وزیراعظم کا ’’فلسفۂ اوپر‘‘
اوپر لے جانے سے یاد آیا ہمارے وزیراعظم کو اوپر لے جانے کا بہت شوق ہے۔
یہ یقین تو ہمارے دل میں راسخ ہے کہ عمران خان صاحب کی حکومت جو کرتی ہے بھلے کے لیے ہے، البتہ اس معاملے میں سوچ بچار کرنا پڑتی ہے کہ کس کے بھلے کے لیے؟ اب تک ہماری سمجھ میں دو قسم کے بھلے آئے ہیں۔
ایک تو ''بھلا کیجے بھلا ہوگا'' والا بھلا، جیسے جہانگیر ترین نے بھلا کیا تو ان کا بھلا ہوا، اور دوسرا ''بھلے سے جس کا بھی بھلا ہو۔'' یعنی بات یہ ہوئی کہ حکومت کسی کے بُرے کے لیے کچھ نہیں کرتی وہ جو بھی اقدام کرتی اور حکمت علمی بناتی ہے وہ کسی کے بھلے ہی کے لیے ہوتی ہے، اور یہ بھلا کس کا ہوگا؟
خود حکومت نہیں جانتی، لیکن کبھی کبھی جانتی بھی ہے۔ اب گورنر اسٹیٹ بینک کے اس بیان ہی کو لیجیے جس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ ''پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت بڑھنا بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے فائدہ مند ہے۔'' اسے کہتے ہیں ''بھلا مانس'' جو ہر ایک کے بھلے کی سوچے۔
گورنراسٹیٹ بینک کے اس بیان پر بلاوجہ تنقید ہورہی ہے۔ بھئی یہ تو فطری بات ہے، جب حکومت میں ''کسی'' کے اپنے بیرون ملک مقیم ہوں اور کسی کو واپس وہیں جانا ہو تو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا مفاد کا خیال تو رکھنا ہوگا۔ آپ تو بس یہ چاہتے ہیں کہ سمندرپار بستے ہم وطنوں کو دیس سے صرف چِٹِّھیاں جاتی رہیں، جنھیں پڑھ کر وہ ''چٹھی آئی ہے۔
آئی ہے '' گاتے اور روتے رہیں یا وہ کبھی دورے پر وطن آئیں تو ''پردیسی پردیسی جانا نہیں'' گاکر انھیں خوش کردیا جائے۔ موجودہ حکومت آپ کی طرح خودغرض نہیں، وہ ''بیرون ملک'' کے۔۔۔۔معاف کیجیے گا۔۔۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے فائدے نقصان کا پورا خیال رکھتی ہے۔
ویسے بھی اب چوں کہ ملک میں خوش حالی کا دورہ ہے، اور اس خوش حالی سے ہونے والی فارغ البالی کے باعث لوگوں پر شادیٔ مرگ کی کیفیت طاری ہے، اور انھیں دل کے دورے پڑ رہے ہیں، معاشی ترقی اتنی ''اوپر'' چلی گئی ہے کہ ایک سیاسی تجزیہ نگار کے مطابق اسے ''آ آ آ'' کرکے نیچے لانا پڑ رہا ہے۔ تو ایسے میں خان صاحب کی سرکار نے سوچا اندرون ملک تو عوام کو سارے فائدے پہنچائے جاچکے، کیوں نہ اب پھلتی پھولتی بلکہ دودھوں نہاتی پوتوں پھلتی معیشت کے ثمرات سمندرپار پاکستانیوں میں بانٹے جائیں، چناںچہ حکومت ڈالر کو اوپر لے گئی۔
اوپر لے جانے سے یاد آیا ہمارے وزیراعظم کو اوپر لے جانے کا بہت شوق ہے۔ یہ شوق انھیں اس وقت ہوا جب انھوں نے علامہ اقبال کا شعر پڑھا: ''خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے، خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے'' ان پر اس شعر نے بہت اثر کیا۔ وہ خودی تو بلند نہ کرسکے، تاہم ''خود ہی'' کو اوپر لے جاتے لے جاتے اتنا اوپر لے گئے ہیں کہ نیچے دیکھتے ہیں تو اندرون ملک اور بیرون ملک ایک ہی نظر آتا ہے، اور انھی پتا ہی نہیں چل پاتا کہ ان کی حکومت نے کون سی حکمت عملی بنائی اور کون سا اقدام کیا تو اندرون ملک کے فائدے لیے مگر اس کے فوائد بیرون ملک جارہے ہیں۔
