وہ ڈَم ڈَم کی جھاڑیاں اور پھولوں سے مہکتی فضا

گزرے ہوئے ایام کی کچھ سنہری یادیں۔


علی فیصل عباسی November 07, 2021
گزرے ہوئے ایام کی کچھ سنہری یادیں۔ فوٹو : فائل

TAIPEI: روزنامہ ایکسپریس سنڈے میگزین مورخہ 18ستمبر2021 میں گزرے ہوئے ایام کی یادوں کے حوالے سے لکھے گئے اقتباسات کو لواحقین و حلقۂ احباب، دوستوں نے سند پذیرائی دی جس کے لیے خاکسار سب کا تہہ دل سے مشکور و ممنون ہے۔ علاوہ ازیں کچھ دوستوں نے مزید یادداشتوں کو لکھنے کی فرمائش کی ہے۔ اس لیے مزید پیش خدمت ہے۔

سی او ڈی مکان نمبر 75/2 میں جب ہم سعود آباد سے منتقل ہوئے تھے تو میں بہت کم سن تھا لیکن مجھے آج تک پہلا دن اچھی طرح سے یاد ہے کہ ہری کڑیوں کے جالی دار گیٹ میں داخل ہوتے ہی دونوں جانب دو رویا ڈم ڈم کی جھاڑیاں اور اطراف باغ میں پھولوں کی ملی جلی مہک دار فضاء نے استقبال کیا تھا۔ اس وقت ہی وہ خوابیدہ اور سکون والی فضاء آج تک ذہن میں محفوظ ہے۔

ہم چھے بہن بھائی، دوستوں نے گورنمنٹ سی او ڈی اسکول سے پڑھا۔ اس وقت کے اساتذہ ہر بچّے پر کڑی نظر رکھتے تھے بل کہ ہر بچّے کی نفسیات، عادت اور حرکات کا بھی انہیں اچھی طرح علم ہوتا تھا۔ مجید ماسٹر کی شفقت، امین ماسٹر کا پڑھانے کا انداز اور سندھی کے ٹیچر کا مزاح کے انداز میں پڑھانا بہت منفرد اور خوب تھا۔ گورنمنٹ اسکول میں ہر مکتبہ فکر اور کلاس کے بچّے تھے لیکن کوئی احساس کم تری و برتری نہ تھا۔ سی او ڈی گورنمنٹ اسکول گھر سے کوئی ڈیڑھ میل ہوگا لیکن ہم پیدل روڈ کراس کرکے اسکول جاتے تھے۔

سی او ڈی کی تالاب والی مسجد جو گرائونڈ (ہاکی، کرکٹ) کے دائیں طرف CSD کینٹین کے ساتھ تھی وہاں کھجور کی چٹائی پر جمعے کو نماز پڑھنا الگ ہی لطف و سرور دیتا تھا۔ پرسکون زمانہ، پرسکون ماحول۔ آرمی کی بیرکس، ڈپو اور دیگر دفاتر ہونے کے باوجود نہ صرف بچّے بلکہ بڑے بھی بے فکر اور آزادی کے ساتھ ان علاقوں میں آتے جاتے تھے۔ کسی قسم کا خطرہ یا کوئی خوف نہ ہمیں تھا نہ اس وقت پاک فوج کے ان حساس علاقوں کے پاسبانوں کو۔ آرڈیننس اسٹیٹ (محلہ) چاروں اطراف سے کیکر کے درختوں سے گِھرا ہوا تھا اور دن اور رات کے اوقات میں سپاہی اپنی ڈیوٹی پر پہرا دیتے تھے۔

اکثر رات کو ان کے (HALT) کہنے پر ہڑبڑا کر آنکھ کھل جاتی تھی۔ دوستوں نے ان سپاہیوں کی گنیں دیکھ کر ان جیسی نقلی لکڑی کی گنیں بھی بنائیں تھیں۔ کچھ عرصہ پہلے کوئی ڈھائی سال قبل اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایک عرصّہ بعد والد صاحب کا تعارف کرواکر اور کارڈ وغیرہ دکھاکر موجودہ سی او ڈی جانا ہوا تو دل دھک سے رہ گیا، وہ پرانا سی او ڈی جو خیالوں و یادوں میں تھا مکمل طور پر تبدیل ہوچکا ہے۔ نہ وہ باغ رہا نہ وہ کیکر کے درختوں کا جنگل نہ وہ بیرک والے کھپریلوں کے گھر جن کی گلابی کھپریلوں پر 1865ء وغیرہ کی تاریخ درج تھی۔ چند بالکل ٹوٹے پھوٹے خستہ گھر باقی بچے تھے جن کو توڑ کر دوبارہ سے نئی تعمیرات کی جارہی تھی۔ اونچائی پر ڈھلوان پہاڑی جس پر بیٹھ کرہم ہوا خوری کرتے تھے، وہ بھی غائب تھی۔ جگہ جگہ گیٹ اور چوکیاں بن گئی ہیں کیوں کہ اب تحفظ کا مسئلہ شدید ہوچکا ہے۔

فلیٹ نما مکان اور آفس بن چکے ہیں اور ''پنّو سیٹھ کا باڑا'' سب غائب ہوچکا ہے۔ فلیٹ نما مکان تبدیل ہوچکا۔ وہ سرخ و سفید ''حیدر بابا'' جن سے انڈے لیتے تھے ان کا سرونٹ کوارٹر سب کچھ ختم ہوچکا محاورتاً وہی بات کہ ''دلی اجڑ چکی تھی'' صرف اسپتال ایم آئی روم (M I Room) ویسا ہی حالت میں دکھائی دیا اور گیٹ پر وہی (M I Room) لکھا دیکھ کر اور گلابی کھیریلوں کو اپنی جگہ دیکھ کر بہت خوشی و طمانیت ہوئی اور کچھ سعاعتوں کے لیے اسی دور میں پہنچ گئے۔ ان جگہوں کی فوٹو وغیرہ بھی ہم نے لی۔

ہم جس مکان میں رہتے تھے وہاں کچھ ٹوٹی دیوار اور کمرے کے آثار نظر آئے لیکن شدت اور وارفتگی سے اپنے مکان کی باقیات ڈھونڈنے کی کوشش کرتے رہے کہ آیا یہ ہمارا ہی گھر ہے یا برابر والوں کا لیکن صحیح تعین نہ ہوسکا کے وہاں بیرک بن گئی ہے اور فوجی ٹرک وغیرہ کھڑے تھے۔ غالباً جس جگہ ہمارا گھر تھا عین وہاں ایک بہت ہی خوب صورت مسجد بن گئی ہے جسے دیکھ کر یہ خوشی اور احساس ہوا کہ چلیں گھر کی جگہ مسجد بن جانا باعث سعادت و خوشی ہے۔

سی او ڈی کے دوست شاہد، زاہد، رحمت اﷲ، وسیم بھائی، شجاعت شاہ، تنویر (رابطے میں ہیں) اور فہیم انجم فاروقی (ریٹائرڈ کرنل صاحب) یہ سب ان کی یادیں اور ساتھ بیتے دن ہمیشہ یادوں میں رہیں گے۔

والدہ آسیہ خورشید جو ماشاء اﷲ عمر عزیز کے 86 ویں برس میں ہیں کچھ صحت کی طرف سے مسائل کا شکار ہیں۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ انہیں اپنے کرم سے صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائیں اور ان کا سایا ہمارے سروں پر قائم رہے (آمین ثمہ آمین) اس زمانے میں ماسی وغیرہ کا دور نہ تھا۔ گھر کے تمام کام کھانا پکانا، جھاڑو پونچھا، برتن دھونا غرض یہ کہ چھے عدد بچوں کی تعلیم تربیت ان کے کپڑوں، عید بقرعید کے معاملات، رشتہ داریاں نبھانا جیسا کہ اس زمانے میں رشتہ داروں کا ہفتے بھر آکر رہنا نہ معیوب لگتا تھا نہ کھلتا تھا۔ سارے معاملات امّی نے زندگی میں بہت ہمت، حوصلے، صبر اور برداشت کے ساتھ نبھائے اور بے شک ایک نہایت محنتی اور مشقت والی زندگی گزاری جو کہ یقیناً ایک اعلیٰ ترین مثال ہے جبکہ امّی نے اپنے گھر میں نوکر چاکر، غلّہ و زمین داری والا دور دیکھا تھا۔

