالیت 9 ارب 44 کروڑ40 لاکھ ڈالرز کی رہیں جب کہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں کل برآمدات 7 ارب 57 کروڑ30 لاکھ ڈالرز کی ہونے کے باعث حالیہ برآمدات میں 24.71 فیصد اضافہ ہوا، لیکن کسی بھی معیشت کے بہتر ہونے یا نہ ہونے، برآمدات میں قابل قدر اضافہ ہونے یا نہ ہونے کا پیمانہ اس وقت ہی ناپ سکتے ہیں جب اس کا موازنہ ملکی درآمدات سے کیا جاتا ہے۔
اگر برآمدات زیادہ درآمدات کم ہو تو اسے ملکی معاشی ترقی کی شرح کے بڑھنے ملک کی مالی حالت میں بہتری آنے اور دیگر معاشی اعشاریوں میں بہتری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ جس میں اہم ترین روزگار کے مواقع بڑھ جاتے ہیں اور اس ملک کے عوام کی آمدن بڑھ جاتی ہے لیکن اس کے برعکس معاملہ ہو جیساکہ درآمدات میں ہوش ربا اضافہ ہو جائے جیساکہ ابھی ملکی درآمدات کے اعداد و شمار کو ملاحظہ کرنے کے بعد اس بات کا ادراک ہوگا۔ پی بی ایس کی رپورٹ تازہ ترین کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 4 ماہ کے دوران پاکستان کی کل درآمدات کی مالیت کا حجم 25 ارب 6 کروڑ30 لاکھ ڈالرز کی رہیں۔
جب کہ گزشتہ مالی سال 2019-20 کے دوران اسی دورانیے کی درآمدی مالیت15 ارب 17کروڑ 60 لاکھ ڈالرز کے ساتھ 65.15 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ یہاں پر ماہرین معیشت اس 65 فیصد اضافے کے بجائے اس بات پر انگشت بدنداں ہیں کہ برآمدات میں اگرچہ 25 فیصد اضافہ بھی ہوا ہے لیکن برآمدات کے مقابلے میں درآمدات کی مالیت3گنا سے اگرچہ کم ہے لیکن معیشت کو ڈانواڈول کرنے کے لیے یہ بھی کیا کم ہے۔ پہلے ہی معیشت بے شمار مسائل سے دوچار ہے جن میں مہنگائی، آمدن میں کمی، روزگار کی کمی، مالیاتی دباؤ اور بہت سے معاشی مسائل ہیں۔
اب درآمدات کے یہ اعداد و شمار پاکستان پر مالی دباؤ بڑھنے کا سب سے اہم عنصر ثابت ہو رہا ہے، اگر رفتار اسی طرح تین گنا بڑھنے کی آگے بھی یہی روش رہی تو ایسی صورت میں کتنے ہی مسائل سے سامنا کرنا پڑے گا جس کے احاطے کی اس وقت گنجائش نہیں ہے۔
المختصر یہ کہ اس کے منفی اثرات دوررس اور دیرپا ہوں گے اور ہوش ربا بھی ہوں گے ، کیونکہ پاکستان کو بتدریج ایک درآمدی ملک کے طور پر لے کر آنا ان ترقی پذیر ملکوں کی فہرست میں لاکھڑا کردے گا جن کو ہم غریب ترین ممالک سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہم اسی جانب تیز رفتاری سے سفر کر رہے ہیں۔ اس تیز رفتاری کو سست رفتار کردینا بالکل مشکل کام نہیں ہے بلکہ ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ پاکستان جوکہ ٹیکسٹائل مصنوعات کی پیداوار اس کی برآمدات میں قائدانہ حیثیت رکھتا تھا ، جب کہ دو عشروں سے اس کے مدمقابل ایسے ممالک جن کی کپاس کی پیداوار کی کوئی گنتی بھی نہ تھی۔ انھوں نے پاکستان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
پاکستان کی اس وقت جولائی تا اکتوبر 2021 کی ٹیکسٹائل برآمدات تقریباً 6 ارب ڈالر ہیں اور یہ کسی بھی سال کے پہلے 4 ماہ کی سب سے زیادہ ٹیکسٹائل برآمدات ہیں، لیکن اس کے لیے پہلے پاکستان کو اپنی کپاس کی پیداوار میں دنیا کے چوتھے بڑے ملک کی حیثیت دوبارہ حاصل کرنا ہوگی۔
اس وقت پی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان کی کاٹن امپورٹ کی مالیت 34 کروڑ28 لاکھ 5 ہزار ڈالرز کی رہیں۔ پاکستان خام کپاس ایکسپورٹ کرنے والا اہم ملک کے درجے سے نکل کر کپاس امپورٹ کرنے والا اہم ملک بن چکا ہے۔ کیونکہ گزشتہ مالی سال کے پہلی سہ ماہی میں 20 کروڑ81 لاکھ 13 ہزار ڈالرز کی کپاس امپورٹ کی گئی تھی اس طرح اس سال صرف پہلے تین ماہ میں ہی تقریباً65 فیصد زائد کپاس درآمد کرلی گئی۔ حکومت کئی سال سے ہو سکتا ہے کہ کپاس کی پیداوار سے متعلق زیادہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی لہٰذا اسے اس طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہوگی۔
جیساکہ پہلے عرض کیا گیا کہ پاکستان کو درآمدی ملک بننے کی تیز رفتاری سے کس طرح سست رفتار بنانا ہے۔ اس کے لیے محض کپاس کی پیداوار میں اضافے کے علاوہ ہر قسم کی زرعی فصلوں کی پیداوار کو دگنا کرنے کی ضرورت ہوگی اور ساتھ قابل کاشت رقبے میں اضافے کے علاوہ ان قابل کاشت رقبے کو جسے مصنوعی طور پر یا جان بوجھ کر ویران کیا جا رہا ہے اس کے خلاف سخت پالیسی نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً ہاؤسنگ سوسائٹیاں جوکہ اب تک آباد نہیں ہوئیں اور صرف بورڈ لگا کر سیکڑوں ایکڑ اور کل ملا کر پورے لاکیوں ایکڑ بن جائیں گی ان میں کاشتکاری کی جائے تاوقت یہ کہ آبادی نہ ہو جائے۔
اسی طرح محکمہ ریلوے اور دیگر بہت سے اداروں کے پاس بہت سی زمینیں موجود ہیں جن پر باغات، پھل، سبزیاں حتیٰ کہ زرعی فصلوں کی پیداوار باآسانی حاصل کی جاسکتی ہیں اور سب سے اہم بات جوکہ قابل غور ہے صرف پاکستان میں ہی فی ایکڑ پیداوار کیوں کم ہے؟
کسی حکومت یا متعلقہ حکومتی ادارے یا وزارت نے نا اس پر غور کیا اور نہ ہی اس کا علاج سوچا۔ اگر کبھی کچھ سوچا ہوگا تو اس پر عملدرآمد اس طرح نظر نہیں آرہا کہ پاکستان میں ہر زرعی فصل چاہے وہ گندم، چاول، کپاس، دالیں اور دیگر کیوں نہ ہوں انتہائی پست فی ایکڑ پیداوار حاصل کی جارہی ہے ، جب کہ چین ہو، جاپان، امریکا ہو یا برطانیہ، فرانس ہو یا جرمنی، حتیٰ کہ مصر اور دیگر بہت سے ملکوں میں فی ایکڑ پیداوار پاکستان سے کہیں دو گنا، کہیں تین گنا تک زائد پیداوار حاصل کی جارہی ہے ۔
اس سلسلے میں چین و مصر سے اور ترکی سے بھی کافی معاونت، مشاورت اور تکنیکی تعاون وغیرہ حاصل کرکے ملک میں فی ایکڑ زرعی پیداوار کو دو گنا نہیں تو فوری طور پر ڈیڑھ گنا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
اس طرف توجہ دینے کی فوری ضرورت ہے تاکہ ملک کو فوڈ گروپ کی بڑھتی ہوئی درآمدات اور زرعی اشیا پر مبنی صنعتی اور دیگر غذائی اشیا اور استعمال کی اشیا میں بڑھتے اور تیز رفتاری سے ہونے والی درآمدات کو زیادہ سے زیادہ کم کیا جائے ، اس طرح ملک کے درآمدی ملک کی نسبت برآمدی ملک کی جانب بڑھنے سے مالی دباؤ میں کمی واقع ہوگی۔