اسی اونچائی کے باعث انھیں جاپان اور جرمنی پڑوسی دکھائی دیتے ہیں۔ ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ بلندی پر پہنچ کر جب تقدیر اور خان صاحب کی تقریر سے پہلے ان سے پوچھا گیا۔۔۔۔عمران ''آپ'' کی رضا کیا ہے؟ تو انھوں نے جھٹ جواب دیا،''میں راضی بہ رضا باقر ہوں۔''
خان صاحب چوں کہ خود اوپر ہیں اور وہ مساوات کے قائل ہیں، چناں چہ ہر ایک کو اوپر لے جانا چاہتے ہیں، چاہے وہ غریب ہوں، معیشت ہو، ڈالر ہو، معاشرہ ہو، اخلاقیات ہو پیٹرول کے نرخ ہوں یا دیگر اشیاء کی قیمتیں۔ ان کا ہر ایک سے بس ایک ہی مطالبہ اور ہر ایک کے لیے بس ایک ہی خواہش ہے۔۔۔۔''ہور اوپر۔''
وزیراعظم کے اس ''فسلفۂ اوپر'' سے ہم سو فی صد متفق ہیں، ہم نے خود ان گناہ گار آنکھوں سے کتنے ہی لوگوں کو اوپر کی کمائی سے پھلتے پھولتے اور دولت مند ہوتے دیکھا ہے۔ ہر ایک نے ہمیشہ ہم سے یہی کہا کہ اونچائی اور بلندی ہی ترقی ہے۔ سو ہم یہی مانتے ہیں کہ اگر کوئی یا کچھ اوپر جارہا ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ ترقی ہورہی ہے۔ وزیراعظم کی طرف سے بار بار ''اوپر'' کے ذکر نے تو ہمارے اوپر کے خانے میں یہ خیال پور طرح فِٹ کردیا کہ جسے عام لوگ بڑھنا کہتے ہیں وہ دراصل اوپر جانا ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر یہ کہنا غلط ہے کہ آپ کی عمر بڑھ رہی ہے، اسے ''نوں'' کہنا چاہیے کہ بھیا! آپ رفتہ رفتہ اوپر جارہے ہیں۔ بس تو اب آپ بھی اپنے فکری مغالطے سے باہر آکر ہماری عقلی دائرے میں داخل ہوجائیں، پھر آپ کو نظر آئے گا کہ پیٹرول کی قیمت بڑھی ہرگز نہیں اوپر گئی ہے، ڈالر کے نرخوں میں اضافہ نہیں ہوا انھیں بلندی عطا ہوئی ہے، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں بڑھوتری کا سوچنا بھی گناہ ہے انھیں اونچائی نصیب ہوئی ہے، اشیائے خورونوش کے بھاؤ بڑھ نہیں رہے اوپر کی طرف چڑھ رہے ہیں اور غریب جو حالات کے باعث بہ ظاہر ''نیچے'' جارہے ہیں وہ درحقیقت اوپر بلکہ بہت ہی اوپر چلے گئے ہیں، ان میں سے کچھ تو ذرا دیر آپ کے کندھے کے اوپر بھی رہے ہوں گے، تب ہی آپ کو اندازہ کر لینا چاہیے تھا کہ ان کا سفر اوپر کی طرف ہے۔
آپ کیوں کہ معاملات کو ''اوپراوپر'' سے دیکھ رہے ہیں اس لیے آپ کو دکھائی نہیں دے رہا کہ عمران خان صاحب کے اقتدار میں آنے یا ہمارے اوپر آنے کے بعد سے سب کچھ اوپر جارہا ہے۔ بہت کچھ تو اتنا اوپر جاچکا ہے کہ نظر ہی نہیں آرہا، جیسے چین، سکون، اطمینان۔ کسی اور شئے کی کیا حیثیت ہمارے وزیراعظم تو پورے کے پورے ملک ہی کو اوپر لے جانے پر تُلے ہیں، کتنی اوپر؟۔۔۔اس کے بارے میں ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا نہ جانے ان کا ارادہ کیا ہے، وہ ملک کو جنت بنا دیں گے یا جنت میں جگہ دیں گے۔۔۔۔اوپر والا جانے۔
ایک تو ''بھلا کیجے بھلا ہوگا'' والا بھلا، جیسے جہانگیر ترین نے بھلا کیا تو ان کا بھلا ہوا، اور دوسرا ''بھلے سے جس کا بھی بھلا ہو۔'' یعنی بات یہ ہوئی کہ حکومت کسی کے بُرے کے لیے کچھ نہیں کرتی وہ جو بھی اقدام کرتی اور حکمت علمی بناتی ہے وہ کسی کے بھلے ہی کے لیے ہوتی ہے، اور یہ بھلا کس کا ہوگا؟
خود حکومت نہیں جانتی، لیکن کبھی کبھی جانتی بھی ہے۔ اب گورنر اسٹیٹ بینک کے اس بیان ہی کو لیجیے جس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ ''پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت بڑھنا بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے فائدہ مند ہے۔'' اسے کہتے ہیں ''بھلا مانس'' جو ہر ایک کے بھلے کی سوچے۔
گورنراسٹیٹ بینک کے اس بیان پر بلاوجہ تنقید ہورہی ہے۔ بھئی یہ تو فطری بات ہے، جب حکومت میں ''کسی'' کے اپنے بیرون ملک مقیم ہوں اور کسی کو واپس وہیں جانا ہو تو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا مفاد کا خیال تو رکھنا ہوگا۔ آپ تو بس یہ چاہتے ہیں کہ سمندرپار بستے ہم وطنوں کو دیس سے صرف چِٹِّھیاں جاتی رہیں، جنھیں پڑھ کر وہ ''چٹھی آئی ہے۔
آئی ہے '' گاتے اور روتے رہیں یا وہ کبھی دورے پر وطن آئیں تو ''پردیسی پردیسی جانا نہیں'' گاکر انھیں خوش کردیا جائے۔ موجودہ حکومت آپ کی طرح خودغرض نہیں، وہ ''بیرون ملک'' کے۔۔۔۔معاف کیجیے گا۔۔۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے فائدے نقصان کا پورا خیال رکھتی ہے۔
ویسے بھی اب چوں کہ ملک میں خوش حالی کا دورہ ہے، اور اس خوش حالی سے ہونے والی فارغ البالی کے باعث لوگوں پر شادیٔ مرگ کی کیفیت طاری ہے، اور انھیں دل کے دورے پڑ رہے ہیں، معاشی ترقی اتنی ''اوپر'' چلی گئی ہے کہ ایک سیاسی تجزیہ نگار کے مطابق اسے ''آ آ آ'' کرکے نیچے لانا پڑ رہا ہے۔ تو ایسے میں خان صاحب کی سرکار نے سوچا اندرون ملک تو عوام کو سارے فائدے پہنچائے جاچکے، کیوں نہ اب پھلتی پھولتی بلکہ دودھوں نہاتی پوتوں پھلتی معیشت کے ثمرات سمندرپار پاکستانیوں میں بانٹے جائیں، چناںچہ حکومت ڈالر کو اوپر لے گئی۔
اوپر لے جانے سے یاد آیا ہمارے وزیراعظم کو اوپر لے جانے کا بہت شوق ہے۔ یہ شوق انھیں اس وقت ہوا جب انھوں نے علامہ اقبال کا شعر پڑھا: ''خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے، خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے'' ان پر اس شعر نے بہت اثر کیا۔ وہ خودی تو بلند نہ کرسکے، تاہم ''خود ہی'' کو اوپر لے جاتے لے جاتے اتنا اوپر لے گئے ہیں کہ نیچے دیکھتے ہیں تو اندرون ملک اور بیرون ملک ایک ہی نظر آتا ہے، اور انھی پتا ہی نہیں چل پاتا کہ ان کی حکومت نے کون سی حکمت عملی بنائی اور کون سا اقدام کیا تو اندرون ملک کے فائدے لیے مگر اس کے فوائد بیرون ملک جارہے ہیں۔
اسی اونچائی کے باعث انھیں جاپان اور جرمنی پڑوسی دکھائی دیتے ہیں۔ ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ بلندی پر پہنچ کر جب تقدیر اور خان صاحب کی تقریر سے پہلے ان سے پوچھا گیا۔۔۔۔عمران ''آپ'' کی رضا کیا ہے؟ تو انھوں نے جھٹ جواب دیا،''میں راضی بہ رضا باقر ہوں۔''
خان صاحب چوں کہ خود اوپر ہیں اور وہ مساوات کے قائل ہیں، چناں چہ ہر ایک کو اوپر لے جانا چاہتے ہیں، چاہے وہ غریب ہوں، معیشت ہو، ڈالر ہو، معاشرہ ہو، اخلاقیات ہو پیٹرول کے نرخ ہوں یا دیگر اشیاء کی قیمتیں۔ ان کا ہر ایک سے بس ایک ہی مطالبہ اور ہر ایک کے لیے بس ایک ہی خواہش ہے۔۔۔۔''ہور اوپر۔''
وزیراعظم کے اس ''فسلفۂ اوپر'' سے ہم سو فی صد متفق ہیں، ہم نے خود ان گناہ گار آنکھوں سے کتنے ہی لوگوں کو اوپر کی کمائی سے پھلتے پھولتے اور دولت مند ہوتے دیکھا ہے۔ ہر ایک نے ہمیشہ ہم سے یہی کہا کہ اونچائی اور بلندی ہی ترقی ہے۔ سو ہم یہی مانتے ہیں کہ اگر کوئی یا کچھ اوپر جارہا ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ ترقی ہورہی ہے۔ وزیراعظم کی طرف سے بار بار ''اوپر'' کے ذکر نے تو ہمارے اوپر کے خانے میں یہ خیال پور طرح فِٹ کردیا کہ جسے عام لوگ بڑھنا کہتے ہیں وہ دراصل اوپر جانا ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر یہ کہنا غلط ہے کہ آپ کی عمر بڑھ رہی ہے، اسے ''نوں'' کہنا چاہیے کہ بھیا! آپ رفتہ رفتہ اوپر جارہے ہیں۔ بس تو اب آپ بھی اپنے فکری مغالطے سے باہر آکر ہماری عقلی دائرے میں داخل ہوجائیں، پھر آپ کو نظر آئے گا کہ پیٹرول کی قیمت بڑھی ہرگز نہیں اوپر گئی ہے، ڈالر کے نرخوں میں اضافہ نہیں ہوا انھیں بلندی عطا ہوئی ہے، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں بڑھوتری کا سوچنا بھی گناہ ہے انھیں اونچائی نصیب ہوئی ہے، اشیائے خورونوش کے بھاؤ بڑھ نہیں رہے اوپر کی طرف چڑھ رہے ہیں اور غریب جو حالات کے باعث بہ ظاہر ''نیچے'' جارہے ہیں وہ درحقیقت اوپر بلکہ بہت ہی اوپر چلے گئے ہیں، ان میں سے کچھ تو ذرا دیر آپ کے کندھے کے اوپر بھی رہے ہوں گے، تب ہی آپ کو اندازہ کر لینا چاہیے تھا کہ ان کا سفر اوپر کی طرف ہے۔
آپ کیوں کہ معاملات کو ''اوپراوپر'' سے دیکھ رہے ہیں اس لیے آپ کو دکھائی نہیں دے رہا کہ عمران خان صاحب کے اقتدار میں آنے یا ہمارے اوپر آنے کے بعد سے سب کچھ اوپر جارہا ہے۔ بہت کچھ تو اتنا اوپر جاچکا ہے کہ نظر ہی نہیں آرہا، جیسے چین، سکون، اطمینان۔ کسی اور شئے کی کیا حیثیت ہمارے وزیراعظم تو پورے کے پورے ملک ہی کو اوپر لے جانے پر تُلے ہیں، کتنی اوپر؟۔۔۔اس کے بارے میں ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا نہ جانے ان کا ارادہ کیا ہے، وہ ملک کو جنت بنا دیں گے یا جنت میں جگہ دیں گے۔۔۔۔اوپر والا جانے۔