حویلی و دریا کے کنارے رہائش پھر وہاں سے سعود آباد اور اس سے پہلے بھاول پور و پنڈی کا دور۔ سعود آباد میں تو ایک چھوٹے سے کوارٹر میں گزارا کیا لیکن خوش دلی و دل جوئی کے ساتھ۔ بے شک آج کی بچیاں ان حالات و اس دور کی خواتین کی زندگیوں کو نہیں سمجھ سکتیں کہ کیسے کیسے مشکل حالات گزرے لیکن اس وقت نہ صرف خواتین اپنے شوہر کی خوشی، آسائش، خدمت اور کھانے وغیرہ کا ہر وقت خیال رکھتی تھیں بلکہ شوہر کے خاندان والوں ، محلے داری، بچوں کی پرورش، خوشی غمی کے معاملات یہاں تک کے بچّوں کی بیماری و مسائل سب میں آگے آگے رہتی تھیں۔ آفرین ہے اس وقت کی عورتوں کی قربانیوں اور تگ ودو پر۔

سی او ڈی کے بڑے گھرکی صفائی ستھرائی وغیرہ بھی کرنا امی کا کام تھا، کیوں کہ گھر بڑا اور کھلا تھا پیچھے صحن، سامنے ڈم ڈم کی جھاڑیوں کے ساتھ دنوں طرف لان تھے الٹے ہاتھ پر باغ تھا۔ سامنے سیدھے ہاتھ کے صحن میں شام کے وقت چھڑکائو کرکے 500 والٹ کا بلب لگاکر اور باقاعدہ نیٹ و کورٹ پر سفید چونے سے لائینیں لگاکر بیڈ منٹن کھیلا جاتا تھا۔ میں اور بھائی کے دوست جناب مصطفیٰ، علی، ساجد بھائی (رابطے میں ہیں) اور بھائی اختر جمال اور ان کے دوست وسیم بھائی پارٹنر ہوتے تھے اور شروع شروع کے گلابی جاڑے میں جب ہوائیں رکی ہوتیں تو کوئی ایک ایک بجے تک میچز ہوتے رہتے وہ خوب صورت و سہانی یادیں۔ یادیں پارینہ ہوگئیں!!

پنو سیٹھ (بلوچ) کا بہت بڑا باڑا تھا جہاں سے خالص دودھ لیتے تھے۔ باڑے میں کئی بھینس گائیں اور گھوڑے بھی تھے۔ اکثر جب ان کا تانگہ جو گایوں وغیرہ کے لیے پانی بھرنے سامنے سڑک سے گزرتا تو ہم اچھل کر پیچھے تختے پر بیٹھ جاتے اور دور تک مفت کی سیر کرلیتے۔ گھروں میں بیر، آم (کیری) کے درخت پر پتھر مارکر کیری، کھجور ، جامن گرانا اور ہاتھ سے ہی صاف کرکے کھالینا، وہ تیز بارشوں میں درختوں پر طوطوں، ہریل، کوئل، مینا، بلبل، گلہریوں کا آنا۔ مختلف پرندوں کا یکجا ہوکر اپنی آوازیں نکالنا، الگ ہی رونق اور خوشی و انسباط کا باعث ہوتا تھا۔ 'جنگل' میں ہم نے سانپ، گرگٹ وغیرہ اکثر دیکھیں لیکن اس وقت ڈرکا شائبہ تک نہ ہوتا تھا۔ وہ وقت وہ دور بہت قدرتی، اصل اور زندگی سے بھرپور تھا۔

اپنے ہی گھر میں جامن اور کیلا ، امرود کا درخت تھا۔ امرود کے درخت پر ہم نے لکڑیوں کی مچان بنائی تھی جس پر بیٹھ کر امرود توڑا اور ہاتھ سے صاف کرکے کھالیا۔ درخت سے توڑے امرود کی کیا بات تھی۔ لائبریری (ڈرگ روڈ) سے کتابیں لاکر پڑھنا، وہ نونہال رسالے کا انتظار اور تھوڑا تھوڑا پڑھنا کہ جلد ختم نہ ہوجائے بلکہ پہلے پڑھنے کے لیے آپس میں لڑنا۔

روسی لوک کہانیاں، چینی لوک کہانیاں، میرا نام منگو ، عالی پر کیا گزری، سلیم کی آپ بیتی، کشمیر کی بیٹی، اشتیاق احمد کی کہانیاں یہ وہ خوب صورت یادیں ہیں کہ جن کو ہمارے دور کے لوگ ہی محسوس کرسکیں گے۔ باتیں اور یادیں تو بہت سی ہیں لیکن یہاں ان پر ہی اکتفا، سب اس وقت کے حالات ، دور اور ماحول کو یاد کرنے کا مقصد یہی ہے کہ وہ سہانا، سنہرا وہ خوب صورت دور ہی اصل میں ہماری یادوں کا سرمایہ و خزانہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں