کچھ علاج اس کا بھی اے ’’ چارہ گراں‘‘ ہے کہ نہیں

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 70 لاکھ ہے جن میں آٹھ لاکھ ہیروئن پینے والے ہیں۔


نائلہ شاہد November 07, 2021
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 70 لاکھ ہے جن میں آٹھ لاکھ ہیروئن پینے والے ہیں ۔ فوٹو : فائل

LONDON: '' باجی ! میں کیا کروں ، وہ مچھلی کی طرح تڑپتا ہے ، میرا کلیجہ کٹنے لگتا ہے۔''
اپنی جوان اولاد کو اس حالت میں دیکھ کر حاجرہ روتے ہوئے اپنے بیٹے کی بربادی کا قصہ سنا رہی تھی ۔ آج پھر اسے تنخواہ کے پیسے ایڈوانس میں چاہیے تھے ۔ اپنے نشئی بیٹے کے نشے کے لیے حاجرہ کئی بار اس کا علاج کروا چکی تھی لیکن وہ دوبارہ ماحول کا شکار ہو کر نشہ شروع کر دیتا۔ یہ نشے کرنے والے کہیں چھپ کر نشہ نہیں کرتے بلکہ آپ کو نالوں کے پیچھے ، پلوں کے نیچے ، پرانی خستہ حال گاڑیوں کے اندر اور فٹ پاتھوں پر سرعام ملیں گے ۔ سب کو نظر آتے ہیں لیکن پولیس کو نظر نہیں آتے شاید ، اگر نظر آتے ہیں تو پولیس انھیںکچھ نہیں کہتی ۔

یہ آپ کو پاکستان کے ہر شہر میں ملیں گے ، کراچی کے مضافات میں بھی ان کی بہت بڑی تعداد نظر آتی ہیمثلاً بلدیہ ٹاون ، لیاری ، اورنگی ، سرجانی ، شیرشاہ ، گارڈن ، دھوبی گھاٹ ، کیماڑی اور ہاکس بے کے گوٹھ ۔ اس کے علاوہ بھی کئی کچی بستیاں ہیں جہاں اپنے جسموں میں زہر اتارنے والوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہوتی ہے ۔ ان میں زیادہ تر نوجوان طبقہ ہی ہوتا ہے ۔ پاکستان میں جس قدر زیادہ نشہ کرنے والوں کی تعداد ہے ، اس سے کہیں زیادہ منشیات فروشوں کی تعداد ہے لیکن وہ نظر نہیں آتے۔ وہ کہاں ہوتے ہیں؟کیسے منشیات کی خرید وفروخت کرتے ہیں ؟ ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لئے شاید قانون کے پاس وقت نہیں۔

ایک اندازے کے مطابق 25 اقسام کے نشے نوجوان نسل کی تباہی کا سبب بن رہے ہیں۔ پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق منشیات کے عادی افراد کی تعداد 70 لاکھ ہے۔ ان میں سے چار لاکھ تو منشیات کے باقاعدہ عادی ہیں ، انھیں کسی وقت نشہ کا سامان نہ ملے تو وہ تڑپنے لگتے ہیں جیسے کہ حاجرہ کا جوان بیٹا۔ یہاںآٹھ لاکھ افراد ہیروئن پیتے ہیں۔ نشے کی یہ عادت ہر سال تقریباً ڈھائی لاکھ ہلاکتوں کی وجہ بنتی ہے ۔ ' اینٹی نارکوٹکس فورس' ہر سال کروڑوں روپے مالیت کی منشیات ضبط کرتی اور اسے تلف کرتی ہے۔اقوام متحدہ کے ادارے ' یونائیٹیڈ نیشنز آفس آن ڈرگز اینڈ کرائم ' کے مطابق پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں منشیات کے عادی افرادسب سے زیادہ ہیں۔ پاکستان کی مجموعی آبادی اور اس میں منشیات کے عادی افراد کے تناسب کے لحاظ سے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت منشیات کی روک تھام کے لیے جتنی بھی کوششیں کر رہی ہے وہ ابھی تک کافی ثابت نہیں ہوئیں اور ان میں مزید اضافے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں منشیات استعمال کرنے والے شہریوں کی تعداد کتنی ہے؟ اس حوالے سے وفاقی یا صوبائی حکومتیں اعداد و شمار جمع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں ۔ اقوام متحدہ کا منشیات اور جرائم کی روک تھام کا دفتر اپنے طور پر کچھ ریسرچ کرتا ہے۔یو این او ڈی سی ، اقوام متحدہ کا یہ دفتر بین الاقوامی سطح پر منشیات کے استعمال اور ان کی تجارت سے متعلق حقائق جمع کرتا ہے۔ اس کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں منشیات اور نشہ اور ادویات کا غیر قانونی استعمال کرنے والے افراد کی تعداد66 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔

ان میں بھی سب سے زیادہ تعداد 25 سے 39 برس تک کی عمر کے افراد کی ہے۔ دوسرا بڑا گروہ 15 سال سے 24 سال تک کی عمر کے نوجوانوں کا ہے۔ قریباً 70 لاکھ افراد میں سے42 لاکھ ایسے ہیں جو نشے کے مکمل طور پر عادی ہوچکے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے منشیات کے استعمال کے خلاف مؤثر کارروائی کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ منشیات فروشوں اور منشیات استعمال کرنے والوں میں روز بہ روز اضافہ ہو رہاہے۔

پاکستان میں منشیات کے عادی افراد ہیروئن کا استعمال اور شراب نوشی بھی کثرت سے کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا نشہ چرس ہے جو تمباکو کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی چشم پوشی اور غفلت کے باعث منشیات فروشوں نے قبرستانوں کو محفوظ پناہ گاہ بنا لیا ہے۔ منشیات اور شراب کے عادی افراد نے قبرستانوں میں ڈیرے قائم کئے ہوئے ہیں۔ اور تو اور قبرستانوں میں جوئے کے اڈے بھی قائم ہو چکے ہیں۔ منشیات فروش شام ہوتے ہی قبرستانوں میں منشیات فروخت کرنے کے لئے پہنچ جاتے ہیں ۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ پولیس اس سارے دھندے سے فائدہ اٹھاتی ہے، اسے بخوبی علم ہوتا ہے کہ کون ، کہاں منشیات فروشی کررہا ہے ۔ اگر ان اطلاعات کیصحت پر یقین نہ بھی کیا جائے تو یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ پولیسسب کچھ جاننے کے باوجود خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی ہے۔

اب تو بات قبرستانوں سے بھی آگے شاندار قسم کی انسانی آبادیوں تک جا پہنچی ہے ۔ بیشتر اچھے علاقوں میں بھی منشیات فروشی اورمنشیات نوشی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ منشیات فروشی کی لعنت جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ یہ پولیس کے تعاون اور سرپرستی کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔ ایک سروے کے دوران میں یہ بات سا منے آئی کہ پاکستان میں اس وقت25 سے زائد اقسام کے نشوں کا استعمال ہو رہا ہے جسے غریب طبقہ سے لے کر امیر طبقہ کی لڑکیاں اور لڑکے بھی استعمال کرتے ہیں ۔

منشیات کی اقسام میں بوٹی ، بھنگ ،ہیروئن ، چرس، صمد بونڈ، انجکشن ، کوریکس، ٹینو شربت ، کوکین، شراب، پٹرول ، نشہ آور 81گولیاں ، نشہ آور پکوڑے ، بھنگ کے پاپڑ ، افیون، گانجا ، گٹکا مقبول ہیں ۔ منشیات کی یہ ساری اقسام چوراہوں کے علاوہ ، قبرستانوں ، مزاروں ، تفریحی پارکوں سمیت شہر کے بے شمارعلاقوں، گلیوں ، خالی پلاٹوں ، زیر تعمیر مکانوں، گندے نالوں پر فروخت ہورہی ہیں۔ جہاں شراب ، چرس ، کوکین، افیم اور شیشہ کے نشے کیے جاتے ہیں ۔ ایسے واقعات بھی ہوچکے ہیں جن میں نشئی افراد نشہ کے لیے خرچہ نہ ملنے پر اپنی ماں ، باپ، بھائی ، بہنوں اور بیویوں کو موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں۔ وہ اپنا نشہ پورا کرنے کے لیے محلہ کے باہر کھڑی گاڑیوں ، موٹرسائیکلوں کے شیشے یا پھر ویل کپ ، چھوٹے بڑے اسپئیر پارٹس ، گلیوں میں گٹروں کے ڈھکن اور سرکاری ٹیوب لائٹس تک بھی چوری کر لیتے ہیں۔

حشیش، ہیروئن، بھنگ ، ٹرینکولائزر، کوکین اور افیم شہر میں ہر جگہ دستیاب ہے۔ نجی اور عوامی شعبے میں منشیات کے استعمال کی روک تھام کا مناسب پروگرام نہ ہونے کے باعث منشیات فروشی کا دھنداخوب پھل پھول رہا ہے۔ درگاہیں ، مزار ، قبرستان اور اس کے اطراف کا علاقے زائرین کو نشانہ بنانے کے لئے منشیات فروشوں کی محفوظ پناہ گاہیں بن چکے ہیں۔گردا جو چرس کی ایک بہتر قسم ہے، کی خواتین اور طلبہ و طالبات میں خاصی مانگ ہے ۔ یہ منشیات کی ہلکی کوالٹی کے مقابلے میں نسبتاً مہنگا ہوتا ہے۔ سابقہ سطور میں تذکرہ کیا جاچکا ہے کہ پولیس بھی منشیات کے دھندے سے واقف ہوتی ہے اور اس سے مالی فائدہ اٹھاتی ہے۔ منشیات کے ڈیلرز اپنے کاروبار کے تحفظ اور قانونی کارروائی سے بچنے کے لئے عام طور پر ماہانہ 10 سے 15 ہزار علاقے کے ایس ایچ او کو دیتے ہیں ۔

بڑے شہروں میں شیشہ پارلرز کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر لوگوں نے اپنا بزنس کا مقام تبدیل کر لیا۔ اب وہ بھی شیشہ کیفے میں بہ آسانی چرس اور ہیروئن فروخت کرتے ہیں۔ وہ اسے کافی محفوظ سمجھتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس دھندے سے وابستہ تمام افراد انتہائی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ صرف کراچی شہر میں300 سے زائد شیشہ بار کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر پوش علاقوں میں واقع ہیں اور ان میں سے اکثر بارز میں پرائیویٹ کمرے ہیں جہاں نوجوانوں کو ہر طرح کا نشہ فراہم کیا جاتا ہے۔ یہاں بہت سے منشیات فروش شیشہ کیفے کو براہ راست نارکوٹکس سپلائی کر رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان شیشہ گھروں کے مالکان کی مانگ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ شیشہ پینے والے آگ میں چلم کا استعمال کرتے ہوئے چرس اور ہیروئن ملاتے ہیں۔

کراچی چرس پینے والا دنیا کا دوسرا بڑا شہر ، جرمن کمپنی کی رپورٹ
پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی دنیا میں سب سے زیادہ چرس استعمال کرنے والے شہروں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر آ گیا ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ کا شہر نیو یارک پہلے نمبر پر ہے۔ جرمن کمپنی ' اے بی سی ڈی ' کی تحقیق کے مطابق نیو یارک میں سالانہ 77 ٹن سے زائد چرس استعمال کی جاتی ہے جبکہ دوسرے نمبر پر کراچی آتا ہے۔

یہ حقائق انتہائی کرب ناک اور دلوں کو دہلانے والے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کو معاشی بحران اور مادہ پرستی کی دوڑ میں لگا کر شدید ڈپریشن میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔ وہ اس ڈپریشن سے نکلنے کا واحد علاج ان جان لیوا نشوں ہی کو سمجھتے جاتے ہیں۔ اور وہ انھیں کسی بھی قیمت پر حاصل کرتے ہیں۔

حاجرہ جیسی کئی مائیں آپ کو روتی ، سسکتی نظر آئیں گی جن کی جوان ، کڑیل اولادیں ماں باپ کا سہارا بننے کے بجائے اس لعنت کا شکار ہو کر ، ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دے دیتی ہیں۔ اس زہر کا ادراک کسی کو نہیں کہ نشئی کے بیوی بچے کس اذیت سے گزرتے ہیں ۔ معاشرے کو ایک نشئی کتنے اور نشئی دیتا ہے ، ایک انتہائی ہولناک حقیقت ہے ۔مردم شماری کرتے وقت حکومت اگر اس مرد کا موجودہ اسٹیٹس بھی معلوم کرلے کہ وہ کیا کرتا ہے تو شائد نشئی خاندان کا نام زندوں میں نہ شمار کرے ۔آخر اتنے بڑے جرم اور اتنے آزادانہ قتل عام پر کیوں خاموشی سی خاموشی ہے۔

پولیو ، کورونا ، چھاتی کے کینسر کے خلاف جس طرح ایکشن لیا گیا ایسے ہی منشیات کے زہر اور اسے فروغ دینے والوں کے خلاف بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ ان اسباب کو ختم کیا جائے جو نوجوانوں کو اس ہلاکت خیز راستے کی طرف لے جاتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |