بانجھ قیادت

طلعت حسین


Syed Talat Hussain July 09, 2012
طلعت حسین

بہت سی سیاسی پیش گوئیاں دھری کی دھری رہ گئیں۔ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) دونوں پیچھے رہ گئیں۔کالعدم تنظیموں اور اسلامی وسیاسی جماعتوں کا اکٹھ آگے نکل گیا ۔ہمیں یہ بات بھاتی ہو یا نہ ہو مگر یہ کڑوی حقیقت ہے کہ نیٹو کے لیے رسد کے راستے کھولنے کے بعد پاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں کا اصل امتحان شروع ہوگیا تھا ۔

راستے کھولنے سے پہلے کے فیصلوں میں آرمی، انٹیلی جنس ادارے ،پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتیں پرکھی جارہی تھیں ۔خیال تھا کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر پاکستان کے اندر موجود یہ قوتیں کوئی ایسا فیصلہ کریں گی جس سے پاکستان کے بارے میں امریکی غلام ہونے کا تصور دھندلا ہوجائے گا اور پاکستان کی خارجہ اور دفاعی پالیسیاں نئے دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالی جائیں گی ۔مگر ایسا کچھ نہیں ہوا ۔

امریکا نے معافی کے نام پر پاکستان کے منہ پر جو ٹھڈا رسید کیا ہے، وہ سب پر عیاں ہے ۔امریکی تجزیہ نگار اور جنوبی ایشیا کے حالات پر نظر رکھنے والے ادارے اور مبصرین اِس نکتے پر اتفاق کرتے ہیں کہ واشنگٹن نے پاکستان کی حکومت کو ایک بیہودہ اشارہ کرکے اپنا راستہ ناپنے کو کہا جس کے بعد اس بڑے مینڈیٹ والی حکومت نے گھگیاکر نیٹو ٹرکوں کی اضافی فیس نہ مانگنے اور امریکا کی طرف سے ایک رسمی غم کے اظہار کو غنیمت جان کر قبول کرلیا۔ بہت سے حلقوں کی جانب سے یہ خبریں آئی ہیں کہ پاکستان کی عسکری قیادت حکومت کی جانب سے تیار شدہ ''معافی'' کے پیمانے پر خوش نہیں تھی اور اس نے آخری دستاویز میں بہت سے تبدیلیاں کروائیں ۔مگر یہ معلومات بے فائدہ ہیں ۔اگر عسکری قیادت نے اپنا پورا زور لگاکر اسی بیان پر اتفاق کرنا تھا جس پر انھوں نے کیا تو پھر ان کے اور سیاسی حکومت کے نقطہ نظر میں بال برابر ہی فرق ہوگا۔

ڈرون حملوں سے پاکستان کی سرزمین تارتار ہے۔نیٹو ٹرکوں کی جانچ پڑتال کا کوئی نظام مرتب نہیں ہوا ۔امریکا سے نام نہاد امداد اصل میں وہ پیسے ہیں جو پاکستان امریکی مدد کے لیے اپنے خزانے سے خرچ کرچکا ہے ۔یعنی یہ وہ رقم ہے جو ہمیں واجب الادا تھی ۔یہ ہمارے ٹیکس کا پیسہ تھا جو امریکا کے کام میں ہم نے ادھار دیا اور جس کی واپسی پر امریکی یہ پراپیگنڈہ کررہے ہیں کہ جیسے اُن کے خزانے سے پاکستان کی جیب میں پیسے جارہے ہیں ۔یہ سب کچھ ہوا اور ہمیں کچھ بھی نہیں ملا ۔یعنی ہم نے جوتے بھی کھائے اور سو پیاز بھی ۔عسکری قیادت خود کو نیٹو کے لیے راستے کھولنے کے حتمی فیصلے سے علیحدہ نہیں کرسکتی۔تمام سروسز کے سربراہ اُس میٹنگ میں موجود تھے جس کے بعد امریکا کے ساتھ یہ معاملات طے ہوئے۔اس فیصلے میں فوجی حکام کی ذمے داری برابر کی ہے ۔

مگر اصل مایوسی حزب اختلاف کے محاذ پر ہوئی۔پاکستان مسلم لیگ نواز کے لیڈران ڈرون حملوں اور نیٹو کی سپلائی کے معاملے پر مینارِ پاکستان کے سائے سے بڑے بیان دیتے رہے ہیں ۔ابھی بھی میاں نواز شریف بیرون ملک سے تاسف اور افسوس کا اظہار کررہے ہیں ۔یہ حیرت انگیز امر ہے کہ اتنے جہاندیدہ اور عقل مند سیاستدانوں کے درمیان موجود دو مرتبہ کے سابق وزیر اعظم کو اس کا احساس نہیں ہے کہ پیرس میں سے نیٹو سپلائی سے متعلق بیانات دینا کتنا بے معنی اور کھوکھلا محسوس ہوتا ہے۔نواز شریف خود کو عوام کے اصل جذبات کا نمایندہ کہتے ہیں ۔اُن کی سیاسی جماعت عوامی مسائل پر بات کرنے سے کبھی نہیں چوکتی ۔مگر نیٹو اور ڈرون کے معاملے پر وہ محض گفتارکے غازی بننے میں ہی خوش ہیں ۔مگر پھر اُن کی مجبوری یہ ہے کہ صدر آصف علی زرداری کے ساتھ اگلے الیکشن کی بساط بچھانے کے بعد وہ اب خود کو سیاسی طورپر محصورکرچکے ہیں ۔اگر حکومت کے ساتھ مل کر الیکشن کے معاملات طے کرنے ہیں تو پھر حکومتی فیصلوں پر زبان کی تلوار چلانے کے سوا کوئی اور حملہ نہیں کرسکتے ۔

عمران خان کو کردار کا غازی بننا تھا ۔اُن کی جماعت نے ڈرون حملوں پر دھرنے بھی دیے اور نیٹو سپلائی رکوانے کے لیے کسی بھی حد کو پھلانگنے کی دھمکیاں بھی دیں۔عمومی خیال یہ تھا کہ نیٹو رسد کے راستے کھولنے کے موقع پر پاکستان تحریک انصاف کھل کر سامنے آئے گی ۔عمران خان کی طرف سے اس فل ٹاس گیند پر کم از کم ایک بڑے چھکے کی توقع تھی مگر وہ بھی مصباح الحق کی طرح کھیلتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔بلا تو سیدھا رکھا ہوا ہے مگر گیند کریز سے دو گز سے آگے نہیں جارہی ۔ایک نجی نشست میں تحریک انصاف کی قیادت کے چند صاحبان کے سامنے میں نے اپنا تجزیہ رکھا تو اُن میں سے بعض کو یہ کڑوی باتیں پسند نہیں آئیں۔میں نے ان سے گزارش کی ہے، سیاسی تحریک، سیاسی قوت یا کوئی بھی گروپ یا لابی اپنی طاقت کا اصل اظہار سیاسی حالات وواقعات پر اثرانداز ہوکر یا اُن میں تبدیلی لاکر پیش کرتی ہے ۔وہ سیاسی قوت ہی کیا جس کے ارد گرد حالات بن اور بگڑرہے ہوں اور وہ نہ اس سے استفادہ کرپائے اور نہ ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں میں کوئی حصہ ڈال سکے ۔پاکستان تحریک انصاف نے نوجوانوں کو اُمید دی ہے اور ایک سیاسی متبادل کے طورپر اپنے آپ کو سامنے لائی ہے ۔مگر پاکستان کے اندر اس وقت اچھا پا بُرا جو کچھ بھی ہورہا ہے تحریک انصاف اس سے مکمل طورپر لاتعلق نظر آتی ہے ۔اس کی مثال اس بادل کی طرح ہے جو سوکھے کھلیانوں سے کوسوں دور پہاڑیوں کے اوپر گرجتا ہے مگر میدان میں آکر برسنے کی اہلیت نہیں رکھتا ۔پاکستان تحریک انصاف اندرونی الیکشن میں اس قدر گم ہوچکی ہے کہ سیاسی منظر نامے میں اس کو تلاش کرنا بھوسے کے ڈھیر میں سے سوئی نکالنے کے مترادف ہے ۔

اِن حالات میں دفاع پاکستان کونسل کے لیے میدان کھلا ہے ۔اس میں تنظیمیں کالعدم ہیں یا نہیں مگر فی الحال انھوں نے اس سیاسی خلا ء میں قدم رکھ دیا ہے جو کوتا اندیش حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اور غیر فعال حزب اختلاف کی وجہ سے پاکستان میں بن گیا ہے ۔مذہبی جماعتوں کے لیے اس قسم کا احتجاج ایک سنگ میل کی حیثیت اختیار کر سکتا ہے مگر مورخین کو یہ نکتہ واضح کرنا چاہیے کہ ان کے لیے یہ دروازہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں خود کھول رہی ہیں ۔اگر قیادت بانجھ ہوجائے تو اقتدار اُن ہاتھوں کو ہی ملتا ہے جو ہمت کرکے اس کی جگہ لے لیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں