محفوظ تر ڈیجیٹل پاکستان کیلیے تمام اسٹیک ہولڈرز کا کردار ضروری مقررین
ڈیجیٹل تحفظ کی ذمے داری صرف حکومت پرنہیں چھوڑی جا سکتی، نعیم الدین سید
ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام ''محفوظ تر ڈیجیٹل پاکستان'' کے موضوع پر ویبینار کا انعقاد کیا گیا۔
ویبینار میں کنٹری منیجر پاکستان اسنیک وڈیو نعیم الدین سید، حکومت پاکستان کے جنرل منیجر ڈیجیٹل میڈیا ونگ عمران غزالی، میڈیا میٹرز فار ڈیماکریسی کی سینئر پروگرام منیجر ہجا کامران، آرٹسٹ اور ڈیجیٹل مواد کے خالق علی گل پیر نے شرکت کی۔ ویبینار کی میزبانی کے فرائض سیف علی، جنرل منیجر مارکیٹنگ دستگیر ای کامرس نے انجام دیے۔
ویبینار کے شرکا نے پاکستان میں ڈیجیٹل صارفین کے تحفظ اور محفوظ تر ڈیجیٹل پاکستان کے تصور کو ممکن بنانے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کے مابین اشتراک عمل کی ضرورت پر زور دیا۔ ویبینار میں اظہار خیال کرتے ہوئے اسنیک ویڈیا کے کنٹری منیجر پاکستان نعیم الدین سید نے کہا کہ ڈیجیٹل تحفظ کی ذمے داری صرف حکومت پر نہیں چھوڑی جاسکتی اور حکومت اکیلے خود سب کچھ نہیں کرسکتی اس لیے محفوظ تر پاکستان کو یقینی بنانے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز خواہ وہ انفرادی ہوں یا پلیٹ فارمز اپنا اپنا کردار ادا کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ماحول اور صارفین کے تحفظ کو لاحق خدشات کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔ اس میں سول سوسائٹی کا کردار بھی اہمیت کا حامل ہے، ایک ذمہ دار پلیٹ فارم کی حیثیت سے ہم سماجی تبدیلیوں پر نظر رکھتے ہیں کہ کیا رجحان ہے اور صارفین کی پسند نہ پسند کیا ہے اور وہ کس طرح کے سیفٹی ٹولز کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اسنیک وڈیو کی ٹیم میں معاشرے کے ہر طبقے کی نمائندگی ہے جن میں قانون داں، صحافی، سوشل ورکرز اور ماہرین شامل ہیں۔
پاکستان میں ڈیجیٹل تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے حکومتی کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے حکومت پاکستان کے جنرل منیجر ڈیجیٹل میڈیا ونگ عمران غزالی نے کہا کہ صارفین کی ڈیجیٹل سیفٹی اور معاشرتی اقدار کا احترام ڈیجیٹل مواد تخلیق کرنے والوں اور حکومت کے لیے بھی چیلنج ہے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت کسی بھی ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر پابندی کے حق میں نہیں ہے کیونکہ پابندی سے ڈیجیٹل ایکو سسٹم متاثر ہوتا ہے اور تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے پلیٹ فارم نہ ہونے سے تخلیقی صلاحیتیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ڈیجیٹل مواد کے حوالے سے بہت ٹیلنٹ ہے چھوٹے شہروں اور علاقوں سے بھی اچھا مواد تخلیق کیا جارہا ہے۔ ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر دھوکہ دہی کے معاملات، ہراسانی، جنسی استحصال اور بچوں کا جنسی مواد حکومت کے لیے چیلنج ہیں، پی ٹی اے کو بچوں کے جنسی مواد کے سلسلے میں والدین کی جانب سے عدالتوں میں دائر کی جانے والی درخوستوں کی وجہ سے دباؤ کا سامنا ہے۔
میڈیا میٹرز فار ڈیماکریسی کی سینئر پروگرام منیجر ہجا کامران کا کہنا تھا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ حکومت ڈیجیٹل مواد کو ریگولیٹ یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی کے حق میں نہیں ہے ہمیں ریگولیشن اور حد سے زیادہ ریگولیشن کے فرق کو سمجھنا ہوگا۔
مسئلہ انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا نہیں بلکہ معاشرے کی سوچ اور رویوں کا ہے اگر ہم معاشرے کے رویے اور سوچ میں تبدیلی لائیں گے تو اس کا اثر ڈیجیٹل دنیا میں بھی ہوگا ایک فرد جو سڑک پر چلتی کسی خاتون یا بچے کو ہراساں کرتا ہے اس کے لیے انٹرنیٹ کے ذریعے لاکھوں لوگوں تک رسائی کے نتائج خراب ہوسکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ڈیجیٹل سیکیورٹی کے مسائل اور چیلنجز بڑھتے اور تیزی سے تبدیل ہوتے رہے ہیں لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان میں اب ڈیجیٹل سیکیورٹی اور ڈیجیٹل حقوق کا شعور بڑھ رہا ہے تاہم اب بھی اگر امریکا میں کوئی واقع ہوتا ہے تو جتنا ذمہ دار اور بھرپور ردعمل امریکا کا معاشرہ دیتا ہے اس طرح کا ردعمل پاکستان میں سوشل میڈی پر سامنے نہیں آتا۔
مواد تخلیق کرنے والوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور یہ بھی ضروری ہے کہ لوگوں کے لیے آن لائن یا آف لائن خطرہ بننے والوں کو قانون کے دائرے میں لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ میں معاشرے میں برداشت اور تحمل پیدا کرنے کے لیے بھی تخلیقی مواد کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔
علی گل پیر نے کہا کہ میں نے انٹرنیٹ سیفٹی پر ایک مہم چلائی تھی جس میں وڈیوز بنائی تھیں کہ لوگوں بتایا تھا کہ کس طرح اپنی ڈیجیٹل سیفٹی کو یقینی بنایا جائے اور اپنا ڈیٹا غیرمتعلقہ لوگوں سے شیئر نہ کریں اسی طرح نامعلوم کالز پر کسی کو پیسے نہ دینا اور مالیاتی دھوکا دہی کے واقعات سے بچنے کے لیے مواد بنایا ہمیں اس طرح کا تربیتی اور شعور اجاگر کرنے والا مواد تخلیق کرنے کی ضرورت ہے۔
مواد تخلیق کرنے والوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور یہ بھی ضروری ہے کہ لوگوں کے لیے آن لائن یا آف لائن خطرہ بننے والوں کو قانون کے دائرے میں لایا جائے۔ انھوں نے کہا کہ میں معاشرے میں برداشت اور تحمل پیدا کرنے کے لیے بھی تخلیقی مواد کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔
ویبینار میں کنٹری منیجر پاکستان اسنیک وڈیو نعیم الدین سید، حکومت پاکستان کے جنرل منیجر ڈیجیٹل میڈیا ونگ عمران غزالی، میڈیا میٹرز فار ڈیماکریسی کی سینئر پروگرام منیجر ہجا کامران، آرٹسٹ اور ڈیجیٹل مواد کے خالق علی گل پیر نے شرکت کی۔ ویبینار کی میزبانی کے فرائض سیف علی، جنرل منیجر مارکیٹنگ دستگیر ای کامرس نے انجام دیے۔
ویبینار کے شرکا نے پاکستان میں ڈیجیٹل صارفین کے تحفظ اور محفوظ تر ڈیجیٹل پاکستان کے تصور کو ممکن بنانے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کے مابین اشتراک عمل کی ضرورت پر زور دیا۔ ویبینار میں اظہار خیال کرتے ہوئے اسنیک ویڈیا کے کنٹری منیجر پاکستان نعیم الدین سید نے کہا کہ ڈیجیٹل تحفظ کی ذمے داری صرف حکومت پر نہیں چھوڑی جاسکتی اور حکومت اکیلے خود سب کچھ نہیں کرسکتی اس لیے محفوظ تر پاکستان کو یقینی بنانے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز خواہ وہ انفرادی ہوں یا پلیٹ فارمز اپنا اپنا کردار ادا کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ماحول اور صارفین کے تحفظ کو لاحق خدشات کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔ اس میں سول سوسائٹی کا کردار بھی اہمیت کا حامل ہے، ایک ذمہ دار پلیٹ فارم کی حیثیت سے ہم سماجی تبدیلیوں پر نظر رکھتے ہیں کہ کیا رجحان ہے اور صارفین کی پسند نہ پسند کیا ہے اور وہ کس طرح کے سیفٹی ٹولز کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اسنیک وڈیو کی ٹیم میں معاشرے کے ہر طبقے کی نمائندگی ہے جن میں قانون داں، صحافی، سوشل ورکرز اور ماہرین شامل ہیں۔
پاکستان میں ڈیجیٹل تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے حکومتی کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے حکومت پاکستان کے جنرل منیجر ڈیجیٹل میڈیا ونگ عمران غزالی نے کہا کہ صارفین کی ڈیجیٹل سیفٹی اور معاشرتی اقدار کا احترام ڈیجیٹل مواد تخلیق کرنے والوں اور حکومت کے لیے بھی چیلنج ہے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت کسی بھی ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر پابندی کے حق میں نہیں ہے کیونکہ پابندی سے ڈیجیٹل ایکو سسٹم متاثر ہوتا ہے اور تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے پلیٹ فارم نہ ہونے سے تخلیقی صلاحیتیں بھی متاثر ہوتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ڈیجیٹل مواد کے حوالے سے بہت ٹیلنٹ ہے چھوٹے شہروں اور علاقوں سے بھی اچھا مواد تخلیق کیا جارہا ہے۔ ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر دھوکہ دہی کے معاملات، ہراسانی، جنسی استحصال اور بچوں کا جنسی مواد حکومت کے لیے چیلنج ہیں، پی ٹی اے کو بچوں کے جنسی مواد کے سلسلے میں والدین کی جانب سے عدالتوں میں دائر کی جانے والی درخوستوں کی وجہ سے دباؤ کا سامنا ہے۔
میڈیا میٹرز فار ڈیماکریسی کی سینئر پروگرام منیجر ہجا کامران کا کہنا تھا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ حکومت ڈیجیٹل مواد کو ریگولیٹ یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی کے حق میں نہیں ہے ہمیں ریگولیشن اور حد سے زیادہ ریگولیشن کے فرق کو سمجھنا ہوگا۔
مسئلہ انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا نہیں بلکہ معاشرے کی سوچ اور رویوں کا ہے اگر ہم معاشرے کے رویے اور سوچ میں تبدیلی لائیں گے تو اس کا اثر ڈیجیٹل دنیا میں بھی ہوگا ایک فرد جو سڑک پر چلتی کسی خاتون یا بچے کو ہراساں کرتا ہے اس کے لیے انٹرنیٹ کے ذریعے لاکھوں لوگوں تک رسائی کے نتائج خراب ہوسکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ڈیجیٹل سیکیورٹی کے مسائل اور چیلنجز بڑھتے اور تیزی سے تبدیل ہوتے رہے ہیں لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان میں اب ڈیجیٹل سیکیورٹی اور ڈیجیٹل حقوق کا شعور بڑھ رہا ہے تاہم اب بھی اگر امریکا میں کوئی واقع ہوتا ہے تو جتنا ذمہ دار اور بھرپور ردعمل امریکا کا معاشرہ دیتا ہے اس طرح کا ردعمل پاکستان میں سوشل میڈی پر سامنے نہیں آتا۔
مواد تخلیق کرنے والوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور یہ بھی ضروری ہے کہ لوگوں کے لیے آن لائن یا آف لائن خطرہ بننے والوں کو قانون کے دائرے میں لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ میں معاشرے میں برداشت اور تحمل پیدا کرنے کے لیے بھی تخلیقی مواد کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔
علی گل پیر نے کہا کہ میں نے انٹرنیٹ سیفٹی پر ایک مہم چلائی تھی جس میں وڈیوز بنائی تھیں کہ لوگوں بتایا تھا کہ کس طرح اپنی ڈیجیٹل سیفٹی کو یقینی بنایا جائے اور اپنا ڈیٹا غیرمتعلقہ لوگوں سے شیئر نہ کریں اسی طرح نامعلوم کالز پر کسی کو پیسے نہ دینا اور مالیاتی دھوکا دہی کے واقعات سے بچنے کے لیے مواد بنایا ہمیں اس طرح کا تربیتی اور شعور اجاگر کرنے والا مواد تخلیق کرنے کی ضرورت ہے۔
مواد تخلیق کرنے والوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور یہ بھی ضروری ہے کہ لوگوں کے لیے آن لائن یا آف لائن خطرہ بننے والوں کو قانون کے دائرے میں لایا جائے۔ انھوں نے کہا کہ میں معاشرے میں برداشت اور تحمل پیدا کرنے کے لیے بھی تخلیقی مواد کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